عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

’’نہ بابا نہ، تو ان چکروں میں نہ پڑ۔ اس سے تو بس خاک اُڑے گی جو صرف تیرے دل و دماغ کو آلودہ کردے گی اور مجھے بڑی امید ہے کہ تیرا نصیب بڑا سوہنا اور صاف ہے۔‘‘
’’ہاںتو ، تو بتا دے نہ اور کچھ نہیں تو یہی معلوم ہوجائے گا کہ میری ماں نے اپنی جوانی کیسے گزاری؟ اس کے لہجے میں دبا دبا سا اشتیاق تھا۔
’’جوانی اڑیے وہ جوانی نہیں تھی۔ میری عزت تھی، جو کب کی گزر گئی۔‘‘
’’میں اپنی جوانی میں مانگتی نہیں تھی بلکہ ہر روز اپنی عزت چوراہے پر رکھنے جاتی تھی۔‘‘ بے اختیاری میں اس کے لبوں سے پھسلا تھا۔ نسرین نے ناسمجھی اور حیرت سے ماں کو دیکھا جو اس وقت وہاں نہیں تھی بلکہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ اسے خود بھی پتا نہ چلا کب وہ جذبات اور آنسوئوں کے دھارے میں بہ کر بیس سالوں سے اٹکی اپنے سینے کی جلن، چبھن اور پھانس اپنی لاڈلی جوان بیٹی کے گوش گزار کرگئی۔ جو ساکت بیٹھی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کے جسم کا ہر عضو کان بن گیا ہو
اس کی کم نصیبی یہی تھی کہ وہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ ڈھائی مرلے کی زمین پہ دس افراد یوں رہتے تھے گویا ایک باکس میں پزل اکٹھے ہوتے ہیں۔ فرق یہ تھا کہ اس ڈھائی مرلے کے ڈبے میں کوئی کسی کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ہر وقت دھینگا مشتی، ہر لمحہ گالم گلوچ ہوتی رہتی۔ یہ زہرہ کی ہمت تھی کہ اپنی پلوٹھی کی اولاد کو بھائی کے بچوں کی دیکھا دیکھی شوق شوق میں سکول داخل کرادیا، مگر ابھی پانچویں تک پہنچی تھی کہ باپ کی برداشت جواب دے گئی اور اس کے سوالات شروع ہوگئے ۔
’’نا مجھے یہ بتا بے حیا عورت، تونے صرف رجو کو ہی پیدا کیا ہے جو اس کے اتنے لاڈ اٹھاتی ہے جو باقی سات مفت اور حرام خورے جنے ہیں ان کو کون دیکھے گا۔ وہ بکتا جاتا اور اپنا ہاتھ بھی چلاتا جاتا۔ بس پھر کیا تھا، زہرہ کے لیے رجو کو سکول سے اٹھاتے ہی بنی۔ پر وہ بھی باپ کا بازو بننے کی بجائے اپنی ماں کا بازو بنی مگر جب دوسرے بچے بھی بڑے ہونے لگے تو ان کی بھوک کو بہلاوئوں سے مٹانا مشکل ہوگیا۔ سونے پہ سہاگا کہ فقیر حسین سے اس کی چاروں بہنیں حصہ مانگنے آگئیں کہ وہ اکلوتا بھائی تھا۔ یوں گھر کی دو کوڑی جتنی جمع پونجی بھی ہاتھوں سے نکل گئی تو اس نے بے بسی سے اپنا ہاتھ دانتوں تلے دبا لیا۔ قریب تھا کہ وہ پاگل ہوجاتا، مگر اس کی غلیظ سوچ بڑی دور کی کوڑی لائی، جو جب رجو اور زہرہ کی سماعتوں میں پڑی تو وہ کانپ کر رہ گئیں۔





’’کیا ہوا؟ سانپ کیوں سونگھ گیا۔‘‘
’’فقیرے تیری غیرت کہاں مر گئی ہے؟ ہمارے پرکھوں نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔ تو کیا چاہتا ہے؟‘‘
زہرہ کلے پیٹتی اس کے مقابل ہوئی۔
’’جا دفعہ ہوجا میری نظروں سے یہ غیرت اور عزت کی باتیں مجھے نہ سنایا کر۔ تجھ میں ہوتی ذرا سی شرم تو میرے کہنے سے پہلے ہی احساس کرلیتی کہ شوہر اور بچے کس جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیسی ماں ہے تو۔ یہ بے چارے نیانے (بچے) بلکتے پھرتے ہیں اور تو عزت کی باتیں کرتی ہے۔ لعنت ہے تیری ممتا پر۔‘‘ اس نے کندھے سے پکڑ کراس کو پرے دھکیلا۔
اور ہفتے تک رہنے والی اس ناچاقی کا وہی نتیجہ نکلا جو فقیر حسین چاہتا تھا کہ وہ صرف نام کا فقیر نہ تھا بلکہ پورا اسمِ بامسمی تھا ۔ بھوک منگا، غیرت و حیا سے تہی دامن…
زہرہ اور رجو نے تانبے کے تسلے(کھلا برتن) اٹھائے مانگنا شروع کردیا۔ شروعات میں تو ان کو پھٹکار کے علاوہ کچھ نہ ملتا تھا کہ انہیں ڈھنگ ہی کہاں تھا مانگنے کا۔ سو گھر واپسی پر فقیر کی لاتیں گھونسے کھانے کے لیے تیار ہوجاتیں۔
’’بے غیرتیاں، مجھے الو کا پٹھا سمجھتی ہیں۔ ساری عیاشی خود کرتی ہیں اور بکتی ہیں کہ کچھ اکٹھا نہیں ہوتا۔‘‘ وہ بات کرتا تو منہ سے تھوک کے بھبکے برآمد ہوتے۔ اس کے الفاظ زہر کا سا کام کرتے تھے جیسے سانپ منہ کھولے تو اس کے منہ سے نکلتی زبان زہر اگلتی ہے کہ اس کا تو کام بھی ڈسنا ہی ہے۔
پھر تھوڑا سا طریقہ بدلنے پر انہیں پھٹکار کے ساتھ ساتھ سِکے اور میلے چڑمڑے سے چھوٹے والے نوٹ بھی ملنے لگے اور پھر دھیرے دھیرے وہ اس ساری ذلالت کی عادی ہوگئیں، مگر اندر ہی اندر زہرہ کا جی کٹتا تھا۔ اسے اپنے مانگنے پر تو کوئی اعتراض نہ تھا، مگر جوان ہوتی بیٹی کا سڑکوں پر نکل کر مانگنا، بڑا تکلیف دہ تھا۔ رجو بظاہر تو خاموش رہتی۔ مگر اس کی آنکھوں کے سوال زہرہ چپکے سے پڑھ لیتی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ان کے جواب دینے سے قاصر ہے۔
پھر ایک دن رجو روتی ہوئی گھر آئی۔
ماں تو جانتی تھی پر باپ نے تنفر سے پوچھا:’’ کون مر گیا ہے تیرا کیوں نیستی (نحوست) مچاتی ہے؟‘‘
’’ابے میں آئندہ سے مانگنے نہیں جائوں گی۔ لوگ مجھے خراب نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘‘ اپنی دانست میں اس نے بڑے نپے تلے انداز میں باپ کو بات سمجھا دی تھی۔
’’اے کیا بک رہی ہے؟‘‘اس کی آنکھیں غصے سے غضب ناک ہوئیں۔
رجو نے بے بسی سے ماں کو دیکھا:’’ وے تو سمجھ جا نہ آپے ہی لوگ اس کو غلط اشارے دیتے ہیں۔ باہر مرد بڑا گندا ہے۔ وہ خالی پیسے نہیں دیتا اسے بدلے میں کچھ اور بھی چاہیے ہوتا ہے۔‘‘
رجو شرم سے چور کمرے میں گھس چکی تھی۔
’’ہٹ تیری ماں کو! بکواس کرتی ہے ڈرامے باز۔ یہ صرف نہ مانگنے کے بہانے ہیں۔ اگر تم دونوں کل سے کام (مانگنے) پر نہ گئیں تو اٹھا کر تم دونوں کو باہر پھینک دوں گا اور اس گھر کو بچوں سمیت آگ لگادوں گا،سنا؟‘‘
فقیر حسین بپھرا ہوا تھا اس کا حال اس بھیڑیے جیسا تھا جس کے منہ کوجب ایک بار انسانی خون کا ذائقہ لگ جائے تو پھر کچھ اور نہیں بھاتا۔ اسی طرح فقیر کو بھی گداگری کی لعنت سے حاصل ہونے والی آمدن جو لطف دیتی تھی۔ وہ دہاڑی کی جفاکشی کے بعد ملنے والی روکھی سوکھی سے کیونکر مل سکتی تھی۔
رجو نے باپ کی بے حسی دیکھی تو دل میں شدید تمنا جاگی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں ہمیشہ کے لیے سما جائے۔
اور پھر اس سے اگلی صبح اس کی ماں نہیں بلکہ فقیر حسین بنفسِ نفیس اسے کام پر جانے کے لیے جگانے آیا تھا۔
’’چل اٹھ، اتنی نازک نہ بن تو باہر چنگے، مندے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ تجھے خود ان سے نپٹنا آنا چاہیے، تیری ماں کب تک تیری رکھوالی کرتی پھرے گی۔ اس کے اپنے بھی سو دھندے ہیں۔ چل اٹھ چھیتی (جلد) کر اور جب وہ منہ پر ایک دو پانی کے چھپاکے مار کر باہر نکلنے لگی تو باپ کا ایک حکم جاری ہوا مجھے ہر صورت روکڑا (پیسہ) چاہیے رجو رانی ! اب یہ تیرے سر کی درد ہے کہ جیسے مرضی اور جہاں سے مرضی لائے اور زہرہ نے تمنا کی کہ کاش اس کا باپ اس نصیبوں جلی کو تختہ دار پہ لٹکانے کا حکم دے سکتا، تو یہ اس گالی سے بہت بہتر ہوتا۔ اے کاش…
اور جوان ہوتی، کھلتی کلی ایسی رجو نے اپنا من مار کر خود کو چونچیں تیز کرتے باہر کے درندوں کے حوالے کردیا۔ بالکل ایسے جیسے ڈوبتی نائو سمندر کے جوش کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کو بپھری لہروں کے حوالے کردیتی ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا رجو کے خریداروں میں اضافہ ہونے لگا کہ اسے اب یہ جملہ کہنے میں کوئی دقت نہ رہی تھی:’’ صاب چلے گا ؟‘‘ فٹ پاتھ پر کھڑی وہ گاڑیاں رکواتی بڑی دلربائی سے پوچھتی تھی اور ان گاڑیوں کے مالکوں کو وہ باہر کے باہر ہی نپٹا آتی۔ کبھی صرف لفظوں کے جال میں الجھا کر اور کبھی اپنی حسین زلفیں ان کے کاندھوں پر ڈال کر۔ یہ معمول ہفتے کے دویاتین دن کا تھا اور اس ساری گدا گری سے اتنی رقم حاصل ہوجاتی کہ پورا کنبہ بہترین گزر بسر کر نے لگا۔
زہرہ دن رات کانٹوں پر لوٹتی۔ مانگنے تک تو ٹھیک تھا، مگر عزت کا سودا… وہ تڑپ تڑپ کر اپنی ہچکیاں دباتی۔ اب اسے مرنے سے پہلے ایک ہی تمنا تھی کہ بس اس کی رجو کا گھر بس جائے… کہ باقی بہن بھائی باپ کی طرح خود غرض اور لالچی تھے۔ وہ وقت کے ساتھ اپنی راہ نکالنا (اپنا الو سیدھا)کرنا بھی خوب جانتے تھے۔
پھر جلد ہی زہرہ کی مراد بر آئی رجو نے تین سال جو ریاضت اٹھائی تھی، وہ پوری ہوئی۔ جب نشئی فقیر حسین اپنی زندگی کی مدت پوری کرگیا… کہ تمباکو نوشی نے اس کے پھیپھڑے سڑن زدہ کردیے تھے اور دماغ کے سرطان کی مریضہ بنی زہرہ نے اپنے پھپو زاد سے رجو کو بیاہ دیا۔ فیقا اس کے حال سے اچھی طرح واقف تھا، مگر ایک تو اس کا اپنا ماضی بے حد شاندار تھا ، دوسرا اپنے سے دس سال چھوٹی گداز جسم اور دمکتے حسن والی پڑھی لکھی رجو سے بہتر اسے اب ملنی بھی نہیں تھی۔
شادی کے بعد کے اوائل دنوں کا خمار اترا تو جہاں زہرہ نے رجو کو آخری بوسا دیا وہیں فیقے نے بھی اپنی مردانگی کے سارے رنگ دکھانا شروع کردیے۔
’’ویاہ سے پہلے کہاں کہاں کھے (خاک) نہیں کھائی تو نے، میں سب جانتا ہوں۔ اب زیادہ فلمیں نہ چلامیرے سامنے۔ اٹھ جا اور بستی سے باہر نکل کر مانگنا شروع کردے کاکے کو ساتھ لے کے جایا کر اپنے سینے سے لگایا کر۔ روتے بچے کو دیکھ کر ویسے بھی لوگ زیادہ دے دیتے ہیں۔‘‘
دو ماہ کے گڈو کو گود میں لیے رجو ہونقوں کی طرح اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
رجو کونہ جانے یہ خوش فہمی کیونکر ہوئی تھی کہ فیقے سے شادی کے بعد اس جھونپڑی میں رہتے ہوئے اسے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے گی اور اس کی زندگی سے بھیک مانگنے والی لعنت ختم جائے گی، مگر بلی کو چھیچھڑوں کے خواب توآہی سکتے ہیں کہ خواب دیکھنا منع ہے نہ گناہ …
خیر اب تو پیشہ وری کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا تھا۔




Loading

Read Previous

وہ اپنی سی ۔۔۔ تنزیلہ احمد

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!