عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

اس پگلی کو تو بس یہی حیرانی رہی کہ پلاسٹک اور دھات میں آخر ایسا کون سافرق ہے کہ ایک کوڑیوں کے دام بکتا ہے اور دوسرا بڑی قیمت (عزت) کے بدلے میں…
پھر جب مالکِ گودام سے منہ ماری ہوئی تو اسے دھات کی وقعت کا انداز ہوا۔
اس دن نسرین نے بس اس سے یہی تو کہا تھا کہ جب وہ دھات اکٹھی کر سکتی ہے، تو اسے یہ ذمہ داری کیوں نہیں سونپی جاسکتی۔ وہ کیوں غلاظت بھرے (شاپر، ڈبے، بوتلیں اور ربڑ وغیرہ ) کے لیے سارے جہاں کی خاک چھانتی پھرتی ہے جس کا معاوضہ بھی برائے نام ہے۔
تجھے میں نے تیری اوقات کے مطابق کام دیا ہے ۔ تو لوہے (دھات) تلے اپنا سر نہ دے۔ ورنہ اس کی تیز دھار تیری کھوپڑی ہی تن سے جدا کرے گی۔ دھات کے معاوضے کی وصولی کے لیے بڑا کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔اگر نہیں منظور تو دوبارہ مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔ اس نے لب سی لیے اور کچرے کے ڈھیر میں مزید تیزی سے ہاتھ چلانے لگی۔ راشد مطمئن ہوگیا اور اس نے بھی ٹھنڈی سانس بھری۔
اور پھر اس کی اسی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس روز سے راشد نے اسے دانہ ڈالنا شروع کیا (اس سے پہلے تک اس نے نسرین پر کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی) تو وہ جو اس کے قریب جارہی تھی کہ وہ راشد کی مسکراہٹ اور اس کے غیر محسوس طریقے سے مگر ارادتاً چھونے کو اُس کی خدا خوفی سمجھ رہی تھی۔ یکدم چونک کر سمٹ گئی جب چند روز بعد ہی چھیما نے اس کی ساری غلط فہمی کسی سفوف کی طرح چٹکیوں میں اڑادی۔
’’اللہ بچائے اس راشد خنزیر کی گندی نیت سے۔ ایسی نظروں سے دیکھتا ہے مانو کھڑے کھڑے سارے چسکے پورے کرلے گا۔‘‘ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی شاپر بھرتی جاتی تھی۔
’’کیا کہے جارہی ہے چھیما اب تو بڑا خدا ترس ہوگیا ہے۔ ‘‘اس نے ڑوہڑی (کچرے کے ڈھیر) پر سے پِچکی ہوئی بوتلیں اکٹھی کیں اور ٹھٹکے بغیر کہا تھا ہے۔





’’پاگل ، شہدی ۔ اس کی گنجلگ باتاں (باتوں ) پر نہ جا۔ یہ (گالی ) تو ایک نمبر کا لٹیرا ہے ، تجھے پتا بھی نہ چلے اور یہ اپنا کام کرجائے، ذرا سنبھل کے ری۔‘‘ چھیما کے اشارے اور چہرے کے تاثرات نسرین بخوبی سمجھ سکتی تھی۔ اللہ جانے وہ خود کیا کچھ سہ چکی تھی جو راشد کے متعلق اتنے وثوق سے سچ بیانیاں کر رہی تھی۔ نسرین کے چہرے پر پل بھر میں لٹھے ایسی سفیدی چھاگئی وہ بڑا گہرا سبق تھا جو اس چِٹی ان پڑھ نے اس دن اپنے پلے سے باندھ لیا۔ پلاسٹک اور دھات کا فرق سیاہ اور سفید کی مانند واضح ہوگیا کہ یہ موا پلاسٹک تو ذرا سی آنچ سے گھلنے لگتا ہے، ایسے جیسے انتظار میں ہو کہ کوئی دانہ ڈالے اور اپنی جگہ سے قطرہ قطرہ پھسلے یا ریزہ ریزہ بکھرے۔ پر یہ دھاتیں بڑی سخت ہوتی ہیں۔ نہ حرارت سے جلدی پگھلتی ہیں نہ ٹھنڈ سے گھبراتی ہیں ۔ مضبوط اور بے لچک، آسانی سے اپنا راز نہیں دیتیں، تہوں میں چھپی ہوئیں۔
اس نے کھڑے کھڑے توبہ کی کہ آئندہ کبھی اس کے گودام کی بغل پر بنے چھوٹے سے دفتر میں نہیں جائے گی اور نہ اس کی چھاتی سے لگ کر اپنی دن بھر کی خواری کی داد وصول کرے گی اور ہاں ! اس نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ اسے کیا بننا ہے۔ چٹان ایسی دھات یا تیرتا ہوا پلاسٹک۔ مانا کہ دھات کی وصولی لینا اس کے بس سے باہر تھا، مگر وہ خود دھات جیسی پرتیں اپنے اوپر چڑھالینا چاہتی تھی تاکہ کوئی اسے دریافت کر سکے نہ کوئی اس کی قیمت لگائے۔
گوکہ اس طریقِ کار (شرافت) سے مانگے تانگے کی نسبت قدرے کم پیسے اکٹھے ہوتے تھے، مگر نسرین کو پروا نہ تھی کہ اس کی ساری کمائی پر پہلے کون سا اس کا حق ہوتا تھا جو اب کم ہوجانے کا اسے دکھ ہوتا۔ جتنا بھی آجاتا… باپ حلق سے نکلوا لیتا تھا۔ سو جس دن زیادہ چخ چخ ہوتی اور نتیجتاً ٹھینگا ملتا، تو وہ واپسی پر راہ گیروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتی جاتی کہ دل کہتا تھا لکھ لعنت ایسی مغز ماری پر اور ان حالات میں جب نسرین گھر لوٹتی تو رجو جو صبح کی گئی اس کے آگے آگے ہی پہنچی ہوتی اس کی ساری پریشانی بِن کہے سمجھ جاتی، مگر چپ چاپ دن بھر کے اکٹھے کیے سِکے اور نوٹوں کا حساب کیے جاتی پھر آہستہ آہستہ رجو بھی آدھی سے زیادہ رقم نکال کر اپنے جھونپڑے کو سہارا دیتے کیل کے ساتھ مٹی میں ٹھونکنے لگی، حالانکہ چھپانے کو اس سے زیادہ محفوظ جگہ موجود تھی، لیکن یہاں تو پہننے کے لیے کپڑے نامکمل تھے، تو پھر بھلا وہ کپڑے اس کی اپنی اور نسرین کی حق حلال کی کمائی کو ڈھانپنے کا کام کیونکر انجام دیتے۔
وہ یہ سب کچھ جو اتنے عرصے (اس کی شادی سے بھی قبل) سے ہورہا تھا، ایسا کب چاہتی تھی۔ اس نے تو بڑی دعائیں کی تھیں کہ وہ تو نہیں، مگر اس کی اولاد (بالخصوص اس کی بیٹی ) اس ماحول سے نکلے۔ کم از کم اس کی آنے والی نسلیں اس دلدل میں جنم نہ لیں جہاں اس کے باپ کی خود غرضی اور گھٹیا پن نے اسے پہنچا دیا تھا، مگر اپنی پیٹ جنی کو اس سب سے بچانے کا فی الحال کوئی رستہ اسے نظر نہ آتا تھا۔ کچھ نسرین خود بھی کم ہمت تھی، سو خالی خولی رجو کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔
مگر کبھی کبھی ایک لمحہ آپ کی پوری زندگی بدلنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ نسرین کی بھوسے ایسی زندگی میں ابھی وہ لمحہ آیا تھا یا نہیں، مگر کچھ انوکھی سر سراہٹیں ارد گرد کے لوگوں کو اچنبھے میں ڈال رہی تھیں۔ وہ خود بھی گھبراتی جاتی تھی مگر رجو کے اطمینان نے اس کی ہمت بندھائی اور وہ نئے سفر کے پہلے رستے کی مسافر ہوئی کہ اس بھوسے سے چنگاری بھڑکنا شروع ہوچکی تھی۔
اس دن فیضاں کو بڑے عرصے بعد اپنے علاقے کا رخ کرتے دیکھا، تو وہ اور چھیما دونوں چونکیں جبکہ وہ انہیں نظر انداز کرکے اگلی گلی مڑگئی ہے۔
’’کمینی! نوکری کیا ملی اب تو مزاج ہی نہیں ملتے بنو کے۔ ‘‘چھیمہ کی ناراض نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا۔
’’کیسی نوکری؟‘‘
’’ارے کسی بنگلے میں صفائی کرنے جاتی ہے۔ سنا ہے اچھی خاصی پائی (پیسہ) اکٹھی کرلیتی ہے۔ اچھا کھانا، پہننے کو بھی ستھرے لیرے (کپڑے ) ملتے ہیں۔ رہنے کا انتظام بھی ہے ۔ وہ تو یہ فیضاں دسویں بار پیٹ سے ہے، تو ابھی اس کو نہیں رکھ سکتے۔‘‘ وہ اسے آگاہ کرنے لگی، چلتے چلتے اب وہ پکھی واسوں کی بستی سے آگے نکل آئی تھیں جبکہ وہ ایک دم سوچ میں پڑ گئی۔
’’کیا ہوگیا؟‘‘ اس نے ٹہوکا تو میں اور تم بھی یہ کام ہی کرلیتے ہیں۔
اس نے کمالِ معصومیت سے مشورہ دیا۔
’’اوئی نہ بھئی ، اتنی جلالت، اتنی محنت… جب مفتے میں ہی اتنا مل رہا تو کاہے کو لوڑ (ضرورت) اپنی ہڈیاں گلانے کی۔‘‘ وہ صاف انکاری ہوئی تو نسرین چپکی ہورہی۔
لیکن من میں جیسے کھد بد شروع ہوچکی تھی۔
اچھی رہائش! اچھا کھانا ، باتوں سے بات نکلی تو رجو سے ذکر کر ڈالا۔ جس کی اپنی آنکھیں بھی ایک نئے خیال سے چمک اُٹھی تھیں۔
’’اری تو کملی ہے، بھلا مجھے کیسے نوکری مل سکتی ہے وہاں؟ نہ کوئی اتا نہ پتا۔‘‘
’’اوہو، تو گھبرا کیوں جاتی ہے۔ میں تجھے سکھائوں گی تو سیکھ جائے گی سب۔ میں نے بھی تو کچھ دیر کام کیا ہے گھروں کی صفائی ستھرائی کا۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر جیسے اس کی عقل پر ماتم کیا۔ برسوں کی (مانگنے کی) عادت دنوں کی تربیت سے کیسے بدل سکتی ہے ۔ وہ ابھی تک ورطہ حیرت میں تھی۔
’’کچھ دن میں تیرے ساتھ ہی جائوں گی، تو ساری تربیت آپ ہی ہوجائے گی۔‘‘ رجو ٹلنے والی نہیں تھی۔
بڑی تلاش بسیار کے بعد انہیں پوش علاقے کی ایک کوٹھی مل ہی گئی۔ مالکن بڑی منتوں اور مشکلوں سے اسے کام پہ رکھنے پر راضی ہوئی تھی کہ اس کی پرانی جزوقتی ملازمہ کے مرد کو کسی دوسرے شہر کام مل گیا تھا۔ ورنہ ان پکھی واسوں کو کون اپنے گھر گھسنے دیتا ہے۔ دوسری جانب نسرین کے لیے اندر ہی اندر بڑا فرحین سا احساس جاگا تھا کہ اب وہ پکی پکی گدا گری چھوڑ کر اپنی نوکری شروع کرنے والی ہے۔
آغاز میں اسے بہت مشکل ہوئی تھی۔ مالکن اس پر رتی برابر اعتبار نہ کرتی تھی۔ ہر وقت ٹوکتی اور جھڑکتی رہتی۔پہلے دن ہی اس کے گندے سندے حلیے پر نکتہ اٹھایا گیا۔
’’اے بی بی میرے گھر میں کام کرنا ہے تو روز نہا کر آنا پڑے گا۔ اتنی بد بو اور میل تمہارے جسم میں بھری ہے کہ پاس سے گزرتا بندہ بدک جائے۔ صفائی تم خاک کرو گی۔‘‘
’’شگو! اسے دو چار اپنے جوڑے دے دو پھر کچھ دنوں تک میں تمہیں اور نکال کر دے دوںگی۔‘‘ وہ باورچی خانے میں پوچا لگا رہی تھی جب مالکن نے اسے درشتی سے مخاطب کیا۔
’’نسرین تو مالکن کے الفاظ کی تلخی پر ششدر رہ گئی جسم کی بدبو اور میل!‘‘
اور پھر یہ معمول ہی بن گیا۔ مالکن اس سے پورا پورا کام لیتی تھی۔ کوئی رعایت نہیں، کوئی نرمی نہیں۔ بچا کھچا ، خراب ہوجانے والا کھانا اس کو دیتے ہوئے بھی مالکن کی نظریں ٹیڑھی ہوجاتیں۔ شگو نے اسے بتایا تو تھا کہ بیگم صاحبہ بہت گرم مزاج والی ہے۔ شوہر سے بھی ہر وقت بیر اٹھائے رکھتی ہے اور لاڈلے بچے بگڑنے کی ساری حدیں پار کرنے کو ہیں۔ شگو اس گھر میں برسوں سے بحیثیت باورچن کام کرہی تھی ۔ سو سارے کچے چٹھے سے بخوبی واقف تھی۔ نسرین پھر سے سوچوں میں غرق ہوجاتی کہ یہ بڑے گھروں میں رہنے والے اکثر لوگ چھوٹا دل کیوں رکھتے ہیں؟
کام سے واپس لوٹتی تو باپ کی باتیں دل چھلنی کرتیں کہ اس کی زبان کے آگے خندق تھی۔ ایسے میں رجو اس کی ڈھال بن جاتی اور سمجھاتی۔
’’تجھے کیا پریشانی ہے ؟ میں ہوں تیرے ساتھ۔ تیری ماں تیرے باپ سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ بات یاد رکھنا۔‘‘ اپنے سینے پر ہاتھ رکھے وہ اسے یقین دلاتی اور پھر انگلی اٹھا کر تنبیہ بھی کردیتی۔‘‘
’’میری ماں کی طرح نہیں جو حالات کے منہ زور بھنور میں بہ کر سب ہار گئی تھی۔‘‘ آخری حصہ اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا مگر نسرین نے پھر بھی سن لیا۔
’’کیا بات ہے ؟ میں نے جب سے نوکری شروع کی ہے، تو خود بڑی بے وسائی کا شکار ہے، مگر مجھ کو تسلیاں دیتی پھرتی ہے۔ بتا نہ کیا ہے تیرے دماغ ہے؟‘‘ وہ پراندے کو اوپر کی طرف لپیٹ کر جوڑا بنانے لگی۔
’’بس گزرے ویلے کی ہیں ساری کہانیاں، تو کیا کرے گی کرید کے؟‘‘
’’کچھ نہ کچھ سیکھ لوں گی۔ اس ناگن جیسی زندگی کو گزارنے کے کچھ گر ہی مل جائیں گے۔‘‘
رجو نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر مایوسی نے پرتیں یوں چڑھائی ہوئی تھیں جیسے مکڑی چھتوں کے کونے میں جالے بنتی ہے اور جو روز بہ روز حجم میں بڑھتا جاتا ہے اور کالی سیاہ آنکھوں میں سناٹوں نے پھن پھیلا رکھے تھے۔ وہ بالکل اپنی ماں کا پر تو تھی۔ شکل سے بھی اور عادتاً بھی۔ دھیما مزاج، موٹے اور گہرے نین نقوش۔




Loading

Read Previous

وہ اپنی سی ۔۔۔ تنزیلہ احمد

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!