عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

یہ لاہور کے جدیدپوش علاقے کا پچھلا حصہ ہے جہاں کہیں کہیں خودرو جھاڑیوں اور جنگلی گھاس کی بہتات ہے اور اسی حصے کے بیچوں بیچ قطار در قطار جھونپڑیاں ہیں۔ میلی گرد سے اٹی، پردہ اٹھائے، پردہ گرائے، بدبودار ، بدتمیزمیلے کچیلے انسان جس کے مکین ہیں۔ چار گز کے قطعے میں دس دس بیس بیس انسان، جنس کی تمیز کیے بغیر جہاں یوں ہمہ وقت طوفانِ بدتمیزی کھڑا کیے رکھتے ہیں جیسے کپڑے دھونے والی مشین اپنے پیٹ میں ہر طرح کے میل کچیل کو بھر کر گھر ر گھرر چلتی ہے۔ اس چھپر کی عورتیں سر ڈھانپے، برہنہ، نیم برہنہ سا جسم لیے پھرتی ہیں اور ان کے شیر خوار بچے ماں کی چھاتیوں سے لگے بِلکتے ہیں۔ بڑے بچے ٹانگوں سے چمٹے رہتے ہیں جن کی رال اور ناک ایک ساتھ بہتی ہے۔ یہاں کے مرد پھٹی ہوئی بنیانیں اور میلی شلواریں پہنے دیدہ دلیری اور بے شرمی سے بدن کھجاتے پھرتے ہیں۔
اور یہ لوگ موسموں کی پروا کیے بغیر اپنے کام کیے چلے جارہے ہیں، مگر ان کے کاموں کی فہرست بھی کوئی اتنی طویل نہیں۔ بھیک اپنا حق سمجھ کر مانگنا، بچے پیدا کرنا اور عیش کرنا بس یہی کچھ انہوں نے اپنا مقدر سمجھ رکھا ہے۔ نہ انہیں کل کی فکر ستاتی ہے، نہ ماضی کا کوئی قلق انہیں ندامت میں مبتلا کرتا ہے۔ رتیں بدلتی ہیں، مگر ان کی مصروفیات کی نوعیت بدلتی ہے نہ ترتیب۔ یہاں تقریباً سب ہی ایک جیسے ہیں۔ ایک جیسا ناک نقشہ، ایک جیسی کسیلی رنگت اور مٹیالے اجڑے ہوئے بال، پھٹے اور گھسے ہوئے بدرنگ کپڑے اور قابلِ رحم چال۔ اس بستی کے باسیوں کا تہذیب سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ دنیا ترقی کی کس ڈگر پر چل نکلی ہے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ وہی کام کر رہے ہیں جو ان کے ننگ دھڑنگ باپ دادا نے کیا اور ورثے کی صورت ان میں بھی جی بھر کے منتقل کردیا۔ پاکیزگی، عزت اور ایمانداری یہ کیا جانیں کہ یہ کن بلائوں کے نام ہیں بھلا۔ ان کے حال پر تو ان کے اوپر نیچے، دائیں بائیں منڈلاتی مکھیاں بھی اپنے گندم کے دانے جتنے پروں سے استہزائیہ اڑان بھرتی بھن بھن کرتی ہیں، مگر کیا یہاں بسنے والے سب ہی ایک جیسے ہوتے ہیں۔





کیا واقعی…
نہیں تو! کبھی کبھار نہ چاہتے ہوئے بھی حالات اور وقت آپ کو بے بسی کی زندگی گزاردینے پر مجبور کر دیتے ہیں جو آپ نہیں بننا چاہتے ہیں۔ حالات کی سختی آپ کو اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے کہ آپ ویسے بن جاتے ہیں اور اپنے وہاں ہونے پر بظاہر مطمئن بھی نظر آتے ہیں۔
سو اسی بستی سے ذرا پرے ایک اور خیمہ لگا ہے۔ یہ جھونپڑی نسبتاً صاف اور کشادہ ہے۔ یہاں پر رہنے والے افراد کی تعداد کم ہے اور ان کے طور طریقے کسی حد تک مختلف ہیں مگر جس طرح کچرے کے ڈھیر کو اٹھا کر سونے کی طشتری میں سجا دینے سے بھی وہ کچرا ہی رہتا ہے۔ اسی طرح سے یہ جھونپڑی بھی بہر صورت رہے گی تو جھونپڑی ہی۔
اس کی شخصیت میں بولتی آنکھوں اور سنجیدہ چہرے کا عجب امتزاج ہے۔ بھاری جثے اور خوبصورت قد کاٹھ کی مالک وہ بولتی کم اور سوچتی زیادہ ہے۔ اللہ جانے اتنی سی عمر میں کون سی فکریں ہیں جو ہمہ وقت اسے گھیرے رہتی ہیں۔ کبھی جو کریدنا بھی چاہو تو آہستگی سے دامن چھڑالیتی ہے، پھر پہاڑبن جاتی ہے اور ٹس سے مس نہیں ہوتی، مگر جب موڈ میں ہوتی ہے تو اس سے زیادہ زندہ دل بھی کوئی نہیں ملتا کہ سکھیوں کی سنگت میں سب کچھ بھول کر وہ بستی میں آوارہ گردی کرنے لگتی ہے یا فٹ پاتھ پر دائرہ بنا کر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے دو پل کے لیے ہی سہی، مگر وہ بے فکری ہوجاتی ہے۔
وہ دیکھنے والی آنکھ کے لیے غروبِ آفتاب کا منظر ہی تو ہے۔ نرم گرم سی، پل میں اداس کرتی ہوئی اور پل میں امید دلاتی ہوئی اور رجو کو اس کا یونہی رہنا پسند ہے۔ وہ جو اُس کی ماں ہے جو خود غلطی سے پانچ جماعتیں پاس تھی۔ اس نے کب سوچا تھا کہ وہ بھی کبھی یونہی ان کے بیچ آجائے گی۔ انہی کی برادری کا حصہ کہلائے گی، مگر یہ بری قسمت بھی کسی جونک سے کم نہیں جو چمٹ جائے تو چھٹکارا پانا دوبھر ہو جاتا ہے۔ خیر رجو کی ایک بیٹی اور پانچ بیٹے ہیں۔ شوہر برائے نام ہے اس سے اب کوئی جسمانی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے نہ معاشی۔ نشے کی لت نے اس کی مردانگی کو سب سے پہلے ٹھکانے لگایا تھا۔
’’اور مورل سپورٹ…‘‘
’’ہاہاہا یہ کیا پوچھ لیا؟‘‘
’’شش !! جن باتوں کا پتا نہ ہو،انہیں زیادہ نہیں کریدتے۔ خیر تسلی کے لیے بتائے دیتی ہوں کہ رجو خود تو کسی حد تک شائستہ ہے، مگر یہاں کے مرد… کوئی سن لے تو کہے کہ یہ چلتی زبانیں ان کی اپنی نہیں۔ وہ گلی کوچوں میں بنے کچے پکے مکانوں سے اٹھ کر آئی تھی۔ اس کا دیہاتی باپ اسے بھکارن بنانا چاہتا تھا اور ماں اپنے گھر والی، مگر شوہر نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ نہ وہ ٹھیک سے مانگ سکی نہ اپنے گھر والی بن سکی۔ (گھر ہوتا تو گھر والی کہلاتی نا۔) اس کا یہ جھونپڑا تو بنجارا تھا جہاں موسم اجازت دیتا وہیں چل پڑتا۔ ویسے بھی یہ لوگ موسموں کے مارے ہوتے ہیں، وقت کے نہیں۔ ان کے لیے سارے وقت ایک طرح کے ہوتے ہیں تسبیح کے دانوں کی مانند، انگلی کی پوروں سے ایک ایک کرکے پھسلتے جاتے ہیں، مگر درحقیقت موسم میں تغیر ہی ان کی رہائش گاہ اور مانگنے کی جگہ متعین کرتے رہنے کا باعث بنتا ہے اور اسے مانگنے کا سلیقہ ساری زندگی نہ آیا۔ سلیقہ تو خیر شوہر کو بھی نہ تھا کہ اسے سیدھا چوری کی عادت تھی، مگر بیوی کو ڈنڈے کے زور پر کسی نہ کسی طرح کمائی کا ذریعہ بنا لیا پہلے وہ اپنے تڑپتے ، ترستے بہن بھائیوں اور باپ کی دھمکیوں کی وجہ سے مجبور ہوتی رہی۔ پھر شوہر نے بھی اس کو خوب ہی ہتھیار بنایا۔ حالانکہ رجو کی اپنی ماں نے کتنے اچھے خواب دیکھ رکھے تھے اس کے لیے۔ مگر یہ مائیں بھی تو حد کرتی ہیں۔ اپنی ممتا سے فائدہ اٹھاتی ہیں، ایسی ایسی خواہشیں اولاد کے لیے پال لیتی ہیں کہ ان کے پورا ہونے کے لیے ایک نسل کو قربانی دینی پڑ جاتی ہے اور یہاں… وہ قربان شدہ نسل رجو تھی۔
’’اے نسرین ! کہاں مر گئی؟ یہ تیری پوستی ہمیں لے ڈوبے گی۔ کسی کام کی نہیں تو۔ نہ تیری ماں ہی مجھے آج تک کوئی فیض دے سکی۔ ابا تو بھی ایک ہی بات بار بار کرتا تھکتا نہیں۔ یہ دونوں بے غیرت عورتیں ہیں۔ اپنی عزت کے علاوہ انہیں کبھی کسی کی پروا نہ رہی۔ اپنے خاص دیہاتی لہجے میں پنجابی بولتا جیرا باپ کو ڈپٹتا درپردہ انہیں ذلیل کررہا تھا اور یہ باتیں نسرین کے لیے نئی ہر گز نہ تھیں۔ ماں کے پیٹ سے ہی ایسی باتیں اس کی نازک سماعت پر پڑتی رہی تھیں۔ وہ سماعت جو اب نازک بھی نہ رہی تھی بلکہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی کہ اب ہر بات کان کے پردے سے ٹکراتی ہوئی جب دل پر پڑتی تو اسے ذرا کم ہی رُلاتی تھیں۔
اس کی زندگی اپنی پہلی سانس پر ہی سِسکی تھی اور اب تک سِسک رہی تھی۔ نہ اس کے لیے پھولوں میں کوئی خوشبو تھی۔نہ چوڑیوں کی کھنک اس کی نازک کلائیوں کے لیے تھی اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ایک پکھی واس تھی۔ مسئلہ اس ذرا سی آگاہی کا تھا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملی تھی۔ نہ وہ کھل کر اپنے ماحول میں جیتی تھی نہ اسے باہر کی لپک جھپک متاثر کرتی۔ اس کے لیے شعور عذاب ہی تو تھا۔ وہ بھکارن تھی۔ سفید میلی چادر سر پر ٹکائے، گرد سے اٹی ٹوٹی پلاسٹک کی چپل پہنے، ہاتھ میں کھلا سا برتن پکڑے جب وہ بڑے بڑے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتیتو خود کو بونوں سے چھوٹا محسوس کرتی۔
وہ اپنے مخصوص انداز اور لہجے میں مانگتی۔ ہر بار نئے بہانے اور وجہ اس کے پاس موجود ہوتے حالانکہ اس کے باپ اور بھائیوں کی تین وقت کی روٹی بڑے آرام سے پوری ہوتی تھی کہ وہ چھے مرد خود کو اندھا بناکے، لنگڑا کے یتیم ظاہر کرکے اپنے زورِ بازو سے اچھی خاصی رقم اینٹھ لیتے تھے اور کبھی کبھی جب اس جاب سے بھی جی اکتا جاتا، تو جیب تراشی اور ہاتھ کی صفائی کام آتی۔
مگر رجو کا آدمی خود کما کر اپنی بیوی کو عیش کرانے والوں میں سے ہر گز نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گھر کا ہر فرد مصروف رہے اور یوں بھی گھر میں پیسہ آتا کسے برا لگتا ہے۔ سو رجو سمیت وہ یعنی نسرین بھی مصروف تھی اتنی کہ نیند میں بھی مانگتی رہتی۔ کبھی کسی کا در کھٹکھٹارہی ہوتی تو کبھی کہیں سے جھڑکیاں سن رہی ہوتی۔
نامساعد حالات میں جب اسے سڑکوں پر نکل کر مانگنا پڑتا، تو یہ اس کے لیے حقیقتاً آزمائش کا وقت ہوتا۔ جب کسی گاڑی کا شیشہ بجاتی، کسی بڑی دکان یا شوروم کے ہجوم میں مانگنے گھستی تو لوگوں کی خود پر گڑی ہوئی چبھتی نظریں محسوس کرکے خود میں سمٹ کر رہ جاتی حالانکہ اس کی جگہ کوئی اور پکھی واسنی ہوتی تو خوب ان نظروں کا مفہوم سمجھتی اور جی بھر کر فائدہ بھی اٹھاتی، مگر یہاں مصیبت ہی یہ تھی کہ اس شعور سے بے بہرہ انسانوں کی بستی میں وہ ایک مافوق الفطرت پیدا ہوگئی تھی جو بس یہی سوچتی جاتی تھی کہ یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے مردوں کی سوچ اس قدر چھوٹی کیسے ہوسکتی ہے؟ انہیں تو کسی شے (زر اور زن) کی کمی نہیں۔ پھر بھی یہ سارے اس قدر ندیدے کیوں ہیں ؟ مگر کملی اگر چار جماعتیں پڑھی ہوتی یا ماں جتنا تجربہ حاصل ہوتا، تو آپ ہی جان لیتی کہ مرد کسی بھی نسل کا ہو اور کتنا بھی امیر کیوں نہ ہو، نہتی عورت ذات کو دیکھ کر اس کا ندیدہ پن امنڈ کر سامنے آجاتا اور رال ٹپکنے لگتی ہے اور پھر وہ جتنا گھبراتی۔ لوگ اسے اتنا ستاتے اس کے فربہی مائل جسم، دودھیا رنگت اور گہری آنکھوں پر فقرے کستے ۔
پھر بیچ میں ساتھ والی جھونپڑی کی چھیما کے کہنے پر اس نے پلاسٹک اکٹھا کرنے کا کام شروع کیا، مگر اس کام میں بھی کمائی کم اور رسوائی زیادہ تھی۔ گودام کا مالک چاہتا تھا کہ ہر روز مخصوص مقدار میں وہ اسے پلاسٹک لا کردے۔ خواہ اس کے لیے اسے ناک کے بل رینگنا پڑتا اور خواہ پلاسٹک کی جگہ وہ اسے کمیاب دھاتوں کی تھیلیاں تھمادیتی ، مگر اس کے ذمہ چونکہ صرف پلاسٹک اکٹھا کرنا تھا سو چنی آنکھوں اور گرد سے اٹی بھوری ڈاڑھی والا گودام کا لڑکا بڑی چالاکی سے چپ چاپ دھاتیں بھی ہتھیا لیتا اور اس کی ساری محنت نہایت ہلکے داموں خرید لیتا۔ خود چھیما تو من موجی تھی، دل کرتا تو ہفتہ بھر پلاسٹک اکٹھا کرکے دہاڑی بناتی، ورنہ مہینہ گزرجاتا اور اپنی کوئی خبر نہ دیتی۔ وہ نسرین سے تجربے اور عمر میں کافی بڑی تھی۔ سو راشد (گودام کا مالک ) کی غلط سلط باتوں کا دوبدو جواب دیتی۔ وہ ڈھیٹ بنا حِظ اٹھاتا رہتا۔ ان کے ساتھ والی دو اور لڑکیاں بھی کوڑا چھانتی تھیں مگر ان کا کام دھات (خالی ٹِن، پلیٹس ، سپیئر پارٹس وغیرہ ) ہی اکٹھے کرنا تھا اور اس کے عوض ناصرف وہ انہیں اچھی رقم دے کر خوش کرتا تھا بلکہ ان کے پاس بھی اس کی خوشی کا سارا سامان موجود ہوتا تھا، لیکن وہ بھی اُن جیسی ہوتی تو اسے بھی کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔




Loading

Read Previous

وہ اپنی سی ۔۔۔ تنزیلہ احمد

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!