عطش – میمونہ صدف

دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی اس کا سامنا ممی سے ہوا تھا… اس کا چہرہ دیکھتے ہی وہ ٹھٹکیں۔
”کیا ہوا ہے؟” وہ بے چینی سے اس کی طرف لپکیں۔
”میرا نام آپ نے رکھا تھا نا ممی؟” وہ سوال کر رہا تھا یا جتا رہا تھا…… موازنہ مشکل تھا۔
”کیوں……؟”
”وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ کیوں…؟”
”اتنے برسوں بعد یہ سوال کیوں کر رہے ہو؟”
”افسوس ہی یہ ہے کہ اتنے بہت سے برس بیت گئے… نہیں گزرناچاہیے تھے۔”اس نے بال نوچتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا۔
”مجھے پسند تھا تمہارا نام…” وہ اس کا ہاتھ تھام کر چومنے لگیں۔
”خود تو سیر ہو گئیں ممی… مجھے کیوں تشنہ چھوڑ دیا۔” اس نے ہاتھ نرمی سے چھڑا لیا۔
”ہوا کیا ہے بیٹا…؟”
”میرے وجود میں سو سو زبانیں اُگ آتی ہیں ممی جو پیاس پیاس پکارتی ہیں… ان کو پلا پلا کر میں تھک گیا ہوں مگر ان کی پیاس ہے کہ بھجتی نہیں … جانتی ہیں کیوں؟ کیوں کہ میں خود پیاسا ہوں… اندر ہی اندر یہ مجھے چاٹتی ہیں کیوں کہ میں عطش ہوں۔”
وہ صوفے پر سر جھکائے بیٹھ گیا تھا۔
اور ممی ساکت سی کھڑی اس الجھاؤ کو سلجھانے کے لیے سرا ڈھونڈ رہی تھی۔
٭٭٭٭





”کبھی بھی نہیں اماں۔ میں کبھی اس اسلم نامی شخص سے شادی نہ کروں گی… نام دیکھیں لگتا ہے کوئی بڈھا بابا میرے پلے بندھ رہا ہے۔”
اس نے غصے سے گلے میں پہنا دوپٹہ اچھال کر چارپائی پر پٹخا اور ایک چپل یہاں اچھالی تو دوسری وہاں… پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی۔
”کیوں کیا خرابی ہے…؟” اماں ناک کی پھننگ پر چشمہ درست کرتے ہوئے پوچھ بیٹھیں۔
”بھلے سے کوئی خرابی نہ ہو…… نام دیکھا ہے اس کا اسلم۔” اس نے اسلم کے ‘لم’ کو خوب کھینچا اور دانت پیس کر ادا کیا۔ ”اتنی بڑی دنیا میں کوئی ایشان، عبیداور ولید نہیں ملا آپ کو … بھلا کوئی مجھ سے پوچھے گا کہ میاں کا کیا نام ہے تو کیا بتاؤں گی… میں مسز اسلم ہوں… اور خدایا…”
اس نے جھرجھری سی لی۔
اور اماں منہ کھولے ‘ہا’ کرتی رہ گئیں… اپنی لاڈلی رخشندہ، جو اپنا نام بدل کر ‘طوبیٰ’ رکھ چکی تھی کے نادر خیالات سن کر وہ نیم مردہ سی ڈھے گئیں۔
جب اسلم کا رشتہ آیا تو اماں بڑی خوش تھیں کہ لڑکا اکلوتا، کریانے کی دکان کا مالک، گھربار، زمین… سب کچھ تو تھا۔
خیر تو اسلم جیسے ہیرے لڑکے پر تو رخشندہ عرف طوبیٰ کو اعتراض تھا مگر اس کے بعد بھی امیر، شعبان، غلام ربانی نام کے رشتے اس نے صرف نام ہی سن کر، باقی تفصیلات جانے بغیر ہی رد کر دیے تھے۔
کہانی صرف اتنی سی تھی کہ رسالوں، ڈراموں میں منفرد نام سن سن کر طوبیٰ بیگم سمجھنے لگیں کہ منفرد نام والا شہزادوں جیسی آن بان والا لڑکا ہی اسے بیاہنے آئے گا۔
”جس کا نام ایساہے وہ خود کیسا ہو گا… نام کا تو بڑا اثر ہوتا ہے…” بس بار بارایک ہی سوچ کا اظہار کرتی رہتی اور تین جماعتیں پاس اماں کی سمجھ میں اس کی منطق آکر نہ دیتی۔
اور بالآخر قرعہ نکلا ‘مقدم’ کے نام … اور اسے لگا کہ آگیا شہزادہ بیاہنے … بالکل ایسا ہی، منفرد نام والا دلہا اسے چاہیے تھا۔ نام سنتے ہی رخشندہ بی بی جھوم اٹھیں… موصوف پکی نوکری کرتے تھے… چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے، باقی سب شادی شدہ، گھر بار والے … والدہ انتقال کر چکی تھیں۔ البتہ ابا زندہ تھے… وہ بھی بھلے مانس … ایسا دل پسند رشتہ جو اس کا دل خوش کر گیا۔
اور یوں طوبیٰ بیگم بیاں کر مقدم کے سنگ چلی آئیں اور جب اس نے منہ پھاڑ کر شوہر کا نام لیا تو حکم جاری ہوا…
”عبدالمقدم…” اور اسے تو صدمہ ہی لگ گیا… اماں نے تو کیسے شان سے سارے بھائیوں کے نام گنوائے تھے۔ معید، صمد، صبور اور مقدم… اور اماں سابقہ لگانا بھول گئیں… عبد… پھر کتنا ہی عرصہ طوبیٰ بیگم منہ بنائے خفا خفا سی پھرتی رہی۔
جب اللہ نے اُسے اوپر تلے دو بیٹیوں سے نوازا تو اس نے دنیا جہاں کے اوٹ پٹانگ نام رکھنے کی ٹھانی… گھانتوں … غبدیہ… شرمیلی … اور سب ہونق رہ گئے۔ کیسے نام تھے نہ سنے نہ پڑھے۔ بھلا ایسا نام کون رکھتا ہے؟
”بیٹی رخشندہ نام بامعنی رکھنا چاہیے تاکہ بچے کی شخصیت پر مثبت اثر پڑے۔” اور جو وہ خود اماں کو کہتی کہ ناموں کا اثر ہوتا ہے، سب بھول بھال گئی تھی۔
ابا جی کی حکم عدولی ممکن نہ تھی سو ان کے کہنے کے مطابق بچیوں کے نام عائشہ اور زینب رکھے گئے…
”اونہوں… پرانے زمانے کے نام”۔ وہ کھولتی رہ گئی۔
اور جب شادی کے آٹھ برس بعد وہ بیٹے کی ماں بنی تب ابا جی مٹی اوڑھے سو گئے تھے، سو اس نے عبدالمقدم کو اپنی منوا کر چھوڑ دی۔
‘عطش نام رکھوں گی…”۔
”یہ کیا نام ہوا…؟”
”مجھے پسند ہے…” صاف ٹکا سا جواب، شریف آدمی خاموشی کی زبان سے جتنا احتجاج کر سکتا تھا، اُس نے کیا۔ لیکن ایک نہ چلی سو یوں اکلوتے بیٹے کا نام عطش رکھا گیا۔
٭٭٭٭





وہ ذہین تھا… سب سمجھتا تھا… مشاہدے اور مطالعے میں لاثانی… کھوج لگانے کا ماہر… دنیا کی تسخیر پر آمادہ… مگر کہیں ٹھہرتا تھانہ جمتا تھا، مطمئن نہ ہوتا۔
بھلے جواب ڈھونڈ لیتا پھر بھی تشنگی کی کیفیت کا شکار رہتا۔
”قابلِ تحسین … مگر ناقابل تسکین ہے”۔”علم کا پیاسا ہے”۔ ”نجانے کیوں تشفی نہیں ہوتی اس کی”۔
کم و بیش یہی رائے اس کے سب اساتذہ کی شروع سے رہی تھی…
طوبیٰ فخر کرتی کہ کتنا ذہین ہے اس کا بیٹا!۔
مگر عطش دن بہ دن اذیت سے دو چار ہونے لگا… سوال اتنے ہوتے کہ جواب میں ڈھلتے ڈھلتے سانچا چٹخ جاتا۔ تشنگی تھی کہ بڑھتی جاتی… علم کی، حب کی، نفس کی… کیا روحانی کیا جسمانی… سیراب نہ ہوتا۔
اندر سے گویا بانجھ ہو گیا ہو… کتنا بھی آبِ باراں اترتا، آبِ استادہ بنتا اور پھر بہ جاتا … جذب نہ ہوتا، سیر نہ کرتا … ہریالی نہ لاتا، رزق نہ اُگاتا، نافع نہ ہوتا۔ اس کی حالت عجیب سی ہوتی گئی… طوبیٰ اسے مختلف ماہرین نفسیات کے پاس تحلیلِ نفسی کیلیے لے جاتی رہی مگر بات نہ بنی۔
”غیر معمولی ذہانت کا مالک ہے تب ہی سو مسائل ہیں”۔ ایک ہیں جواب جابجا ملتا۔
کوئی یہ نہ بتا سکتا کہ غیر معمولی ذہانت والا غیر معمولی کام کیوں نہیں کرتا۔
٭٭٭٭
اس روز وہ پریکٹیکل کاپی چیک کرانے سر ایوب کے آفس گیا تھا۔
”اور پڑھائی کیسی جا رہی ہے بن عبدالمقدم…؟” وہ ہمیشہ ایسے ہی پکارتے تھے جو اسے بے حد پسند تھا۔
”اچھی جا رہی ہے بس”۔
”مسئلہ کیا ہے ینگ مین…؟ اتنے قابل ہو مگر پرفارم کیوں نہیں کر پاتے۔”
”نہیں معلوم سر…” وہ سر جھکا گیا۔
”تمہارا نام خوب صورت ہے مگر بے معنی ہے… اسی لیے میں تمہیں تمہارے نام سے نہیں پکارتا… کس نے رکھا؟”
وہ چونکا… ”امی نے…”
”مطلب کیا ہے اس کا…؟”
”امی کہتی ہیں یہ فارسی میں حسین کو کہتے ہیں۔”
وہ مسکرا دیے۔
”تمہارے اندر جو اضطراب ہے اسے مثبت جانب لگاؤ گے تو دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کر پاؤ گے… زرخیز دماغ ہے… جو ذہانت اندر ہے اسے باہر لاؤ تاکہ وہ اپنے آپ کو ثابت کروا سکے”۔ وہ اکثر اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
”سر نہ اضطراب ختم ہوتا ہے نہ اندر کی آگ بجھتی ہے… اپنی اس مشکل سے نکلوں گا تو دنیا کی مشکلات سلجھاؤں گا نا۔”
”نام بدل دو … سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
”نام…” وہ حیران ہوا۔
”ہاں بھائی اس کا بڑا اثر ہے… اچھا کبھی یہ سوچا کہ ہم فرعون، قارون یا اس طرح کے دیگر نام کیوں نہیں رکھتے؟”
”سر وہ برے کردار والے تھے… مشرک… برے اعمال والے۔”
”تو…” وہ پُرسکون سا بولے تو وہ گڑبڑایا۔
”تو ان جیسا نام رکھ کر ان جیسا ہو سکتا ہے انسان تب ہی تو نہیں رکھے جاتے۔”
”بالکل درست… انسان کے اعمال، ناموں کو مبارک یا برے بناتے ہیں۔ جانتے ہو فرعون، نمرود یہ نام تاریک اثرات پیدا کرتے ہیں جن کے اندر ظلمت اور نفرت ہے”۔
وہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”یہ تو ہو گئی سائنسی نقطے کے مطابق بات … اب آوؑ اسلام کی طرف… جہاں ہم ایک واقعہ دیکھتے ہیں… ایک بار بکری کا دودھ دوہنا تھا تو حضورۖ نے ایک لڑکے کو بلا کر اس کا نام پوچھا… اس نے اپنا نام مُرہ یعنی کڑوا بتایا۔ آپ ۖ نے اسے ایک طرف بٹھا دیا۔
دوسرے لڑکے کو بلایا، اس نے پوچھا … اس نے حرب یعنی جنگ بتایا… اسے بھی بٹھا دیا۔
تیسرے لڑکے کو بلایا… اس نے اپنا نام العیش یعنی زندگی والا بتایا تو آپۖ نے اسے دودھ دوہنے کا کہا۔”
واقعہ سنا کر وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور بہ غور اسے دیکھنے لگے۔
”عطش اُردو زبان کا لفظ ہے… فارسی کا، نہیں… اور اس کا مطلب پیاس ہے”۔ وہ کچھ بول نہ سکا تھا۔
”اب یہ بتاؤ کہ اگر تم اُن لڑکوں کے ہمراہ ہوتے اور تم سے نام پوچھا جاتا تو تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونا تھا؟”
وہ خاموش ہو گئے… اب اسے بولنا تھا۔
اس نے سر اٹھا کر نم ناک نظروں سے انہیں دیکھا:
”جب مجھے بلا کر میرا نام پوچھا جاتا تو یقینا مجھے بھی ایک طرف بٹھا دیا جاتا کیوں کہ جو خود پیاسا ہو وہ پینے والی چیز کی کیا حفاظت کرے گا”۔
اسے بات سمجھ میں آچکی تھی… وہ ہولے سے مسکرا دیے۔
٭٭٭٭





شہر کی جامعہ مسجد میں مولانا صاحب کے سامنے …… ٹھنڈا فرش اور اس پر عبدالمقدم کے ساتھ بیٹھا وہ …
عبدالمقدم سارا قصہ انہیں سنا چکے تھے اور اب ان سے نام تجویز کرنے کا کہہ رہے تھے۔
”سوہنے نبی ۖکے مطابق بہترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں…۔”
انہوں سے سر گھما کر بیٹے کی جانب دیکھا اور اس کا ہاتھ دبایا… اس نے فیصلہ اپنے ابو پر چھوڑ دیا۔
”عبداللہ مناسب رہے گا”۔
اور وہ دل ہی دل میں سر سے مخاطب تھا…
”سر اگر چودہ سو سال قبل ان تین لڑکوں میں شامل ہوتا تو اس روز بکری کا دودھ میں ہی دوہتا… عبداللہ …… اللہ کا بندہ”۔
اس نے روشن آنکھوں سے سامنے مسجد کی دیوار کو دیکھا جہاں اسے اپنا نام جگمگاتا نظر آرہا تھا۔
٭٭٭٭

Loading

Read Previous

دیارِ خلیل – فرحین خالد

Read Next

اگلا سفر – مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!