اگلا سفر – مریم مرتضیٰ

آج وہ بابا جی ساتھ والے گھر میں آئے ہیں۔وہ دو ماہ پہلے سامنے والے گھر میں آئے تھے اور ان آنٹی کے بیٹے کو اپنے ساتھ لے گئے تھے،آنٹی بہت روئی تھیں چلائی تھیں مگر انہوں نے ان کی ایک نہ مانی تھی۔ انہوں نے کہا تھا اس کا دانہ پانی یہاں سے اٹھ چکا ہے۔اس دن بین ڈالے گئے تھے،سر پیٹے گئے تھے،ہمارے گھر میں سوگ کا سماں تھا ۔میں نے تو دو دن تک کھانا نہیںکھایا تھا ۔
میںجب سامنے والے گھر میں گئی تھی تو میں نے ان سے پوچھا تھا۔
” آپ انہیں کہاں لے کر جا رہے ہیں۔؟”
” اگلے سفرپر۔۔اس کا اگلا سفر میرے ساتھ ہے۔” انہوںنے کہا۔وہ بہت خوف ناک تھے۔میرے تو الفاظ حلق میں ہی اٹک گئے۔
”کیا ہر کسی کا اگلا سفر ہے؟” میں نے پوچھا۔
”ہاں۔۔” ان کی ہاں میں کتنی گہرائی اور سچائی تھی۔
” کیا آپ سب کو لے جائیںگے؟” میں نے بے ساختہ پوچھا۔
” ہاں! مگر وقت پر۔۔۔” وہ اسی یقینی انداز میں بولے۔
” ہر کسی کا وقت مقرر ہے؟” میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور کپکپی سے میرا بدن لرز اٹھا۔
”ہاں!”
”کیا میرا بھی وقت مقرر ہے؟” میں نے توقف کے بعد پوچھا۔
”ہاں!”
میرا وجود ٹھنڈا پڑنے لگا تھا۔





” آپ کوئی مشورہ دے دیں۔” میرے حلق سے الفاظ رک رک کر نکلے تھے۔
” میرے ساتھ تمہیں بھی ہر صورت جانا ہو گا مگر اپنے وقت پر۔۔وہ وقت تم کبھی بدل نہیں سکتی ہو۔ لیکن اگر راحت حاصل کرنا چاہتی ہو میرے ساتھ چل کر تو ساتھ اپنے وہ لانا جو تمہارا زیور ہے۔” انہوں نے کہا اور چلے گئے۔
مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں کئی دنوں تک خوف میں مبتلا رہی۔ کئی کئی گھنٹے تنہائی میں بیٹھ کر زیور اکٹھے کرنے لگی۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ وقت بدل گیا اور میرا زیورات سے دل اٹھ گیا۔ میں جینے لگی پھر سے اسی طرح عیش و عشرت میں، امنگوں ترنگوں میں مجھے خیال ہی نہ رہا تھا۔ پھر ایک دن میں اکیلی بیٹھی تھی تو سب کہنے لگے چپ ہو جاؤ بابا جی کسی کو لینے آگئے ہیں کیوں کہ مسجد سے بار بار آوازیں آرہی تھیں کہ بابا جی فلاں آدمی کو لینے آئے ہیں۔ کچھ دیر مجھ پر بھی کپکپی طاری ہوئی اور میں پھر سے کا م میں مصروف ہو گئی۔ مجھے خیال ہی نہ رہا انہوں نے مجھے بھی لے جانا ہے۔ میں نے سوچا ہی نہیں۔ دنیا کی خواہشات کی دلدل میں دھنستی ہی چلی جا تی رہی ،نفس کی غلامی سے مجھے چین ملنے لگا تھا، اس نے مجھے اپنا کتا بنا لیا تھا۔ میں نفس کے پاؤں دن رات چاٹتی رہی۔ انسان جتنا امیر ہو گا اتنا ہی زیادہ گرا ہوا اور نفس کا غلام ہو گا۔میں بھی وہی کرتی رہی جو نفس کہتا رہا۔وہ کہتا چلو میں چل پڑتی، وہ کہتا رکو میں رک جاتی،وہ کہتا بیٹھو میں بیٹھ جاتی حتیٰ کہ میں کھانا بھی نفس کی مرضی سے کھاتی نہیں تو بھوکی رہتی۔
خوابوں اورخواہشوں کے دور میں بابا جی کا خیال کبھی بھول کر بھی نہیںآیا کیوں کہ خواہش کے مطابق شے مل رہی ہو پھر ڈراؤنی چیزوں کو کیا سوچنا؟ چاہے وہ حقیقی کیوں نہ ہوں۔
آج صبح سویرے جب میں سو رہی تھی تو مجھے رونے پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں بھاگی بھاگی باہر نکلی، جانے کیا ہو گیا تھا؟ پوچھنے پر پتا چلا ساتھ والے گھر وہی بابا جی آئے ہیں،ان کی جوان بیٹی کو لے جا رہے ہیں۔ گھر والے منتیں ترلے کرتے رہ گئے کہ ابھی اس کی عمر کیا ہے مگر بابا جی نے کہا کہ وقت طے ہو تو عمریں نہیں دیکھی جاتیں۔ بابا جی اسے لے گئے، معلوم نہیں وہ اپنے ساتھ زیور لے کر گئی بھی یا نہیں؟
زیورات نہ ہوئے اس کے پاس تو بابا جی اسے بہت اذیت میں رکھیں گے۔شام ہوگئی، وہ چلی گئی، رونے کی آوازیں آہستہ آہستہ دھیمی ہو گئی ہیں۔ یہ آوازیں کیوں دھیمی پڑ گئی ہیں؟ چند دنوں بعد یہ آوازیں قہقہوں میں بدل جائیں گی۔ اسے بھول جائیں گے سب۔ وہ سامنے والے گھر میں جب بابا جی آئے تھے تو وہاں لوگ چیخ و پکار کر رہے تھے، سروں میں مٹی ڈال رہے تھے۔ مگر اب ہنسی ہے، قہقہے ہیں خوشیاں ہیں ۔ جسے جانا تھا وہ چلا گیا اب اسے کون یاد رکھتا ہے۔بے وفائی کہوں یا فطرت کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ خوف طاری ہو رہا ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ وہ آ رہے ہیں، مجھے ان کی چاپ سنائی دے رہی ہے،آواز بھی آنے لگی ہے۔میرے پاس زیورات بھی نہیں ہیں میں تو خالی ہاتھ ہوں، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میرا کیا ہو گا؟ وہ آرہے ہیں۔ میری جب ان سے ملاقات ہو ئی تھی تو میں نے ان سے پوچھا تھا کون سے زیورات پاس ہوں، تو انہوں نے کہا تھا۔
”اطاعتِ اللہ و رسول۔”

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عطش – میمونہ صدف

Read Next

اخبار کہانی – عشوہ رانا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!