”مگر بھرجائی، میں اسے اس کی بے پروائی کا احساس ضرور دلائوں گا۔آپ دل ٹھنڈا کریں، تسلی رکھیں۔”

سبھاگی سب کچھ اس پہ چھوڑ کر آگئی مگر دل میں ابھی بھی تک چھوٹا سا کانٹا چبھا تھا۔

سندھیا کو سوہائی کے ساتھ تیار ہوتے دیکھ کر دل سے کچھ تو بوجھ ہٹ گیا تھا۔

جیجی نے عشا کی نماز کی راہ لی۔

اور حسن لڑکیوں کے تیار ہونے کا انتظار کررہا تھا کہ وہ تیار ہوں تو بچیوں کو شگن کی چیزیں دے کر، شادی کے گھر چھوڑ آئے۔

سوہائی پراندہ ڈالے گنگناتی رہی۔

سبھاگی نے گھوری ڈالی تو ہنس دی۔

”چھوری تو ڈس چھوری۔ ہاتھوں سے نکلی جاتی ہے آپے میں رہ آپے میں۔”

دونوں ہنس دیں۔ سندھو نے سوہائی کو گھورا۔

”تیرا بندوبست بھی جلد کرنا ہی پڑے گا۔”

”تیرے منہ میں گھی شکر، پوپری۔” سندھیا کی ٹھوڑی ہلاکے ناز سے کہنے لگی۔

”ہئے! بڑی ہی جلدی تجھے چھوری ۔”

سبھاگی چوکھٹ میں کھڑی تھی۔

”توبہ ہے چچی ماں۔” سوہائی نے منہ بنایا اور چادر نکالی۔

”چل نکلنے کی کر،ادا حسن دروازے پر کھڑے ہیں کب سے۔” وہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف ہولیں۔

”توبہ ہے چچی ماں، چھوری مری جاتی ہے۔”

سر جھٹک کر ہنس دی، سوہائی کی نقل اتارکر۔

اللہ بس سندھو کو ہنستا رکھے۔ جاتے ہوئے بلائیں لیں، دعائیں دیں۔

”سندھیا کو بول چادر لے لے، سر منہ ڈھانپ لے، میں دروازے پر کھڑا ہوں۔”

سوہائی اور سندھیا دونوں ان کے پیچھے پیچھے چادروں میں لپٹی ہوئی چل دیں۔

سوہائی دبک کر چلتی تھی۔

”چاچا سائیں اس گلی میں کتے تو نہیں آئیں گے؟”

”سوہائی کتے تجھ سے ڈرتے ہیں۔ یاد نہیں کہ چھوٹی تھی تو پتھر جمع کرکے رکھتی تھی۔ کتے جب بھی ہماری گلی میں آتے تو مارنے لگتی، یہاں تک کہ کتوں نے اس گلی آنا چھوڑ دیا۔جہاں جہاں تجھے دیکھتے دم ہلا کر بھاگتے۔”

سندھیا ہنس دی، سوہائی نے کہنی ماری۔وہ مُسکرائے۔

دروازے پر ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا۔سوہائی ڈرکے مارے پیچھے دبک گئی، حسن نے لاٹھی دکھائی۔دونوں کو برات والے گھر چھوڑااور لوٹ آیا۔

سندھیا اور سوہائی کھکھلاتی ہوئی چھو کر یوں کے ٹولے میں گھس کر کھو گئیں۔بہت ساری آوازیں، کھکھلاہٹیں، مسکراہٹیں۔عورتیں رسموں کے لیے تھال، پرات، میوے کے سنبھالتیں، سات سہاگنوں کو بلاتیں، لڑکیاں بالیاں اشتیاق سے آنکھیں ٹکائے کھڑی اور کچھ بیٹھیں نظر آئیں بہت مزے سے۔بچے جملے کستے، ہنستے،شرارتیں کرتے دلہن کے گھر کی جانب ہولیے جہاں سے ڈولی اٹھنی تھی اور سب لڑکیوں کے دل جیسے ایک ساتھ دھڑکنے لگے۔

پہلے گانا بجانا پھر برات۔ پھررخصتی،ہر ایک کی آنکھ میں اس کا خواب،خواب میں ساتھی ساجن۔

ایک لڑکی کھکھلاتی ہوئی سکھی ٹولے میں گھس گئی۔

”دلہن پر تو بڑا ہی روپ آیا ہواہے، سج گئی ہے۔”

”اری سندھیا! تو بتا تیرا سارنگ کب آرہا ہے تجھے لینے؟”

”پوچھتا ہوگا، خط لکھتا ہوگا؟” دوسرا سوال۔

وہ جھوٹ موٹ کا سر ہلا کر رہ گئی۔

”تو بڑی فرمائشیں کرتی ہوگی۔ ہے نا؟” اب کہ سر نفی میں ہلا۔

”چھوری؟ کیوں ری؟”

”بس ایسے ہی شرم آتی ہے۔”

”ہئے تجھے بڑی شرم آتی ہے۔”

”لوجی۔ کہا کر، شوہر ہوا تیرا۔”

”رخصتی نہیں ہوئی؟ کب ہوگی؟” کندھے اچکائے۔

”ویسے آپس کی بات ہے روپ تو نکاح کی رات تجھ پر بھی بہت آیا تھا۔”سرگوشی، وہ شرماگئی۔

”ہئے تو شرماتی بھی ہے کیا سندھیا؟” کھکھلاہٹ۔

”چل چھڈ۔” سوہائی درمیان میں آگھسی۔

مگر سکھی ابھی تک کھڑی تھی۔

”خیال رکھتا ہوگا؟”

”بات کرتا ہوگا؟پوچھتا ہوگا؟”

”فرمائشیں کرتی ہوگی تو؟”

یہ سوال تھے جو اس کا منہ چڑارہے تھے۔

شادی کی ساری رسموں میں وہ حُپ چُپ سی تھی۔

سوہائی کو سب نظر آرہا تھا۔

”مجھے تو وہ بہت چاہتا ہے۔” سانوری بتانے لگی۔

”اس کا بھی شہر میں کام لگا ہے۔” سکھی نے معلومات میں اضافہ کیا۔

”موبائل فون بھیجا ہے اس نے۔”

کی پیڈ پر انگلیاں پھیرتے ناز سے کہا گیا۔

سوہائی نے دیکھا سندھیا کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔

”بات نہ کرے تو نیند نہیں آتی اسے۔باتیں ہی باتیں، رات بھر باتیں۔”

وہ اداس سی گھر لوٹی۔

بُندے اتارے، نوچے تقریباً،شیشے کے سامنے پھینک دیے۔

موڈ بہت برا تھا، پراندہ نکالا ،بالوں کا جوڑا کیا اور کپڑے لے کر واش روم میں گُھس گئی۔

سوہائی نے اب سوچنا تھا کہ اسے کیسے بہلانا ہے۔کیا تسلی دینی ہے۔ورنہ پتا تھا وہ سو نہ سکے گی رات بھر۔

ساری رات سوچے گی،سوچ سوچ کر تھک جائے گی اور جب تھک جائے گی تو رودے گی۔

ابا سائیں کہہ گیا تھا۔

”سوہائی سندھو کو نہ کبھی رونے دینا۔

دیکھنا وہ تجھے سدا ہنستا رکھے گی۔”

سندھو کو بہلانے کا وعدہ کربیٹھی تھی۔

چری تو تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!