رات اندھیاری تھی، چپ نے ہر جگہ اپنا راج ڈالا ہوا تھا اور وہ خاموشی سے چھت پر کھڑی تھی۔ تو اکتوبر کی رات کو ٹھنڈ برستی تھی۔

”تو کیوں کھڑی ہے سندھیا؟”

”چاند کو دیکھ رہی ہوں سوہائی۔”

”تو اپنے چاند کو دیکھ، اس چاند میں تیرا کیا؟”

”میرا چاند؟”

”ہاں، تیرا چاند ادا سارنگ اور کیا۔”

”وہ میرا چاند کب سے ہوگیا؟”

”جب سے تجھ سے نکاح کیا تب سے ہوگیا۔”

”نہ سوہائی، وہ میرا چاند نہیں ہے۔”

”تو پھر تم ان کی چاندنی بن جائو۔”

بات لگنے والی تھی۔

”تو مجھ سے اب سارنگ کے موضوع پر بات مت کیا کر سوہائی۔ دل دُکھتا ہے میرا۔”

”پگلی،چری ہوگئی ہے تو سندھیا۔وہم پالنے لگی ہے، جیجی کہتی ہیں وہم ارادے کو کمزور کرتا ہے،ہمارے یقین کو توڑتا ہے۔”

”اور وہ کیا جو اس نے میرے ساتھ کیا؟”

”کیا کیا؟خط ہی نہیں لکھ سکے نا؟تو کوئی گلہ نہیں ہے۔وہ جب روبرو ہوں توکردینا شکوہ مگر ابھی کیا، خود کو جلا بُھنا کر رکھ دیا ہے تو نے۔خوش رہا کر سندھو۔اباسائیں کو تیرا خوش رہنا جچتا تھا۔خوش ہوتے تھے وہ۔”

سوہائی کو لگا کہ ابا کی باتیں کرنے سے شاید سندھو بہل جائے اس لیے وہ بولتی رہی۔

”پتا ہے سندھو، میری منجی کے ساتھ اباسائیں کی منجی ہوتی تھی۔ جب میں رات میں ڈرجاتی تو میرے سر پہ ہاتھ رکھ کر آیات پڑھتے اور تھپتھپاتے تو سارا ڈر دور ہو جاتا تھا۔ اب ان کی منجی نہیں ہے، میرا دل بڑا خالی رہتا ہے، ڈرجاتی ہوں، کوئی تسلی نہیں دیتا،کوئی آیات نہیں پڑھتا۔ابا سائیں کو ہمارے ساتھ یوں نہیں کرنا چاہیے تھا سندھیا۔”

”یہ فیصلہ اُن کا نہیں اللہ سائیں کا تھا۔”

”تو اللہ سائیں کیا ہماری مرضی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟”

”ہماری عقل پر نہیں چلنے والا اللہ سوہائی۔تجھے پتا ہے سوہائی ابا سائیں کہتے تھے ہماری عقل مٹی کھاتی ہے۔جیجی نے کہا تھا ایسے لوگ کم ہوتے ہیں ابا سائیں جیسے، سدا ہنستے ہوئے، اللہ سوہنے کے گُن گانے والے۔”

”اور سندھو یاد ہے نا اللہ سوہنے کے سارے فیصلے آنکھوں پر رکھتے تھے ابا، کہتے تھے کہ اللہ چنگا سوہنا، باقی سارے کوجے۔”

”اس کے فیصلے کو نہ برا کہہ، بس دل تو اداس ہے، پر دیکھنا ابا بڑا خوش رہتا ہوگا۔”

”اب تو میرا نکاح بھی ہوگیا ہے۔ سارنگ میرے ساتھ جیسا بھی ہو۔”

”سارنگ ان کے لیے اچھا تھا۔”

سوہائی نے کندھے پر سر رکھ دیا۔

”تو بھی ان کی خاطر خوش ہوجا سندھیا۔”

”پتا ہے سوہائی ایک عورت کو خوش رہنے کے لیے بس عزت چاہیے ہوتی ہے۔کبھی سوچتی ہوں، سارنگ نہ ہوتا، بس ہوتا کوئی گاما، کوئی راول، کوئی مٹھل، کوئی ماجھا، بس سندھو کی قدر کرتا۔سندھو سندھو کہتے نہ تھکتا، اباسائیں دیکھ کیسا تھا عمر گئی ساری حیاتی سبھاگی سبھاگی کرتے۔ابا نے اماں کو سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا تھا۔بس محلوں میں نہ رکھ سکا۔ دل میں تو رکھا نا سوہائی۔ دل میں تو رکھا۔” سندھو کی اداسی گہری تھی۔ 

”جیجی ماں کہتی ہیں عورت بڑی نا شکری شے ہے۔ مرد جب محل چڑھائے تو کہے دل میں نہیں رکھا اور جب دل میں رکھے آنکھوں پر بٹھائے، تب وہ محلوں کے سکھ کے خواب دیکھ دیکھ کر ترس کر زندگی دیتی ہے۔پر نہ سوہائی عورت سو واری محلوں کی مالا جپے، اسے چاہ پھر بھی دل کی ہوتی ہے۔”

سوہائی نے اسے تسلی دینی چاہی اور کہنے لگی۔

”سارنگ ادا ایسے نہیں ہوں گے، دیکھ سندھو ابا سائیں اچھے تھے، چاچا سائیں اچھے سارنگ ادا بھی ان ہی کا خون ہیں۔”

”سارنگ شہری ہوگیا ہے سوہائی۔ اس کے طور طریقے ہی نہیں بدلے خود ہی بدل گیا ہے۔”

”چچی ماں نے صحیح کہا تھا،تو بڑی ناشکری ہے۔ سارے گوٹھ سے چن کر ہیرا تجھے ملا ہے اور تو ہے کہ شکر ہی نہیں کرتی ہے۔”

”تجھے نہیں پتا سوہائی دل کے معاملوں کا، ابا نے چاہے پیسے کا سکھ نہ دیا ہو۔ اماں کو دل کا سکھ تو دیا نا۔تجھے پتا ہے؟ میں نے دیکھا ہے جب اکیلی ہوتی ہیں کیسی روتی ہے میری ماں۔اس رات کہہ رہیں تھیں، مولا بخش قسم اللہ پاک کی، تو جب تھا میرا دل زندہ تھا تو مرگیا تو دل بھی مرگیا۔کہتی رہیں مجھے تیری قدر آگئی ہے مولا بخش۔

وہ شوہر کے پیسے کو نہیں پیار کو ترستی ہیں۔

یہ رشتے پیار سے بندھتے ہیں۔

چل پیار نہ سہی سوہائی، قدر تو ہو۔

مگر میری تو کوئی حیثیت نہیں، یہ کچھ نہیں ہے کہ میرے ساتھ بُرا ہوا۔

دکھ تو یہ ہے کہ وہ بھی ناخوش ہے سوہائی۔ اس کے ساتھ بھی برُا ہوا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔”

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!