سارنگ جب پہنچا تو شیبا ایک گھنٹہ پہلے وقت نکال کر ائیر پورٹ پر موجود تھی۔

اس کے لیے بہت اہم تھا کسی کا اس قدر انتظار کرنا۔

اس کا لہجہ اس کی بے صبری بہت کچھ بتارہی تھی۔

کچھ اور نہیں تو وہ خوش ہوگیا۔

اس کے ساتھ گھر تک آنے تک وہ بہت کچھ ڈسکس کرچکی تھی۔ کانفرنس، اس کی تیاری، بیچ کا وقت، نئی کلاس کا سمسٹر، کلاس ٹیچر کی تنبیہی باتیں جو اسے بکواس لگتی تھی۔اسٹوڈنٹس کے خواب اور سر کی اکتاہٹ سمیت بہت کچھ۔نئے سمسٹر کی تیاری کے ساتھ اُبھرنے والے تمام خدشات اور خواہشات۔

سارنگ کو لگا ان دو اڑھائی گھنٹوں میں اس نے زندگی جیت لی ہو۔ اپنی ساری فکریں وہاں چھوڑ آیا ہو۔

بس یہاں اس کی زندگی تھی اور خواب تھے۔ دوڑتی ٹریفک تھی اور بھاگتے ہوئے لوگ تھے۔ سب آسمانی کہکشائوں سے بے خبر، مگن اپنی ہی دھن اور زندگی میں۔ ہر روز اک نیا باب لگاتے۔

محنت کماتے،خواب بچھاتے۔سب کچھ اس قدر آسان اور اتنا مشکل۔

اسے لگا تازہ ہوا اس کے لیے کُھل گئی ہے۔دوست اور دوست کی توجہ اور اس کی باتیں، رات ڈنر تک۔

ڈنر کے بعد وہ وہیں رُکا۔ شیبا کافی بنالائی، دونوں بہت خوش تھے۔

وہ اور وہ۔

لڑکا اور لڑکی،دوست اور دوست۔

شہاب بس وہ دو مسکراہٹیں دیکھ کے اطمینان محسوس کرلیتے تھے۔ اتنے عرصے بعد لگا جیسے اب سب مُٹھی میں، اب سب آسان۔ سب ہی آسان۔

فرح بھی خوش تھیں۔ ”شکر ہے سارنگ آگیا۔آپ نے دیکھا آج شیبا کتنی خوش ہے؟”

شہاب زیر لب مسکراتے اور کہتے۔ ”صبح سے بہت پُرجوش تھی اور اب خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی۔”

”میں خوش ہوں شہاب۔ بس جلدی سے کوئی مکمل اور پکاّ نام مل جائے اس جوڑے کو۔”

لڑکا اور لڑکی۔

دوست اور سہیلی، بھروسا اور مان۔

سارنگ نے کیسے سوچ لیا کہ بس دوستی، بس سچ۔

اسے پتا لگنا تھا۔ بس دوستی، مگر بہت کچھ۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!