وہ وہی شام تھی جب پھولوں کا گلدستہ لیے وہ اس کے گھر آئی۔

وہ گھر جہاں ہر جگہ وہ تھی۔

لونگ روم کی بڑی سی کھلی دیوار پر اس کی پسندیدہ پینٹنگ ویلکم کرتی تھی جو اس نے خرید کر سارنگ کو تحفے میں دی تھی۔اس گھر میں فرنیچر اس کی پسند کا تھا، سارنگ کے ساتھ مل کر پسند کیا پھرخریدا تھا۔ان دونوں نے مل کرسیٹ کیا تھا، چیزوں کی خریداری سے لے کر سجاوٹ تک وہ ساتھ تھی۔

شیبا تھی اس گھر میں، بس چاہا زندگی میں بھی ہو تو کچھ غلط تو نہیں، آخر وہ مزید کتنا سوچتی اس کا انتظار کرتی۔اس نے خود ہی یہ رسک لینا چاہا۔پھول لیے آئی، اسے تھمائے۔

سارنگ کو کچھ بھی نیا محسوس نہیں ہوا۔وہ اسے اندر لے آیا۔ چائے بنانے کچن میں گیا۔ اس کے کاغذات کُھلے تھے۔وہ فائلیں الٹنے پلٹنے لگی۔

اور ادھ کھلی دراز میں عین سامنے کوئی تصویر الٹی پڑی تھی۔بس وہی لمحہ تھا جب اس نے تصویر سیدھی کرکے نکالی۔کوئی لڑکی ہلکے سے میک اپ میں سُرخ رنگ کی چنری اوڑھے سر جھکائے بیٹھی تھی۔

اس کا دل دھڑکا۔

وہ چائے کے مگ لیے باہر آیا تھا۔

”سارنگ یہ کون ہے؟”

حالاں کہ تصویر کے پیچھے نکاح کی تاریخ درج تھی۔

مگر وہ سوچنے لگی کس کا۔

بس ایک دو لمحے کا وقفہ تھا، پھر دو لفظوں کا وہ بھاری بے تاثر جملہ۔

”میری منکوحہ۔”

شیبا کو لگا اس کے اوپر دیوار گر گئی۔

اینٹیں جھڑرہی تھیں۔

وہ ہونق بنی بے یقینی سے اس کی طرف دیکھے جارہی تھی۔

اسے آج محسوس ہوا کہ شکست کیا ہوتی ہے؟

آج پتا چلا خوشی کیا ہوتی ہے؟ اور اس سے جڑی خوش فہمی کیا ہوتی ہے؟

پتا چلا بہت کچھ، دل کیا اسے پکڑ کر جھنجھوڑ دے،ماردے جان سے۔

مگر اس سے پہلی بار کچھ نہ بولا گیا۔دو لفظوں کے جملے نے سب کیے کرائے پر پانی پھیردیا۔

باقی کیا بچا؟نہ بھروسا، نہ اعتماد، نہ حوصلہ۔

ایک کمزور سا لہجہ، وہ اس کی کیفیت سمجھنے کی کوشش میں بیٹھ گیا۔اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔

”شیبا!”

بس ایک لفظ کا جملہ۔

”شیبا!” لہجہ خالی کھوکھلا۔

اس نے ہاتھ چھڑایا،کہنے سننے کو کیا رہتا تھا۔

اس کے پاس وضاحتیں تھیں، لفظ نہ تھے۔

وہ پہاڑ سمیٹ کر اٹھی، خاموشی سے باہر نکل گئی۔

بس اس کے پیچھے ایک صدا، پھر بند دروازہ۔

اگر یہ فریب نہیں تھا تو سچائی چھپانے کی کم ظرفی کیا کم تھی؟

عدالت میں کھڑا تھا خود اپنے سوالوں کے حصار میں، شرمندہ بوجھل، ہارا ہوا۔

پھر ایک باب کُھلا جرم کا، عدالت ہوئی،مجرم کھڑا، وہ پیش تھا۔

ایک طرف حقائق تھے۔دوسری طرف دل تھا۔

بیچ میں بے چارہ انسان کھڑا تھا۔

غلطیاں کرنے والا،دل جوڑکر توڑدینے والا۔

خوشی دے کر خوشی چھین لینے والا۔

سکھ کا سانس نہ لینے والا۔

وہ جو ایک دل تھا،بے چارا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!