صبح بن ٹھن کر کمرے سے نکلے۔ ”شہر جارہا ہوں کسی کو کوئی کام ہے؟”

بلند آواز میں پوچھا۔

سوہائی نے سندھیا کو ٹہوکا دیا۔

”خط لا۔”

سندھو نے نفی میں سر ہلایا۔چاچا دیکھ رہا تھا۔

”سندھو! ذرا ادھر آ۔”

اسے بلایا تو جھجکتی ہوئی آئی۔

”جی چاچا سائیں!”

”خط لکھا؟” رازداری بھی کوئی شے ہوتی ہے۔

وہ جیسے پانی پانی ہوگئی۔

”جی۔” حلق سے بس اتنا نکلا۔

”چل پھر لا۔”

سر پر پیار بھری چپت لگائی۔

وہ کمرے تک گئی۔ چاچے نے دہلیز پر کھڑے کھڑے خط لیا، رازداری سے چھپا کر جیب میں اُڑس لیا۔

”چل اب تو جا۔”

چاچا جیسے کسی سہیلی کی طرح دکھتا تھا۔

وہ کمرے میں چلی گئی۔

چاچا جیجی سے دعا لیتا، بھرجائی سے راشن سامان کی چٹ پکڑتا،سوہائی کی جلیبیوں کی فرمائش نوٹ کرتا،  سلام کرتا باہر نکل گیا۔

سندھو کا دل زور زور سے دھڑکا تھا۔اللہ جانے کب پہنچے؟ کیسے؟ کس طرح وہ کیا سوچیں گے؟جواب دیں نہ دیں۔

”پھر واہمہ، کتنا کہا ہے وہم نہ رکھا کر چری۔”سوہائی نے سمجھایا تو کچھ ڈھارس ملی، سمجھ آیا۔

اب دوسرا مرحلہ تھا۔ اس کے خط کا انتظار کرنا، دروازے پر پڑتی ہر دستک کے ساتھ اس کے کان کھڑے ہوجاتے تھے۔

”خط،خط،خط۔”

ایک بار ڈاکیا آیا، کوئی خط نہ لایا۔

وہ پھر افسردہ۔

چاچے نے سارنگ کو فون کرکے سُنادیا۔وہ چُپ ہوگیا۔ اب کیا کہتا کہ اس ٹیڑھی میڑھی لکھائی کی چند سطریں جو آدھی اس کے پلے پڑیں تو آدھی نہیں۔ وہ کیا جواب دیتا مگر اسے بہرحال لکھنا تھا،برا پھنسا۔

سوچنے لگا، یہ جسے خط تک ڈھنگ سے لکھنا نہیں آتا،سندھیا،اس کی منکوحہ، گلے میں جیسے کوئی گولہ پھنس گیا۔وہ الجھ ہی گیا تھا۔

اس کا انتظار بڑھتا ہی گیا تھا۔

مہینہ ہونے کو آیا، جب بھی دروازے پر کڑا پڑتا، جب بھی کوئی صدا آتی، دل کہہ اٹھتا،

ڈاکیا آیا!ڈاکیا آیا۔

چاچا سائیں ایک چٹ لے کر آرہے تھے۔

اسے یقین آیا نہ آنا تھامگر یہ اسی کے نام کی چٹھی تھی۔سوہائی نے نعرہ مارا۔

وہ چاچے سے خط پکڑ کر کمرے میں گھس گئی۔

چاچا ہنستا ہوا منجی پر بیٹھ گیا۔ ”بھرجائی کوئی روٹی مانی کھلا۔”

”آئی ادا، ابھی لائی۔”

ماں نے سندھیا کے چہرے پر نظر ڈالی۔ روٹی لے کر گئی۔ حسن کے لیے ساگ، پیالا، مکئی کی روٹی، بھُنے ہوئے چنے، اور لسی کا پیالہ۔

پلٹی تو مسکرائی۔

”اللہ میری بچی کو ایسے ہی خوش رکھے۔”

سوہائی نے سندھیا کی ناک میں دم کیا ہوا تھا۔”جلدی پڑھ، مجھے بتا۔ میں نہ کہتی تھی سارنگ ادا خط لکھے گا، ضرور لکھے گا۔”

مگر یہ کیا، اس نے خط کھولا، چٹ کو گھورتی جیسے آنکھیں پتھرا گئیں۔

”چھاتھیو سندھو؟” سو ہائی حیران تھی۔

” خیر ہے نا، بول، بول نا۔” جھنجھوڑ ڈالا۔

” کیا لکھا ادا سارنگ نے؟آخر ایسا کیا لکھا؟بتا نا۔”

 اس کے حلق میں جانے کیا تھا۔ جیسے پھنستا ہوا سا۔

 ”انہوں نے بس سیدھی سطریں لکھی ہیں۔”

” دو سیدھی سطریں؟ پر وہ کیا؟”

”امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی، آپ سب اچھے ہوں گے۔

گھر والوں کو سلام،فقط سارنگ۔”

وہ رُک رُک کرپڑھنے لگی۔

سوہائی جیسے بت بن گئی۔

” اتنی دور سے پیسے خرچ کر کے خط بھیجااور بس اتنا۔”

” اب نہ کہنا سوہائی کہ خط لکھ، اب نہ کہنا۔” آنکھیں بھرآئیں سندھو کی۔

سوہائی افسوس سے کھڑی تھی، سارا جوش ٹھنڈا پڑگیا۔

اس نے سوچا سندھو کو وہ اب کیسے بہلائے گی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!