وہ رات کو سونے سے پہلے کال کرتا تھااور شیبا صبح جاگنے کے بعد۔

ابھی رات سونے سے پہلے کا ٹائم تھا۔

”بہت دیر ہوگئی، میں سمجھی تم سوچکے ہوگے۔”

”ہاں، سونے ہی لگا تھا۔بس عادت جو ہوگئی ہے تم سے بات کرنے کی۔”

”یہ تو ہے،ایسی عادتیں پال لی ہیں۔ سوچ لو پچھتانا تو نہیں پڑے گا؟”

وہ شوخی سے جتانے لگی۔

وہ ہنس دیا۔

”ہاں، یہ تو سوچا ہی نہیں۔”

”کیا ہوں ہاں لگارکھی ہے؟کچھ تو بولو۔”

”تم بولو میں سُن رہا ہوں۔ ہمیشہ سے سنتا آیا ہوں۔”

”اگر ہمیشہ کے لیے سننا پڑجائے تو کیا کروگے،کبھی سوچا ہے؟” کچھ باتیں اسی طرح کہی جاتی ہیں۔

”ہمیشہ کا ڈراوا دے رہی ہو؟” وہ مُسکرایا۔

”نہیں۔ پوچھ رہی ہوں۔”

”اچھا چلو چھوڑو کوئی اچھی بات کرو۔”

”کیا اچھی بات کروں؟کیا سننا چاہتے ہو؟”

”کچھ بھی۔ کچھ بھی عام سا۔”

”عام سا کیوں، کچھ خاص سا کرتے ہیں۔”

اس نے کہتے ہوئے فون دوسرے کان پر رکھ لیا۔

”اپنے بارے میں بتائو۔”

”جو پوچھو۔” وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

”فیوچر کے بارے میں کیا سوچا؟”

”فیوچر خود ہی اپنے بارے میں سوچے۔ میں کیوں سوچوں۔” وہ مُسکراتے ہوئے کھڑکی تک آیا، کہنی ٹکا کر باہر جھانکنے لگا۔

کانوں میں ہیڈفون کے سوئچ پڑے تھے۔ گریبان تک تار لٹک رہا تھا۔

اس کے بال ہوا سے اڑنے لگے، جیسے ننھے ننھے کھیتوں کے پودے،سیاہ پودے۔

وہ اس سے بات کرنے میں مگن تھا۔

”کیسا لگتا ہے کسی کے ساتھ منسوب ہوجانا سارنگ؟”

”مجھے نہیں پتا، میں نے کبھی سوچا نہیں ہے۔” سارنگ کا دل جیسے خالی ہوتا جارہا تھا۔

سوال ہی ایسا تھا۔

وہ اب اس سے زیادہ کُھل کر کیا کہہ پاتی۔

”سب کچھ ہمارے چاہنے کے مطابق ہوجاتا ہے کیا؟” وہ پوچھنے لگا۔

”کیوں نہیں ہوسکتا؟ اگر ہم چاہیں توکچھ بھی ہوسکتا ہے۔”

”اور اگر ہمارے چاہے بغیر کچھ ہوجائے تو؟”

”نہیں، اس میں بھی ہمارا کچھ تو اختیار ہوتا ہی ہے۔”

”ہم اگر نہ چاہیں تو۔” وہ سوچ میں پڑگیا۔

”تم کیا سوچ رہے ہو سارنگ؟” اس کا لہجہ بھانپ گئی فکرمند سا۔

”کچھ نہیں، بس سوچ رہا تھا کہ…”

”کیا؟”

”یہی کہ تم بہت اچھی ہو۔”

”اچھا؟” کھکھلاکر ہنس دی۔ ”اچھی ہوں یا تمہیں اچھی لگتی ہوں؟”

”ایک ہی بات ہوتی ہے۔اچھا لگنا یا اچھا ہونا۔”

”نہیں، کچھ الگ بات ہے لگنے اور ہونے میں۔” وہ معنی خیز مُسکرائی۔

کبھی کبھار بالکل بے تکی باتوں کے اندر کس قدر کشش اور جاذبیت ہوتی ہے۔کس قدر مٹھاس اور نرمی جھلکتی ہے۔کتنا خلوص ہوتا ہے مگر پھر سب کچھ اچھا ہے میںکچھ گڑبڑ کیوں ہوجاتا ہے۔

وہ کہنا چاہتا تھا۔

میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ایسی ہی باتیں کرتے ہوئے وقت گزاردینا چاہتا ہوں شیبا۔

میں ہمیشہ تمہاری ایسی ہی باتیں سنتے ہوئے وقت گزاردینا چاہتی ہوں سارنگ۔

بہت ساری باتیں ان کہی ہوتی ہیں۔بہت ساری باتیں لہجے کرتے ہیں۔لفظوں سے دور، بولتے ہی جاتے ہیں۔

شیبا کو محسوس ہوا آج اسے نیند نہیں آنی۔

سارنگ کی نیند تو پہلے ہی اڑی ہوئی تھی مگر کسی خیال کی مایوسی سے کہنے لگا۔

”سوجائوں؟ نیند آرہی ہے بہت۔” جمائی لی۔

”روزانہ مجھ سے پوچھ کر سوتے ہو کیا؟” وہ ہولے سے مُسکائی۔

”روزانہ بتاتا ہوں۔” وہ مُسکرایا۔

”آج پوچھ رہا ہوں۔”

”روزانہ سے آج کچھ الگ نہیں ہے کیا سارنگ؟”

وہ بس اب اس دیوار کو پاٹنا چاہتی تھی۔ اس سے سب کچھ سچ سننا چاہتی تھی۔

”ہاں، بہت اچھا لگ رہا ہے۔”

”تو پھر کیا سوچا؟”

”کل صُبح کلاس میں ملیں گے۔” وہ بات بدل گیا۔

”بات بدلنے کے ماہر ہو۔”شیبا مسکرادی۔ 

”کمزور ہوں نا اس لیے۔” وہ ہنس دیا۔

”پاگل ہو۔”

”اب سوجائو، کل ملیں گے، اپنا خیال رکھنا۔”

”تم بھی رکھنا۔”

سارنگ فون آف کرکے رکھنے کے بعد بھی بہت دیر اسی کھڑکی سے لگا کھڑا رہا۔

ہوا چلتی رہی،بال اُڑتے رہے۔کھیتوں جیسے پودے، سیاہ پودے،چھوٹے چھوٹے پودے۔

شیبا اپنے کمرے میں بستر پر بیٹھی رہی۔ بیٹھے سے لیٹی اور آنکھیں بند کیں، نیند کا خیال آیا۔ مگر نہیں، سارنگ ہر جگہ آجاتا تھا۔

کھڑکی، درودیوار، ہر جگہ سے۔ اس کا خیال ہر جگہ سے آجاتا تھا بے دھڑک۔

اس کا خیال بہادر تھا۔اے کاش کہ وہ بھی ہوتا۔

مگر کچھ نہیں ہوتا۔ یہ مشکل میں حل کردوں گی تمہاری سارنگ۔

کوئی بات نہیں اگر اظہار میں تمہیں دقت ہے۔ کیا ہوا اگر میں ہی کہہ دوں۔ محبت میں کیسا حساب اور کہاں کی کتاب۔ سب جگہ محبت، حساب میں بھی اور کتاب میں بھی سب جگہ محبت۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!