وہ کب سے سارنگ کا نمبر ملا رہی تھی، جو کبھی بند جا رہا تھا تو کبھی ”رابطہ ممکن نہیں ہے” کی ریکارڈنگ چل رہی تھی۔ اب نمبر لگنے کے باوجود وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ اس کا جی چاہا تھا فون پٹخ دے۔
ایسا کیا مسئلہ ہے جو وہ میرے ساتھ شیئر کر سکتا ہے اور نہ بتا سکتا ہے۔فون تو اُٹھالے کم از کم۔
آلینے دو، اب اس کا فون میں بھی نہیں اُٹھائوں گی۔
خود سے دعویٰ کرنے والی یہ بات جانتی تھی کہ بس آلینے دو فون، پہلی رنگ بجے گی دوسری بجنے نہ دوں گی فون اٹھا لوں گی۔وہ تو بس غصہ بول رہا تھا کہ نہیں اٹھائوں گی۔
مگر دل تو غصے میں ہمیشہ اُلٹا ہی کہتا ہے اور مانی ہمیشہ دل کی جاتی ہے، غصہ کبھی کبھار اپنا آپ منوا لیتا ہے مگر دل جب غصے سے جنگ کرنے لگے تو سمجھو معاملہ بڑا ہے۔
اسے ان دنوں میں اچھی طرح سے محسوس ہوا تھا کہ وہ دو کشتیوں کے سوار کو پیچھے نہیں چھوڑ پائے گی۔ وہ خود سے ہار رہی تھی۔
زندگی میں پہلی بار شیبا شہاب ہار رہی تھی۔
گوٹھ کے ایک دیہاتی نوجوان سارنگ سے یا پھر اپنے دل سے، کہنا دشوار تھا۔ بات سمجھ آرہی تھی۔
وہ کئی بار ملانے کے باوجود پھر سے خاموش اسکرین کو تک رہی تھی۔
اور اسکرین جیسے بس اسی ایک کال کی منتظر تھی۔
٭…٭…٭