شریکِ حیات قسط ۵

”دھی ہے وہ اس گھر کی،ہم سب کی۔” آج بھرائی کی زبان پھر اس کے خلاف چل رہی تھی مگر دل نرم تھا۔ ”اس کا دکھ دیکھا نہیں جاتا مجھ سے۔” کسی حد تک وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی، لاکھ سنگ دل سہی، رشتہ اور خون کبھی نہ کبھی پلٹتا ہے۔بھائی کی موت کا سُن کر اس سے نہ رہا گیا، اسی وقت بھاگی ہوئی آگئی۔

اب نیا کھیل ہی سہی مگر بھتیجی کی ہمدردی نے اسے مجبور کیا تھا۔ شاید پہلی بار اسے سندھیا کی اُداسی کھلی تھی۔ لگا تھا جیسے کچھ بُرا ہوا ہے۔ وہ چاہ رہی تھی کہ سندھیا پھر سے مُسکرانا شروع کر دے۔ 

”میں اسے دوبارہ مانگتی ہوں۔ اپنے صادق کے لیے پھر ایک بار مانگتی ہوں۔”

جیجی کے کان کھڑے ہو گئے۔

حسن نے تحیر سے دیکھا اور بے چارگی محسوس کی۔ کاش یہ جملہ وہ بول پاتا۔ وہ تو بھرائی سے بھی بے ہمت نکلا۔ اسے تو اتنا بھی بھروسا نہیں ہے، خود پر نہ بیٹے پر۔ ساری طاقت جیسے اک لمحے میں ڈھے سی گئی ہو، ریت کے پہاڑ کی طرح۔

”انکار نہ کرنا جیجی ماں۔ بڑی حسرت سے کہا ہے ۔صادق جیسا بھی ہے گھرکا بچہ ہے، اس کے جوڑ کا ہے۔ شادی شدہ سہی پر ہے تو اپنا خاندانی خون۔وہ دوسری بیوی دنیا کی نظر میں، میرے پاس پہلی سے بڑھ کر رہے گی۔”

”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بھرائی۔ سبھاگی سے پوچھ لے۔ ”

”نہ اماں، اب نہیں۔” حسن بخش فوراً اُٹھا جیسے ریت کا پہاڑ سا کھڑا ہوا۔ بڑا وزن معلوم ہوا اسے۔ دعویٰ کرنا کہاں آسان ہوتا ہے کسی بھی چیز کا۔

”جیجی ماں سندھیا میرے سارنگ کی کنواردلہن بنے گی۔”

چوکھٹ کی طرف بڑھتے ہوئے سارنگ کے قدم یک دم رُک گئے۔

”اے بھا!تیرا سارنگ مانے گا تب نا۔” بھرائی پہلے لمحے حیرت کاشکار ہوئی مگر دوسرے ہی لمحے طنز سے بولی۔

جیجی نے حسن کی طرف دیکھا۔

”مانے گا۔ کیوں نہیں مانے گا، میرا پٹ ہے۔ اس گھر کا بچہ ہے۔”

حسن کے چہرے پر اعتماد نہ جانے کہاں سے آگیا۔

اور سارنگ کے چہرے پر صرف دھواں تھا۔اسے لگا قدم چوکھٹ پر ہی جم گئے۔وہ دوراہے پہ کھڑا ہے، نہ اِدھر کا رہا اور نہ اُدھر کا۔

رستہ پھر کہاں تھا؟

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!