شریکِ حیات قسط ۵

”مجھے پتا ہوتا تو پہلے چکر لگا لیتا، ان سے مل لیتا، دیکھ لیتا، بات کر لیتا۔ پتا ہی تو نہیں چلا تھا۔”

وہ کھیتوں کے کنارے کنارے چلتے ہوئے جا رہے تھے۔ ”کتنا اچھا بہانہ دیا گیا انسان کو، پتا نہیں تھا، پتا ہی نہ چلا۔” انہوں نے سارنگ کی بات دُہرائی تھی۔

”ہاں ٹھیک کہتے ہیں آپ،بہت اچھا بہانہ۔”

”ہر جگہ محسوس ہوتے ہیں۔ نظر آتے ہیں جیسے۔ یقین نہیں ہو پاتا ان کی غیر موجودگی کا۔ بہت اچانک چلے گئے ہیں۔”

”اچانک نہیں سارنگ، اس کے جانے کا دل کو دھڑکا ہر وقت رہتا تھا مگر اب بہت بوجھ ہے۔ ادھر، میرے سینے پر۔ لگتا ہے جیسے پہاڑ ہے، ہٹے گا نہیں۔ دل اس بوجھ کو سہہ نہیں پا رہا۔ چھلنی ہو گیا ہے۔ بہت قرض چھوڑ گیا ہے۔”

”قرضوں کی فکر نہ کریں آپ۔ قرضے اتر جاتے ہیں۔ ”

”پیسوں کے قرض تو اُتر ہی جاتے ہیں مگر محبت کا قرض کون اتارے گا۔محبت قرض نہیں فرض کی طرح نبھائی جاتی ہے اور انہوں نے نبھائی۔اب ہماری باری ہے سارنگ۔ اب ہماری باری ہے۔ وہ کبھی قرضوں اور ذمہ داریوں سے نہیں گھبرایا۔ وہ دلیر تھا۔ اس کے اندر شیر کے دل سے بڑا دل تھا اور ہمارا دل بہت چھوٹا ہے۔”

”کبھی کبھار انسان کچھ نہیں کر پاتا اور نہ سہہ پاتا ہے۔ ہمارا دل بھی بڑا ہے فکر مت کریں سب کچھ ہو جائے گا۔” اس نے باپ کو ساتھ لٹکایا۔

”چلنا ہے چاچا سائیں سے ملنے؟”

”نہ سارنگ نہ۔ تو جا، جا کر اس سے مل اس سے بات چیت کر۔ میں نہیں جائوں گا۔ میری ہمت نہیں ہے۔ دل نہیں مانتا سارنگ۔ ایک بار اُسے مٹی میں اتار آیا، بار بار جا کر دل کا خون نہیں کر سکتا۔”

”آپ جا کر آرام کریں۔ میں ہو آتا ہوں۔” ابا کو گھر روانہ کیا، خود قبرستان کی راہ لی۔ 

صبح سویرے خیرات کی تھی ۔ مزدوروں اور فقیروں میں کھانا بانٹا تھا، پیسے بانٹے تھے، کپڑے دیے تھے، قرآن کے ختم دلوائے تھے۔ صلوٰة و تسبیح کا اہتمام کروایا تھا۔اور صبح سے یہی سوچ رہا تھا اور کیا رہتا ہے؟ باقی کیا کرنا ہے؟ کس کام سے وہ ان کا دل جیت سکے گا انہیں منا سکے گا۔

آخری آواز کانوں میں گونجتی تھی۔

”سارنگ بول سجن۔ بول دے سارنگ۔”

”جو دل میں ہے وہ بول دے۔” تب چپ تھا آج بولنے کے لیے مٹی کے ذرّے کے سامنے بیٹھا تھا۔ تازہ پھول قبر پر پڑے تھے۔

وہ بات کرنے کے لیے بیٹھا تھا مگر بات کرنے کو جیسے کچھ نہ بچا تھا بس آنسو تھے۔

”میں بہت بڑا مجرم ہوں آپ کا۔” وہ قبر کی مٹی ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔

”اور کبھی ایسا نہ ہو سجن کہ میں تجھ سے بات نہ کروں اور تو بولتا ہی رہے۔میں تیرا فون نہ سنوں۔ تجھے جواب نہ دوں۔ تیرا اصرار بڑھتا ہی رہے۔چاچے کو چپ لگی ہوئی ہو۔”

اس نے دُعا کی تھی کہ ایسا دن کبھی نہ آئے۔

مگر آگیا تھا۔

سارنگ بول رہا تھا۔ چاچے کو چپ لگی ہوئی تھی۔یہ ایسی چپ تھی، جو کبھی نہیں ٹوٹتی۔

انسان ٹوٹ جاتا ہے، چپ نہیں ٹوٹتی۔

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل جاتی ہے۔

بندہ مٹی بن جاتا ہے۔بندے کو پتا ہی نہیں لگتا۔

جدائیاں پڑ جاتی ہیں۔

چاچے کا لہجہ کون بھول سکتا تھا۔

کبھی بیٹھ کر یاد کرے گامیری باتیں،ساری باتیں۔

ایک تیرا چاچا اور اس کی گھڑولیاں۔

مٹی ہاتھوں سے پھسل گئی۔

”چاچا آپ خوش ہیں؟اپنے نئے گھر میں خوش ہیں نا؟”

کتنا عجیب لگتا ہے نا بغیر جواب کی امید کے بولتے ہی رہنا۔

بہت عجیب لگتا ہے۔ اسے پہلی بار معلوم ہوا۔

” آپ تو اپنے نئے گھر میں اتنے خوش ہیںکہ بولتے بھی نہیں۔”

کوئی جواب نہیں تھا۔ کہیں سے کوئی صداپلٹ کر نہیں آئی بول سارنگ۔

فقط دل کے اندر۔

”چل سونے دے یار سارنگ تنگ نہ کر۔”

اسے یاد آیا جب چاچے کے سینے پر چڑھ کر بیٹھتا تھا اور وہ جھوٹا موٹامنہ بنا کر کہتے سارنگ چھوڑ سجن سونے دے یار۔

”بڑی ننڈ لگی آ (نیند لگی ہے)۔”

وہ اُٹھا۔ میں جا رہا ہوں مگر آپ سے کہہ کر جا رہا ہوں۔ بہت خوش رہنا ہے۔ آپ تو ہرحال میں خوش رہتے ہیں نا چاچا۔ اپنے نئے گھر میں بھی خوش ہوں گے۔ چاچا، ہم سب آپ کے بغیر کچھ نہیں۔ ہم آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ اور بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہیں سکا۔ اسے لگا مٹی کے اندر سویا ہوا سب سمجھ رہا ہے۔

چاچا میں آپ کو کچھ نہ دے سکا۔

آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔

ایسے لگا جیسے چاچا نے بہ غور اسے دیکھا ہو۔

”تو اب بھی مجھ سے خفا ہے نا چاچا؟”

”چل معاف کر دے۔ سارنگ تو تیرا بچہ ہے۔ تو ہمیشہ میری غلطی معاف کر دیا کرتا تھا، اب بھی کر دے۔ تیرا دل اللہ نے بڑا بنایا ہے۔ تیرا دل بہت بڑا ہے۔”

وہ بول سکتے تو کہتے کہ سارنگ اس دنیا میں صرف اللہ بہت بڑا ہے۔ باقی سب کچھ چھوٹا ہے۔ اللہ سوہناں بہت بڑا ہے اس کا دل بھی بہت بڑا ہے سب معاف کر دیتا ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!