کبھی کبھار نظر جہاں ہوتی ہے وہاں بندہ کچھ نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ جہاںپر دیکھ رہا ہوتا ہے، وہاں نظر نہیں ٹک پاتی۔ وہ بھی خدا جانے کہاں پہنچی ہوئی تھی۔
وہ کتنی دیر سے اس کے سامنے بیٹھا تھا۔اس کے پاس لفظ نہیں تھے۔ وہ بس خاموشی سے بیٹھا تھا اور وہ تو تھی ہی ہمیشہ کی چپ۔سوہائی مایوس ہو کر کھانے کی ٹرے واپس اُٹھا کر لے گئی، جب سارنگ اندر آرہا تھا اور اس نے بتایا کہ وہ کچھ نہیں کھاتی، نہ بات کرتی ہے، نہ روتی ہے۔ وہ یہاں بیٹھ کر کیا کرتا۔ اسے یہ کہتا کہ موت برحق ہے صبر کرو۔
اسے پتا تھا یہ کہنا بہت آسان ہوتاہے۔
مگرصبر نامی لفظ جس پر گرتا ہے، آسمانی بجلی گرا کر اُٹھتا ہے۔ سب جل جاتا ہے اندر تک اور اس کے بعد چیخیں بھی سنائی نہیں دیتیں۔اسے لوگ عام فہم زبان میں صبر کہتے تھے۔ وہ صبر ہی سے گزر رہی تھی۔
وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ سندھیا چیخو چلائو۔شور مچائو پاگلوں کی طرح، بین کرو جاہلوں کی طرح،شکایت کرو رب سے بے ایمانوں کی طرح۔ اس کی چاچی نے صرف یہ پڑھا کے بھیجا تھا کہ سندھیا کو بس یہ یقین دلانا ہے کہ اس کا باپ مر گیا ہے اور یہی یقین جو وہ خود کو دلانے میں ناکام رہا تھا سو اسے کیسے دلا پاتا۔
وہ خود توڑ پھوڑ کا شکار تھا۔ ختم ہو رہا تھا، گھل رہا تھا۔ہر گلی کوچے، او طاق اور گھر سے گزرتے ہوئے کسی کے قدموں کی چاپ کو مس کر رہا تھا۔
پہلی بار ایسا ہوا کہ زندگی سے بھرپور کوئی آواز اس گھر میں نہ گونجی ۔
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کھیتوں پر زوروں کی ہوا چلی اور کسی نے ریڈیو نہ بجایا۔
پہلی بار ٹریکٹر خاموشی کے ساتھ چلا اور اس کے پہیوں کی آواز پر مولا بخش کی گنگناہٹ نے پردہ نہ ڈالا۔
نہر سے لے کر کھیت، کھیتوں سے لے کر سڑک، سڑک سے لے کر گھر، گھرسے لے کر اوطاق تک سناٹا تھا۔
اور وہ اسے کہتا کہ صبر کرو۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا وہ اپنے لفظوں کو ایک ایک کر کے جمع کرتا تو بھی نہ سمیٹ پاتا۔
وہ اس کی خالی آنکھوں کو دیکھ کر کچھ کہہ نہیں پاتا۔
سندھیا کے اندر ڈھیر سارے سوال تھے۔
مگر اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
کہنا چاہتا تھا مجھے بھی فرق پڑا ہے۔
کہنا چاہتا تھا میں بھی رویا ہوں۔
کہنا چاہتا تھا دُکھ بہت بُرا ہوتا ہے۔
یہ جو چھوٹی چھوٹی پریشانیاں ہوتی ہیں، جنہیں ہم دکھ سمجھتے ہیں۔وہ دکھ نہیں ہوتیں۔وہ صرف چھوٹی سی فکریں ہوتی ہیں۔جب دکھ پہنچتا ہے تو بندے کو خدا یاد آجاتا ہے۔
اسے نہیں پتا تھا دکھ پہنچے تو صرف صبر کے علاوہ اور کیا کچھ کرنا چاہیے۔
وہ بس زیادہ دیر بیٹھ نہیں پا رہا تھا اُس کے پاس۔ سندھیا کی آنکھوں کی ویرانی اور چپ نے اسے اندر سے مایوس اور پریشان کر دیا تھا۔ وہ اٹھا اور دروازے کی طرف جانے سے پہلے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
پتا نہیں کیا تھا جب سر پہ ہاتھ رکھا تو اس کا ہاتھ لرزنے لگا۔
سندھیا بے چارگی اوربے بسی سے رونا شروع ہو گئی اور وہ بھی۔ مگر سندھیا کے رونے میں اتنی شدت تھی کہ وہ دروازے سے باہر نکل آیا اور بیرونی دروازے کی پشت سے لگ کر بیٹھ گیا۔سندھیا کی ہچکیوں کی ہلکی ہلکی آواز بیرونی دروازے تک پہنچ رہی تھی جسے سُن کر وہ مزید شکستہ ہوگیا۔
٭…٭…٭