شریکِ حیات قسط ۵

وہ سب لوگوں سے ان کی پسند پوچھ رہا تھا۔

اس سے پہلے کھیتوں سے ہو آیا۔

”تیرے چاچا نے کہا تھا سارنگ کہ زمین ہماری ماں ہے، یہ سکھ دے نہ دے، دعا ضرور دیتی ہے، پیار دیتی ہے۔ اس سے پیار لے جانا۔ ”

وہ کیسا زمین کے ساتھ جڑا تھا۔

دھرتی کے اندر اس کی جڑیں کس قدر مضبوط تھیں۔

وہ جتنا اُڑتا بھاگتا، اس کے قدم یہیں جمے تھے۔

گوٹھ کے لوگوں کا رویہ بدل گیا تھا۔

سب اس سے خوش تھے۔

کسی نے کہا۔ ” ہم نے سوچا تھا تو شہر سے ڈاکٹرنی میم لائے گا، تب بھی ہمارا بھلا تھا مگر اب زیادہ بھلا ہے۔” کسی نے کہا۔

”گھر کی دھی جڑ گئی گھر سے، تو جڑ گیا گھر سے، گوٹھ سے، زمین سے۔ اب تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جڑ گیاہم سب سے۔”

سب سے مل کر آیا تھا۔

اور اب گھر میں سب سے مل رہا تھا۔

جیجی نے سارنگ سے کہا: ” سندھیا سے مل جاکر۔اس سے پوچھ کر جا کہ کیا چاہیے اُسے۔”

سوہائی نے تو لمبی فرمائشی لسٹ اس کے حوالے کر دی تھی۔

چاچی نے دعائیں دیں۔ ابا اور جیجی نے بھی۔پھپھو سے وہ خود مل آیا تھا۔

اور اب سندھیا سے ملنا تھا۔ پہلے کا ملنا اور تھا اب کا ملنا اور تھا، مگر ملنا تو تھا۔

وہ اندر آیا، سلام کیا۔

والسلام۔ اسی طرح مختصر جواب آیا۔

کچھ لمحے کھڑا رہا۔

پھر لفافہ جیب سے نکال کر سنگھار میز پر رکھا۔” حق مہر۔” یہ چھوٹا سا لفظ سندھیا پر بُری طرح برس گیا۔

سارنگ لمحہ بھر بھی نہ رُکا کمرے میں۔ وہ خالی دروازے کو تکتی رہ گئی۔

اسے لگا کوئی چیز چھن سے گر کر ٹوٹ گئی۔

شاید کوئی شیشہ، فرش پہ تو نظر نہ آیا۔ نہیں، یہ اس کی اُمید تھی۔

سارنگ کے ساتھ جڑی ہوئی اس کی آخری اُمید، باہر کچھ نہ تھا۔ شور اندر تھا۔

لفافہ سنگھار میز پر پڑا منہ چڑا رہا تھا۔ سارنگ اسی صبح روانہ ہوا تھا۔

 

٭…٭…٭

 

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!