وہ نیند سے اُٹھی تو ہاتھ پر سوہائی نے مہندی لگائی ہوئی تھی۔
”یہ کیا ہے سوہائی؟”
”یہ مہندی ہے سندھیا، دیکھ لے اور بھا سارنگ جانے سے پہلے تجھ سے ملنے آئیں گے، یہ دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔”
”تو چری ہے سوہائی، ایک دم چری۔”
وہ پھرتی سے اٹھی، نلکے کے نیچے ہاتھ دے دیا۔
پانی کی موٹی دھار مہندی کے نقش مٹاتی گرتی جا رہی تھی۔
سوہانی نے واویلا شروع کر دیا۔
”یہ تو نے کیا کر دیا سندھو؟ ساری مہندی بہا دی، رنگ نہ چڑھنے دیا تو نے؟ بہت بُرا کیا۔”
”مہندی کے رنگوں سے نصیبوں کے رنگ نہیں جڑتے سوہائی۔ نصیب کا رنگ نظر نہیں آتا کبھی۔ مہندی کا رنگ نظر آجاتا ہے۔”
وہ سر جھٹک کر باورچی خانے چلی گئی۔
”اللہ جانے سندھو تجھے کیا ہوا ہے؟ کیسی موٹی موٹی باتیں کرنے لگی ہے تو۔ اپنے وزن سے بھی بڑھ کر۔ ابا سائیں ایسی باتیں کیا کرتے تھے، اب وہ سب کے اندر بولتے ہیں ۔تھوڑا تھوڑا کر کے سب کے اندر رہ گئے ہیں۔”
یہ مولا بخش کی بوئی ہوئی کھیتی تھی، اس کی محبت کی کھیتی، پیار کی کھیتی۔اسے اس گھر سے کون فراموش کر پاتا۔
مولا بخش مر کے بھی اس گھر کے کونے کونے میں سانس لیتا تھا۔ اس کا پیار، اس کی محبت زندہ تھی۔
٭…٭…٭