”سندھو کیا تجھے خوشی ہوئی؟” سوہائی اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔
وہ چپ تھی اس کے پاس کوئی احساس نہ تھا۔ اس سے پہلے ماں کے ساتھ بحث کر آئی تھی۔
”نصیب کھل گیا ہے تیرا سندھو۔ سارنگ تجھ سے شادی کر رہا ہے، نکاح کرنا چاہتا ہے وہ تیرے ساتھ۔”
”وہ نہیں چاہتا۔ اسے مجبور کیا ہو گا آپ سب نے۔”
”ایسا نہیں ہے۔ اس نے خود کہا ہے حسن بھا کو۔”
”اس نے چاچا سائیں سے کیوں کہا؟ آپ میں سے کسی کو کیوں نہیں کہا؟اس نے پہلے کیوں نہیں کہا آج کیوں کہا؟”
”بحث نہ کر سندھو، سب چھوڑ۔ نصیب کھلنے دے اپنے۔ کہا تو سہی، جب بھی کہا، اسے احساس تو ہوا نا۔”
”احساس نہیں ہمدردی کہیں، ترس کہیں۔ ترس کھا رہا ہے وہ مجھ پر۔ یتیم ہو گئی ہوں نا اس لیے۔”
”زیادہ نہ بول۔ چاچا کا بیٹا ہے تیرا۔”
”پہلے بھی تو تھا، جب آپ اس کے خلاف بولتی تھیں۔ تب بھی تو میرے چاچا کاپٹ تھا وہ۔”
”مگر اب اور بات ہے، اب وہ تجھے اپنا رہا ہے۔ دیکھ گھر کی بات گھر میں رہے گی، میری آنکھوں کے سامنے۔ سکون میں رہوں گی میں۔ اچھا بھلا ہے، دیکھا بھالا ہے، پورے گھر کا بے حد لاڈلا ہے، تو بھی سکھی رہے گی۔نہ ساس نندوں کا جھنجٹ نہ سسرال، نہ مسئلے مسائل۔وہی جیجی، وہی ماں، وہی چاچا، ہم سب۔”
”اری یہ تو سوچ کہ وہ سارنگ کو کتنا چاہتا تھا۔ آنکھوں پہ بٹھائے رکھتا تھا۔”
”ہاں، آنکھوں پہ بٹھائے رکھتا تھا۔ تب تو نہیں قدر کی میرے باپ کی اس نے اب کیوں یہ احساس ہمارے سر تھوپ رہا ہے یا پھر اپنے قرضوں کا بوجھ اتار رہا ہے۔”
”سندھو! سندھو انسان بن۔ شوہر بننے جا رہا ہے وہ تیرا۔ کیسے بات کر رہی ہے اس کے لیے۔”
”مگر بنا نہیں ہے۔”
”دیکھ سندھو، میری نہ سوچ، اپنی نہ سوچ، ابا کی سوچ۔ وہ سکون میں آجائے گا۔
ابا بڑا خوش ہو گا۔”
”بار بار تیرا ابا خوش ہو گا، تیرے ابا کو سکون آجائے گا۔ ہر بار ابا کے نام پہ جذباتی کر دیتی ہیں۔ ابا تھا میرا مذاق نہیں تھا وہ، جیسا بنا لیا گیا ہے۔ اب تو چلا گیا وہ تھک کر، نہیں رہا اب وہ، اب تو اس کا نام لینا چھوڑ دیں اماں۔”
وہ بے بسی سے رو دی اور اب بھی جب وہ وقت آیا، جب باپ بیٹیوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر دعا دیتے ہیں۔ اس وقت سارے تھے۔بس جو نہ تھا، وہ سندھو کا ابا نہ تھا۔
چاچا سر پہ ہاتھ رکھنے آیا اور بولا۔ ”سندھو مولا بخش نہیں ہے، مجھے پتا ہے اس کی جگہ میں نہیں لے سکتا۔ پر تجھے اتنا کہہ دیتا ہوں، مجھے مولا بخش نہ سمجھو مگر ابا ضرور سمجھو۔”
”پگلی چاچا بھی توپیو ہوتے ہیں۔ پورا نہ سہی آدھا باپ تو بن سکتا ہوں نا تیرا۔” وہ سر پر ہاتھ رکھنے آئے تو آنکھیں چھلک پڑیں۔
کبھی نہ سوچا تھا کہ یہ دن آئے گا، جب اتنی بڑی خوشی دیکھنے کو ملے گی اور اسی دن مولا بخش نہ ہوگا۔
”اتنا تو مجھے بھی اندازہ ہے، وہ جہاں بھی ہے سندھیاتیری اور سارنگ کے نکاح کی خبر جب اس نے سنی ہو گی نا خوشی سے جھوم جھوم گیا ہو گا۔اور آنکھیں بھر آئی ہوں گی اس کی، خوشی کے آنسو روتا ہو گا۔ آج بڑے چین سے نیند آئی ہو گی اسے، بڑے ہی چین سے سویا ہو گا۔”
٭…٭…٭