سیاہ اور سفید کے درمیان

چاہ رہی تھی۔
یہ دونوں میاں بیوی خاصے بے ضرََِِِِر سے ساس سُسر تھے بس ایک دوسرے میں ہی مگن رہتے۔ سعدیہ کے میاںشجاعت علی کوئٹہ کے بڑے پرانے اور مشہور آئی اسپیشلسٹ (Specialist)تھے صبح سول اسپتال اور شام کو اپنے ذاتی کلینک میں بیٹھا کرتے۔ کلینک سے وابستہ چشموں کی دکان البتہ اپنے دوست کو دے رکھی تھی۔ دونوں میاں بیوی خاصے ملنسار اور مطالعے کے بے حد شوقین تھے۔فِکشن نان فِکشن (Fiction non fiction)کچھ نہ چھوڑ تے ۔اکثر شام کو کلینک سے واپسی پر شجات علی کوئی نہ کوئی کتاب بغل میں دبائے چلے آرہے ہوتے پھر زندگی کے کچھ دن تو اُس کتاب کے سنگ بہتر ین گزرجاتے ہفتے پندرہ دن میں کچھ عمدہ پکاکرکیسی دوست احباب کے گھر نکل جانا سوناں کرتے بھی پہاڑوں سے گھرے اِس چھوٹے سے شہر میں حلقہ یاراں خاصاوسیع کر لیا ۔پیدائش ،بچپن ،جوانی اوراب بڑھاپاسبھی کچھ کو ئٹہ سے وابستہ تھا سواب اِس چھوٹے سے شہر سے بڑی انسیت ہو چلی تھی ۔اِس لیے اپنے دونوں بیٹیوں بہوئوں کے لاکھ اِصرار اور پوتے پوتیوں کی کشش کے باوجود وہ کوئٹہ چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئے۔ ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود شجاع علی ور مظہرحسین کی کبھی نہ بن سکی ۔ شجاع علی ایک ہنس مکھ اور میٹھے مزاج کے شخض تھے جبکہ مظہر حسین کا وطیرہ ہمہ وقت جھنجھلائے رہنا تھا۔ وہ تو لوگوں سے کوسوں دور بھاگا کرتے تھے خیر نوبت کبھی آمنے سامنے جھگڑنے کی بھی نہ آئی۔ سعدیہ کی بڑی خواہش تھی کہ عائلہ کو بہو بنائیں مگر دونوں بیٹے صاف انکاری ، اول تو یہ آج کل کی پود انٹر میرج پر بالکل یقین نہیں رکھتی، دوم یہ کہ ماموں کے مزاج سے دونوں ہی خاصے خائف تھے۔ لہذا سعدیہ نے اپنی یہ خواہش اندر ہی کہیں دبالی اب بیٹوں میں سے جو بھی آتا اُس کی فیملی کو خوب اہتمام سے بھائی کے گھر لے جایا کرتیں۔ بھائی کی نسبت بھابھی اور بچوں کے ساتھ یہ لوگ خاصا مزہ کرتے۔ عائلہ کی پاکستان آمد کے کوئی ہفتہ بھر بعد ایک روز کلینک سے واپسی پر شجاع علی کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو ا۔ اُن کا دایاں گھٹنا ڈیسلوکیٹ (dislocate)ہو گیا تھا۔ اُس کی ریکوری میں کچھ وقت لگنا تھا۔ عائلہ نے بچوں کو رات کا کھانا نسبتاً جلدی کھلا دیا ۔بیڈ ٹائم اسٹوریز پڑھ کر دونوں کو سلانے کی کوشش میں لگ گئی۔ دونوں ہی سونے میں خوب وقت لگاتے اب بھی کوئی گھنٹہ بھر بعد ہی سوئے تو عائلہ نے حلیمہ سے اُن پر نظر رکھنے کی ریکوئسٹ کی۔
ابھی شام کو ہی اُس نے انجیر ،ٹرکشخوبانی (Turkish apricot)اور خوب سارے بادام ڈال کر دوکر سمس کیکس بیک کیے تھے ایک اپنے گھر کے لیے اور دوسرا پھوپھو کے یہاں لے جانے کے لیے۔جب سے وہ آئی تھی پھوپھو کی طرف چکر ہی نہیں لگا ۔اِس لیے امریکہ سے جو اُن کے لیے تحائف خریدے تھے وہ اب تک سوٹکیس(suitcase )میں بند تھے ۔عائلہ نے اِن کے لئے پرفیومز ، سولیڑز اور ڈارک چاکلیٹ کا ایک درمیانے سائز کا ڈبہ لیا تھا ۔ہر چیز پہلے الگ الگ ڈیکوریٹو ٹشو میں لپیٹی اور پھر ایک بڑے گفٹ بیگ میں ڈال کر تھوڑی سی (graffitti) (تحائف پر ڈالنی والی افشاں ِ ستارے وغیرہ)۔اِسپر ینکل کر دی۔ پھوپھو کے لیے بیک کیا کیک اُس نے شیشے کے ایک خوبصورت کنٹینر میں ڈالا جس پر ریڈ ہارٹس پینٹ ہوئے تھے۔ یہ کسٹم میڈ کنٹینر (Custom made container)تھا،وہ پھوپھو کو دینے کی نیت سے وہیں امریکہ سے بنوا کر لائی تھی ۔ عائلہ ایسی ہی تھی ہر چیز کا خُوب خُوب اہتمام کرنے والی۔ گھر میں پہنا ہوا ڈھیلا پاجامہ اور ٹی شرٹ تبدیل کر کے معقول انسانوں والا حلیہ بنایا اور پھر فٹافٹ شیراز کے ساتھ پھوپھو کی طرف نکل آئی۔
پھوپھو پھوپھا رات کا کھانا کھا کر ٹی وی پر کوئی نئی پاکستانی مووی دیکھ رہے تھے۔ اُن کے گھر کا بڑا کڑا اُصول تھا کہ مووی پر تبصرہ صرف گانوں کے درمیان کیا جاسکتا ہے، دوران مووی بول کر دوسروں کا ٹیمپو(Tempo)نہ خراب کریں شکریہ ۔ دونوں ہی اِن دونوں کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ پھوپھا شجاعت نے خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد پہلا کام ریموٹ پر ( pause)کا بٹن دبانے کا کیا۔

” بھئی یہ سین تو پوری کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ ہے ۔ ایک بھی ڈائیلاگ مس ہو جاتا تو پوری فلم کا مزہ کرکرا ” پھوپھا کی یہ بے ساختگی عائلہ اور پھوپھو دونوں ہی نے نوٹس کی ۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کر کے پھوپھو بھتیجی کھلکھلا کر ہنس پڑئیں۔ پھوپھو چائے بنانے کچن میں گئیں تو عائلہ بھی ساتھ ہو لی۔پھوپھو نے عائلہ سے چائے کی فرمائش کی اور خود نیا ٹی سیٹ ٹرالی میں سیٹ کرنے لگیں۔ عائلہ کی چائے اُن سب کو ہی بے حد پسند تھی۔شرجیل اور مومن کی شادیوں میں کچن عائلہ نے ہی سنبھالا تھا مگر دن بھر میں اِسے سب سے زیادہ آوازئیں چائے کے لیے ہی پڑاکرتی تھیں ۔چائے کا پانی اُبلا تو عائلہ نے بے اختیار ہی سٹو کے اوپر بنے کیبنٹس میں سے رائٹ سائیڈ والے کو کھولا، کیبنٹ کے نچلے خانے میں چائے کی پتی اور الائچی اپنے مخصوص کونے میں موجود تھیں ۔پھوپھو نے باورچی خانے کی ہرچیز ا پنی آسانی کے مطابق سیٹ کر رکھی تھی اور وہ اِس ترتیب کی اِس قدر عادی ہو چکی تھیں کہ ذرا سا رد وبدل انھیں الجھن میں ڈال دیتا۔ لاوئنج میں البتہ پھوپھو نے وال پیر نیا لگوایا تھا اور پردوں کی جگہ اب کھڑکیوں پر بلائنڈز (Blinds) آ گئے تھے وال پیر بہت خوشنما تھا۔ عائلہ نے اُن کی چوائس کو دل سے سراہا تو پھوپھو بتانے لگیں ” ابھی نیا ہی ہے سب کچھ۔ کوئی دو مہینے پہلے میں نے مستقل حل نکالنے کا سوچا ورنہ تو ذرا سے دو چھینٹے پڑے نہیں ،دیوار کا چونا پینٹ سب جھڑجھڑ جاتا۔ میں نے تو تمہارے پھوپھا سے صاف کہہ دیا کہ شر جیل اس بار بچو ں کو لیکر چھٹیوں میں آرہا ہے۔ اِن کے یہاں آنے سے پہلے ہی یہ کام کروالیں تو اچھا رہے گا۔شکر ہے ، انہوں نے میری بات سُن لی اور مجھے لے گئے ۔ ہم دونوں سلیکشن کے لیے ساتھ ہی گئے تھے لیکن میں نے دونوں چیزیں اپنی چوائس سے لیں ۔ پیسے تو ٹھیک ٹھاک لگے مگر لاوئنج کی لک بہت(Improve) ہو گئی ۔ شرجیل دیکھ کر بہت خوش ہو گا، اُس کااَستھیٹک سینسس(aesthetic sense) ہم سب میں بہتر ہے”۔
پھوپھو کی بات پر دماغ کے کسی کونے میں شرجیل بھائی ٹہلتے ٹہلتے نکل آئے وہ ہمیشہ اُس کا خیال چھوٹی بہنوں کی طرح رکھا کرتے تھے۔اِس گھر اور اِس کے مکینوں سے مانوسیت کا جو ایک رشتہ استوار تھا اُس کا احساس آج کچھ اِس شدت سے ہوا کہ درمیان کے تمام نامانوس سال لمحوں میں اُڑنچھو ہو گئے۔ پیچھے رہ گئی تو صرف اپنائیت، خلوص اور محبت”پھوپھو !آپ کے اِن ڈورپلانٹس میں تو ہمیشہ ہی میری جان رہی ہے ،اب تو آپ کئی اور لے آئیں ہیں ۔سچی بات ہے کہ میں تو نظر بھر کر دیکھ بھی نہیں رہی کہ کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے ”۔چائے کی ٹرالی کو پُش کر تے ہوئے عائلہ نے اطراف میں لگے چھوٹے بڑے گملوں کی طرف اشارہ کیا بڑے گملوں میں چائنا گراس (grass)،کنگھی پام، منی اورر ربر پلانٹس تھے، چھوٹوں میں مختلف رنگوں کے جرینیم اپنی بہار دیکھا رہے تھے ۔ سب سے حسین تو وہ قدرے چوڑا گلاس جار لگ رہا تھا جس میں لکی بمبو کے آٹھ خمدار تنے سنہری باریک ڈوری سے بندھے کھڑے تھے۔ اُن کے اردگرد موجود شفاف پانی میں بہت سی دودھیا سفید گلاس بیڈز۔ جار کے عین اوپر لگے بمبو شیڈ سے ڈھکے بلب کی مستقل پڑتی روشنی جب اُن سے ٹکرا کر منعکس ہوتی تو یوں لگتا جیسے کئی قیمتی چمکدار پتھر کسی بہتے جھرنے میں اُنڈیل دیئے ہوں اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراتے بہتے چلے جا رہے ہوں۔
” چھوڑ بھی تمہاری نظر بھلا کیا لگنی ہے بس دل میں ماشاء اللہ کا ورد کرتی جائو ۔ ارے اِن پودوں کا بھی بھی بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ذرا ایک دن پانی دینے میں بھُول چُوک ہو جائے تو روٹھ کر کملا جاتے ہیں پھر پانی ڈالونگی، گوڈی کرونگی، باتیں کرونگی تو ہی کھڑے ہونگے ورنہ روتے روتے ننگی زمین پر لوٹ پوٹ ہوتے چلے جائیں گے۔”
پھوپھو!یہ فینومینہ (Phenomenon) تو آپ انسانوں پر بھی اَپلائی کر سکتی ہیں۔ ہم زمینِ مردہ میں بیج بوتے ہیں۔ ہفتوں اِس کی آبیاری کرتے ہیں پھر کہیں جا کر اُس کے بے جان وجود میں چُھپا ننھا سا جاندار پودا اپنا سر باہر نکالتا ہے پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ مہینوں اُس کو تیز ہوا، شدید دھوپ سے بچاتے ہیں ۔ کھاد پانی سب دیتے ہیں وہ جان پکڑ لیتا ہے پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ انتظار کہ اِس میںپھول، بوٹے اور پھل کب آئیں گے؟ آپ سالوں اُس کا خیال رکھتے ہیں تو ہی میٹھا پھل ملتا ہے۔ تما م خوشنما پھول گندی بدصورت مٹی سے ہی اُگتے ہیں۔
آپ توجہ نہیں دیں گے تو ہو گا کیا؟ آندھی طوفان اُسے زمینِ مردہ میں واپس رول دیں گے یا بارش کا پانی اُسے اپنے ساتھ بہا کر کہیں دور لے جائے گا تو یہ سارا کمال تو پھر آپ کی توجہ اور محبت کا ہوا نا۔ اُس یقین کا ہوا جو باغ لگاتے وقت آپ نے خُدا پہ کیا اور مستقبل پر کیا۔ آپ کو پتہ ہے کہ بچوں اور پودوں میں مماثلت بھلا کیا ہے؟؟؟ ہر بچہ ایک معجزہ ہے جیسے ایک مردہ دانے سے سانس لیتے پودے کا پھوٹ جانا معجزہ ہے۔اَزل سے اَبد تک اُس جیسا بچہ دوسرا نہیں ہوگا یہ بات بچے کو لازمی پتہ ہونی چاہیے۔ مختلف طریقوں سے ہمارے بچے روز پوچھتے ہیں کہ
کیا تم مجھے سُن سکتی ہو؟
کیا تم مجھے دیکھ سکتی ہو؟
کیا میں تمہارے لیے معنی رکھتا ہوں؟
اُن کا رویہ اکثر ہمارے(Response reflect) رسپونس کو رفلیکٹ کرتا ہے ۔ ویسے بھی ایک ٹوٹے ہوئے کمزور انسان کی نسبت ایک کونفیڈنٹ بچہ پروان چڑھانا زیادہ آسان ہے۔
ہم جب ایک بچے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو اُسے ہمارے الفاظ یا عمل سے زندگی کے بنیادی پیغامات میں سے ایک یا کئی مل رہے ہوتے ہیں۔
میں تم پر بھروسا کرتا ہوں۔
میں تم پر یقین رکھتا ہوں۔
مجھے پتہ ہے کہ تم سب کچھ ہینڈل کر سکتے ہو۔
میں نے تمہیں سنا
میں تمہاری پروا کی
اور تم میرے لیے بہت اہم ہو”
” میں نے تمہیں سُنا، میں نے تمہاری پروا بھی کی مگر تم اِس وقت میرے لیے ذرا سی بھی اہم نہیں ہو۔ ہاں! البتہ یہ چائے کی ٹرالی، اُس پر رکھا کیک اور فروٹ چاٹ کا پیالہ بہت اہم ہیں۔ عائلہ ! تم کچھ خدا کا خوف کرو۔ پتہ نہیں پچھلے دس منٹ سے اِس پودے سے چُپکی پھوپھو کو کون کون سے اَفسانے سُنا رہی ہو”
شیراز کا پِیمانہ صبر اب لبالب پھر چکا تھا۔ وہ تنتناتہ ہوا کچن اور لائونج کی درمیانی راہداری میں آیا۔”اور کچھ نہیں تو پھوپھا جی کے زخمی گُھوٹنے کا ہی کچھ لحاظ کر لو ۔ صرف اس مجبوری کی وجہ سے انہوں نے مجھے یہاں بھیجا ہے ورنہ آنا تو وہ خود چاہ رہے تھے۔ سچی بات ہے کہ تم ایک ڈیفکٹیو پیس (defective piece) ہو۔غلطی سے کوئی تمہیں آن کر دے تو بے چارہ ساری زندگی آف کا بٹن بس ڈھونڈتا ہی رہ جائے گا۔ خبردار ! اب جو دوبارہ شروع ہوئیں لے کر آئو چائے”۔
” چپ ہو جائو تم اتنا تو پیارا (بس ذرا زیادہ سارا) بولتی ہے میری بچی۔ بس ہم آ ہی رہے تھے”سعدیہ پھوپھو نے نامحسوس انداز میں عائلہ کو ہٹا کر ٹرالی خود لائوئنج کی طرف گھسیٹنی شروع کر دی۔” اب مجھے پتہ چلا کہ ایان بھائی گھر سے زیادہ وقت دفتر میں کیوں گزارتے ہیں؟ بے چارے کووہاں بولنے کا موقع تو ملتا ہو گانا۔ گھر میںتو بولنے کی کوشش کرتے ہونگے منہ کی کھانی پڑتی ہو گی۔ عائلہ کے آگے کون بول سکتا ہے”۔ شیراز مُڑتے مُڑتے بھی بڑبڑانے سے باز نہیں آیا۔
عائلہ پر بھلا شیراز کی باتوں کا کیا اثر ہونا تھا۔ ٹہل ٹہل کر اِطراف میں لگے اِن ڈور پلانٹس اور دیواروں پہ لگے ڈیکیورئیٹو فریمز(Decorative frames)کا جائزہ لیتی وہ بلاآخر کچن سے دو قدم کے فاصلے پہ موجود لائوئنج میں پہنچ ہی گئی۔
دومنٹ کا راستہ بارہ منٹ میں طے کرنے پہ پھوپھا مظلوم نے جن محبت پاش نظروں سے دونوں کو دیکھا ،کوئی اور ہوتا تو وہیں پاش پاش ہو کر گر پڑتا۔
مگر سامنے کون تھی بھلا؟ عائلہ ‘دی پیدائشی ڈھیٹ” اور اُس نے اپنی ڈھٹائی کا سایہ پھوپھو پر بھی ڈال دیا تھا۔ دونوں نے کچھ اِس طرح سکرا مُسکرا کر سرو کرنا شروع کیا کہ پھوپھا کو خود اپنی مظلومیت پہ شک ہونے لگا۔
زخمی وہ
مووی چھوڑئیں وہ
چائے کے انتظار میں سوکھیں وہ
مرحوم سالے کے سُپر سٹریل بیٹے سے زبردستی باتیں کریںوہ۔
اِن پر کوئی اثر ہی نہیں ۔ یہ تو وہی بات ہو گئی ظالم بھی تم مظلوم بھی تم ۔ پھوپھا نے کیک کا ایک بڑا ٹکڑا کاٹتے ہوئے سوچا۔ عائلہ کا بنایا کیک سبھی نے مزے سے کھایا۔ انجیر اور خوبانی نے اِسے ایک منفرد سٹریسی(citrusy)ذائقہ دیا تھا،جو سب کو خوب بھایا۔آخر کیک کے بلا مبالغہ تین بڑے پیسز pieces) (اور فرئوٹ چاٹ کے دو بھرے بائول کھانے کے بعد پھوپھا مظلوم کو اپنا بعداز ڈنر ٹہلنا یاد آیا تو شیراز کے ساتھ چلتے ہوئے آہستہ آہستہ کھلے سے کارپورچ میں چلے گئے جہاں پھوپھا کی گاڑی کھڑی کرنے کے بعد بھی ٹہلنے کے لیے کافی جگہ بچ جاتی تھی۔ عموماً واک پر یہ دونوں میاں بیوی ساتھ ہی جایا کرتے تھے کبھی وسیع و عریض چھت پر نکل جاتے تو کبھی گلی میں ۔ عائلہ اِن کے یہاں ٹھہری ہوتی تو وہ بھی ساتھ چل پڑتی۔ اِن دونوں کی دلچسپ گفتگو اور آپس کی چھیڑ چھاڑ میں وقت کب گزر جاتا پتہ ہی نہیں چلتا مصروفیت نے بیتے وقت کو کہیں بہت پیچھے دھکیل دیاتھا۔ اب گھر کے اندر آئی ہے تو بیتا وقت بھی ساتھ ہی ہولیا۔
(Muhsen) ”محسن” پر کام کیسا چل رہا ہے ؟سعدیہ پھوپھو نے دونوں کے جانے کے بعد صوفے کے کشنز نیچے فلورل (rug)پر پھینکے اورعائلہ کا آن بٹن پش کیا۔بس ” پھوپھو! میں ، ایان اورر میری ٹیم آف والنٹیرز(volunteers) کافی تیزی سے اُس پر کام کررہے ہیں تقریباً 75% کام مکمل سمجھیں کیونکہ ہم نے ہر اہم اسپکٹ(aspect) کو ایک ویب سائٹ پہ کور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس لیے کنٹینٹ لسٹ(Content list)بہت طویل ہو گئی سو اِسے اب زیادہ ترتیب سے ڈیزائن کرنے کے لیے ایک پروفیشنل ویب ڈیزائنر کو ہائر کیا ہے اور ایک ڈیڈ لائن (Dead line)مقرر کر دی ہے کہ زیادہ تر ریڈینگ مٹیریل Reading material ))اور ریفرینس ویڈیوزRefrence videos))ہمیں اُس ڈیٹ تک مل جائیں تاکہ ہم اِسے پراپرٹی(Property) لانچ کر لیں ”
”مجھے اِس کی کچھ تفصیلات بتائو، ہو سکتا ہے میں کچھ مدد کرسکوں”۔سعدیہ پھوپھو نے مزید دلچسپی ظاہر کی تو عائلہ نے ویب سائٹ کا اسٹریکچر ایکسپلین(explain)کرنا شروع کیا۔
” محسن” زندگی کے تین اہم شعبوں کو کور کر رہا ہے۔ اول،(Academices)یعنی نصاب ۔ وہ تمام بچے جو ڈیولپمنٹ ڈی لیز delays) (developmentalکا شکار ہوتے ہیں اُن کے لیے لکھنا پڑھنا بہت بڑا مرحلہ ہے۔ آپ جب ایک لفظ پڑھتے ہیں تو اُس کی ایک شبیہہ دماغ میں ابھرتی ہے ۔ مثلاً میں نے کہا کیٹ (Cat)تو دماغ میں ساتھ ہی بلی کا امیج آ گیا۔ میں نے کہا بوٹ(Boat) تو کشتی کی تصور مگر اوٹئزم کے شکار بچوں میں اول تو یہ تصویر بنے گی نہیں اور اگر بنے گی تو بہت سلولی(slowly) اسی لیے اِن بچوں کی اپنی مخصوص پکچر بکس ہوتیں ہیں۔
(Academic goal)اکیڈمک گولزبھی اِن کی دماغی عمر کے مطابق سیٹ کیئے جاتے ہیں۔ ”محسن” کے (Academic section)میں سینکڑوںورک شیٹس ، پکچرز، مددگار ریڈینگ (Reading Apps)اَپس، (simple learning videos)سمپل لیئرنگ ویڈیوز کے لنکس ملیں گے اگر ڈونیشزز (Donations)کو کلک کریں گے تو وہاں بہت ساری استعمال شدہ مگر بہترین حالت میں کتابیں ،پزل (puzzles) لیئرنگ ٹوائز (learning toys)سبھی کچھ ملے گا، ضرورت مند والدین پاکستان کے کسی پسماندہ گائوں میں بیٹھے ہوں یا بڑے شہر میں ہمیں اپرویچ کرنے پر ” محسن” بچے کے لیے تمام چیزیں آپ کے گھر کے دروازے پر پہنچائے گا۔
اِن بچوں کی ایک بڑی تعداد (non-verbal)ہوتی ہے یعنی وہ بول نہیں پاتے۔ وائس اَپریٹنس (voice apparatus)میں کوئی خرابی نہیں لیکن اِسپیچ ایک تکنیکی عمل ہے ۔دماغ کے وہ حصّے جو اِسپیچ کنٹرول کرتے ہیں ۔وائس اَپریٹنس (voice apparatus) اَپس میں کنیکٹ نہیں کر پاتے۔ جب بچہ بول نہیں پاتا تو وہ فزیکلی اَبیوسف(Physically abusive) ہو جاتا ہے۔ مار دھاڑ چیزیں پھیکنا یا پھر بے معنی چیخنا اور پائوں پٹخناوغیرہ، تمام نان وربل (Non verbal)بچوں کو ایک کمیونیکیشن ڈیوائس (Communication device)دیا جاتا ہے اور انہیں اسٹیپ بائے اسٹیپ (step by step)ٹرین کیا جاتا ہے کہ اِسے استعمال کیسے کرنا ہے۔ ” محسن” پر جب ضرورت مند والدین ایک سادہ فارم فل کرتے ہیں جس میں بچے کا نام ”عمر” اُس کا ڈائیگنوسیس (Diagnosis) اور ایک مختصر ہسٹری کا اندراج کرنے کے بعد ”محسن” کا سرچ انجن انہیں پئیر کر دیتا ہے ایک ڈونر کپل (Donor couple )ے ساتھ (پھر چاہے ڈونرزدنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھے ہوں ) جن کا بچہ ضرورت مند بچے کی طرح کا ڈائیگنوسیس اور بیک گراونڈ رکھتا ہو ۔ ڈونر (Donor)نہ صرف بچے کو کمیونیکیشن ڈیوائس فراہم کرتا ہے بلکہ اِس کے والدین کو گائیڈ بھی کرتا ہے کہ اِسے کس طرح استعمال کرنا ہے اگر ڈونر کپل اُردو نہیں بول سکتا تو ہم کانفرنس کال پر دونوں کپلز (couple) اور ایک ٹرانسلیٹر(Translatior)کو کنیکٹ کر دیتے ہیں جو اُردو زبان میں سادہ طریقے سے سب کچھ سمجھائے گا۔ اب تک ہمارے پاس اُردو ، پنجابی، ہندی اور گجراتی بولنے والے ٹرانسلیٹرز (Translators)موجود ہیں مگر ہمیں قوی امید ہے کہ اگلے چند سالو ں میں مزید پاکستانی والینٹیرز (volunteers)”محسن” میں شمولیت اختیار کریں گے تو ہمیں دیگر علاقائی زبانوں کے متراجم بھی مل جائیں گے۔
دوئم ، غیرنصابی سرگرمیاں اور روز مرہ کے معمولات زندگی پر بھی ” محسن” کا فوکس ہے۔ محمد اور سلیمان کی (Behavioural therapist)ایک اِمریکی نژزد پاکستانی خاتون ہیں۔ وہ امریکہ کے سب سے بڑے آئٹزم ریسرچ سینٹر (Research Centre) کی ڈائریکٹر (Director) بھی ہے۔ مس جواہر سلطان کا ایک آفس دبئی میں بھی ہے ۔ پاکستان کے چند بڑے مہنگے ترین پرائیوٹ اسکولز وہاں اپنی ٹیچرز کو ٹرینیگ (Training) لینے کے لیے بھیجا کرتے ہیں مگر ہر بچے کی اُن اسکولز تک اور ہر ماں کی مس زہرا سلطان تک رسائی ممکن نہ تھی ” محسن” نے اِس کو ممکن بنا دیا ہے۔ میں نے جب ” محسن ” کے سلسلے میں اُن سے بات کی تو وہ بہت خوش ہوئیں اور ہر ممکنہ مدد کا وعدہ کیا ۔زہرا اِس سلسلے کی پہلی آن لائن ورکشاپ بیسک ٹوائلٹ ٹرینیگ پر کروا رہی ہے۔
بہت سارے اسپیشل نیڈز اسٹوڈنٹ یا تو اپنی ضرورت محسوس نہیں کرپاتے یا پھر بتا نہیں پاتے۔ یہاں تک کہ بچہ پانچ یا دس سال کا ہو کر بھی ٹوئلٹ ٹرین نہیں ہو پاتا۔ اِس ورکشاپ میں ہماری تھیراپسٹ مائوں کو بتائے گی کہ وہ کون سی ریسرچ بیسڈ تکنیکس (Techniques)ہیں جن کے ذریعے اِن بچوں کو ٹرین کیا جا سکتا ہے۔ دوسری آن لائن ورکشاپ ہے (Behaviour Therapy) کا تعارف اور طریقے (Techniques)پر۔”
“عائلہ! یہ کون سی تھراپی ہے بھلا؟ میں نے تو اِس کا نام بھی پہلی مرتبہ سُنا ہے۔” سعدیہ پھوپھو کے سوال پر عائلہ کچھ سوچ میں پڑ گئی پھر اُنہیں سادہ الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرنے لگی کی(Behavioural Therapy) بی ہیوئیرل تھراپی اے بی سی بہت سمپل ہے۔
اے یعنی بچے کے کسی بھی بی ہیوئیر (behaviour)سے پہلے کیا ہوا؟
بی یعنی رویہ (Behaviour)
سی اثرات یعنی اُس کے جملہ رویے کے بعد اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

کسی انسانی رویے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے واقعات یا تو اُس رویے کو کمزور بنا کر معدوم کر دیتے ہیں یا پھر اُسے (reinforce)ری اِن فورس ( مضبوط) کر کے شدید کر دیتے ہیں ۔ مثلاً محمد کھلونے دیوار پر دے مارنے کا بہت عادی تھا۔یہاں اُس نے کھلونا مارا وہاں میں نے ایک لگائی یا پھر جی بھر کر ڈانٹا نتیجہ کیا ہوا پہلے وہ ایک کھلونا ہر آدھے گھنٹے میں پھینکتا تھا اور میں پانچ منت تک ہر کام چھوڑ چھاڑ اُسے ڈانٹتی رہتی تھی بعد میں اُس نے ہر دس منٹ میں کھلونا پھینکنا شروع کر دیا پھر مجھے تھراپسٹ نے گائیڈ کیا کہ وہ یہ کام تمہاری اٹینشن (attention) حاصل کرنے کے لئے ہی کر رہا ہے۔ میں نے اپنا رسپونس(response) تبدیل کر لیا اب جب جب وہ کھلونا پھینکتا میں اُس کے اُس منفی رویے کو نظر انداز کر کے اُس کا دھیان کسی مثبت ایکٹویٹی میں لگا دیتی جیسے بلاکس بنا لو یا کھلونے سمیٹ دو پھر اُس کے مثبت ایکٹ (act) کی خوب تعریف کرتی ، گلے لگاتی اور تالیاں بجاتی، آخر ایک دن ایسا آیا کہ اُس نے سیکھ لیا کہ ماں کی توجہ چاہیے تو مثبت کام کرو تخریبی کاروائی نہیں۔
اِس طرح کے کئی غیر معمولی رویے ہیں جنہیں اسپیچ (speech) بی ہیوئیر(Behaviour) اور اِس طرح دیگر (Therapies)تھراپیز ناصرف بنا مارپیٹ اور چیخ و پکار مثبت رویوں میں تبدیل کرتی ہیں بلکہ اِن بچوں کو خود مختار ، پُر اعتماد اور سوسائٹی کے لیے زیادہ (acceptable)اسپ ٹیبل بناتی ہیں۔
غیر نصابی سرگرمیاں کور کرنے کے لیے میں نے چار والدین کا انتخاب کیا ٹو مادرز اور ٹو فادرز۔ بہت سے اسپیشل نیڈذ بچے کسی ایک مضمون یا ایکٹویٹی میں اتنے فوکسڈ(focused) ہوتے ہیں کہ کمال کر جاتے ہیں۔ والدین کا کام اُن کے اُس مخصوص انٹریسٹ کو دریافت کرنا ہوتا ہے۔ مثلاًسدھارت ملہوترا ایک ساوتھ انڈین فادر ہے اُس کا تیرہ سالہ بیٹا مکمل میوٹ (mute) یعنی بالکل بول نہیں سکتا لیکن وہی بچہ پانی میں گھنٹوں خوش رہتا تو سد ھارت نے اُس کے انٹریسٹ (interest)پر مزید کام کرنے کا سوچا ۔ دس سال کی محنت کی اور جب اُس نے(Special olympics USA,2016)اسپیشل اولمپکس یو ایس اے (2016) میں حصّہ لیا تو وہ گولڈ میڈل لیکر آیا۔ بعد ازاں سدبھارت نے اپنا گولڈ فش سونمنگ اسکول کھولا۔ جس میں ایک چھوٹے گروپ یا ایک بچہ ایک ٹرئینر (Trainer)پئیر کر کے بچوں کو سوئمنگ سیکھائی جاتی ہے۔” محسن” کے یوٹیوب چینل (youtube channel)کے لیے سدھارت نے ایک پوری سیریز ریکارڈ کروائی ہے جس میں اُس کے کافی ٹرینگ سیشنز (Training sessions)کی ویڈیوز ہیں۔ ہمارے یوٹیوب چینل پر میوزک تھراپی، آرٹ، یوگا اور ایکٹینگ پر بیسڈ تقریباً پچاس ویڈیوز لوڈ ہو چکی ہیں مگر اب بھی بہت سے والدین اپنے اسپیشل نیڈز بچوں کو جو ، جو اِسکل(skill) ہُنر سیکھا رہے ہوتے ہیں اُس کی ویڈیو بنا کر ہمیں بھیجتے ہیں جنہیں ہم اپنے چینل پر اپ لوڈ کرنے سے پہلے تھوڑا سا ایڈیٹ اور اُردو میں ٹرانسلیٹ (Translate)کرتے ہیں۔
” محسن” کا تیسرا اور سب سے بڑا چیلنج ہے نئی ریسرچ اور آیٹزم کے تمام ٹریٹمنٹآپشن (Treatment option) کو والدین تک پہنچانا ۔ ہمارے فنڈز بہت محدود ہیں اور کسی بھی قابل بورڈ سرٹیفائڈ امریکن ڈاکٹر سے انشورنس کے بغیر علاج تقریباً ناممکن ہے مگر ٹیم ” محسن ” اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ میںنے بقلم خود سیکنڑوں ڈاکٹرز کو ای میل کی جن میں سے کچھ پاکستانی ڈاکٹر بھی تھے مگر صرف دو کا جواب آیا۔ ایک تو بچوں کے دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر ہے جو ہر مہینے دو گھنٹوں کے لئے آن لائن کلینک کرے گا اور بچے کا صحیح ڈائیگنوسیس (diagonsis)دے گا۔
دوسری ایک ہولیسٹک (Hollistic)ڈاکٹر ہے ۔ ہولیسٹک میڈیسن (Hollistic Medicine) اِس بات پر یقین رکھتی ہے کہ حقیقی صحت صرف اُس وقت ملتی ہے جب انسانی دماغ ،جسم اورروح اپنی نیچرل اسٹیٹ (Natural state)کی طرف لوٹا دئیے جائیں۔ (Hollistic Dr)ہولیسٹک ڈاکٹر وٹامن ، نمکیات اور غذا میں بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے مریض کا علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جولیا روبنسن (Dr. Julia Robinson) اِس وقت امریکہ کے چند بڑے اور مہنگے ترین ڈاکٹرز میں شمار ہوتی ہیں مگر وہ ہر تین مہینے میں ہمارے پلیٹ فارم پہ ٹیلی میڈیسن کے ذریعے چند غریب بچوں کا علاج کرنے کے لیے تیار ہیں۔یہ ”محسن ” کی اب تک سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اِس کے علاوہ ” محسن” کا ایک ڈونیشن باکس(Donation box) ہے جس میں ، میں اور ایان تو ہماری ماہانہ آمدنی کا پندرہ فیصد ضرور ڈالتے ہیں ۔ باقی ہر والنٹیئر(volunteer)ماہانہ کم از کم پانچ ڈالرز دیتا ہے بعض با استطاعت افراد کچھ زیادہ جمع کروا دیتے ہیں بہر حال ہمارا سب سے بڑا ایکپینس (expense) دوا اور (Supplements)سپلی مینٹس متاثرہ بچے کے گھر تک پُہچانا ہے۔
آخری سیشن سوال و جواب کا ایک فورم ہے جس میں والدین بچوں کے رویوں میں نمودار ہونے والی منفی یا مثبت تبدیلیوں ، کسی نئی تھراپی یا علاج کے بارے مین دیگر والدین سے رائے لے سکتے ہیں۔ اگین آپ (language options)لینگویئج آپشنز سے جو زبان منتخب کریں گے سوال و جواب اُسی میں ہوں گے۔
پھوپھو! آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب طوفان آتا ہے تو کیسے کمزور پودے ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں یوں جیسے اپنے ناتواں وجود سے ایک دوسرے کو سہارا دینے کی کوشش کر رہے ہوں۔ یہ استعارہ میں ” محسن” سپورٹ گروپ (Support group) کے لیے مِستعار لوں گی۔ جب بھی کوئی ماں اپنے آپ کو بہت ٹوٹا بکھرا محسوس کرتی ہے تو ہم سب اُسے سہارا دینے کے لیے ‘تھام’ لینے کے لیے ہر دم تیار ہیں۔
” محسن” کا صرف ایک ہی خواب ہے کہ وہ تمام بچے اور بڑے جوکسی بھی (visible or invisible disability)کا شکار ہیں انہیں تعلیم ، روزگار اور دیگر کارہائے زندگی میں اُتنے ہی مواقع اور آسانیاں ملیں جتنی عام لوگوں کو ملتی ہیں۔ ایک بھرپور زندگی جینے کا انہیں اُتنا ہی حق ہے جتنا ہم سب کو ہے۔ یہ حقیقت خِود بھی (realize)کریں اور دوسرو ں کو بھی کروائیں۔
پھوپھو! آپ دیکھیئے گا ” محسن ” کا یہ خوابایک دن ضرور پورا ہوگا ”
عائلہ !پھوپھو ” محسن ” کا یہ خواب بہت خوبصورت ہے اور ان شاء اللہ ایک روز ضرور پورا ہو گا۔”
پھوپھو اب تک کسی گہری سوچ کے زیر اثر تھیں۔
پھوپھو! اب میں چلونگی۔ رات کو دیر تک کام بھی کرنا ہے۔آج ہی ایک دو اہم آرٹیکلز میری نظر سے گزرے ہیں ایک تو کسی نئی ریسرچ کے بارے میں ہے اور دوسرا ایک ماں کی( Sucess story) ہے ۔ رات کو انہیں ریویو(review)کروں گی تو ڈیڈ لائن تک بمشکل اُن کا اُردو ترجمہ ہو پائے گا”۔
عائلہ کی ساری بات سُن سعدیہ کچھ بے چین سی ہو کر اُٹھیں اور عائلہ سے ایکسکیوز (excuse)کر کے اَندر کمرے میں چلی گئیں۔ مظہر بھائی کے انتقال سے لیکر اب تک انہوں نے بھائی کے نام پر کوئی بڑا صدقہ نہیں نکالا تھا۔ انتقال سے کچھ عرصے قبل کچن کی ایک دو بڑی اپلائنسیز (Appliances)لینی تھیں بعد از انتقال لائوئنج کا سارا انٹرئیر تبدیل کیا اُس میں ایک خطیر رقم خرچ کر ڈالی حالانکہ یہ کام کچھ تاخیر سے بھی ہو سکتا تھا۔ سعدیہ نے الماری کھولی اور اُس میں جتنا بھی کیش موجود تھا سب ایک لفافے میں ڈالا اور عائلہ کو تھما دیا۔
عائلہ ! محسن بذات خود ایک بہت خوبصورت خواب ہے جیسے حقیقت ہم سب مل کر بنائیں گے۔ یہ تم ہماری طرف سے ” محسن ” کے ڈونیشن بکس (Donation box)میں ڈال دینا” عائلہ لفافہ لیتے ہوئے کچھ ہچکچا رہی تھی پھر یہ سوچ کر رکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ اِس معمولی رقم کے بدلے میں پھوپھو کو دنیا اور آخرت میں بے پایاں آسانیاں و اجر عطا کرے گا۔
” پھوپھو! ،میں سوچ رہی تھی کہ (Success Story)والا آرٹیکل آپ کو فارورڈ کر دوں ۔ آپ کچھ وقت نکال پائیں گی پلیز” عائلہ نے جوتوں کا تسمہ باندھتے ہوئے پوچھا۔ اُس نے اونچی ایڑی والے مردانہ طرز کے خوب چمکتے ہوئے سیاہ جوتے پہن رکھے تھے۔
” ہاں ، ہاں کیوں نہیں۔ میں نے تمہارے پھوپھا کی وجہ سے کالج سے آف لیا ہوا ہے ۔ تم آرام سے ناصرف یہ بلکہ مزید بھی کوئی (encouraging)پیس آف رائٹنگ (Piece of writing) ہو تو مجھے فارورڈ کر دینا میں سادہ الفاظ اور اپنی زبان میں ترجمہ کر دوں گی۔ ” پھوپھو نے لائونج کا بیرونی دروازہ عائلہ کے لیے کھولتے ہوئے اشورنس(assurance)دلائی۔
گھر کے مین گیٹ پر شیراز اور پھوپھا کھڑے کافی دیر سے اِن دونوں کا انتظار کر رہے تھے۔ عائلہ اور شیراز گھر جانے کے لیے نکلے تو پھوپھو سہارا دیکر شجاع پھوپھا کو لائونج میں لے آئیں۔ اندر آتے ہی پھوپھا نے ایک ہاتھ سے تو ریموٹ پکڑ کر مووی کا پچھلا سین ری وائنڈ (rewind)کرنا شروع کیا کہ علیک سلیک کے دوران ہیرو ہیروئن کے کچھ رومانوی مکالمے مِس ہو گئے تھے اور دوسرا ہاتھ پھوپھو کے کندھے پر مضبوطی سے رکھ لیا کہ کہیں وہ سِمیٹا سمیٹیِ کرنے کچن میں نہ چل پڑیں۔
سعدیہ نے پھوپھا کے عالم شوق ( جو اکثر انہیں شاک (shock)کر دیتا تھا) پر صد آفرین بھیجی، اپنی کمر کے پیچھے کشنز ٹھیک کیے اور پھر خود اُن سے بھی زیادہ دلجمعی سے مووی دیکھنی شروع کر دی۔
ََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائلہ منگل کو اسلام آباد جارہی تھی جہاں سے وہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب قطر ائیر لائنز کی فلائیٹ لے گی ، اتوار کی صبح پھوپھو نے ناشتے کے بعد گھر کے چیدہ چیدہ کام نمٹائے پھر پھوپھا کو اُن کے دوست کے گھر ڈراپ کر کے سیدھی جناح روڈ نکل آئیں۔ ”چمن ڈرائی فرئوٹ شاپ” کے پاس گاڑی پارک کر کے وہاں سے چلغوزے اور مکس نٹس کے کلو والے پیکٹس بنوا کر پچھلی سیٹ پر عائلہ اور بچوں کے دیگر تحائف کے ساتھ رکھ دیئے۔ عائلہ کے لیے انہوں نے (sana safi naz)کے دو کرتے (ایک ذرا (casual)روزمرہ پہنے والا اور دوسرا سیمی فارمل تھا) مگر اُن کا میں تحفہ زمرد ، پولکی ڈائمنڈز (Polki Diamonds)اور موتیوں کا ایک مغل بائی برسلیٹ تھا جو انہوں نے شفق حبیب کی سگنیچر کلیکشن(Signature collection)سے چُنا تھا کیونکہ انہوں نے تمام چیزیں آن لائن آڈر کیں تھی اِس لیے ڈر رہی تھیں کہ تمام آئٹمیز وقت سے پہنچ جائیں صد شکر کہ ایک ایک کر کے سبھی کچھ عائلہ کی روانگی سے قبل آگیا۔ ایان اور دونوں بچوں کی قمیض شلوار ، بچوں کی چھوٹی چھوٹی اسلامی کہانیاں اور دیگر ایکٹویٹی (Activity) کا سامان انہوں نے البتہ یہیں کوئٹہ سے لیا تھا۔ ارادہ تھا کہ بچوں کو کچھ کیش بھی دینگی ڈالرز میں چینج کروا کے پھر اپنی مرضی سے جو چاہیں خریدتے پھریں۔ جناح روڈ کے گندے ٹریفک میں پھنستے پھنساتے آخر وہ دو بچے تک بھائی کے گھر پہنچ ہی گئیں۔ عائلہ پہلے تو ” محسن” کی لانچ کے سلسلے میں کافی مصروف رہی تھی۔ اب تو اُسے لانچ ہوئے بھی ایک ہفتہ ہو چلا تھا تو عائلہ کو ذرا سانس لینے کا موقع ملا۔ اُس کی فائنل پیکنگ (Packing)اپنے آخری مراحل میں تھیں وہ پورے گھر میں بھاگتی پھر رہی تھی۔ سعدیہ نے چھوٹتے ہی تمام تحائف اُس کے حوالے کیے کہ وہ دیکھ کر انہیں سامان میں طریقے سے سیٹ کر لے۔ کچھ ہی دیر میںحلیمہ نے کھانا لگا دیا۔ سب مل بیٹھ کر محبت سے پرسکوں ماحول میں کھانا کھا رہے ہوں تو عام سا کھانا بھی من و سلویٰ لگنے لگتا ہے مونگ مسور کی دال ، بگھارے چائول ، ہاتھ کا کُٹا قیمہ ‘ چکن کا بالٹی گوشت ، گھر میں لگے چھوٹی پتیوں والے پودینے ہرا دھنیے کی تازہ چٹنی اور کچومر سلاد کے کھانے کے بعد ربڑی جیسی گلابی گلابی زعفرانی کھیر جو رائس پڈنگ (Rice Pudding)کہہ کہہ کر عائلہ نے بچوں کو بھی ایک ایک چھوٹی کٹوری کھلادی۔کھانے کے بعد حلیمہ اورر سعدیہ تو ذرا طویل قیلولے کی نیت سے لیٹ گئیں عائلہ البتہ تھوڑی ہی دیر میں آرام کر کے اُٹھ بیٹھیں وہ اور بچے قبرستان فاتحہ کے لیے جارہے تھے۔ جانے سے پہلے حلیمہ شیراز سے ٹینکر والے کو فوں کرنے کا کہا۔ دراصل پہلے حلیمہ ہفتے میں دو ٹینکر ڈلوا لیا کرتی تھیںتو اُن کا خوب اچھا گزارا ہو جاتا تھا مگر جب سے عائلہ اور بچے گھر آئے تھے تو ٹینکر والے کو تین بار بعض اوقات ہفتے میں چار دفعہ بھی بلانا پڑا تھا۔ اللہ جانے اِنہیں ہر وقت نہانے کی کیا بیماری تھی صبح اُٹھیں عائلہ بچوں کو لیکر نہانے گھس گئیں، ذرا کوئی گھر پہ آ گیا یا انہوں نے کہیں جانے کا قصدا کیا عائلہ اپنے آپ کو اور بچوں کو سونگھتی پھرتیں۔ رات سونے سے پہلے کھانا کھائو یا نہ کھائو ، نہائو، نہلائو ضرور۔
ایک روز تو حد ہی ہو گئی کوئی ڈیڑھ گھنٹہ باتھ روم میں لگانے کے بعد عائلہ اِٹھلاتی ہوئی کچن میں چلی آئیں اور فرمانے لگیں” افوہ امی! ہمارے گھر کے اتنے سارے باتھ رومز میں سے کسی ایک میں بھی باتھ ٹب نہیں” ہے۔ ”کیوں! اب باتھ ٹب کی کیا ضرورت آن پڑی تمھیں؟ ہمارا تو اچھا بھلا اُس کے بغیر گزارا ہو رہا ہے ” حلیمہ جو پہلے ہی عائلہ اور بچوں کے اِس قدر طویل باتھ روم ٹریپ (Trip)پر تپی بیٹھی تھیں، جل کر بولیں۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7

Read Next

مدیر سے پوچھیں | علی عمران سے ملاقات

4 Comments

  • Such a nice concept

  • Lovely story

  • Hi Dear , very informative and well written story. Is it possible to contact to writer to get information about “Mohsin” kind of program if its its really excites. Thank you.

  • بہت عمدو اندازِ بیان ہے 👍

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!