سیاہ اور سفید کے درمیان


” وہ میں نے بچوں کو سالٹ باتھ(Salt bath) دینا تھا” عائلہ نے ہاتھ میں پکڑے سی سالٹ (Sea salt) پیکٹ کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہائے اللہ” یہ سُنتے ہی حلیمہ حق دق رہ گئیں یعنی کہ نمک کا سالن کے علاوہ بھی کہیں استعمال عائلہ نے ڈھونڈ لیا تھا۔ اِس کا تو کوئی بھروسا نہیں کہ نہانے کے ٹب میں آدھا نمک کا ڈبہ انڈیل ‘جھائوے پر صابن کی جگہ نمک لگا کر بچوں کو رگڑنا شروع کر دیں۔ سالن میں نمک کی جگہ اپنی انگلیاں چاٹ لیا کرو، یہ کہہ دیں۔وہ توشکر ہے کہ عائلہ ایک خاص قسم کے سمندری نمک کی بات کر رہی تھی جو قدرتی نمکیات سے مالا مال ہوتا ہے۔ ذرا سا نہانے کے پانی میں ڈال کر وہ تھوڑی دیر بچوں کو اُس پانی میں بیٹھا دیا کرتی تھی۔ اِس سے ایک بچوں کی جلد اہم نمکیات جذب کرلیتی ہے اور جسم میں اُن کی کمی پوری ہو جاتی ۔ دوسرا بچے بھی خاصے پرسکون رہتے تھے۔ عائلہ نے گھر میں باتھ ٹب کی عدم موجودگی کا حل یہ نکالا کہ سی سالٹ (sea salt) کا پیکٹ واپس سامان میں ڈال کر ایک منرل باڈی لوشن (Mineral body lotion) نکالاجس سے صبح شام بچوں کا مساج ہوتا خوب رگڑ کر۔خیر سے دنیا میں وہ کون سا مسلہ ہے جس کا حل پھر متبدل حل عائلہ کے پاس نہ ہو۔
شیراز کو پچھلے چند ہفتوں میں اتنی بار ٹینکر والے کو فون کرنا پڑا تھا کہ اُس کے فون فیوریٹس (Favourites) ٹاپ آف دیِ لسٹ پر کسی خوبصورت لڑکی کانمبر نہیں بلکہ ” الفردوس ٹینکر سروس بمقام سیرکی روڈ” کا نمبر سیو تھا۔ قبرستان جانے سے پہلے وہ نمبر ملاتے ہوئے بہت برا سا منہ بنا کر سوچ رہا تھا کہ یہ عائلہ جب پاکستان سے گئی تھی تب تو اچھی خاصی نارمل تھی ( بقول عائلہ کے بہت گندی سندی رہا کرتی تھی میں) مگر اب تو اُسے نہانے کا کچھ فوبیا سا ہی ہو گیا ہے۔ اتنا نہا نہا کر دیکھو چہرے کی جلد کیسی جیلی فش (Jelly fish)کی طرح ہو گئی ہے۔ فون کو اسپیکر پر ڈالتے ہوئے اُس نے خوب غور سے عائلہ کو دیکھا جو مگن سی بچوں کو جوتے پہنا رہی تھی۔ عائلہ کے یہاں اعتدال پسندی کا کیونکہ کوئی خاص رواج نہیں تھا۔ اِس لیے اُس نے پاکستان میں میسر آنے والی ذرا سی فرصت ‘ بچوں کی نانی اور راقیبہ کی موجودگی کا خوب فائدہ اُٹھایا۔ بچوں کو اِن دونوں کے پاس چُھوڑ چُھوڑ کر اُس نے اتنے سے دنوں میں پانچ مرتبہ مساج، ایک بار پورا پرل فیشل (Pearl facial ) کرواہی لیا۔
اورر یہ بچے دیکھ لو اِن کے، کیسے آبی آبی سے ہیں، چلتے بھی کچھ عجیب طریقے سے ہیں سمندر سے نکالا ہوا پینگوئن کا خاندان۔(A family of Mama penguin & little Penguin chicks) اے فیملی آف ماما پیینگوئن اینڈ لٹل پینگوئن چیکس۔
ٹینکر والے سے بات کرتے کرتے نظرئیںماں سے ٹکرائیں تو انہیںبھی کچھ اپنی جیسی ہی سوچوں میں ڈوبتا اُبھرتا پایا۔ بس فیملی ٹائٹل اُن کا ذرا مختلف تھا” سمندری بگلے” بچوں کی ٹانگیں بھی بالکل بگلوں کی طرح پتلی پتلی اور لمبی لمبی سی ہیں اور اُن کی ماں بگلی بلکہ پگلی کبھی اُڑ کر پانی میں کبھی ساحل پر بس ہر وقت پانی کے آس پاس منڈلاتی نظر آتی ہے۔ پہلے ہی بلوچستان اتنی خشک سالی کا شکار ہے یہ کچھ عرصہ اور رہیں تو ہم بوند بوند کو ترس جائیں گے۔
اِدھر عائلہ اپنے مردانہ طرز کے کالے جوتوں کے ہرے تسمے باندھتی ہوئی سوچ رہی تھی۔ پتہ نہیں امی اور شیراز نہانے دھونے میں اِتنا بخل سے کیوں کام لیتے ہیں ۔ امی تو پھر بھی ایک دن چھوڑ کر نہا ہی لیتی ہیں مگر شیراز اللہ میری توبہ پورا الیگیئڑ(Alligator)ہے میرا بھائی۔ سارا دن خشکی میں پڑا اپنی موٹی کھال کے ساتھ اِنڈیتا رہتا ہے۔بہانے بہانے سے میں نے کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نہانے سے جسم کے فاسد مادے خارج ہو جائیں تو اسکن ذرا کھل کر سانس لینے لگتی ہے۔ امریکہ سے ہر اعلی برانڈ کی خوشبو کا ٹیسٹر (Tester)لیکر آئی تھی)کیونکہ وہ فری میں مل جاتا ہے) آدھا بیگ بھی اِن دونوں کو دیا کبھی امی کو باڈی میسٹ(Body mist)کا ٹیسٹر پکڑا رہی ہوں، کبھی شیراز کو میل پرفیوم کا ٹیسٹر پکڑا رہی ہوں مگر ایک پرفیوم بے چارہ روزانہ نہانے کا متبادل تو نہیں ہو سکتا نا! ویسے اگر شیراز الیگیئٹر (Alligator)ہوا تو امی بھلا کیا ہوئیں۔۔۔۔۔؟
”لاحول ولاقوة ” با آواز بلند پڑھ کر اُس نے کانوں کو ہاتھ لگایا تو شیزاز اور امی دونوں ہی چونک گئے کہ کہیں عائلہ نے انسانی سوچ پڑھنے پر بھی کوئی ریسرچ تو نہیں کر رکھی! پتہ تو نہیں چل گیا اُسے کہ ہم اُس کے بارے میں کیا کیاسوچ رہے ہیں۔ دہل کر شیراز تو جلدی سے اُٹھا اور روکے بغیر کارپورچ چلا گیا۔ حلیمہ نے بھی جھٹ سے قیلولے کے لیے آنکھیں موند لیں۔
جب تک اِن لوگوں کو واپسی ہوئی یہ دونوں خواتین عصر پڑھ کر جو فارغ ہو چکی تھیں، راقیبہ تشریف لائی تو عائلہ نے اُسے باہر بچوں کے پاس بھیجا اور خود چائے کی تیاری میں لگ گئی۔ کباب سموسے، بیک کئے۔ مکئی کے دانے گرم تیل میں ڈال کر جو ڈھکنا بندکیا تو ڈھیروں پاپ کارن منٹوں میں تیار ہو گئے۔ چھوٹی بوندی والی دہی پھلکیوں کا پیالہ اُس نے فرج سے نکالا اُس پر گھر کا بنا چاٹ مصالحہ چھڑکا، اپنی دار چینی والی سبز چائے ور دیگر افراد خانہ کی دودھ والی کڑک چائے بنا کراُس نے راقیبہ کو آواز دی کہ وہ سب چیزیں باہر برآمدے میں لے جائے۔
راقیبہ نے بچوں کی چھوٹی ٹیبل اور کرسیاں بھی برآمدے میں رکھے تخت پوش کے سامنے لگا دیں تھی۔ تخت پوش پر حلیمہ نے نسبتاً پتلے نرم گدیلے پر رَلی بچھا رکھی تھی۔ اُن کے یہاں ہر سال گرمی کے مہینوں میں ایک سندھی مائی لال بی بی آیا کرتی تھی۔ اِس بار لال بی بی جو آئی تو اپنے ساتھ دو رلیاں بھی بنا کرلائی تھی۔ اُن میں سے ایک توعائلہ نے اپنے پاس رکھ لی دوسری حلیمہ نے تخت پوش پر بچھا دی۔اُس کے اوپر دو درمیانے سائز کے خوب گوتھے ہوئے گائو تکیئے رکھے ہوئے تھے جن کے چاندی رنگ غلاف پر آگے پیچھے بکھرے باریک سفید دھاگے، موتی ستاروں کے پھول ماتو جیسے آسمان پر چم چم کرتے تارے اور چنداماما، دراصل غلاف کا کپڑا حلیمہ کے ولیمے کا غرارہ تھا۔مظہر صاحب کے گھر سے جو کچھ بھی آیا تھا اُس میں صرف وہ غرارہ اور ایک دو ساڑھیاں ہی کام کی تھیں باقی سب تو رہے نام اللہ کا خانہ پوری کا سامان تھا ۔ حلیمہ نے غرارہ درزن کو دے کر کھلوایا اُس اللہ کی بندی نے بھی اندر استر لگا کر اِس نفاست سے سیا کہ کیسی پھول کا ایک موتی دانہ بھی نہ ٹوٹا۔
بہار کی ایک ست رنگی شام اُس گہرے سرمئی اور سیاہ ماربل فلور والے برآمدے میں اتر آئی تھی۔ برآمدے کے دو قد آور ستونوں کے گرد منی پلانٹ کی گھنی بیلیں ایک ترتیب سے اوپر چڑھی ہوئی تھیں۔ برآمدے سے نیچے آدھے کئے گول دائرے کی صورت جاتیں تین سیڑھیاں اوراُن پر رکھے منی پلانٹ اور ٹارو (Taro)کے بیسوں گملے، اللہ جانے مظہر صاحب کے ہاتھوں کا کمال تھا یا اُن کے گھر کی مٹی میں زرخیزی تھی۔ وہ منی پلانٹ کی کسی مردہ شاخ کو بھی زمین میں ٹھونس دیتے تو نئے پتے پھوٹنے لگتے۔ کئی لوگ تو اُن کے گھر سے منی پلانٹ کی شاخیں چوری سے کاٹ کر اپنے گھر لے جاتے( سنا ہے کہ چوری کیا ہوا پودا پھوٹ کر رہتا ہے مُرجھاتا نہیں ہے) یا اگر کبھی مظہر صاحب مہربان ہوتے تو کسی کسی کو منی پلانٹ کی ایک بوتل تحفتاً دے دیتے مگر ایسا ہوتا ذرا کم ہی۔
ٹینکر والے کی آمد فائنلی ہو چکی تھی گھر کے باہر ٹینکر دیکھ آس پاس کے کچے گھروں سے کئی اُزبک بچے بے ڈول سے کالے ڈول اُٹھائے جوق در جوق اُن کے گھر چلے آرہے تھے۔ ٹینک فُل بھرنے کے بعد بچ جانے والا یہ اضافی پانی اب اُن کا ہے۔ شیراز نے گاڑی پہلے ہی گلی میں کھڑی کر دی، سو بڑا سا کار پورچ اب بچوں کا پلے گرائونڈ تھا۔باری آنے پر ہر بچہ اپنا ڈول بھرتا پھر بھاری ڈول اُٹھائے تیزی سے اپنے گھر روانہ ہوجاتا ۔ بھرا ڈول دروازے پر چھوڑ کر دوگنی تیز رفتاری سے باری کے انتظار میں کھڑے اپنے دوستوں کے پاس واپس آ جاتا۔ پرانے کپڑے پہنے، آدھا پائوں چپل میں اور آدھا زمین پر گھسیٹتے ، کھیلتے ہنستے بولتے ایک دوسرے میں گھُستے پیارے بچے ۔پینے کا یہ صاف پانی اُنہیں کئی دنوں کی مشقت سے بچا لیتا ورنہ صرف اِس صاف پانی کی تلاش میں اُن معصوم بچوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے پیروں سے در بدر بھٹکنا پڑتا۔ سلیمان کو اپنے اِردگرد بچوں کی موجودگی کا احساس تو تھا مگر اُسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اُن سے بات چیت کا آغاز کیسے کرنا ہے یا اُن کے کھیل میں شریک کیسے ہونا ہے۔ وہ تو بس اپنی ترنگ میں اُن کے گردوں گرد گھومے چلا جا رہا تھا۔ محمد البتہ گھر میں کثرت سے آنے والی بلیوں کے ساتھ لگا ہوا تھا۔تنگ آ کر سنہری چھوٹے بالوں والی موٹی سی بلی تو چیری کے درخت پر پھرتی سے چڑھی اور بائنڈری وال پر لگی نوکدار گرل کے کنارے ناک پُھلا کر بیٹھ گئی۔ اُس کے دو چھوٹے بلونگڑوں کو البتہ محمد کے متواتر اُن کے سر پر کھڑے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔وہ چپٹر چپڑ کر کے پیالے میں پڑا ملک پیک پیتے جا رہے تھے۔
عائلہ گفٹ بیگز اُٹھائے باہر آئی تو پہلی نظر آسمان پر پڑی ،گلاب کی پتیوں سا سادہ ، شفاف ، ہر پیچ و خم سے مبرا نیلگوں آسمان اُس پر اُڑتے کبوتروں کے غول، مشرقی کونے پر بہت بلندی پہ اُڑتی باریک مانجھے سے بندھی وہ واحد لال پتنگ، آسمان کی سرحد کے ساتھ دوڑتی، گھر کی بیرونی دیوار سے ذرا اوپر بجلی کی تاریں اُن پر قطار در قطار بیٹھیں چڑیاں اور ابابیلیں۔
بہت مانوس سے اِس منظر کو عائلہ نے آنکھوں میں بسا لیا، دل میں جما لیا۔ ایسا چمکیلا آسمان ایسی سوندھی خوشبو والی مٹی، کہاں دنیا میں اور؟ امریکہ میں تو آسمان بھی مختلف اور اُس پراُڑتے پرندے بھی ۔ سرمئی بادلوں سے ہمہ وقت ڈھکا آسمان اور اُس پر ترتیب سے آتے جاتے ہنس (Swans)اور بطخوںکے غول سردیوں میں تو سورج دنوں غائب رہتا۔ عائلہ اور بچے دعائیں مانگ مانگ کر تھک جاتے تب کہیں سورج بائو (Galaxy School)کہکشاں اسکول سے کچھ گھنٹوں کی رخصت لیکر آتے اور پھر اُڑن چھو۔ اب اللہ جانے عائلہ کو کب یہ پُر رونق شام دوبارہ دیکھنا نصیب ہو گی۔وائے حسرت۔۔
بلونگڑوں نے اپنا دودھ ختم کر لیا تھا اب زبانیںباہر نکالے، اپنے ہی لعب سے منہ اور ٹانگیں صاف کر رہے تھے پھر دو اپنی ماں جیسے سنہری سنہری بلونگڑے تو جا کر برآمدے میں رکھے قدآور اسٹول کے نیچے لیٹ گئے۔ دودھیا سفید بلونگڑا شاید اب بھی پیاسا تھا سو وہ موٹر کے پاس اکٹھا ہو جانے والا ذرا سا پانی
پینے لگا۔ خوبانی کے پیڑ تلے رکھا موٹے تنکوں کا جالی دار پنجرہ پنجرے کے ایک بڑے سوراخ سے چکور اپنی موٹی چھوٹی گردن باہر نکالے مسلسل کیاری کی مٹی کھودے چلے جا رہاتھا۔ کچھ بعید نہ تھاکہ اگر مزید یہاں روکتا تو اُس زیر زمین سرنگ سے آزاد ہو چلا تھا۔ کبھی کبھی وہ سر اُٹھا کر اپنی لال عقیق آنکھوںسے کب سے ایک ہی جگہ کھڑے اپنے ہاتھوں سے مسلسل کھیلتے محمد کو بھی دیکھ لیتا۔ پانی لینے والا آخری بچہ بھی جب چلا گیا تو سلیمان نے کچھ مایوس ہو کر اپنے گول چکر روک دیئے۔ عائلہ نے سلیمان کا ہاتھ پکڑ کر پہلے دروازے کی کنڈی لگائی پھر پکچر چارٹ میں سے کھانے کی تصویر پر انگلی رکھ کر محمد کو دیکھائی۔ گیراج کی پرلی طرف رکھی نیلی پانی کی ٹنکی سے دونوں بچوں کے ہاتھ دُھلا کر اُنہیں چھوٹی کرسیوں پر بیٹھا دیا۔ پلیٹیں سامنے رکھ کر بتایا کہ فرسٹ فوڈ، دین آئی پیڈ(First food then Ipad) اُس نے اپنا جملہ تین دفعہ دھرایا تو سلیمان نے اپنی پلیٹ سے سموسہ اُٹھا کر کھانا شروع کر دیا۔ محمد کو البتہ ایک بار پھر پکچر چارٹ دیکھانا پڑا۔ عائلہ کو بچوں کی طرف متوجہ دیکھ کر حلیمہ نے خود ہی ساری چیزیں کھولیں۔ اِتنا سارا اہتمام دیکھ کر وہ دنگ رہ گئیںخصوصاً مغل بائی بریسلٹ تو اتنا حسین تھا کہ اُس پر سے نظریں ہٹائے نہیں ہٹ رہیں تھی۔
”سعدیہ ! تم نے کچھ زیادہ ہی تکلف کر لیا۔ کچھ چیزیں اِس کے اگلے ٹرپ کے لیے سنبھال لیتیں مگر ساری چیزیں ہیں بہت خوبصورت ”۔حلیمہ نے تسبیح نیچے رکھ کر پہلے سعدیہ کی پھر اپنی پلیٹ بنائی۔
”پھوپھو! شفق حبیب کی جیولری پر تو میری کب سے نظر تھی۔ اور پاکستانی کپڑے بھی عرصہ ہوئے بنائے ہی نہیں گئے۔ اب کے پاکستان آئی تھی تو گن کر چار کرتے اور اُن کے ساتھ میچنگ ٹراوئزر (Trouser) لے لیئے۔ باقی سوچا کہ اِدھر اُدھر سے مل جائیں گے۔ شکر ہے کہ آپ نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ دونوں ہی خواہشیں پوری کر دیئں۔اللہ آپ کے رزق میں برکت اور وسعت ڈالے اور آپ مجھے چیزیں خرید خرید کر دیتی رہیں۔ عائلہ نے مسکرا کر اپنی آسمان کی تمام وسعتیں سمیٹے، سورج کی روشن کرنوں کی طرح دمکتی آنکھوں سے اُنہیں دیکھا۔
عائلہ قبرستان سے واپس آ کر کپڑے تبدیل کر چکی تھی۔ پر پل گھٹنوںسے ذرا اوپر تک کی ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ اور کاٹن کا کھلے چار خانوں والا کھلا سا پاجامہ پہن رکھا تھا، شرٹ پر سفید چمکدار حروف میں اُبھرا ہو تھا۔
کافی Coffee
اسپارکل اور Sparkle and
ریپیٹ Repeat
ایک کندھے پر کالا اسٹول (Stole)اور دوسرے کندھے پر اُس نے اپنے ہلکاسا سرخ شیڈ لیے بھورے بال سمیٹ کر ڈال رکھے تھے تھوڑے بالوں کا ایک ڈھیلا سا پف(Puff) بنا کر حسب عادت کھوپڑی کے سب سے ہائیسٹ پوائنٹ (Highest point) پر ٹکا رکھا تھا۔ اِس طرح کا پف بنانے سے وہ اور بھی دُبلی لگ رہی تھی۔ میک اپ سے مبرا سادہ معصوم چہرہ ہونٹوں پر البتہ کیسٹرآئل (Castor oil)کی ایک ہلکی سی لئیر لگا رکھی تھی۔ کانوں میں ڈائمنڈ ایکسنٹ (diamond accent)کی وہی چھوٹی چھوٹی بالیاں جو وہ امریکہ سے ہی پہن کر آئی تھی۔پائوں میں (coach)کی دو پٹیوں والی سیاہ چپلیں جن پر جا بجا پانی میں ڈولتی چھوٹی چھوٹی کشتیاں پرنٹ ہوئی تھیں۔ (سمندری مخلوق کی سمندر سے اَمر محبت کا ایک اور ثبوت) عائلہ کی آج ترنگ ہی کچھ الگ سی تھی یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی بڑی ہی خیر کی خبر اُسے ملی ہو جس نے اندر باہر کے سارے ارتعاش مٹا کر تازگی اور سکون بھر دیا ہو، مسرت بے پایاں مسرت ۔ جی بھر کر عائلہ کا جائزہ لینے کے بعد پھوپھو نے ایک بھرپور سانس اندر کھینچی تو عائلہ کے وجود سے لپٹی موگرے چینبلی کی خوشبو نے پھوپھو کی تمام حسیات کو اپنے اندر لپیٹ لیا۔
”عائلہ ! تم بہت اچھا اسمیل (smell )کر رہی ہو۔ اگلی دفعہ آنا تو اِس پرفیوم کی سب سے بڑی بوتل میرے لیے ضرور لیتی آنا، باقی بات رہی اِن سب چیزوں کی تو تم اتنے عرصے کے بعد آئی ہو اتنا تو تمہارا حق بنتا ہی ہے۔
( Accessories)کے معاملے میں میری اور تمہاری پسند ہمیشہ ایک رہی ہے۔ یاد ہے جب ہم تم ایک بار کراچی گئے تھے تو اِس (Designer) ڈئیزائنر کی جیولری ایگزبیشن (Exhibition)دیکھ کر تم مچل مچل اُٹھیں تھیں مگر اُس وقت ہم دونوںکے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے۔ اُس روز میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ تمہیں کبھی نہ کبھی اِس کی جیولری لیکر ضرور دونگی، اِس لیے یہ بریسلٹ میں نے چُنا”
پھوپھو نے چائے کے کپ پر جمی باریک جھلی کو اپنی شہادت کی انگلی سے کپ کی منڈیر پر ٹکایا اور ٹھنڈی ہوتی چائے کا ایک بڑا سا گھونٹ بھرا عائلہ چائے واقعی بہت اچھی بناتی تھی اب بھی پھوپھو کو مزہ آ گیا۔ پھر کچھ یاد آنے پر انہوں نے اِستفسار کیا” ارے محسن کا کیا ہوا ؟ مجھے ای میل پر جو ویکلی نیوز لیڑ (weekly news letter) ملا کرتا ہے اُس میں لانچ کی ڈیٹ 25جون ڈیکلئیر (declare)کی گئی تھی ویسے سوشل میڈیا پر ایڈورٹائز (Advertise)تم لوگوں نے خوب اچھا کیا ہے۔ ” محسن ” کے فیس بک ایڈ کے امیجز(Images)بھی بہت گرِپنگ (griping)ہیں پھر ٹیوئٹر (twitter)پرتمہارا وہ مختصر دل کو چھو لینے والا بلاگ (blog) جس میں تم نے ” محسن” کو اپنے مرحوم ابا کے نام منسوب کیاتھاکہ
” موت ہمیشہ بہت حیران کن ہوتی ہے یہاں تک کہ جب اپنا کوئی بہت پیارا بستر مرگ پر بھی ہوتا ہے تب بھی ہم نے کہیں امید سنبھال کر رکھی ہوتی ہے ۔ میرے ابا کو اِس دنیا سے گئے کچھ دن ہو گئے ہیں اور مجھے یہ لگتا ہے مجھے واقعی یہ لگتا ہے کہ اُن سے کرنے والی بہت ساری باتیں رہ گئی ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں نے کبھی چومے نہیں،اُن کے چہرے پر بوسہ کبھی دیا نہیں کیونکہ اِس دنیائے فانی میں ہمارا وہ شیئرنگ اینڈ کئیرنگ تعلق کبھی بن ہی نہیں پایا سوزمین کے اوپر رہنے والی عائلہ مظہر اور زمین کے نیچے رہنے والے مظہر حسین کا رابطہ قائم ہو سکے اے ریلیشن شب بٹوین ایگزسٹنس اینڈ نان ایگزسٹنس، (A relationship between existence and non existence) اِس لیے میں نے ” محسن” قائم کرنے کا سوچاجب جب ” محسن ” نیکی کا ایک دروازہ اِس دنیا میں کھولے گا پروردگار جنت کے کئی دروازے ابا کی قبرمیں کھول دے گا۔ میرے ابا کی قبر ٹھنڈی چمکیلی روشنی اور جنت کی خوشبو سے بھر جائے گی۔ میں اپنے تمام ٹیم ممبرز کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے نیکی کے یہ تمام دروازے کھولنے میں میری مدد کی۔ اللہ اُن کی زندگی سے ہر اندھیرے کو دور کر کے عافیت کی روشنی بھر دے( آمین)۔
پھوپھو نے پورا بلاگ سیل فون اسکرین سے پڑھ کر سُنایا۔
”پھوپھو! ویب سائٹ تو ہم نے ڈئیوڈیٹ پر لانچ کر دی تھی ۔ الحمدللہ ! پراپر(proper) (Advertising)کی وجہ سے پہلے ہی ہفتے میں رسپونس بہت اچھا آیا۔ مجھے اب تک پاکستان کے کئی چھوٹے بڑے شہروں سے ڈھائی سو ای میلز آ چکی ہیں۔ ہمارے یو ٹیوب چینل پر (Subscribers) سبسکرائیبرزکی تعداد بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ہر ہفتے آن این ایورئیج (on an average) میں تین ویڈیوز اپنے چینل پر ڈالتی ہوں ۔ ایک ایکیڈمک، ایک غیر نصابی سرگرمیوں کے متعلق اور تیسری کسی تھراپی علاج سے ریلیٹڈ (related)۔اِسی طرح ویکلی مجھے ایک یا دو آٹیکلز کا ترجمہ کر کے ایڈ کرنا پڑتا ہے۔ بچوںکے ساتھ ٹائم مینجمنٹ (Management)ایک بہت بڑا ٹاسک ہے مگر ایان اور میرے دوست کافی کچھ سنبھال لیتے ہیں”۔
حلیمہ نے درمیان میں ٹوکا” کیا خاک سنبھال لیتے ہیں؟؟ رات رات بھر تم آئی پیڈ (IPad) لیکر بیٹھی رہتی ہو۔ کئی بار تو مجھے یاد دلانا پڑتا ہے کہ بچوں کے اُٹھنے سے پہلے تھوڑا سا سو جائو اور ذرا اپنی تازہ ترین کاروائی تو پھوپھو کے گوش گزار کرو”

علی اورر معاذ کی پلیٹیں ابھی تک بھر ی بھری سی تھیں۔کھانے کی طرف اُن کا دھیان ہی کب تھا، ٹک کر بیٹھنا تو مانو دونوں کے لیے محال، مسلسل ہلِ جُل،ہلِ جُل اور کچھ نہیں تو سامنے میز پر گرے جارہے ہیں۔ آخر وہ اپنی پلیٹ لیکر بچوں کے ساتھ والی تیسری کرسی پر بیٹھ گئی ۔ کرسی کا رخ کچھ اِس طرح رکھا کہ آدھا چہرہ پھوپھو کی طرف (جس پر حلاوت تھی) اور آدھا چہرہ (جس پر ایک دبدبے کا عالم تھا) بچوں کی طرف۔”رہنے دیں امّی ! میرے خیال میںتو وہ میری ایک نیکی ہے بتا ونگی تو ضائع ہو جائے گی” عائلہ نے بچوں کو کھلاتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
” ارے نیکی نہیں بائو لاپن کہیے، جنون کہیے، ہوش و حواس سے بیگانگی کہیے۔ ہوا کچھ یوں کہ ” محسن ” لانچ کے تیسرے ہی دن علی الصبح ایک ماں کا روتے ہوئے فون آیا۔ عائلہ نے پندرہ منٹ خاموشی سے اُس کی بات سُنی پھر اُس کا نام پتہ لیکرتسلی دی اور فون بند کر دیا ۔ فون آیا تھا بلوچستان کے ضلع پشین سے ۔
تھوڑی ہی دیر بعد عائلہ بچوں اور شیراز کو لیکر ڈھائی گھنٹے ڈرائیو کر کے اُن کے گھر پہنچ گئیں اُس گھر میں چھ بچے تھے ۔ باپ لوکل گورنمنٹ اسپتال میں پیرامیڈکس(paramedics)تھا اور ماں اُسی اسپتال میں صفائی ستھرائی کرتی تھی۔ اُن کی سب سے چھوٹی بچی آئٹسٹک (Autistic)ہے اُسی کے دل میں سوراخ تھا۔عائلہ نے ایک ایک کر کے بڑی تسلی سے بچی کی ساری رپورٹس چیک کیں حالانکہ اپنے بچے اجنبی گھرکے سارے کونے کھدرے چیک کرتے پھر رہے تھے گورنمنٹ اسپتال میں کوئی اُس بچی کا کیس لینے کو تیار نہیں تھا۔ کراچی کے ایک بڑے کارڈیک سرجن سے بچی کے باپ نے بات کر رکھی تھی مگر اُس نے نہ نہ کرتے بھی اتنی رقم بتا دی تھی کہ وہ غریب خاندان کبھی افورڈ نہیں کر پاتا۔ بچی کی حالت اِس قدر نازک کہ وہ ایک قدم بھی بستر سے نیچے نہیں رکھ پا رہی تھی۔ ماں باپ نے کہیں فیس بک پر ”محسن”کا ایڈ دیکھ لیا۔ خیر اُس دن تو عائلہ جلد مدد کا وعدہ کر کے چلی آئیں۔ گھر واپس آ کر مجھے تو بس اُوپر اُوپر کی اسٹوری بتائی ۔ رات کو ایان کے ساتھ کافی دیر تک کُھد پدکُھد پدلگی رہی۔ اندر ہی اندر کیا کھچڑی پک رہی تھی اُس کا پتہ تو مجھے اگلی شام چلا جب بچی کے ماں باپ ہمارے ڈرائنگ روم میں بیٹھے خطیر رقم وصول کرتے ہوئے ہاتھ کھول کھول کر عائلہ ، اُس کے ماں باپ اور بچوں کو دعائیں دے رہے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد جو میں نے پوچھا کہ بی بی! راتوں رات تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ تو بڑے سمبھائو سے مجھے بتانے لگیں کہ میں نے آپ لوگوں کی طرف کا سار زیور جو اب تک میرے یہاں والے لاکر میں پڑا انڈے دے رہا تھا بیچ دیا کیونکہ اگر ” محسن ” کے فنڈ میں سے دیتے تو باقی فیملیز کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا۔ میں تو اُسی وقت سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ارے اگر یہ دونوں میاں بیوی اِسی طرح دونوں ہاتھوں سے لٹاتے رہے تو اپنی اولاد کے لیے بھلا کیا خاک بچے گا”۔حلیمہ کو آج رَج رَج کر عائلہ پر غصہ آرہا تھا۔ کون سی نئی بات ہے عائلہ کی حرکتیں ہوتیں ہی ایسی ہیں غصہ دلانے والی۔ خود کو پر سکون رکھنے کے لیے انہوں نے تسبیح اُٹھا کر درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔
سعدیہ کو یہ سارا قصہ سن کر یقین نہ آیا کہ یہ وہی بچی ہے جس کی شکل پر کل تلک بڑا بڑا لکھا ہوتا تھا کہ
” مجھے پتہ ہے کہ میں بہت بیوقوف ہوں خدارا بتا کر مزید شرمندہ مت کریں” آج دیکھو تو سہی ہم بڑوں کو اپنے اِتنے مختصر سے قیام میں کتنے ہی سبق پڑھا ڈالے۔ ایثار، قربانی، نیک نیتی اور خلوص اب صرف الفاظ نہیں رہے ہیں ۔
”امی! مذہب نے کیا سیکھ دی ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی ، اُس نے پوری انسانیت کو بچا لیا”The more you give the more you recive”جتنا دوگے اُتنا ہی ملے گا ۔یہ universal law of giving” ””یونیورسل لاء آف گیونگ ”ہے۔
اِن لوگوں کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہ گئی اولاد بھلے ایک ہو یا دس اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ نیکی کا کام تھا اور میرے اختیار میں تھا لہذا جتنی جلدی ہو سکا، میں نے کر دیا”
”لیکن پھر بھی عائلہ! وہ زیور تمہارے ابا نے تمہاری شادی پر چڑھایا تھا تھوڑا بہت تو سنبھال لیتیں اپنے لیے نہ سہی ، اپنے بچوں کے لیے سہی” سعدیہ پھوپھو نے حلیمہ کی بات سے کافی حد تک اتفاق کیا۔
”یہ زیور ابا نے چڑھایا تھا سو اُن ہی کے نام پر دیا۔ہر بیج میں ہزاروں جنگلوں کا وعدہ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنی intelligance))ا نٹیلیجنس ذرخیززمین پر سخاوت سے لُٹادے ،اندر ذخیرہ کر کے نہ رکھے ۔ رہی بات بچوں کی تو ہر نفس کو رزق پہچانے کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہے اور میرارب بہت ہی ذمہ دار اور مہربان ہے۔میں کوئی ولی پیغمبر تو نہیں ہوں مگر جس روز یہ واقعہ ہوا تھا اُس رات میں نے کچھ دیکھا تھا اگر وہ خواب تھا تواُس سے زیادہ رورشن خواب میں نے اپنی پوری زندگی نہیںدیکھا۔
کیا دیکھتی ہوں کہ ابا ہمارے ساتھ یہیںاسی گھر میں بیٹھیہیں۔ کمرے میں کہیں سے ہلکی ہلکی ٹھنڈی روشنی چھن چھن کر آرہی ہے بس اتنی ہی کہ مجھے اپنے بہت قریب بیٹھیابا صاف دیکھائی دے رہے ہیں۔ ابا ستھرے لباس میں تھے مگر چہرے پر کمزوری اور ہاتھوں میںہلکی سی لرزش تھی۔ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے،ویسے اللہ جھوٹ نہ بلوائے ابا کو میں نے اپنی پوری زندگی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا، اب جو پرسکون مسکراہٹ اُن کے چہرے پہ دیکھی تو خواب میںبھی یقین کرنا ذرا مشکل ہو گیا”
عائلہ کی اِس بات پر سعدیہ پھوپھو( جو دونوں گھٹنے جوڑے گائو تکیے کے سہارے بیٹھی ہمہ تن گوش گزار تھیں) تھوڑی دیر کے لیئے سوچ میں پڑ گئیںواقعی عائلہ کہہ تو صحیح رہی تھی، مظہر بھائی اور مسکراہٹ دونوں ایک دوجے کے لیے قطعی اجنبی تھے، آخری مرتبہ بھیا مرحوم اپنے بچپن میں مسکرائے ہونگے بعد از ازاء تو چہرے پر تنتنا اور آنکھوں میں ملال کی سی کیفیت ہی رہتی تھی۔
”ابا کا ایک بازو سلیمان کے گرد اور دوسرا محمد کے گرد تھا۔دھیمی آوزا میں مجھ سے کافی دیر باتیں کرتے رہے۔پھر مرتعش ہاتھ ہوا میں بلند کیئے اور قبلہ رخ ہو کر ہمیں دعائیں دینے لگے، یونہی دعائیں دیتے دیتے تاریکی میں رخصت ہو گئے۔ میں انہیں آواز دیتی ہوں، نیم تاریک خلا میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر انہیں ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی لیکن وہاں کوئی نہیں ہے۔خواب دیکھ کر جو آنکھ کُھلی تو تہجد کا وقت تھا۔ وضو کر کے نوافل ادا کیے تو دل جیسے ٹھہر سا گیا۔ ابا کے انتقال سے لیکر اب تک وہ جو ایک ہلکی سی خلش دل میں کہیں ہلکورے لے رہی تھی کہ شاید ابا مجھے سے ُروٹھے رُوٹھے اِس دنیا سے چلے گئے ہیں، وہ خواب کے اُس نیم تاریک خلا میں اچانک سے کہیں ابا کے ساتھ ہی غائب ہو گئی۔ ابا نے میرے پاس آ کر مجھے صاف بتلا دیا کہ میں اُن کے لیے ایک نفع بخش اولاد ثابت ہوئی ہوں اور ہمارا لازوال تعلق قائم ہو چکا ہے۔”connection of the existence with the non-existence” ”کنکشن آف دیایگزسٹنس ودھ نان ایگزسٹنس”
”عائلہ جو کافی دیر سے اپنے خواب کے سحر میں کھوئی محمد اور سلیمان کو مکمل فراموش کیئے بیٹھے تھی۔ سلیمان کے قریب آنے پر اِس عارضی دنیا میں واپس آ گئی۔ بھیگی پلکیں صاف کرتی وہ بچوں کو اندر لیکر چلی گئی تو سعدیہ نے ہولے ہولے کہنا شروع کیا۔” بھابھی یقین نہیںآتا تین ہفتے گزر بھی گئے اور اپنی عائلہ واپس جا رہی ہے۔ اب بس میری اور آپ کی ہی محفل ہو گی یا پھر ہمارے اِردگرد بسنے والی چند سہلیاں، اگلی بار جب یہ یہاں آئے گی تو پتہ نہیں ہم یہاں ہونگے بھی یا نہیں۔ ہماری تسلی کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ عائلہ باکل ہلکی پھلکی ہو کر جارہی ہے، اُس کے دل ہر بوجھ اور آلائش سے پاک ہے ۔وہ اپنے بچوں اور زندگی پر زیادہ فوکس کر پائے گی، یقیناً رات کا خواب سچا ہی ہوگا کیونکہ بھائی کے لیے جس قدر عائلہ نے کردیا ہے اِتنا تو ہم یہاں رہتے نہیںکر پائے۔ باقی خداوند کریم دلوں کے حال اور نیتوں کے احوال خوب جانتا ہے۔ وہ لوگوں سے اُن کے حالات کے مطابق معاملہ کرنے کا قائل ہے”۔
” بے شک، بے شک کہتے حلیمہ بھی اُٹھ بیٹھیں چلو ہم اندر چلتے ہیں ، اندھیرا بس ہوا ہی چاہتا ہے”۔ انہوں نے اپنے اور سعدیہ کے مگز اُٹھا کر ٹرے میں رکھے ۔ میرون سو دانوں والی تسبیح کلائی کے گرد لپٹ کر اندر چل پڑئیں۔ سعدیہ نے بھی تخت پوش کے نیچے گھسیں اپنی چپلیں نکال کر پہنیں اور اُن کے پیچھے سر جھکا کر چلنی لگیں۔ مگر لکڑی کا باریک جالی والا دروازہ کھولنے سے پہلے ایک بار سر اُٹھا کر آسمان کی سفیدی کو سیاہی میں بدلتے غور سے دیکھا ضرور۔
”عائلہ کہتی ہے کہ اِس کے بچوں جیسے تمام بچوں کی زندگی میں بس دو ہی رنگ ہیں سیاہ یا سفید اور زندگی کے ہر سوال کے جواب میں بس دو آپشنز یس (Yes) اور نو (No)لیکن زندگی کے سوال ہوتے ذرا پیچیدہ نوعیت کے ہیںصرف ہاں یا نہیں کہنے سے حل نہیں کیئے جا سکتے۔ شاید(may be)کا آپشن ڈھونڈلیا جائے تو آسان ہو جاتے ہیں۔
اِسی طرح اِن بچوں کو سیاہ اور سفید کے درمیان موجود سرمئی زون دیکھنا ذرا مشکل ہے اور یہی عائلہ جیسے والدین کی اصل اسٹریگل(Struggle)ہے ۔ یہاں ختم ہوئی اِن بچوں کی کہانی۔
لیکن ہم سب کہاں گئے؟ ہم سب بھی تو عام زندگی میں کچھ اِتنے ہی ریجیڈ(Rigid)واقع ہوئے ہیں۔ ہر انسان کو یا فرشتہ (سفید) بنا دیتے ہیں یا شیطان (سیاہ) کِسی کے بھی مکمل حالات جاننے بغیر زندگی کے جو فیصلے اُس نے لیئے ہیں اُن کی بنیاد پر ایک شخص کے بارے میں رائے قائم کرنا اور پھر اُس پر جم جانا۔ محض آنکھوں دیکھے کو سچ جان لینا ہمارا گرے زون (gray zone) ہے۔ ذائقہ چکھے بغیر تو یہ آنکھیں نمک اور چینی کو بھی ایک سا دیکھاتیں ہے۔ ہم ٹھوس تنے ہوئے درختوں کو تو بغور دیکھتے ہیں مگر اکثر اُن کی گنجلک بل دار جڑوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں بس میرے رب تو ہم سب کو بدگمانی کی آگ سے بچا۔ توفیق دے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالیں تاکہ تو ہماری خطائیں ڈھانپ لے۔یہی سب سوچتے جب وہ اِندر آئیں تو کانوں میں سب سے پہلے عائلہ کی کراری آواز پڑی (بوجھو تو کیا؟؟) ” امی! میری فلائٹ تو صبح دس بجے کی ہے میں ساڑھے چھ بجے ہی اُٹھ بیٹھوں گی آخر خود نہانا، بچوں کو نہلانا تیاری ، اِن سب میں ٹائم تو لگے گا ہی”۔
” یا اللہ ! کل تمہارانہانا، پرسوں میرا ٹینکر کو بُلانا، مٹھی بھر پیسوں کا پھر ہاتھ سے چلے جانا، ظاہر ہے دوبارہ جانے کب کوئٹہ کا ٹھنڈا شفاف پانی بہانے کے لیے نصیب ہو۔ تم تو خوب ہی اُنڈھائو گی”۔بلند آواز میں بُڑا بُڑاکر حلیمہ نے اپنی سو دانوں والی میرون تسبیح اُٹھائی اور اپنے آپ کو پرسکون(calm down)رکھنے کے لیے با آواز بلند درود شریف پڑھنا شروع کر دیا ۔ عائلہ نے بھی اپنی کوئی موٹی نئی ریسرچ بیسڈ کتاب نکالی اور اُسے پڑھنا شروع کر دیا، ہر چیز کا کھوج لگانا اُس کے پرسکون (calm down)رہنے کا طریقہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7

Read Next

مدیر سے پوچھیں | علی عمران سے ملاقات

4 Comments

  • Such a nice concept

  • Lovely story

  • Hi Dear , very informative and well written story. Is it possible to contact to writer to get information about “Mohsin” kind of program if its its really excites. Thank you.

  • بہت عمدو اندازِ بیان ہے 👍

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!