سیاہ اور سفید کے درمیان

ناول

”سیاہ اور سفید کے درمیان ”

تحریر: نائلہ عرفان

Surah Al-Baqarah
(Ayat 286)
”خدا کسی شخص کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔اُس کوثواب بھی اُسی کا ملے گاجو ارادہ سے کرے اور اُس پر عذاب بھی اُسی کا ہو گا جوارادہ سے کرے۔ اے رب ہمارے نہ پکڑ ہم کو اگر ہم بھولیں یا چُوکیں۔ اے رب ہمارے اور نہ رکھ ہم پر بوجھ بھاری جیسا رکھا تھا ہم سے اگلے لوگوں پر ۔ اے رب ہمارے اور نہ اُٹھوا ہم سے وہ بوجھ کہ جس کی ہم کو طاقت نہیں اور درگزر کر ہم سے اور بخش ہم کو اور رحم کر ہم پر تو ہی ہمارا رب ہے ۔ مدد کر ہماری کافروں پر” ۔
(سورہ البقرہ آیت 286)

”A journey of a thousand miles begins with a single step”
میلوں کی مسافت پہلا قدم اُٹھانے سے ہی طے ہوتی ہے۔

سید مظہر حسین مرحوم کے انتقال کو آج سوا مہینے پورا ہوا قُل دسواں اور چہلم سب ہی پورے اہتمام سے منائے گئے ۔رشتے دار عموماََدن رات کا کھانا بھیجوایا کر تے جب کہ پرُ لطف ناشتے کا اہتمام محلے داروں نے سنبھالا ہوا تھا۔ایک روز تو مختلف شہروں سے آئے مظہر صاحب کے بہن بھائیوں نے رات کو ہی سو چ لیا کہ صبح اُٹھ کر تندوری نان بمعہ لیاقت سفید مکھن منگوالی جائیں جو کہ کو ئٹہ کی خاص سوغات سمجھی جا تی ہے ۔ساتھ میں دودھ والے سے تازہ دودھ لے کر دودھ پتی چائے بھی چڑھ گئی ۔ابھی ناشتے کا پہلا دور اختتام پذیر نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر شاہ زمان کے گھر سے گرماگرم ناشتے کی ایک اور بڑی ٹرے آگئی ۔دو مختلف طرح کے آملیٹ،گھر کے بنے دس پندرہ پراٹھے ،تازہ ڈبل روٹی ،چھوٹی بلیوبینڈ مکھن کی ٹکیہ ،جیم اور شہد کی دو شیشیا ں اور چائے کے دو فل سائز تھرماس ۔ سب کی آنکھیں ناشتے کی اس ٹرے کو دیکھ کر کُھلی کی کُھلی رہ گئیں پھر تقریباََ سبھی نے پچھلے ناشتے کو کو صاف کر کے اگلے نا شتے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ غم زدہ حلیمہ بھابھی اگرچہ عدّت میں تھیں مگرگھر والی ہونے کے ناطے ہر آئے گئے کا خیال رکھنا اُن کا فرض ٹھہرا پہلے انہوں نے شکرئیے کے ساتھ ناشتے کی ٹرے وصول کی ۔بعد میں بچے کُچے نا شتے کو سمیٹ کر دُرناز )برتن دھونے والی ادھیڑ عمر خاتون( کے حوالے کیا ۔پھر اپنا تیرھواں سپارہ کھول کر مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے پڑھنے بیٹھ گئیں ۔رات کو بھی بڑی ذمہ داری سے انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے تمام برتنوں میں دیگ کا کھانا بھرا پھر گرم جوش شکریہ ادا کر نے کی خصوصی تاکید کے ساتھ ٹرے واپس بھیجوادی۔
سوئم کی قر آن خوانی کا انتظام عورتوں کا گھر پر اور مردو ںکے لیے سامنے خالی پلاٹ پر کیا گیا تھا۔مظہر صاحب کے گھر کے بالکل سامنے سحر این جی او (NGO)کا دفتر ہے ۔دفتر کے ساتھ والے پلاٹ پرمالک پلاٹ سے پوچھ کر چار دیواری کھڑی کر دی ۔سکیورٹی (security)کیمرہ ‘ رات بھر آدھی گلی کو روشن رکھنے والی پاور فل اسٹریٹ لائٹ بھی لگوادی گئی اور گیٹ پر چوکیدار بیٹھا دیا ۔اس طرح نہ صرف دفتر والوں کو ایک بہترین پارکنگ لاٹ مل گیا ۔بلکہ گلی کی سکیورٹی کا بھی خاطر خواہ انتظام ہو گیا ۔این جی او (NGO)میں ہر وقت لوگوں کے آنے جانے سے ایک رونق سی لگی رہتی ۔بہر حال جب حلیمہ اور شیراز نے سوئم کا دن مُقررکرلیا تو محلے میں اطلا ع بھیجوا دی گئی ۔کوئٹہ کے لوگوں میں خلوص کا تناسب بڑے شہروں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے۔بس تو پھر کیا تھا محلے کا ایک لڑکا دوڑ کر این جی او (NGO)کے چوکیدار کے پاس گیا اور اُس سے پارکنگ لاٹ رسمِ قُل کے لیے مانگ لیا۔واضح رہے کہ یہ وہی چوکیدار ہے ۔جس سے مظہر صاحب کی اپنی پوری زندگی ٹھنی رہی ۔جب بھی گھر سے نکلتے اِسے کسی نہ کسی بات پر ضرور ہی رگڑتے جیسے کبھی کہتے کہ ”تمہارا لوگ جب بھی لاٹ سے گاڑی نکالتا ہے ‘ہمارے تھڑے پر ضرور چڑھاتا ہے ‘کبھی ٹوٹ گیا ۔تو میں نے مالک کے پاس لڑنے پہنچ جانا ہے “یا پھر کہتے” تمہارے دفتر میں ہر وقت لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ پوری گلی میں شور وغُل ڈال رکھا ہے” شیراز نے دبّی زبان میں کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ”ابّا !اوّل تو ہمارا تھڑا خا صا مضبوط سیمنٹ کا بنا ہوا ہے ۔شیشے کا نہیں کہ ذرا سا گاڑی چڑ ھنے پر ٹوٹ جائے ۔دوسرا یہ کہ یہاں سے نکلنے کا اور راستہ بھی نہے ۔تیسرا یہ کہ اِن لوگوں سے ہماری ہمسائے داری ہے اور چوکیدار ایک غریب شریف آدمی ہے ۔آپ ہر وقت اُس کا پیچھا نہ پکڑا کرئیں “مگر مرحوم کچھ پیدائشی برہمی کا شکا ر تھے ،سوچھوٹی چھوٹی باتوں پر فساد کھڑا کر ناطبیعت میں رچ بس گیا تھا۔ کف افسوس کیا خبر تھی کہ ایک روز اِسی لاٹ پر اُن کی رسمِ قُل ہوگی اوریہی این جی او (NGO)والے انتظام کریںگے۔
خیر شیراز اکثر آتے جاتے چوکیدار کے ہاتھ پر کبھی ہزار ‘پانچ سو رکھ دیتا ۔اس غریب چوکیدار نے حق ہمسایہ گیری ادا کرتے ہوئے ”لشتم چشتم این جی او (NGO)کے مالک کو فون کر کے اجازت طلب کی اور پھر انتظامات میں بھی خوب آگے آگے رہا ۔حتی کہ ہرے پھول دار ٹینٹ کو روشن رکھنے کے لیے جو دو بڑے بڑے بلب لگوئے گئے تھے اُن کا کنکشن بھی سامنے مظہر صاحب کے گھر سے لینے کے بجائے ساتھ موجود این جی اوکے دفتر سے دے ڈالا ۔سوئم کے لیے چکن کڑاہی ،مٹن پلائو اور میٹھے چاولوں کی جو تین دیگیں آئیں وہ بھی اُسی نے دیگ والے کے ساتھ مل کر گدھے گاڑی سے اُتروائیں اور پلاٹ کے سامنے خالی سڑک پر رکھ وادیں۔اسی لئے حاضرینِ محفل اس چھوٹی سی زندگی میں آپ سب کے ساتھ بھلے رہئے کوئی پتہ نہیںکہ کوئی کب کہاں اور کس طرح آپ کا بھلا کر جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سب نے مل کر کئی کلام پاک اور سینکڑوں مرتبہ سورةیسٰین پڑھ ڈالی تو حلیمہ نے حافظ سلیمہ مندوخیل سے مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے پرُسوز دُعا کی التماس کی ۔۔۔۔کافی دیر تک اللہ سبحان وتعالی کے آگے عاجزی سے گڑگڑ انے اور توبہ استغفار کرنے کے بعد انھوں نے کٹے ہوئے موسمی پھلوں ودیگر پکوانوں کی سوخ پھول دار خوان سے دھکی پلیٹوں پر فاتحہ دے ڈالی۔اس طویل روح پُرور رتقریب کے اختتام تک حلیمہ بھابھی اس قدر تھک چکی تھیں کہ صوفے پر کچھ دیر کے لیے یہ کہہ کر بیٹھ گئیں کہ خدارا اب مجھے نہ اُٹھانا کیونکہ اب اگر اُٹھی تو ڈر ہے کہ چکرا کر کہیں گر ہی نہ پڑوں ۔
دراصل اللہ نے مظہر حسین اور حلیمہ مظہر کو صرف دو ہی اولادیں دی ہیں ۔عائلہ مظہر اور شیراز مظہر۔ عائلہ توشادی کر کے امریکہ چلی گئی تو اُس کا آنا جانا ہوا مشکل ۔بچا شیراز تو وہ بیچارہ باہر کا انتظام سنبھا لے کہ اندر کا؟ لہٰذا اندرونِ خانہ کی تمام تر ذمہ داری آئی حلیمہ بھابھی کے کندھوں پر۔ اب انھیں کبھی سفید چادروں کے لیے آواز پڑتی تو کبھی کسی کو جائے نماز یںدرکار ہوتیںعین سوئم کی قران خوانی کے درمیان ڈرائنگ روم کے بیرونی دروازے کے پاس والے کونے سے آواز آئی بھابی !اگر بتیاں کہاں ہیں ؟اِن کے بغیر قرآن خوانی کا بھلا کیا مزہ ”
لو بھلا بتائو یہ قرآن خوانی مرحوم کی روح کو بخشوانے کے لیے رکھوائی ہے یا تمہارے مزے کے لیے۔ یہ آواز عطرت پھوپھو کی تھی ۔مسز عطر ت عثمان مظہر صاحب کے دس بہن بھائیوں میں سے ساتویں نمبر پر ہیں۔خاتون جس محفل میں جاتیں کچھ الگ ہی نظر آتیں وجہ چہرے پر تنا شکنوں کا منفرد جال شکنوں کی ترتیب کچھ اس پرکارہے ماتھے پر لمبائی کے رُخ چار اور چوڑائی کے رُخ چھ ، دونوں آنکھوں کے گرد بے تحاشہ چھوٹی چھوٹی لکیریں اور سب سے واضح ناک کے سرے سے لیکر ہونٹوں کے کناروں تک آتی اسمائل لائنز،(حالانکہ کے مسکرانے سے اُن کا دور کا بھی واستہ نہیں تھا )جب بھی وہ منہ ٹیڑھا کر کے بو لتیںتو وہ کچھ اور بھی واضح ہو جاتیں ۔پچھلے سال جب وہ ا پنی ڈاکٹر بیٹی کو امتحان دِلوانے لندن لیکر گئیں تو اپنی کاسموٹولوجسٹ بھابھی سے زبر دستی مفت میں بوٹوکس کے انجکشنز لگوالئے اور فلرز بھی ڈلوالئے ۔

جس سے چہرہ تو سچی بات ہے جیسے پہلے تھا ویسا ہی رہا ۔بھابھی نے کون سا دل سے یہ کام کیا تھا۔بس جان ہی چھڑوائی تھی اپنی مگر وہ خود کو پچپن کے بجائے پینتیس 35))کا سمجھنے لگیں ۔دماغ کے فطور اور لہجے کے غرور میں گراقدرِ اضافہ ہوا کہ ناخن کچھ مزید لمبے ہوگئے لپ اسٹک ،نیل پالش شیڈ کچھ دوہرا گہرا اور انگوٹھیا ںدوسے چار ہوگئیں ۔یہ عطرت پھوپھو ہی تھیں جنھوں نے بھرے مجمع میں جب عورتیںمنہ کھول کھول کر حلیمہ بھابھی کی خدمت گزاری کے گُن گارہی تھیں ۔تو جل کر کہہ دیا کہ “بھئی ! ہمیں کیا پتہ کہ خدمت کی بھی ہے یا نہیں ہم تو سب دوربیٹھے تھے اپنے اپنے گھروں میں۔ میں تو آخیرتک فون کرتی رہی کہ ذراکی ذرا بھائی کی آواز ہی سنُ لو ں مگر کبھی جواب ملتا کہ اّبا ابھی سو رہے ہیں ۔کبھی یہ کہ اُن کی کنڈیشن ایسی نہیں ہے کہ ابھی بات کر سکیں ”
اپنے سے فقط ڈیڑ ھ دو سال چھوٹی بہن کے بے تُکے پن پربڑی سعدیہ پھوپھو نے خوب ہی بُرا محسوس کیا۔ساتواں سپارہ جو ابھی صرف نصف ہی پڑھا تھا انگلی رکھ کر بند کیا ۔عینک ناک کی ٹپ پر ٹکائی اور پہلے اُسے خوب غور سے دیکھا پھر ٹھوک کر بولئیں ۔”تم نے بالکل صحیح کہا بھلا دوربیٹھے ہوئوں کو یہاں کے باسیوںکی کُلفتوں کا کیا اندازہ ؟ہم توبھئی دو قدم کے فاصلے پر رہتے ہیں ۔لہذا پَل پَل کی خبر ہے کہ پچھلے دو سال سے حلیمہ بھابھی اور شیراز نے کس طرح مظہر بھائی کی خدمت کے لیے اپنا دن اور رات ایک کیا ہوا تھا۔مظہر بھائی پچھلے تیس سالوں سے زیا بیطس کے مریض تھے ۔دوسال پہلے گُردوںنے جواب دے دیا اور بہنا !ڈالیسیز Dialysis))کے مریض کی دیکھ بھال کرنا کو ئی بچو ں کا کھیل نہیں ہے۔آخر کے چند مہینوں میں ہیپاٹائٹس (hepatitis)ہوگیا ۔چہرے کا رنگ کالا سیاہ، جسم پر سیاہ دھّبے مرحوم پیشاب اور پوٹی بھی ڈائیپر(Diaper)میں کر رہے تھے اتنے لہیم شہیم آدمی کے پیمپر(pamper) بدلنا بھی ہر بار ایک مرحلہ ہوتا ۔اوپر سے بھائی کا چِڑچِڑاپن اور کنجوسی اپنے عروج پر تھی اپنے علاج پر بھی جیب سے ایک ٹکا خرچ کرنے کو تیار نہ تھے ۔ایک منٹ کیسی باہر والے اٹینڈئنٹ Attendent))نے ٹِک کر نہ دیا ۔خود ہی ماں بیٹا کبھی اُن کی اُلٹیا ں صاف کرتے تو کبھی مالش کر رہے ہیں ،جسم داب رہے ہیں ۔سچ پوچھوتو اِن دونوں نے اپنی جنت اسی دنیا میں کمالی میں خود اِس بات کی سب سے بڑی گواہ ہوں ۔مگر تم کیا جانو!تم تو خیر سے دور بیٹھی تھیںاپنے گھرمیں “سعدیہ پھوپھو نے اپنی بات ختم کر کے ٹیولپ ٹشو Tulip tissue ))کا پاکٹ سائز پیک اپنے پرس سے نکالا ۔اس میں سے دوخوشبودار سفید ٹشو باہر کھینچے اور بھیگی بھیگی آنکھوں کو خوب رگڑ کر صاف کرنے لگئیں ۔بڑی بہن کے اِس تفصیلی بیان کے بعد عطرت پھوپھو اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئیں ہاتھ میں کب سے پکڑی سورةیسٰین کچھ غصے میں اور کچھ وجّدمیں آکر جھوم جھوم کر پڑھنی شروع کر دی ۔سعدیہ پھوپھو اگر چے قرآن خوانی کے درمیا ن باتیں کرنا معیوب خیا ل کر تی تھیں ۔مگر اِس وقت یہ وضاحت دینا بے حد ضروری تھا ۔
پہلے ہی عائلہ کی عدم موجودگی پہ گھر کے ملازمین سے لے کر ہر آئے گئے نے خوب ہی سوال اُٹھائے ہیں کہ عائلہ اب تک کیوں نہیںآئی؟؟ پہلے باپ کی دو سالہ بیماری میں نہیں آئی اب تدفین پہ بھی غائب ہے !!حلیمہ بھابھی سمجھا سمجھا تھک گئیں کہ امریکہ کوئی پاکستان میں نہیں رکھا ہوا۔پی آئی اے(PIA)کی براہِ راست پرواز بھی امریکہ سے آنا اب بند ہو چکی ہے ۔اگر باپ کی اطلاع ملتے ہی اِسے ٹیکٹس کسی طرح مل بھی جاتے توکنیکٹنگ Connecting))فلائٹ لے کر یہاں کوئٹہ آتے کم از کم دو دن تو لگ ہی جانے تھے اور مظہر صاحب کی تدفین اتنی دیر روکی نہیں جاسکتی تھی۔باڈی اِس حال میں ہی نہیں تھی پھر باہر والوں کی اپنی زندگی کے ہزار ہاں جھمیلے ہیں ۔ہمیں اُس سے کوئی شِکایت نہیں ہے۔آجائے گی وہ اپنی سہولت سے لیکن اللہ کی اِس زمیں پہ جتنے اُبھار اور گھاٹیاں ہیں ۔اِس سے کہیں زیادہ اُبھار اور گھاٹیا ں انسان دماغ پہ موجود ہیں ۔جہاں پراَن گنت سوچیں اُبھر تی پھسلتی رہتی ہیں ،سومولا کی زمین پر ربسنے والے اپنی قیاس آرئیوں سے باز نہیں آتے ۔
دراصل عائلہ مظہر نے شادی اپنی مرضی سے کی تھی شروع شروع میں تو باپ بیٹی میں خاصی ٹھنی رہی۔مگر امریکہ جانے کے بعد بھی وہ ہرسال ماں باپ سے ملنے آیا کرتی تھی ۔بلکہ ایک مرتبہ ایان کا کوئی طویل پرجیکٹ جاپان میں چل رہا تھا تو عائلہ کوئی سال بھر کے لیے دونوں بچوں کے ساتھ ماں باپ کے پاس پاکستان آگئی تھی۔اِس موقع پر بھی خاندان بھر میں خوب چہ میگوئیاں ہوئیں کہ یقینا میاں بیوی کی علیحدگی ہو گئی ہے۔ آگیا ہو گا کسی گوری کے چکر میں تو بھیج دیاعائلہ کو واپس خیر عائلہ کچھ عرصہ رہ کر چار سالہ سلیمان اور دو سالہ مُحمد کے ساتھ ور جینا (virginia)واپس چلی گئی اور ایسی گئی کہ اب دو ڈھائی سال ہونے کو آئے اُس کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔
“سعدیہ باجی !یہ اپنی عائلہ نظر نہیں آرہی اِس روز میں تد فین میں آئی تھی تو بھی ملاقات نہیں ہوئی مانا کہ باپ کا غم ہے مگر ایسا بھی کیا کہ بندہ آنے جانے والے مہمانوں سے پُرسہ بھی نہ لے سکے “عائلہ کی بابت خالصتاً ٹھوہ لینے والے انداز میں پوچھنے والی یہ مظہر حسین کے ماموں زاد بھائی کی بیوہ بیگم طاہرہ نسیم تھیں صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بن رہی ہیں اندر سے خوب ہی جانئے ہیں کہ عا ئلہ یہاں موجود نہیں ہے ۔
بہر کیف اُن کے اِس سوال پرسعدیہ پھوپھو کا پانی کے جگ کی طرف بڑھتا ہاتھ تھم سا گیا ۔”طاہرہ بھابھی !عائلہ تو نہیں آئی شاید کچھ ٹھہر کر آنے کا ارادہ ہے ”
” اچھی بہن !سچ کہو یعنی کہ اب بھی نہیں آئی اللہ جانے کیا معاملہ رہا ہو گا ۔ویسے بھی اپنی عائلہ کی یہ love marriage)) ہے ۔ مظہر بھائی اِس رشتے کے شروع سے ہی خلاف تھے کیا پتہ سسر اور داماد میں کب سے سرد جنگ چل رہی ہو جس کا بدلہ اُس نے عائلہ کو مظہر بھائی کی بیماری نہ میں بھیج کر لیا ہو”انہوں نے مانوقیاس کے سمندر میں ساری کشتیاں ڈبو دئیں ۔اگر آپ نے کبھی پمپکن پیچ(pumpkin patch)کی پھولے پھولے گالوں والی خوب گول مٹول اور گوری چٹّی گڑیاں دیکھی ہوں تو اِس لائن کی وہ گڑیا جو بارہ تیرہ سال کی بچیوں کے لیے ہوتی ہے وہ لے آئیں ۔اُسے پاکستان کے کیسی بہترین برانڈ کے کپڑے پہنا کر سر پر دوپٹہ اُوڑھا دیں اور شکل کی ساری معصومیت سرے سے غائب کر دئیں تو ہوبہو نسیم بھابھی بن جاتی ہیں ۔پہنا اُوڑھنا اِن کا شروع سے ہی بہت اچھا رہا ہے اور کیوں نہ ہو ؟دونوں بیٹے خوب اچھا کمارہے ہیں ۔ایک تو کینڈا میں ہے اور دوسرا کوئٹہ میں کوئی لیب شیب چلا رہا ہے جس طرح کی وہ ٹیڑھی ماں تھیں اولاد خود بخود ہی سیدھی رہتی شرافت سے دونوں بیٹے انھیں خوب اچھا پاکٹ منی دیتے ہیںجو بہو پاس تھی شریف خاندان کی قبول صورت مگر کم پڑ ھی لکھی لڑکی تھی جیسے وہ اہتمام سے اپنے ایم ایس سی پاس بیٹے کے لیے بیاہ کر لئیں تھی ۔اب پائوں کے انگوٹھے تلے ایسا دبارکھا ہے کہ اپنے میکے جانا تو درکنار گھر کے دروازے تک اُن کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی تھی ۔بھلے گھر میں بے چاری کا دم گھٹا جا رہا ہو ۔
“اچھی بہن!بس اب کیا بتائوں کہ آخری دونوں میں بھیا مرحوم کی شریانوں کی حالت اِس قدر نازک ہوگئی تھی کہ مزید ڈائی لیسیسزDialysis))ممکن نہیںرہا تھا ۔”انہوں نے سعدیہ پھوپھو کے قریب کھسک کر قدرے راز داری سے کہا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ مرحوم کی تیمار داری کے لیے روزانہ آتی رہی ہوں اور سعدیہ پھوپھو کبھی کبھار حالانکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس تھی ۔وہ خود مرحوم کی طویل بیماری میں صرف ایک آدھ بار ہی خبر گیری کے لیے آسکیں تھیں۔
”ڈاکٹر نے صاف جواب دے دیا تھا ،دماغ پر اثر ہونے لگا تو سارا سارا دن عجیب وغریب آوازیں نکالتے رہتے۔کیسی پل چین نہیں تھا یوں لگتا کہ موت کا فرشتہ نظر وں کے سامنے ہر وقت موجود ہو مگر تف ہے بھئی آج کل کی اولاد پر کہ ایسے کڑے وقت میں بھی ماں باپ کی دل جوئی کو نہ آسکے۔
نہ تو عائلہ اُمید سے ہے نہ اس کے بچے شیرخوار ہیں کہ اتنا لمبا سفر ممکن نہ ہو .عائلہ تو گوروں کے دیس میں جا کر بالکل انہی کی طرح سوچنے لگی ہے کہ اپنے شیڈول کے مطابق آنا جانا ہے ماں باپ بھلے اِس کے بچوں کی صورتوں کو ترستے رہیں “وہ کچھ اور آگے کھسک کر مزید گویا ہوئیں۔
”ویسے میں اس کے بچوںسے مل چکی ہوں پہلے دونوں ہی عجیب چڑچڑے سے تھے ۔ہر وقت ماں کا پلو پکڑے ہر آئے گئے کو نوچتے کھسوٹتے رہتے ،بولتے ولتے اُس وقت تو کچھ خاص نہ تھے لگتا ہے کہ عائلہ نے کوئی خاص تمیز نہیں سیکھائی ۔امریکہ کے بجائے کسی چک کی پیداوار لگ رہے تھے ۔اب اپنے خرم (اُن کا چھوٹا بیٹا )کے بچوں کو ہی دیکھ لو ‘میں نے پالنے میں ہی آداب سلام کی تمیز سیکھادی تھی ورنہ آتا جاتا تو اُن کی ماں کو بھی کچھ خاص نہیں ہے۔آپ کی بھابی صاحبہ کیا بتا رہی ہیںکہ صاحبزادی کب تک آئیں گی ؟ کوئی اور موقع ہوتا تو شاید سعدیہ پھوپھو عائلہ کی صفائی ضرور پیش کرتیں مگر اُن کا دل اِس بارعائلہ سے خوب ہی کھٹا ہو ا تھا ۔اگر چے اپنے ہاتھوں کی پالی بچی تھی دلِ ودماغ یہ مانے کو تیار نہیں تھا مگر حالات کچھ یہی خبر دے رہے تھے کہ عائلہ بدل گئی ہے بہت دُکھی دل سے گویا ہوئیں کہ “اُن سے تو ہم نے پوچھنا چھوڑ دیا ہے ہر ایک کو یہی کہتی پھر تی ہیں کہ باہر والوں کے اپنے سومسلے مسائل ہوتے ہیں جن کا اندازہ ہم پاکستان میں بیٹھ کر نہیں لگا سکتے ۔میرا بھائی تو آخیر تک سب سے پوچھتا رہا کہ عائلہ آگئی کیا ؟میرے سیلمان اور محمد کہا ں ہیں ؟پھر اُن کے معصوم چہرے دیکھنے کی حسرت لیئے لحد میں اُتر گیا بد قسمتی اُس کی بھی کہ باپ کا آخری دیدار نہ کر سکی البتہ حلیمہ بھابھی نے میت کو قبرستان لے جانے سے پہلے پانچ منٹ کے لیے فیس ٹائم پر دیکھایاضرور تھا ۔اُس کے رونے کی ہلکی سی آواز تو میں نے بھی سُنی تھی ۔یہ رونا تو اب عمر بھر کا ہے ۔کچھ بھی کر لو ماں باپ کہاں واپس آتے ہیں ”
سعدیہ پھوپھوکی بات سنُ کر نسیم بھابھی نے اثبات میں خوب زور سے سر ہلایا پھر اپنے سوجے ہوئے پیر سمیٹ کر اُٹھنے لگ گئیں ۔
“اچھا اب میں چلوں گی پیر نیچے بیٹھنے سے اور سوج گئے ہیں گھر جا کر اِن کا ذرا مساج کروں تو کچھ سکون آئے ”نسیم بھابھی خود بھی زیابیطس کی مریضہ تھیں مگر پرہیز بالکل بھی نہ کر تیں لہذاکبھی پیر سوجتے تو کبھی چہرہ لیکن اِس کے باوجود بھی خاصی سوشل خاتون تھیں ۔جہاں بھی جاتیں دس پندرہ منٹوں میں مقررہ ہدف پورا کر لیتیں ۔دوسروں کے دل آپس میں کھٹے کر کے خود مطمئن سی جیے جا رہی تھیں ۔
”ارے نسیم بھابھی !ذرا روکئیے تو دُعا میں شریک ہو کر ‘دو لقمے کھا کر چلی جائیے گا ۔”سعدیہ پھوپھو نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔ ”اچھی بہن !کھانا تو میں باہرکا کھاتی نہیں ہو ں مگر دُعا میں شرکت لازمی کرو نگی بس میں ذرا لطیف )ڈرائیور)کو فون کر دوں کہ وہ پندرہ منٹ باہر میرانتظار کرے ”نسیم بھابھی نے اپنے کوچ (coach)کے شولڈر بیگ سے آئی فون نکالا اور ڈرائیورکو نمبر ملا کر ہدایت دینے لگ گئیں تو سعدیہ پھوپھو بھی کچن میں ایک نظر ڈالنے کے خیال سے اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7

Read Next

مدیر سے پوچھیں | علی عمران سے ملاقات

4 Comments

  • Such a nice concept

  • Lovely story

  • Hi Dear , very informative and well written story. Is it possible to contact to writer to get information about “Mohsin” kind of program if its its really excites. Thank you.

  • بہت عمدو اندازِ بیان ہے 👍

Leave a Reply to Farah Cancel reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!