سیاہ اور سفید کے درمیان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوئم کے اگلے ہی روز چھوٹے چچا علیم حسین کی کراچی واپسی تھی ۔علیم حسین ایک خاصے جہاندیدہ شخص تھے ۔انھوں نے ضروری سمجھا کہ بھاوج اور بھتیجے کو مکان ترکے کی رقم اور پینشن کے متعلق موٹی موٹی باتیں سمجھا دی جائیں ۔جن میں سرِفہرست یہ تھا کہ سب سے پہلے مرحوم کا ڈیتھ سر ٹیفیکیٹ (death certificate )بنوالیا جائے کیونکہ مرحوم اپنی کوئی باقاعدہ وصیت لکھ کر نہیں گئے ہیں اِس لیے قانونی معاملات کچھ طویل اور پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ کوئی قابلِ وکیل ہائر کر لیا جائے تاکہ ترکے کی منصفانہ تقسیم سہل طریقے سے ممکن ہوسکے ۔
عائلہ کا نام آنے پر سعدیہ پھوپھو نے چُپکے سے حلیمہ بھابھی کے کان میں آخر کہہ ہی دیا “کیا ہی اچھا ہوتا کہ عائلہ خودیہا ں آپ کی ڈھارس بند ھوانے کو موجود ہوتی “۔حلیمہ کے مُنہ سے یہ سُن کر ایک آہ نکلی پھر وہ دِھیرے دِھیرے بتانے لگیں کہ”سلیمان اور محمد دونوں کے ویزے پاسپورٹ ایکسپائر Expire))ہوئے پڑے تھے ۔اب ارجنٹ لگوائے ہیں ۔پاکستانی ایمبیسی((Embassy جیسے ہی پاسپورٹ بھیج دیتی ہے ۔عائلہ تینوں کے ٹکٹس لے لیںگی”
”بھابھی !اِس موقع پر ایان اُن کے ساتھ نہیں آرہا !”سعدیہ پھوپھو کو اچنبھا ہو ا۔
”بھئی ایان !مورگن اینڈ سٹینلی Morgan and Stanley))جیسی بڑی انڑنیشنل فرم میں کنسلٹنٹ Consultant))ہے ۔اِس طرح سال کے درمیان میں چھٹیاں لینا ممکن نہیں ہے اُس کے لیے ”
”بھابھی !باپ دوسال سے بستر پر تھا ۔عائلہ کو پاسپورٹ ویزہ سب تیار رکھنا چاہے تھا ”سعدیہ نے ذراچڑکرکہامیرا بھائی تو بچوں کو یاد کرتے کرتے اللہ کو پیارا ہوگیا”انھیں یک دم ہی بہت سارا رونا آگیا ۔
”دیکھو سعدیہ! عائلہ میری بہت احساس کرنے والی پیاری بیٹی ہے۔ حقیقتاً مظہر کے گزر جانے کا دُکھ اُسے ہم سب سے زیادہ ہی ہوگا۔ میں اپنی بچی کی مجبوریوں سے خوب واقف ہوں ابھی تو مجھے اُس کے اتنے لمبے سفر کی فکر ہے۔ انشاء اللہ ہفتے بھر میں اُس کی فلائٹ ہے، ورجینیا (Virginia) سے پہلے اسلام آباد آئے گی۔ وہاں اُس کی نند اپنے گھر لے جائے گی، بچوں کو کچھ آرام کروا کے اگلے روز کوئٹہ کی فلائٹ لے گی۔ اُُس کے بچے قدرے مختلف سے ہیں، خیر آئیں گے تو تم بھی مل ہی لو گی۔ اللہ کرے ائرپورٹ اور ہوائی جہاز میں ماں کی سنبھال میں آ جائیں”۔حلیمہ کو تو سوچ سوچ کر ہول اُٹھ رہے تھے۔
”میرے مولا تُو زندہ رہنے والوں کے لئے یہاں اور مرنے والوں کے لئے وہاں آسانیوں کا سامان کردے۔ ہاں تو علیم بھائی! میں یہ کہہ رہی تھی…”۔
حلیمہ کو باتوں کے بیچ اچانک ترکے کے متعلق کچھ یاد آیا تو پوچھ بیٹھیں۔عدت کی وجہ سے وہ بھلے ہی پردے میں تھیں مگر وہ تمام معاملات اپنی نگرانی حل کروانا چاہ رہی تھیں، سب کچھ بیٹے پر نہیں چھوڑ ا جاسکتاتھا۔ شیراز ایک خاصی الجھی ہوئی طبیعت کا لڑکا تھا، نوکری بھی اُس کی بڑی معمولی سی تھی۔ شیراز کو ذراگھر سے نکل کر دو لوگوں سے بات کرنی پڑ جاتی تو اُس کی جان پر بن آتی۔ مظہر صاحب کے ڈاکٹرز سے بھی زیادہ تر بات چیت حلیمہ بیگم ہی کیا کرتی تھیں۔ اب وکیل سے بھی سبھاؤ سمجھداری سے ڈیل اُن ہی کو کرنا پڑے گا، بقول حلیمہ بھابھی کے میری دونوں اولادیں ہی ایک دوسرے سے ایک سو اسی ڈگری متضاد ہیں۔ بیٹی ہے تو وہ اتنی سوشل کہ راہ چلتے ہوؤں کو اپنے گھر لے آئے اوربیٹا ایسا ہے کہ مہمان جس رکشے سے آئے اُسی میں واپس لوٹا دے۔ مظہر صاحب بلاشبہ ایک بخیل شخص تھے۔ شہر کے سب سے بڑے بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ساری عمر حلیمہ اور بچوں نے ترس ترس کے گزاری تھی مگر ہوا کیا کے وہ سارا پیسہ جو بیوی اور بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر جمع کیا تھا اُس کا ایک بڑا حصہ اپنے ہی علاج پر خر چ کر نا پڑا مگر سب دوا دارو بے سود ہی رہا اور انھیںاپنا پرمِننٹ (Permanent) لاکر ڈیتھ(Death )بینک میں ہی کھولنا پڑا۔
عائلہ باپ کے انتقال کے ٹھیک ڈیڑھ مہینے بعد کوئٹہ پہنچی تھی۔ اُس وقت تک رش چھٹ چکا تھا۔ تمام رشتے دار ایک ایک کر کے اپنے شہروں کو واپس لوٹ چکے تھے۔ سعدیہ پھوپھو صرف پانچ منٹ کی دُوری پر رہتی تھیں سو اُن کا چکر ہر دوسرے تیسرے روز لگتا رہتا۔ اُن کے علاوہ شہر میں بسنے والے اِکا دُکا دُور پار کے رشتے داروں اور اِحباب کی آوت جاؤت جاری تھی۔ عائلہ کے آنے کی خبر بھی آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے سب کو ہو گئی۔ سعدیہ پھوپھو کو البتہ اس نے خود ہی سلام کرنے کے لئے فون کیا تھا اگرچہ وہ اس سے کچھ خفا سی تھیں مگر عائلہ کی آواز سُن کر خوش بہت ہوئیں اور اگلے ہی روزیہ تحیہ کر کے ملنے چلی آئیں کہ اُسکی بات سنے بغیر کوئی شکوہ شکایت نہیں کرنی مُبدا کوئی بدمزگی ہوجائے اور بھائی کو کُھو کر اُس کے بیوی بچوں کو بھی کُھونا پڑے ۔ ”السلام و علیکم پھوپھو!” عائلہ بہت محبت سے اُن کے گلے لگ گئی او پھر کتنی ہی دیر سعدیہ سے جُڑی اُن کی مخصوص خوشبو اپنے اندر اُتارتی رہی اُن کے وجود سے ابا کی خوشبو پھوٹی پڑ رہی تھی۔
عائلہ کا شمار اُن خوش نصیب لڑکیوں میں ہوتا ہے جوچشمہ پہن کر بھی خاصی کیوٹ لگا کرتی ہیں۔ ایف ایس سی کے زمانے میں عائلہ نے ڈرتے ڈرتے گھر میں بتایا کہ اُسے کلاس میں بلیک بورڈ نظر آنااب بالکل ہی بند ہو گیا ہے لہٰذا ماہر امراضِ چشم کے پاس جانا ناگزیر ہے۔ مظہر صاحب تو سُنتے ہی چراغ پا ہو گئے۔ بقول ان کے یہ سب گھس گھس کر ٹی وی دیکھنے کا نتیجہ ہے اور جن لڑکیوں کو چشمہ لگ جاتا ہے اُن کی خوبصورتی کے آدھے نمبر وہیں کٹ جاتے ہیں۔ یہ تو بعد میں ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی کی نظر کچھ پیدائشی کمزور ہے، وہ بے چاری باپ کے بلاوجہ غصے کی وجہ سے اب تک چپ تھی۔ عائلہ کی رنگت ٹین ایجز میں تو خاصی سرخ وسفید تھی مگر جسم فربہہ ماہل ، اب رنگت تو خاصی دب گئی ہے مگر جسم shape میں تھا۔ اب بھی وہ beige ایمبرائیڈری والی dark بلیو شرٹ اور بیج ٹراؤزر میں اپنی عمر سے کہیں چھوٹی لگ رہی تھی۔
سعدیہ پھوپھو عائلہ کو ساتھ لگائے لگائے سیدھی فیملی روم میں آ گئیں۔ کافی دیر تک وہ تینوں مظہر صاحب کو یاد کرتی رہیں پھر گفتگو کا رُخ انسان کی بے اثباتی اور چیزوں کی پائیداری کی طرف پھیر گیا تو حلیمہ بیان کرنے لگیں۔
”ہم کتنے ہی سال سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہے۔ مظہر روز صبح گھر سے نکلنے سے پہلے یٰسین شریف پڑھ کر یوں اپنا حصار باندھا کرتے تھے”۔ انہوں نے سیدھے ہاتھ کو باقاعدہ سر کے گرد گھما کر مظہر صاحب کے انداز میں حصار باندھا۔
”گاڑی ہم لوگ بہت پہلے افورڈ کر سکتے تھے آخر اسٹیٹ بینک میں ملازمت اُس زمانے میں کیا آج بھی کوئی معمولی بات تو نہیں ہے مگر ان کا رجحان شروع ہی سے پیسہ بچانے کی طرف زیادہ تھا، سو کوئٹہ کی شدید سردیوں میں بھی دو بسیں بدل کر بینک جایاکرتے اور روزانہ وہی ایک گروی رنگ کا چیک دارکوٹ پہنا کرتے۔ ارے وہی جس کی کہنیوں پر پیوند نما ڈیزائن بنا ہوتا تھا۔ تم دونوں کو کیا مجھے یقین ہے پورے محلے کو اس کا ڈیزائن اَزبر ہوگا۔ آخر مظہر نے بلاناغہ پورے دس سال وہی ایک کوٹ پہنا ہے، نہ کبھی ڈرائی کلین کروایا، نہ ہمیں دھونے دیا”۔ حلیمہ کا اندازہ سو فیصدی درست تھا کیونکہ عائلہ اور سعدیہ نے فوراً ہی ایک ساتھ سر ہلایا۔ حلیمہ اس وقت اجرک کی قمیض اورسفید دوپٹے شلوار میں اپنی میرون تسبیح ہاتھ کے گرد لپیٹے بیٹھی تھیں اگرچہ پچھلے دنوں کی شدید مشقت سے وہ کچھ کمزور ہو گئی تھیں مگر اُن کے چہرے کے گرد ہالہ ء نور سہ پہر کی سُست سنہری کرنوں میں دمک رہا تھا۔
”اُس کوٹ کے دوبٹن بس نیچے ہی ہیں توسینہ ڈھکنے کو آگے سے مظہر کوٹ کے دونوں سرے پکڑلیتے یا کبھی گرم اُونی مفلر لے لیا”۔ گھر سے بس اسٹاپ کا فاصلہ بھلا کتنا تھا ۔یہ ایک چھوٹی گلی جتنا ” فاصلہ انہوں نے دایاں بازو پورا پھیلا کر تسبیح والی ہتھیلی اُس کی کہنی پر مار کر فاصلے کا اندازہ کروانا چاہا۔ ”آج ہمیں سیٹلائٹ ٹاؤن چھوڑے جناح ٹاؤن شفٹ ہوئے بیس بائیس (20-22) سال ہو چکے ہیں مگر مظہر نے آج تک وہ چیزیں سینت سینت کررکھی ہوئی تھیں”۔
عائلہ جو کافی دیر سے ماں کے بالکل سامنے فلور کشنز پر سر جھکائے بیٹھی تھی اُن کی بات ختم ہونے پر یونہی سر جھکائے جھکائے بولی ”امی! ابا کا وہ کوٹ پلیز مجھے دے دیجئے گا میں اِن کی نشانی کے طور پر اپنے ساتھ لے جاؤں گی، آپ کسی اور کو نہ لینے دینا”۔
”لو بھلا، میں کیوں کسی اورکو دینے لگی؟ تم نے کہہ دیا سو تمہارا ہوا۔ اب میں ذرا یہ کھانا کچن میں رکھ دوں”۔ انہوں نے ڈائننگ ٹیبل پر رکھے کھانوں کے دبوں کی طرف اشارہ کیاپھر اپنی تسبیح پر باآوازِ بلند کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے باورچی کھانے کا رُخ کیا ۔اگر باپ کی اتنی ہی چاہ تھی تو اب آنے کے باجائے اُن کی زندگی میں آجانا تھا ۔ عائلہ کے چیزیں مانگنے پر سعدیہ بس دل میں سوچ کر رہ گئی منہ سے تو کچھ اور ہی نکالا ”عائلہ بچے! میں ظہر کے فوراً بعد کی آئی ہوئی ہوں اور اب عصر ہونے کو ہے، تمہارے بچے نظر نہیں آئے، ذرا ملوا تو دو”۔
سعدیہ پھوپھو پی اے ایف کالج میں انگریزی پڑھایا کرتی تھیں۔ آج کالج سے جلدی چھٹی لے کر گھر پہنچیں تو فٹافٹ منہ ہاتھ دھوکر ظہر پڑھی اور پھر ہلکا سا لنچ کرتے ہی گاڑی نکال کر یہاں آگئیں۔ وہ خود ہی ڈرائیو کر لیا کرتی تھیں اب تھکا ہوا جسم شدت سے آدھے پونے گھنٹے کا آرام مانگ رہا تھا، سو قیلولے کے ارادے سے سعدیہ وہیں لاؤنج میں موجود تھری سیٹر (3 seater) صوفے پر نیم دراز ہو گئیں جسے دیکھ کرعائلہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی، خوب جانتی تھی کہ ننھیال ددھیال میں موجود سبھی لوگ قیلولے کے عادی ہیں۔ خود عائلہ کا بھی یہی عالم تھا جہاں دوپہر کا کھانا کھایا وہاںآنکھیں بند۔ امریکہ میں وہ اکثر دوپہر میں کسی نا کسی کام سے گھر سے باہر ہی ہوتی تو گاڑی میں اے- سی یا ہیٹر چلا ،سیٹ پیچھے کی اور 15سے20آنکھیں موند لیں، یہ مختصر قیلولہ اُسے نئے سرے سے چارج کر دیتا۔ ”پھوپھو! وہ دونوں بھی اندر قیلولہ فرمارہے ہیں، اُٹھتے ہیں توآپ کو اُن کے پاس لے جاتی ہوں”۔
عائلہ بچوں پر ایک نظر ڈالنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی، پھر کچھ خیال آنے پر پہلے کچن کی طرف مڑی۔”امی! آپ نے بچوں کے لئے تازہ بکری کا دودھ منگوا لیا ہے، اُٹھیں گے تو اُسی میں پھل اور کھجوریںڈال کر شیک بنا دوں گی۔ بکری کا دودھ ماں کے دودھ سے بہت ملتا جلتا ہے۔ آپ کو پتا ہے ناکہ میں بچوں کو اب زیادہ تر وہی دیتی ہوں”۔
”ہاں ہاں، شیراز جانے سے پہلے دے گیا تھا۔ شُکر ہے کہ آج اُس کا کوئی دوست اپنے ساتھ لے گیا ہے ورنہ میں تو اس لڑکے کی اینٹی شوشل نیچر سے بہٹ نالا ہو ۔سنو عائلہ ! بچوں کو ساتھ میں یہ چکن نگٹس تل دوں ؟” حلیمہ عائلہ کی بات سُننے کچن کے دروزے تک آئیں تو ہاتھ میں کسی مشہور فروزن فوڈ کمپنی کے دو پیک تھے ۔عائلہ تو ان دبوں کو دیکھ کر تڑپ اُٹھی” امی !پلیز میں نے بہت جتن کر کے اپنے بچوں کو ان لال پیلے ڈبوں سے دُوررکھاہے۔ ان تمام فروزن آئٹمز میں کئی طرح کے preservatives ڈالے جاتے ہیں تاکہ اِن کی شیلف لائف بڑھ جائے یا پھر اِن کی شکل اور ذائقہ برقرار رکھنے کے لئے بہت سارا نمک انڈیلا گیا ہوتاہے لہٰذا اِس طرح کا کوئی بھی پروڈکٹ خریدنے سے پہلے خدارا اُس کے اجزائے ترکیبی اور غذائی افادیت کا چارٹ اچھی طرح چیک کر لینا چاہئے جیسے کہ میں’ہر چیز اتنی پڑھ پڑھ کے خرید تی ہوں کہ باقول ایان اپنی پرسنل شاپنگ میں کم اورgrocery،گروسری شاپنگ میں زیادہ وقت لگاتی ہوں ” عائلہ نے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں سے اپنی طرف اشارہ کیا ”ہر چیز اتنی پڑھ پڑھ کر خریدتی ہوں کہ بقول ایان میں اپنی پرسنل شاپنگ کم اور گروسری شاپنگ میں زیادہ وقت لگاتی ہوں”
”بھئی! یہ تم اوورسیز (Overseas) پاکستانیوں کی نزاکتیں گویا گوروںسے بھی بڑھ کر ہو گئیں۔ خاندان بھر کے بچے ہر چیزہی کھاتے ہیں پھر چاہے وہ میٹھی ہو یا تلی ہوئی۔ سوڈا بھی پیتے ہیں اور بازار کے رنگ برنگے شربت بھی۔ اس کے باوجود سب کی صحتیں قابلِ رشک ہیں تمہارے بچوں کی طرح دُبلے پتلے تنکے سے نہیں ہیں”۔ حلیمہ کا کام کچن میں اب کچھ رہا نہیں تھا، رات کے کھانے کے لیے سعدیہ کے لائے پکوان کافی تھے لہذا اُنھوں نے پھوپھو کی فرمائش پر بنی فرش لیمونیٹ کے جگ گلاسوں والی ٹرے اُٹھائی،کچن کی چپل اُ س کے ڈروازے پر پڑے میٹ پر اُتاری اور لائونچ میں ان دونوں کے پاس آگئیں ۔
“اسی لیے ہمارے خاندان کا ہر دوسرافرد ہائی( blood pressure) ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس اور ڈپریشن کا شکار ہے”۔ عائلہ نے ٹرے ماں کے ہاتھ سے لی اور لاؤنج کی مغربی دیوار کے ساتھ لگی آٹھ کرسیوں والی ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دی جس کے دُھندلے سے پرانے گلاس ٹوپ پر رنگ برنگی افغانی بوٹیوں والے میٹس اور رنر بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ عائلہ نے سیٹ پر دھیرے سے انگلیاں پھیر کر افغانی کشیدہ کاری کی نفاست کو ہاتھ سے چُھو کر سراہا۔
”دیکھو بھلا اِس نے ابھی سے اپنے بچوں کو ڈائٹ (Diet) پر ڈال رکھا ہے بھئی اِن کے آنے کی اطلاع سُن کر شیراز مارکیٹ سے سپرڈ (Spread)، مایونیز، آئسکریم، چپس کے پیکٹ وغیرہ لے آیا کہ چلو بچوں کو ایسی چیزوں کا بڑا شوق ہوتا ہے مگر اِنہوں نے تمام اشیاء کو مُضر صحت قرار دے کر بچوں کو انہیںہاتھ بھی نہیں لگانے دیا”۔ حلیمہ نے نند کی طرف رُوخ کر کے خوب ہی شکوہ کیا۔
”عائلہ! یہ پرہیز وغیرہ توہم بوڑھوں کے لئے ہے بچوں کو اِن چیزوں نے بھلاکیا نقصان پہنچانا ہے۔ ابھی تو سب کھاؤ اور جان بناؤ کے مقولے پر عمل کرنا چاہئے”۔ سعدیہ پھوپھو نے یونہی قیلولے اور نیم قیلولے کی درمیانی اسٹیٹ میں بھابھی کی ہاںمیں ہاں ملائی۔
”ایک بڑی پرانی انگریزی کہاوت ہے
You are, what you eat

یو آر واٹ یو ایٹ، یعنی آپ وہ ہی ہوتے ہیں جو آپ کھاتے ہیں۔ جسم میں موجود نظام انہظام کو ”سیکنڈ برین” بھی کہاجاتا ہے، کیونکہ دماغ کے بعد سب سے زیادہ رگیں یہاں آتی ہیں۔
خوراک کے معاملے میں بچوں کو بزرگوں سے زیادہ احتیاط کروانی چاہئے، کیونکہ دماغی نشوونما کے لئے زندگی کے پہلے آٹھ سے دس سال بے حد ضروری ہیں۔ بڑوں اور بچوں میں جسمانی و ذہنی امراض کا تناسب کس قدر بڑھ گیا ہے خصوصاً بچوں کی ذہنی نشوونما میں تاخیر اضطراب، الرجیز، عدم توجہی، سب کا روٹ کاز (Root cause) (بنیادی وجہ) آج کل کی خوراک، جسم میں ٹرانس فیٹس اور شوگر کی زیادتی ہے۔بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے لازمی ہیں اومیگا تھری اور اومیگا سکس (Omega3,6) فیٹی ایسڈزجو مختلف ویجیٹیبل آئل (Vegitable oil)، سمندر مچھلی، تازہ ہری سبزیوں، نٹس خصوصاً اخروٹ، بیج یعنی تِل، سورج مکھی ، السی اور تخم بالنگاہ، اِن میں مالا مال ہیں لیکن شوگر کی زیادتی جسم کو اُن تمام اہم منرلز (Minerals) سے محروم کر دیتی ہے جوان فیٹس کے صحیح استعمال کے لئے لازم ہیں۔
جہاں ایک مناسب مقدار میں مکھن، اصلی گھی، زیتون، ناریل، مونگ پھلی تل و دیگر سبزیوں کے تیل استعمال کئے جا سکتے ہیں وہیں ایک ہی تیل بار بار استعمال کریں تو ہر بار گرم کرنے پر اس میں ٹرانس فیٹس کی مقدار کچھ اور بڑھ جاتی ہے جو ناصرف بلند فشار خون ودل کی متعدد بیماریوں کا باعث ہیں بلکہ ڈپریشن، اینزائٹی وغیرہ سے بھی اِن کا گہراتعلق ہے۔
ایک امریکن ڈاکٹر کی مشہور کتاب کے مطابق کسی فاسٹ فوڈ چین کے ایک چھوٹے فرنچ فرائز کے بیگ کو کھانے کے بعد اُس کے مضمر اثرات آپ کے بچے کے جسم سے نکلنے میں ایک سو دو دن (102) لگتے ہیں ایک مزیدار فیکٹ (Fact) یہ ہے کہ بچوں اور آپ دونوں کی ایج گروپ کی خواتین کے لیے اضافی کیلشم ضروری ہے اور باداموں میں گائے کے دودھ سے دوگنا کیلشم موجود ہے ریسرچ کے مطابق”
عائلہ نے تفصیلاً اپنی ریسرچ بیان کرنے کے بعد لیمونیڈ کے تین گلاس بھرے۔ اِن دونوں کو دے کر اپنا گلاس اُس نے ٹرے میں ہی رہنے دیا۔ پہلے ڈائینگ ٹیبل کے سینٹر میں پڑی بڑی سی پرپل یانکی (yankee) کینڈل کو روشن کیا جب موم بتی کا شعلہ گلاس جار میں ٹمٹمانے لگا اور ((lavenderلیمونیڈر کی دھیمی دھیمی خوشبو اِددگرد پھیل گئی تو عائلہ نے ا پنا گلاس بھی اٹھا لیا۔ اگرچہ عائلہ کے تمام نکات نہایت سود مند تھے مگر لفظ ” ریسرچ” حلیمہ اتنی بار سُن چُکی تھیں کہ انہیں اِس لفظ سے چڑ سی ہو گئی تھی۔
” بیٹا! کھانے پینے کی یہ تمام اشیاء بے شک بچوں بڑوں سب کے لیے لازم و ملزوم ہو گئیں ہیں مگر میں یہ بتا دوں کہ اِن سب کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ ابھی کچھ روز پہلے جب تم میرے باورچی خانے کی سومیں سے ننانوے چیزوں کو رد کر کے رقیبہ(گھر میں کام کرنے والی افغانی بچی) کے ساتھ خود ہی یہ کونے والے بڑے جنرل اسٹور چل پڑی تھیں اور اِتنا وقت لگا کر جب واپس آئیں تو ہاتھ میں گنتی کی چار چیزیں تھیں جن کا بل پانچ ہزار سے کچھ اوپر ہی بنا تھا۔ تم لوگ تو ڈالرز میں کماتے ہواِس لیے یہ سب افورڈ کر سکتے ہو مگر ایک سفید پوش خاندان جس میں افراد خانہ کی تعداد بھی زیادہ ہو اُن کے لیے یہ سب خریدنا تقریباً ناممکن ہے”
” امی ! بے شک صحت بخش خوراک اور عمدہ کوالٹی کی اشیاء خوردونوش کی قیمت دیگر اشیاء سے کچھ زیادہ ہے مگر مُٹھی بھر رقم رنگ برنگی وٹامنز (life saving drugs)لائف سیونگ ڈرگز پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ اِنسان وہی پیسے اچھی خوراک پر خرچ کرے ۔ ویسے بھی کمرشلی (available) وٹائمنز سے کہیں بہتر وٹائمنز جراثیم کشُںادویات سے پاک (organic) پھلوں ، سبزیوں ، نٹس (Nuts) اور مختلف بیجوں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر مجھے امریکہ میں کوئی شخص اپنے خاندان والوں کے بعد بہت یاد آ یا تو وہ تھا ہمارا پرانا سبزی والا ، روز صبح کیا تازہ تازہ موسمی سبزیاں لیکر آتا تھا “i think i was madly in love with that guy and still i am” ”آئی تھنک آئی واس میڈلی اَن لف ودِڈیھٹ گائے اینڈ اسٹیل آئی ایم ”کچھ بھتیجی کا ببانگ دہل اعلانِ عشق مزید ستم ظریفی یہ کہ اِسی وقت کبھی نہ ہلنے والے پینڈولم کے مالک گھڑیال نے اپنی بگڑی ہوئی عادت کے مطابق بجتے وقت سے ایک گھنٹی اوپر بجائی تو سعدیہ پھوپھو اپنے قیلولے پر ” قل ھو اللہ” پڑھ کر اُٹھ بیٹھیں اور سوال داغا کہ ” عائلہ ! ہم نے تمہیں ہیومن سائیکولوجی (Human Psychology) میں ماسٹرز کروا کر بھیجا تھا۔ تمہیں کب سے یہ ہیلتھ اور نیوٹریشن (Health and nutrition) میں اتنی دلچسپی ہو گئی۔ میں نے اور تمہاری امی نے تو اپنے اردگرد کیسی ماں کو اِس معاملے میں اتنی ریسرچ (جَھک مارتے) نہیں دیکھا۔”
پھوپھو جان! اِس لیئے کیونکہ دنیا کی ہر ماں آپ کی اور امی کی طرح خوش نصیب نہیں ہوا کرتی۔ مجھ سمیت بہت سی مائوں کے لئے اولاد ایک بہت بڑی آزمائش اور زندگی کا ہر پل جدوجہد مسلسل کی ایک داستان ہوا کرتا ہے۔”
عائلہ کی بات پر ٹھٹک کرپھوپھو نے بغور اُس کا چہرہ دیکھا تو انہیں اُس کی آنکھیں قدرے نم محسوس ہوئیں اور آواز بھی کچھ بھیگی بھیگی سی تھی۔
” ماما، ماما” کی صدا پر عائلہ تیزی سے بچوں کے کمرے کی طرف بڑھی تو سعدیہ نے بھی جھک کر اپنی عینک صوفے کے نیچے سے نکالی اور دوپٹہ کندھوں پر پھیلا کر کھڑی ہو گئیں’ ارادہ تھا کہ شیراز کے کمرے سے ملحقہ باتھ روم میں جا کر وضو کر لیا جائے کیونکہ واہی پر گرم پانی جلدی اور تیزی سے آتا ہے۔ اب جو مٹری ہیں تو نگاہ ذراکی ذرا اُن دو سنہری اور سرمئی بلی کے بچوں پر پڑی جو نجانے کب سے برآمدے میں کھلنے والے جالی کے دروازے کے ساتھ معصومیت سے منہ لٹکائے منتظر آنکھوں سے اندر جھانکتے مکینوں سے اپنے حصّہ کا رزق اور توجہ چاہ رہے تھے۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعدیہ پھوپھو نے وہیں شیراز کے کمرے میں نماز ادا کی دُعا مانگ کر باہر آئیں تو لیونگ روم خالی پڑا تھا، حلیمہ غالباً لان میں اپنی روٹین کا ورک کر رہیں تھیں۔
سعدیہ بھی عائلہ اور حلیمہ کے مشترکہ کمرے کی طرف چلی آئیں اگرچہ چارسو پندرہ گز پر پھیلے اِس دومنزلہ بلکہ اوپر کے سرونٹ کواٹر کو بھی ملا لیں تو اِس سہہ منزلہ بنگلے میں کئی کمرے اور بھی ہیں مگر نچلی منزل کا یہ وہ واحد کمرہ ہے جس کا مسلم شاور اور فلش دونوں ہی کام کرتے ہیں۔ باقی سب باتھ رومز کے جملہ ایپلائینسز (appliances) تو خاصا لیک کرتے تھے۔ یہ مکان سن دوہزار میں مظہر صاحب نے کوڑیوں کے مول خریدا تھا۔ پرانا مالک خاندانی دشمنی کے باعث اپنا خوبصورت مکان اونے پونے فروخت کر کے مُلک چھوڑنا چاہ رہا تھا۔ مظہر صاحب نے نفع بخش سودا دیکھ کر جھٹ پٹ مطلوبہ رقم اُن کے حوالے کی اور چابی تھام لی البتہ ڈرائنگ روم میں لگے بیش قیمت فانوس اور شیراز کے کمرے میں فیٹ(fit) اُس ( پرانے مکان مالک) کی بہو کے جہیز کی سفید اور سنہری ڈیکو کی الماری کی قیمت علیحدہ ہی طے ہوئی تھی مگر مظہر صاحب وعدہ کر کے حسب عادت صاف مکر گئے اور وہ بے چارہ بکتا جھکتا خود ہی چلا گیا۔ پچھلی صدی کے آخر سے لیکر اب تک اِس مکان کو مرمت کے نام پر ایک ٹائل تک نہ جُڑا تھا۔رنگ و روغن جھڑی دیواریں چیخ چیخ کر گھر میں موجود مردوں کے نھٹلے پن کی داستان سُنا رہیں تھی۔ بچیں حلیمہ تو اُس بے چاری کی ساری زندگی نہ شوہر پر چلی نہ وہ بیٹے سے کچھ بھی منوا سکنے پر قادر رہیں۔ وہ کچھ اِسی قدر ہی دبو واقع ہوئیں تھی ان کے برعکس عائلہ خاصی نڈر اور مضبوط قوت فیصلہ رکھنے والی لڑکی تھی ٹھوک کر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے والی۔
مشترکہ کمرے کا ملگجے آف وائٹ پینٹ والا لکڑی کا پرانا دروازہ جس کے ٹوٹے ہوئے لاک کے قریب میلی کُچیلی انگلیوں کے مِٹے مِٹے سے بہتیرے نشان پڑے ہوئے تھے۔ دروازے کا یہ لاک عائلہ کی مہندی کی رات ٹوٹا تھا۔ جب سب گھر والے اور مہمان گھر لوٹے تو پتہ چلا کہ دلہن کے کمرے کی چابی حلیمہ سے کہیں گر گئی ہے۔ مظہر صاحب نے سُنتے ہی سب مہمانوں کے سامنے با آواز بلند بڑبڑانا شروع کر دیا پھر شیراز نے جو ہتھوڑی سے لاک پر چوٹ ماری تو لاک کے ساتھ ساتھ دروازے کا کچھ حصّہ بھی ٹوٹ کر ہاتھ میں آ گیا جیسے چُھپانے کو حلیمہ نے دُعائے صحت کی ایک فوٹو کاپی ٹیپ سے وہاں لگا دی۔ کمرے کی ایک کھڑکی کچن سے ملحقہ گیلری میں کھولتی ہے۔بغل کا پلاٹ جب تک خالی تھاتو اُس کھڑکی سے روشنی اور ہوا کا خوب ہی گزر ہوا کرتا تھا مگر اب ساتھ والے مکان کی اِتی اونچی اونچی دیواروں سے ٹکرا کر کوئی ایک بھولی بھٹکی کرن یا ہوا کا ایک آدھ جھونکا ہی آپاتا ورنہ اِس کھڑکی کا چنداں فائدہ نہ تھا ۔اِس کے شیشے اور باریک جالی کی پٹ پر آف وائٹ پینٹ کے اَن گنت قطرے منجمد تھے جنہوں نے ہزار کھرچنے پر بھی جانے کا نام نہ لیا۔
ایسی البیلی کھڑکی کے سائے میں پلاسٹک کی ایک چھوٹی میز رکھی تھی جس کے دہری چار نیلی کرسیوں میں سے ایک پر ایک البیلا سا چار سالہ لڑکا خاموش بیٹھا سامنے موجود جار میں پڑے دو مختلف رنگوں کے ٹیڈی بیئرز کو نہایت انہماک سے ایک مخصوص ترتیب میں لگا رہا تھا۔ دو ریڈبیئرز پھر دو بلو بیئرز پھر دولال ، دو پیلے۔ اسی طرح ریپیٹ کرتے کرتے اُس نے تمام چھوٹے پلاسٹک کے ٹیڈی بیئرز(teddy bears) ایک پرفیکٹ قطار میں کھڑے کر دیئے مگر شاید یہ پرفیکٹ قطار محمد کے ذہن میں موجود اِمیج (عکس) کے ساتھ میچ نہیں کر پا رہی تھی ۔ اِسی لئے وہ کرسی سے اُتر کر قطار کے سامنے دوزانو بیٹھ گیا اور ہر زوایے سے اِس قطار کا جائزہ لینے لگا، کافی دیر تک بغور دیکھنے کے بعد اُس کے چہرے پر پہلے برہمی پھیلی اور پھر اُس نے ہاتھ مار کر تمام ٹیڈی بیئرز زمین پر گرا دیئے بعد میں لوہے کے پایوں والی پلاسٹک کی میز کو بھی ایک دھکا لگایا تو وہ بھی زور دار آواز سے نیچے گر پڑی، محمد نے ہضیانی انداز میں رونا چیخنا شروع کر دیا۔ جب تک عائلہ لپک کر اُس کی مدد کو پہنچی اُس نے اپنے چہر ے پر کس کس کر تھپٹر لگانا شروع کر دئیے۔
عائلہ نے پہلے محمد کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑے پھر دوسرے ہاتھ سے اُس کا سر اپنی طرف گھما کر متوجہ کرنا چاہا۔”Teddy bears play time finish, clean up please”.ٹیڈی بیئرز سے کھیلنے کا وقت ختم، پلیز اب سمیٹو۔(ٹیڈی بیئرز پلے ٹائم فنش، کلین اپ پلیز)
وہ ٹھوس آواز میں اِس جملے کو دھراتی رہی ۔ اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ایک ایک کر کے تمام ٹیڈی بیئرز اُٹھا کر اُنھیں جار میں واپس ڈالا اِسی طرح ہاتھ پکڑے جار کا ڈھکنا محمد کے ہاتھ سے کلاک واز گھما کر بند کروایا پھر اُس سے میز سیدھی کروائی۔ محمد کا دبا دبا رونا اب بھی جاری تھا۔ عائلہ نے آہستگی سے اُس کا ہاتھ آزاد کیا تو وہ ماں کو کھرچنے لگا مگر عائلہ نے کوئی بھی ری ایکشن دیئے بغیر سپاٹ چہرے کے ساتھ اُسے جار واپس جگہ پر رکھنے کا اشارہ کیا۔ محمد جار واپس رکھ کر پلٹا تو بری طرح سے اپنے گالوں اور ہونٹوں کے اندرونی حصّوں کو کاٹ رہا تھ۔ عائلہ نے آگے بڑھ کر کھلونوں کے پاس دھرے چھوٹے بیگ پیک کو کھولا جس میں پلے ڈ و ،ربر کے خوب کھینچنے والے کھلونے’ ربر کے خوب لچک دار کھلونے، بلاکس الگ الگ زپ لاک پیکس میں پڑے ہوئے تھے، اِس بیگ میں سے ڈھونڈ کر عائلہ نے ایک کالے دھاگے والا نیکلس نکالا جس میں درمیانے سائز کی ایک چابی نما (chewy) پروئی ہوئی تھی، اُس نے وہ نیکلس محمد کے گلے میں ڈالا اور چیہوئی اُ س کے منہ میں ڈال دی، بالکل ویسے ہی جیسے چھوٹے بچوں کے جب دانت نکل رہے ہوتے ہیں اُنہیں دی جاتی ہے۔ محمد اب اپنے دونوں ہاتھوں سے چہیوئی چباتے ہوئے قدرے پر سکون ہو چکا تھا نگاہیں البتہ اُس کی کسی مخصوص چیز پر مرکوز نہیں تھیں بلکہ اِدھر اُدھر گھوم رہیں تھی۔
سعدیہ پھوپھو اِس تمام کارروائی کو بغور دیکھ رہیں تھی۔ یہ تو اُنھیں سمجھ رہیں تھی کہ محمد چونکہ بول نہیں پا رہا ہے اِس لئے وہ اپنی فیلنگیز(feelings) کو ایکسپریس ذرا مختلف انداز سے کر رہا ہے مگر اُس کے نہ بولنے کی کیا وجہ تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھیں پھر سوچا کہ بہت سے بچے دیگر بچوں کے مقابلے میں کافی دیر سے بولتے ہیں مگر اِس منظر میں اور بھی بہت کچھ ایسا تھا جو اِنہیں بری طرح کھٹک رہا تھا۔ساڑھے چھ سالہ سلیمان اِس تمام کاروائی سے لاتعلق کچھ اپنی ہی دنیا میں گم تھا۔ نہ میز گرنے کی زور دار آواز نہ ہی بھائی کا رونا کچھ بھی اُسے خیالی دنیا سے کھینچ کر باہر نہیں لا سکا۔ مشترکہ کمرے کی تین کھڑکیاں ہمجولیاں بیرونی لانڈری کی طرف کھلتی تھیں اِن سے باہر جھانکو تو لانڈری میں دھرا تسلہ ، ٹھنڈے گرم پانی کے نلکے ، مکڑی کے جالوں سے بھری دیوار اور اُن میں ٹہلتی چھوٹی بڑی مکڑیاں سبھی کچھ صاف دیکھتا تھا۔ کھڑکیوں اور کمرے میں موجود ڈبل بیڈ کے درمیان ایک آدمی کے گزرنے کی جگہ تھی۔ سلیمان وہیں آئی پیڈ لیئے کھڑا اُس پر اِسپائڈر مین کا کوئی پزل بنا رہا تھا جس کے ہر منظر میں اسپائڈر مین ایک مختلف رنگ کے لباس میں نظر آتا مگر سلیمان بس ایک آدھ منٹ ہی وہ پزل بنا پاتا پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر مُھٹی سی بنا لیتا۔ دانت پیستے ہوئے وہ مُٹھی زور سے بھیجتا اور پیروں کی انگلیوں پر چلنا شروع کر دیتا جب اُس کی ذائد توانائی خوب اچھی طرح نکل جاتی تو پھر آئی پیڈ اُٹھا لیتا ۔کچھ لمحے کھیل کر پھر وہی ہاتھوں کا بھیجنا ،پنجوں کے بل چلنا اور آگے پیچھے۔ دائیں بائیں جھولتا جسم ۔ پزل مکمل ہونے پر ہاتھوں کو فضا میں کافی دیر لہراتا رہا جیسے پرندے ہوا میں اُڑنے کے پرتول رہے ہوں۔ سلیمان کوئی لمحہ بھر بھی خاموش نہیں رہا تھا۔مسلسل بولے جارہا تھا۔ اُس کے انگریزی الفاظ سمجھ میں تو آتے تھے مگر جملے نامکمل اور اردگرد سے قطعی لاتعلق، وہ شاید اپنے دماغ میں چلتی خیالوں کی چُو چُو (chu, chu) ٹرین کو الفاظ میں ڈھال رہا تھا عائلہ نے محمد سے فارغ ہو کر سیل فون پر الارم سیٹ کیا پھر سلیمان کی طرف منہ کر کے انگریزی میں کہنے لگی
” جب الارم بیپ کرے گا ، تو آئی پیڈ آف کر دیں گے، اور آپ لان میں کھیلنے جائینگے” اُس نے اپنی تنبیہہ تین دفعہ دھرائی تاکہ سلیمان اچھی طرح سے سُن کر ذہن نشین کرے اور ایک ایکٹویٹی(Activity) سے دوسری ایکٹویٹی میں تبادلہ بغیر روئے دھوئے ہوجائے۔
دونوں بچوں سے فارغ ہو کر عائلہ نے موٹا سا خوب ٹھسا ہوا گائو تکیہ اُٹھایا اور بیڈ کے ہیڈ بورڈ کے ساتھ لگا دیا۔ پھوپھو کو وہاں بیٹھنے کا اشارہ کیا اورخود اُن کے سامنے خوب گھس کر بیٹھ گئی پھوپھو کا سارا دھیان بچوں میں تھا۔ محمد اور سلیمان دونوں بالکل ایان کی طرح دیکھتے تھے صرف رنگت اور موڑی ہوئی پلکوں والی چمکدار آنکھیں ماں سے لی تھیں۔ ” سعدیہ پھوپھو ” عائلہ نے نرمی سے اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُن کا اِرتکاز توڑا ۔ پھوپھو کے متوجہ ہونے پر دھیرے دھیرے بتانا شروع کیا ۔ ” یاد ہے جب میں ایک مدت پاکستان میں رہی تھی اُس وقت یہ دونوں بچے بہت چھوٹے تھے مگر اُس وقت بھی اپنے ہم عمر بچوں سے قدرے مختلف بے ہیو (behave) کرتے تھے ۔ تقریباً سبھی نے مجھے اِس بات پر ٹوکا تھا اندر ہی اندر مجھے اِن دونوں کی بہت تشویش ہو رہی تھی پھر میں نے امریکہ واپس جا کر انہیں ایک نیورولوجیکل پیڈیاٹریشن یعنی بچوں کے دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر کو دیکھایا جس نے ہمیں صاف بتا دیا کہ میرے دونوں بچے آئٹزم (Austism) پر ہیں اور اِن کی ذہنی نشوو نما جسمانی نشوو نماسے کئی سالوں پیچھے ہے۔ ہماری تو جانیں ،جسموں سے روحیں اُسی روز نکل گئیں تھی۔ اُس وقت میرے ساس سسر نے ہماری بڑی ہمت بندھوائی بنا کوئی طعنہ تشنہ دیئے ورنہ ہمارے کلچر میں تو یہ کہنا بڑی عام سی بات ہے کہ یقیناً ماں میں کوئی نقص ہو گا تبھی ایسی اولاد پیدا کی، میلوں دور بیٹھی میری ماں سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھ پڑھ کر مجھے سمجھاتیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان پر اُس کی ہمت سے بڑھ کر آزمائش نہیں ڈالتا۔ تم صبر کرو ، نماز پڑھو اور اِس کی رضا میں راضی ہو جائو۔ ابا البتہ ہماری کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہ تھے ۔وہ تو آخر تک یہی کہتے رہے کہ یہ سب امریکیوں کے چونچلے ہیں ہمارے بچوں میں کوئی کمی بیشی تھوڑی ہے۔
اِس ڈائیگنوسس (Diagnosis) نے ہماری زندگی مکمل تبدیل کر کے رکھ دی۔ پہلے اسٹیپ پر تومیں نے خوراک کو بدلا پھر ورزش کو بچوں کی زندگی کا لازمی حصّہ بنا دیا کیونکہ آدھا علاج تو ایک ہیلدی لائف اسٹائل میں چھپا ہوتا ہے۔ دوسرے اسٹیپ پر میں نے اِن کی مختلف تھیراپیز( (Therapies کروائیں۔زندگی بڑی مشکل بڑی مصروف ہو گئی تھی میرا ایک پائوں سٹرک پر ہوتا اور دوسرا گھر میں ۔بچوں کو اُن کے مخصوص ڈاکٹرز کے پاس لیکر جانا پھر گھر میں اُن کے ساتھ لگے رہنا، اُن کے کھانے پینے کا خیال رکھنا جہاںمیں ایک ذمہ دار ماں ہونے کی حیثیت سے اُن کی بہتری کے لئے دن و رات کوشاں تھی وہاں ایان نے بھی مجھے سپورٹ کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی تھی ایان پیسہ کمانے کی مشین بن کر رہ گئے ہیں بہر حال اِن تمام پرائیوٹ تھراپیز کے لیے ایک خاصی معقول رقم چاہیے ہوتی ہے۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7

Read Next

مدیر سے پوچھیں | علی عمران سے ملاقات

4 Comments

  • Such a nice concept

  • Lovely story

  • Hi Dear , very informative and well written story. Is it possible to contact to writer to get information about “Mohsin” kind of program if its its really excites. Thank you.

  • بہت عمدو اندازِ بیان ہے 👍

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!