سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

کوپن ہیگن ائیرپورٹ پر رانیہ نے اس کا پرُتپاک استقبال کیا اور اسے لے کر ٹیکسی میں اپنے چھوٹے مگر جدید سہولتوں سے مزّین اپارٹمنٹ پہنچی جہاں خالہ اور خالو اس کے منتظر تھے۔ سرمد پوچھنا چاہتا تھا کہ اس کے پاس گاڑی نہیں ہے لیکن پھر چُپ ہورہا۔
رانیہ اسے پاکر خوش تھی بے حد خوش۔ ’’یہاں کرسمس کی چھٹیاں ہیں میں تمہیں کل ہی پورا شہر گھما دوں گی۔‘‘ رانیہ نے کہا۔
’’آرام سے… میں اب یہیں ہوں‘‘ سرمد نے کہا۔ رانیہ مُسکرا دی۔ اگلی صبح بلوبیری کیک، پیسٹریز، بریڈ، شہد اور کافی کا مزے دار ناشتہ کرکے وہ کوپن ہیگن کی سیر کو نکلنے لگے تو رانیہ نے پوچھا:
’’ٹرین سے جانا چاہو گے یا میٹرو سے؟”
“کیا مطلب تمہارے پاس یا خالو کے پاس گاڑی نہیں ہے۔‘‘ سرمد نے پوچھا۔
’’ڈنمارک سائیکلنگ کرنے والا دنیا کا نمبرون ملک ہے کوپن ہیگن میں %50 لوگ سائیکلنگ کرتے ہیں۔ ہم تینوں کے پاس بھی سائیکل ہیں۔‘‘ رانیہ نے سادگی سے کہا۔
فی کس آمدنی کے اعتبار سے بھی دنیا کا نمبر ون ملک اور سائیکلنگ کے اعتبار سے بھی نمبر ون ہو یہ سرمد نے سوچا۔
’’چلیں‘‘ رانیہ نے پوچھا۔ وہ سرہلاتا ہوا اُس کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
موسم اگرچہ شدید تھا لیکن رانیہ نے ڈنمارک کے موسم کے حساب سے سرمد کے کپڑے لے رکھے تھے اور رانیہ کی ہمراہی میں اتنے خوبصورت ملک میں گھومنا بے حد پرلطف تھا۔ تین دنوں میں رانیہ نے اسے تقریباً تمام اہم جگہیں دکھا دیں۔ ٹاؤن ہال سکوائر، لٹل مرمیڈ کا مجسمہ، راؤنڈ ٹاور، روزن برگ محل، کرسچن بورگ پیلس وغیرہ وغیرہ۔ رانیہ نے ڈنمارک میں بننے والی پہلی مسجد بھی دکھائی، جو 1967؁ء میں بنی تھی اور بتایا کہ یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
شاپنگ کرتے ہوئے سرمد نے دیکھا کہ بچے دکانوں کے باہر اپنی پرام میں بڑے مزے سے لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی نگرانی کے لیے کوئی نہ ہوتا۔ ’’یہ کیا ہے رانیہ بچے اکیلے پرام میں پڑے ہیں۔‘‘ ’’ہاں ان کے والدین شاپنگ کررہے ہوں گے یا ہوٹل میں کچھ کھا پی رہے ہوں گے اس لیے انہیں یہاں باہر چھوڑ دیا۔ کیوں کہ یہاں بچوں کو نقصان پہنچانے کا یا چرانے کا کوئی خدشہ نہیں۔ رانیہ نے بے پروائی سے کہا۔ رانیہ نے اس کی معلومات میں بلکہ حیرانی میں اسی طرح کے کئی اضافے کئے۔
٭٭٭٭
کرسمس کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو رانیہ نے کام پر جانے کی تیاری شروع کردی۔ خالہ اور خالو بھی کہیں جانے کے لیے تیار تھے۔
’’خالہ آپ کہاں جارہی ہیں۔‘‘ سرمد نے پوچھا۔ ’’میں کام پر… تمہارے خالو کے ساتھ کام کرتی ہوں نا…‘‘ خالہ نے وضاحت کی۔
’’تو میں کیا کروں گا گھر‘‘ پہ ’’میں تو کام کرنا چاہتا ہوں سرمد نے کہا۔
’’سب سے پہلے تو تم ڈینش سیکھو کیوں کہ اس کے بغیر آپ ڈنمارک میں کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘ خالو نے مشورہ دیا۔
’’ویسے تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم ہمارے ساتھ کام شروع کردو۔‘‘ خالہ نے کہا۔
’’جی ٹھیک ہے کیا کام کرنا ہوگا۔‘‘ سرمد نے کہا۔
’’ہماری لانڈری ہے۔‘‘ خالو نے دھماکہ کیا۔
’’آپ کی لانڈری ہے یعنی آپ… کپڑے دھوتے ہیں یعنی…‘‘ سرمد نے بڑی مشکل سے خود کو دھوبی کہنے سے روکا۔
’’کیوں اس میں کیا برائی ہے اور پھر جتنی تعلیم کے ساتھ اور جس زمانے میں ہم یہاں آئے تھے اس سے بہتر بزنس اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ فرحت بھی وہیں کام کرتی ہے۔‘‘ خالو نے کہا۔
“خالہ بھی…” سرمد کو بے حد حیرت ہوئی۔
’’تم اتنے حیران کیوں ہورہے ہو تمہاری میٹرک پاس خالہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔‘‘ خانو نے کہا۔
’’مگر میں نے ایم۔ بی۔ اے کیا ہے میں لانڈری میں کیسے……‘‘
’’برخور دار تم نے پاکستان کی ایک تھرڈ کلاس یونیورسٹی سے ایم۔ بی۔ اے کیا ہے، جو یہاں آکر صفر ہوگیا ہے۔‘‘ خالو نے اسے آئینہ دکھایا۔ سرمد سے مارے صدمے کے کچھ بولا ہی نہ گیا۔
’’بیٹا دیار غیر میں بھی پیسے درختوں پہ نہیں لگے، دھن آسمان سے نہیں برستا اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ تمہیں بہت جلد احساس ہوجائے گا کہ ہم دن رات کتنی محنت کرتے ہیں تو پاکستان میں گھر والوں کو پیسے بھیج پاتے ہیں۔‘‘ خالہ نے کہا۔ سرمد چُپکا بیٹھا رہا۔
سرمد پر عجیب مایوسی طاری تھی جس دولت کے چکر میں وہ یہاں آیا تھا وہ کسی صورت ملتی نظر نہیں آرہی تھی۔ لانڈری جانا اسے اپنی توہین محسوس ہوتی تھی۔ خالہ خالو نے بھی اسے دوبارہ کچھ نہ کہا۔
رانیہ نے یہیں سے تعلیم حاصل کی تھی وہ ایک فرم میں اسسٹنٹ مینیجر تھی وہ بھی صبح جاب پہ چلی جاتی۔ ڈنمارک میں چند دوسرے ملکوں کی طرح عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ان کی تنخواہیں مردوں کے برابر ہی ہیں۔ رانیہ نے بتایا کہ یہاں میٹرنٹی لیو دس ماہ کی ہوتی ہے تنخواہ کے ساتھ۔
ایک دن وہ گھر بیٹھے بیٹھے تنگ آگیا تو لانڈری چلا آیا۔ پاکستان میں گھر والوں کو کہہ کر آیا تھا کہ جاتے ہی پیسے بھیجے گا اور پیسے کمانے کا فی الحال کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ ڈینش زبان کا کورس بھی کرنے لگا۔
خالو کی لانڈری اور ڈرائی کلیننگ شاپ کا شمار کوپن ہیگن کی بہترین دکانوں میں ہوتا تھا۔ جلد ہی وہ یہ کام سیکھ گیا۔ خالو اسے معقول رقم بھی دینے لگے جو وہ پاکستان بھیج دیتا۔
لیکن ڈھیروں ڈھیر دولت کمانے کی خواہش پوری نہیں ہوپارہی تھی۔ پھر اس کا بھی سبب بن گیا یا شاید اس کی آزمائش مقصود تھی کہ وہ خیر کا انتخاب کرتا ہے یا شر کا۔
وہ معمول کے مطابق لانڈری شاپ میں موجود تھا کہ ایک حسین و جمیل خاتون کپڑے ڈرائی کلین کرانے کے لیے آئی۔
’’Hej (ہیلو)۔‘‘ خاتون بولی۔
’’Hej (ہیلو)۔‘‘ سرمد نے جواب دیا ڈینش کورس کرتے ہوئے وہ بولنے پہ بھی قادر ہوگیا تھا۔
“اوہ تم… بہت خوبصورت ہو دیو مالائی حسن کے مالک۔‘‘ وہ بولی
“شکریہ۔‘‘ یہاں آکر اتنی بار اپنی بے باک تعریف سنی تھی کہ اب جھینپا نہیں تھا۔
’’میں ازابیلا ہوں کیا میرے ساتھ کام کرو گے۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھایا تو سرمد نے تھام لیا۔
’’کیا کام کرنا ہوگا؟…‘‘ سرمد نے پوچھا… ’’میرے بوائے فرینڈ کا…‘‘ وہ بے باکی سے ہنسی۔
سرمد نے اسے اس لبرل سوسائٹی کا ایک مذاق سمجھا اور خاموش رہا۔ ازابیلا نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولی: ’’میں ٹی وی کیلئے کمرشلز بناتی ہوں۔ کام کرو گے یعنی ماڈلنگ کرو گے۔‘‘
’’معاوضہ کیا ہوگا؟‘‘ سرمد کام سے زیادہ معاوضہ میں انٹرسٹڈ تھا۔
’’تمہاری مرضی کا۔‘‘ ازابیلا بولی
’’ٹھیک ہے۔‘‘ سرمد نے سوچنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگایا۔
رانیہ کو پتا چلا تو وہ بولی فوراً انکار کردو۔
’’تم تو چاہتی یہی ہوکہ ساری عمر تمہارے ٹکڑوں پر پلا رہوں۔ تمہارے ماں باپ کا احسان مند رہوں۔” اس کی پاکستانی غیرت جاگ اٹھی۔ احسان مند ٹکڑے… بالکل مختلف تہذیب میں رہنے کی وجہ سے وہ ان لفظوں کے مفہوم سے نا آشنا تھی۔
’’تم یہ سب کیسے کرسکتے ہو۔ یہ ماڈلنگ… یہ شوبز…‘‘ رانیہ نے کہا۔ ’’کیوں نہیں کرسکتا۔ ماحول عورتوں کے لیے اچھا بُرا ہوتا ہے مردوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ اس کی سوچ صریحاً پاکستانی تھی۔ وہ تاسف سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
خالہ اور خالو نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود… دولت کی چمک اور ہوس میں اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے ازابیلا کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔ معاوضہ بے شک سرمد کی پسند کا تھا مگر کام ازابیلا کی پسند کا۔
اب اس کے پاس ڈھیروں ڈھیر پیسہ تھا۔ شروع شروع میں تو وہ گھر آجاتا تھا پھر آہستہ آہستہ اس نے گھر آنا چھوڑ دیا اور ایک دن رانیہ کو طلاق دے دی۔
ازابیلا کے بعد ایملی، اینا، ایما، لیز اور نہ جانے کون کون اس کی زندگی میں آتا گیا۔ اس کا بینک بیلنس بڑھتا گیا۔
کئی سال گذر گئے وہ پاکستان نہیں گیا۔ بہنوں کی شادیاں ہوگئیں بھائی ڈاکٹر بن گیا۔ ہر بار ماں باپ اور بھائی بہنوں کے اصرار میں جواب میں وہ یہی کہتا کہ بہت مصروف ہوں نہیں آسکتا۔ اس نے جو چاہا تھا وہ پالیا۔ ڈھیروں دولت اس کے پاس تھی۔
کچھ وقت اور بیتا وقت کا سورج ڈھلنے لگا۔ اب اس کا دل چاہتا تھا پاکستان جانے کو… ماں باپ کے سائے تلے بیٹھنے کو… بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے کو لیکن وہ کیسے جاتا… وہ اب نہیں جاسکتا تھا… اسے ایڈز ہوگیا تھا۔
شر کی چمک دمک میں خیر کا سونا کھو گیا تھا
سرد سورج کی سر زمین میں سو گیا تھا




Loading

Read Previous

داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

لبِ قفل — راحیلہ بنتِ میر علی شاہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!