سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

’’سرمد کل اتوار ہے تمہیں چھٹی ہوگی لاہور گھما لاؤ گے۔‘‘ رانیہ نے کہا اور سرمد جی جان سے تیار ہوگیا۔
پھر سارا دن رانیہ کے ساتھ گذارنے کے بعد جب شام کو رانیہ کو اس کے چچا کے گھر ڈراپ کرتا ہوا واپس آیا تو بے حد خوش تھا اور سیٹی پر شوخ دھن بھی بجا رہا تھا۔
امی نے بہ غور اس کا چہرہ دیکھا اور کہا: ’’بہت خوش نظر آرہے ہو لگتا ہے رانیہ کے ساتھ خوب انجوائے کیا۔‘‘
’’جی امی رانیہ بہت اچھی لڑکی ہے۔‘‘ سرمد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’اتنی گرمی میں تم اسے کہاں لے گئے تھے؟‘‘ راحت بیگم نے پوچھا۔
’’پہلے میوزیم گئے پھر کھانا کھانے چلے گئے پھر شام کو مینارِ پاکستان، شاہی قلعہ اور جناح گارڈن دکھایا۔ اے سی والی گاڑی تھی گرمی کہاں محسوس ہونی تھی۔‘‘
راحت بیگم اسے خاموشی سے دیکھنے لگیں۔ سرمد بھی خاموش تھا پھر دھیمے انداز سے کہنے لگا۔
’’امی آپ سے ایک بات کرنا تھی…‘‘
’’ہاں بولو۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ہم نے شادی کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ سرمد نے کہا
’’ہم…؟‘‘ راحت بیگم سراپا سوال تھیں۔
’’ہم مطلب میں نے اور رانیہ نے۔‘‘ سرمد نے وضاحت دی۔
ایک ہی دن میں ان دونوں نے ’’میں‘‘ اور ’’تم‘‘ سے ہم کا فاصلہ طے کرلیا تھا۔ امی انگشت بہ دنداں تھیں۔
’’تم دونوں… اتنی جلدی۔‘‘ راحت بیگم نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں جملہ ادا کیا۔
’’امی وہ جہاں سے آئی ہیں وہاں زندگی بہت فاسٹ ہے۔ بڑے بڑے فیصلے لمحوں میں کرلیے جاتے ہیں۔‘‘ سرمد نے کہا۔
’’لیکن ہمارا ارادہ تو مائرہ کے ساتھ تمہاری شادی کرنے کا تھا۔‘‘ امی نے کہا۔ “ارادہ ہی تھا شادی تو نہیں ہوگئی تھی نا۔‘‘ سرمد نے تیزی سے کہا
’’وہ تمہارے ابو کی بھانجی ہے۔ ہم سب کی خوشی اسی میں تھی کہ…‘‘
’’آپ یہ دیکھیں کہ میری خوشی کس میں ہے۔‘‘ سرمد نے تیزی سے امی کی بات کاٹی۔
’’تمہاری خوشی…؟‘‘ امی حیران تھیں۔
’’امی میں یہاں سے تنگ آگیا ہوں۔ پاکستان میں رکھا گیا ہے۔ گُھٹ گُھٹ کر جینے کا کیا فائدہ۔‘‘ سرمد نے کہا۔
’’بیٹا تم پڑھے لکھے ہو ابھی نوکری شروع کی ہے آہستہ آہستہ ترقی کرلو گے۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ہاں جتنی ابو نے ترقی کی ہے۔‘‘ اس نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ امی تاسف سے اسے دیکھتی رہ گئیں۔ ابو بھی آگئے تھے اور باقی بہن بھائی بھی اور اب خاموشی سے سرمد کو دیکھ رہے تھے۔
سرمد امی کے پاس آبیٹھا اور بولا: ’’میں جس طرح کا لائف سٹائل چاہتا ہوں وہ یہاں ممکن نہیں۔ یہاں رہ کر میں کچھ نہیں کرسکوں گا نہ اپنے لیے نہ آپ لوگوں کے لیے نزہت، نگہت کی شادیاں کرنی ہیں۔ اظہر کو ڈاکٹر بنانا ہے کیسے ہوگا یہ سب؟ ہم سب کی بہتری اسی میں ہے کہ میں ڈنمارک جانے کے موقع سے پورا فائدہ اٹھاؤں۔‘‘ سرمد نے کہا۔
’’مگر ہم تمہارے بغیر کیا کریں گے بوڑھے ماں باپ کو جوان بیٹوں کی چھاؤں درکار ہوتی ہے۔‘‘ ابو نے کہا۔
وہ اُٹھ کر ابو کے قدموں میں آبیٹھا۔ ’’ابو جی یہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے اب دنیا بے حد قریب آچکی ہے واٹس ایپ ہے، سکائپ ہے میں آپ سے دور کہاں رہوں گا آپ جب چاہیں مجھے دیکھ سکیں گے مجھ سے بات کرسکیں گے اور میں ہر سال چکر لگایا کروں گا۔ یہ کوشش بھی کروں گا کہ آپ لوگوں کو وہاں بلا لوں۔‘‘ سرمد نے کہا۔
’’ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس تم ہمارے پاس رہو۔‘‘ امی نے کہا۔ وہ لاکھ تسلیاں دیتا مگر ماں باپ کے دل کو چین کہاں۔
’’آپ کو کچھ نہیں چاہیے لیکن مجھے سب کچھ چاہیے۔‘‘ وہ ہٹ دھرمی سے بولا۔
ماں باپ حسرت سے دیکھتے رہے اور ان لوگوں کے جانے سے دو دن پہلے رانیہ اور سرمد کا نکاح ہوگیا تاکہ کاغذات بنوائے جاسکیں۔
اور پھر چند ماں بعد ہی وہ دن آگیا جب سرمد کو ڈنمارک کے لیے پرواز کرنا تھا۔ ماں باپ بیٹے کی جدائی سے بے حال ہورہے تھے تو بہن بھائی بھی بولائے بولائے پھر رہے تھے۔ البتہ سرمد مطمئن اور خوش تھا۔
’’امی آپ اس طرح سے اداس نہ ہوں مجھے خوشی خوشی رخصت کریں۔ میری کامیابی کی دعا کریں۔‘‘ سرمد نے کہا۔
راحت بیگم نے اس کا ماتھا چوما تو ان کے آنسو بہنے لگے۔ پھر وہ ابو کے پاس آیا ابو آپ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ پائیں گے۔
ابو نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا اور بولے: ’’بیٹا ہر جگہ کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ خیر اور شر خود کو شر سے بچا کررکھنا۔ خیر کے راستہ پر چلنا۔‘‘
’’جی ابو۔‘‘ سرمد نے سعادت مندی سے کہا بھائی بہنوں کو پیار کیا اور نئے آفاق کی تلاش میں قدم بڑھا دیئے۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

لبِ قفل — راحیلہ بنتِ میر علی شاہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!