سراغِ زندگی — خدیجہ شہوار

”دیکھو! ان کے پاس ہنسنے کے لیے سب کچھ ہے ۔رونے کے لیے کچھ نہیں اور تمہارے پاس رونے کے لیے سب کچھ ہے۔ ہنسنے کے لیے کچھ نہیں۔ کیا میں نے ٹھیک کہا؟” چرواہے نے سامنے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے لڑکے سے استفسار کیا۔لڑکا چرواہے کا اشارہ باخوبی سمجھ گیا لیکن پھر بھی خاموش رہا۔
سامنے پہا ڑوں پر بنے راستوں میں دکھائی دیتی سڑک کے قریب بڑی سیاہ جیپ اور چند لڑکے لڑکیاںموجود تھیں۔ ان کے پاس رکھی انگیٹھی سے اٹھتا دھواں فضا میں تحلیل ہو تا دکھائی دے رہا تھا۔ دور سے محسوس ہوتا تھا کہ لڑکیاں نیم برہنہ ہیں۔ان کے جسم پر کہیں کہیںلباس کی جھلک تھی۔ان کے اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا انداز بتاتا تھا کہ وہ شراب کے نشے میں دھت” قہقہے ”لگا رہے ہیں۔
”ہاں! اسی لیے۔مجھے اب موت کا کوئی خوف نہیں۔ مجھے یقین ہے موت زندگی سے بہتر ہو گی۔ موت بار بار چوٹ نہیں لگائے گی ۔ایک بار چوٹ کھالوں تو بہتر ہے۔” لڑکے نے چرواہے کے لیے اکتاہٹ بھرے دل ہی دل میں سوچا۔ اسے چرواہے کی ہر بات زہر لگ رہی تھی۔وہ اب واقعی کھائی میں کود جانا چاہتا تھا۔
”اگر تمہارا جواب ”ہاں”میں ہے، تو تم غلط ہو۔ تمہیں وہ زندہ لگتے ہیں؟ ”چرواہے نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔لڑکے نے چونک کر چرواہے کو دیکھا۔ اس بات نے اسے چرواہے کی طرف پہلی بار متوجہ کیا تھا۔
”جانتے ہو۔ تم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔وہ بھی تمہاری طرح مر چکے ہیں۔بس انہوں نے خاموشی سے خود کشی کی ہے اور تم نے چیخ چیخ کر…” لڑکے نے آنکھیں سکیڑ تے ہوئے جھریوں بھرے چہرے پر نظریں ٹکادیں۔ جھریوں بھرا چہرہ سمندر کی طرح گہرا معلوم ہوتا تھا ۔
”مجھے زندگی راس نہیں آئی۔مجھے بس دکھ ہی دکھ ملے ہیں۔ اس لیے میں موت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہوں۔آج نہیں تو کل مرہی جانا ہے، تو آج ہی سہی۔ ” لڑکے نے اس بار چرواہے کو دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔ اب وہ چرواہے کی آنکھوں میں اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرنے لگا۔




”بابا! تم مجھے روک کر کیا کرو گے۔ مجھے تم سکون نہیں دلا سکتے۔ صرف موت مجھے سکون دے سکتی ہے۔” لڑکے نے آنکھوں میں نا امیدی لیے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔
”ٹھیک ہے، لیکن … مرنے سے پہلے…” چرواہا مزید کچھ کہنے سے پہلے پل بھر کو رکا۔ وہ سامنے پہاڑوں کی چوٹیوں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
” مرنے سے پہلے…کیا؟” لڑکے نے پل بھر میں جواب چاہا۔
” مرنے سے پہلے اپنا احتساب کرنا۔ تمہاری جس ذات سے ملاقات پکی ہے۔ کیا اس سے ملنے کے قابل بھی ہو؟ ” جھریوں بھرے چہرے نے سورج کی مدھم ہوتی کرنوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ضعیف آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی۔
”مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں۔’ ‘ لڑکا مزید کچھ کہنے سے پہلے پل بھر کو رکا اور آہ بھری۔
”میں نے اسی ذات سے امیدیں لگائی تھیں، مگر اس نے ۔” لڑکے نے لہجے میں شکوہ لیے کہا۔
”مجھے تمہارا جواب معلوم تھا۔” چرواہے نے اپنے دونوں ہاتھ لاٹھی پر جمادیے۔
”اس ذات سے امیدیں کوئی بھی لگا سکتا ہے۔تم کوئی الگ نہیں ہو… وہ ذات تم سے کیا امید رکھتی ہے؟ یہ کبھی جانا تم نے؟ ”
چرواہے نے لڑکے کی آنکھوں میں دیکھا۔ لڑکے نے نجانے کیوں آنکھیں چرا لیں۔
”لیکن میں نے اس ذات سے جو مانگا ۔اس نے مجھے وہ نہیں دیا۔” لڑکے نے ٹھہری آنکھوں سے سورج کی بے بسی میں لپٹی سرخی کو گھورتے ہوئے کہا۔
”تم نے اس سے وہ مانگا جو تمہیں چاہیے تھا اور اس نے تمہیں وہ دیا جس کے تم حقدار تھے۔” لڑکے نے ایک بار پھر نا چاہتے ہوئے چرواہے کی طرف بے ساختہ دیکھا ۔اس بات پر اس کے اندر ایک عجیب سی ہل چل مچ گئی تھی۔وہ چرواہے کو مزید کچھ کہہ نہیں پایا تھا۔
”تم اس سے مایوس ہو، مگر وہ ذات ابھی بھی تم سے مایوس نہیں ۔اسی لیے تمہاری سانس اب بھی باقی ہے ورنہ…” چرواہے نے کچھ سوچتے ہوئے گہری سانس لی۔
”ورنہ کیا؟” لڑکے نے پورے ہوش و حواس میں پوچھا۔
”ورنہ تم کب کے کھائی کے پیٹ میں جا چکے ہوتے اور وہ تمہیں یوں نگل چکی ہوتی جیسے تم کبھی تھے ہی نہیں۔” چرواہے نے مزید کچھ کہنے سے پہلے گہرا سانس لیا تھا۔ لڑکے نے اپنے بدن میں خوف کی عجیب سی لہر محسوس کی ۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی سوچنے پر مجبور ہوا تھا۔
”انہیں دیکھو وہ بھی سکون کی تلاش میں ہیں۔بالکل تمہاری طرح۔”چرواہے نے دور کھڑی سیاہ جیپ پر نظریں جمائے کہا۔ایک دم سے اس کے دماغ نے جیسے کروٹ لی۔ ذہن میں سوچوں کا طوفان پہلے سے بھی زیادہ زبردست قوت سے ہچکولے کھانے لگا تھا، لیکن یہ طوفان پہلے طوفان سے قدرے مختلف تھاکیونکہ پہلے طوفان کا منبع ”ناامیدی ” تھی اور اس طوفان کا منبع ”امید ” تھی۔
”سکون کی تلاش ختم ہو جائے گی۔”چرواہے نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا۔
”بس… ایک بات یاد رکھو ۔اگر تم اس پر راضی نہیں ہو جو اس نے تمہیں دیا، تو اُس کے حقدار بنو جو تمہیں چاہیے جس کے لیے تم مر رہے ہو، ہو سکتا ہے تم اس کے قابل نا ہویا وہ تمہارے…”چرواہے نے بھینسوں بکریوں کو پلٹ کر دیکھتے ہوئے اپنی لاٹھی سنبھالی ۔لڑکا بے حس و حرکت کھڑا لاشعوری دنیا سے لڑنے کے لیے ڈھال پہن چکا تھا۔اب وہ میدان سے بھاگا ہوا جنگجو نہیں رہا تھا۔
چرواہے کی باتوں نے اسے اندر سے جھنجھوڑا تھا۔ بوڑھے کے الفاظ اس کی رگوں میں دوڑ گئے۔ اس نے یک لخت اپنے وجود میں ایک سرسراہٹ محسوس کی ۔ اس نے اپنی آنکھیں موندے سر کو پیچھے کی طرف جھکایا ۔اس کی آنکھوں سے آنسو دوبارہ بہنے لگے تھے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز گہرے لمبے سانس لینے لگا تھا۔ چرواہے کے الفاظ اس کی کایا پلٹ گئے تھے۔ اس نے ا پنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے۔اس کی نظر دوبارہ سورج پر پڑی جو غروب ہونے کو تھا۔اسی لمحے اسے بوڑھے چرواہے کا خیال آیا۔اس نے بے ساختہ پلٹ کر دیکھا۔
بابا!
بابا!
بابا!
وہ بلند آواز میں چلایا۔ اس نے پاگلوں کی طرح اس بوڑھے کو ڈھونڈا ۔
وہ برق رفتاری سے بابے کی تلاش میں بھاگا۔ اس نے جنگل کی چاروں اطراف میں اپنی نظریں بکھیر دیں مگر اسے جنگل میں چرواہا کہیں دکھائی نہ دیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بھینسیں اور بکریاں بھی منظر سے غائب تھیں۔ وہ بلند آواز میں اسے پکارتا رہا مگر اس کی گونج جنگل میں گھوم کر اس کے پا س خالی لوٹ آتی۔اس نے رک کر گہراسانس لیا۔ پھر وہ کچھ سوچتے ہوئے پہاڑ کے اس آخری سرے کی طرف بھاگا جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑا زندگی کو کوستا رہا تھا، لیکن اب اسے وہاں موجود ہر چیز میں زندگی نظر آئی تھی۔اسے سورج کی چمک میں ایک امید دکھائی دی تھی ۔
”کب کے کھائی کے پیٹ میں جا چکے ہوتے۔ مرنے سے پہلے اپنا احتساب کرو، کیا اس سے ملنے کے قابل بھی ہو؟ وہ ذات تم سے کیا امید… یہ کبھی جانا تم نے۔ تم اس سے مایوس ہو، مگر وہ ذات…اس کے حقدار بنو جو …جس کے لیے تم مر رہے ہو، ہو سکتا ہے تم اس کے قابل نا ہویا وہ تمہارے… ”بوڑھے چرواہے کے الفاظ اس کے دماغ کے پردوں میں جیسے ثبت ہو گئے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے بالوں میں پھیرتے ہوئے دور پہاڑوں کو دیکھا ۔پیشانی پر بکھرے بال اب سلجھے ہوئے لگنے لگے تھے۔وہ چند ثانیے چپ چاپ کھڑا گہری سانسیں لیتا رہا۔وہ چرواہا اسے ایک خوبصورت خواب لگا تھا۔وہ کچھ دیر جینز کی فرنٹ جیبوںمیں ہاتھ ڈالے اپنے ارد گرد موجود چیزوں کو محسوس کرتا رہا۔اس کے خون میں زندگی کی ایک نئی امنگ دوڑ گئی تھی۔ پھر اچانک اس کی نظر دور پہاڑوں پر گئی۔ اس نے دور پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے آنکھیں سکیڑیں۔
”مردے …”قہقہے” لگاتے کتنے عجیب لگتے ہیں۔” وہ د ونوں ہاتھ جینز کی فرنٹ جیبوں میں ڈالے سامنے پہاڑوں میں کھڑی سیاہ جیپ کو دیکھتے دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔پھر اس کا دھیان دوبارہ کھائی کی طرف گیا۔اسے اب اپنی براؤن لیدر جیکٹ بھی یاد آئی جو کھائی کی نذر ہو چکی تھی۔وہ چپ چاپ جنگل کی طرف پلٹا۔
”مجھے تم یاد آؤ گی…” اس نے مسکراتے ہوئے آخری بار کھائی کو مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا اور سورج ابھی بھی ڈوبا نہیں تھا۔ اس کی چمک اب بھی باقی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

لیکھ — عطیہ خالد

Read Next

مڈل کلاس — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!