سراغِ زندگی — خدیجہ شہوار

”ٹھہرو… ”اس کی پشت سے ا یک نحیف آواز ابھری۔ وہ ایک دم سے چونکا۔
”تمہاری زندگی کے دن اگر گنے جا چکے ہوتے، تو تمہیں مرنے کے لیے اتنی جدوجہد نا کرنی پڑتی۔” وہ پہاڑ کی چوٹی کے آخری سرے پر کھڑا زندگی کو الوداع کہتا ہوا رک گیا اور چونک کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ وہ یک لحظہ لاشعوری دنیا سے باہر آیا تھا ۔ اسے اپنے پورے جسم میں ایک عجیب کپکپی محسوس ہوئی۔ و ہ ٹھنڈے پسینے میں شرابور تھا۔
”تم مر تو چکے ہو۔ پھر مرنے کی کوشش کیوں کرتے ہو؟ ” وہ کھائی کے اس پار پھیلے وسیع پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے اس نحیف آواز کو سن سکتا تھا۔وہ بے حس و حرکت کھڑا رہا۔اسے وہ نحیف آواز بہت ناگوار گزری تھی۔ وہ کسی کے فلسفے سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔وہ تو اپنی ذات سے صاف مکر گیا تھا۔اسے کسی دوسری ذات سے کیا غرض…
”کیا تم مجھے سن سکتے ہو؟”اس نحیف آواز نے زور دیتے ہوئے لڑکے سے استفسار کیا۔اس نے آہستگی سے آخر کار جنگل کی طرف مڑ کر دیکھا۔ لڑکے کی آنکھوں میں اس بوڑھے شخص کے لیے تلخی کے سوا کچھ نا تھا۔وہ ایک با ریش جھریوں بھرا چہرہ تھا جس پر زندگی کے بیتے اسباق ثبت تھے ۔اس نے سلیٹی رنگ کا چوغہ پہن رکھا تھا جس پر کہیں کہیں پیوند بھی لگے تھے مگر چوغہ صاف ستھرا تھا۔اس کے سر پر سفید رنگ کا صافہ بندھا ہوا تھا۔اس کے لمبے سفید گھنگھریالے بال اس کے شانوں پر بکھرے تھے۔وہ ایک چرواہا تھا۔اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر بھینسیںاور بکر یاں تھیں جنہیں وہ چروانے کی غرض سے جنگل میں آیا تھا۔بھینسوں بکریوں کو ہانکنے کے لیے وہ ہاتھ میں لاٹھی پکڑے ہوئے تھا۔وہ لاٹھی کے سہارے کھڑا لڑکے کو سوالیہ نظروں دیکھ رہا تھا۔




”سننے کو کچھ باقی نہیں ہے۔ سب ختم ہو گیا۔ باباجا ؤ اپنا کام کرو اورمجھے اکیلا چھوڑ دو۔” لڑکے نے دوبارہ کھائی کی طرف رخ کرتے ہوئے بیزاری سے کندھے اچکائے۔ اسے وہاں چرواہے کا یوں آنا بے کار معلوم ہوا تھا۔ اس کے لیے بابے سے زیادہ کھائی اہم تھی جو کم از کم اسے ان سوچوں سے نجات دلا سکتی اور ابدی نیند تو سلا سکتی تھی۔
‘ ‘جب سننے کو کچھ باقی نا ہو۔وہی وقت تو اصل میں سننے کا ہوتا ہے۔جانتے ہو۔ تم جیسے ہزاروں لوگ میں نے اس پہاڑ پر خودکشی کرتے دیکھے ہیں۔ کسی کی ماں مر گئی…کسی کا باپ چھوڑ گیا۔ کسی کو غربت لے ڈوبی، کسی کو دوستی نے سولی چڑھا ڈالا اورکسی کو… محبت کھا گئی۔”وہ چرواہا مزید کچھ کہنے سے پہلے پل بھر کو رکا تھا۔اس بھاری مگر نحیف آواز میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ تھا۔وہ ابھی بھی اس بزرگ کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا۔وہ اسے نظر انداز کر کے بے زاری کا کھلم کھلا اعلان کر رہا تھا۔
”تمہیں یہاں کون کھینچ لایا؟ ”بوڑھے چرواہے نے پاس پڑے کٹے درخت کے تنے پر بیٹھتے ہوئے لڑکے سے پوچھا۔
”جان کر کیا کرو گے بابا؟ میں تکلیف میں ہی ٹھیک ہوں۔ مجھے دوا نہیں چاہیے۔تم اپنا وقت برباد مت کرو۔ مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں۔ مجھے تنہا چھوڑ دو۔مجھے تمہاری باتوں کی کوئی پروا نہیں۔ ” لڑکا پورے ہوش و حواس میں کہہ رہا تھا۔اس کی پیشانی پر بکھرے بال ابھی بھی اس کی بدحالی کے غماز تھے۔ وہ ابھی بھی اپنے وجود سے میلوں دور تھا۔ ٹوٹا ہوا،بکھرا ہوا۔
”یہاں کھڑا ہر انسان یہی کہتا ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ مجھے معلوم ہے پہاڑ کے اس آخری سرے پر سکون کی کوئی دو ا نہیں ملتی۔” بوڑھے چرواہے نے اپنی بھینسوں پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے کہا۔لڑکا ابھی بھی اُسے نظر انداز کیے کھڑا تھا۔اسے بابے کی باتیں کسی بک بک سے کم نہیں لگی تھیں یا شاید وہ سننے کی حالت میں نہیں تھا۔
”جیتے جی مرنا سب سے بھیانک موت ہے اور تم یہ موت مر چکے ہو… کیا تمہیں لگتا ہے تم زندہ ہو۔ جو موت کی تلاش میں ہو؟”چرواہے نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے رک رک کر کہا تھا۔ چرواہا جیسے اسے اندر سے کھنگال رہا تھا۔ اُس کی باتیں وہ سن تو رہا تھا، لیکن کوئی بات ابھی تک اس کے دل تک نہیں پہنچی تھی ۔ وہ ابھی بھی موت کو زندگی پر ترجیح دے رہا تھا۔
” اگر اسے مرنا کہتے ہیں تو مجھے ایک بار پھر سے مرنا ہے کیونکہ یہ موت میرا سکون واپس نہیں لوٹا سکی۔ میں درد سے بھرا ہوں، میرا وجود خالی ہے۔ مجھے کہیں سکون نہیں ملتا۔بابا!” لڑکے نے آہ بھرتے ہوئے شکستہ لہجے میں اپنا مدعا واضح کیا۔وہ ابھی بھی چرواہے کی طرف اپنی پشت کیے کھڑا تھا۔اس کی نظریں ڈوبتے سورج پر ٹکی تھیں۔
”میں روز آگ کی لو میں سلگتا ہوں۔ میں روز جیتا مرتاہوں۔” لڑکے نے بھرائی آواز میں سورج کی مدھم ہوتی کرنوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ اس کی متورم آنکھیں ڈبڈبائی سی تھیں۔چرواہے نے ایک لمبی سانس لی اور دھیمے دھیمے قدم اٹھاتے ہوئے لڑکے کی جانب بڑھا اور اگلے ہی لمحے وہ چرواہا بھی پہاڑ کے آخری سرے پر لڑکے کے ساتھ کھڑا تھا، لیکن لڑکے کو اس بات کی پروا نہیں تھی۔اس نے ابھی تک اس چرواہے کو توجہ دینے کی ناکام کوشش بھی نہیں کی تھی اور وہ اسے توجہ کیوں دیتا؟ وہ تو مر جانا چاہتا تھا۔وہ زندگی بھری باتیں کیوں سنتا؟
”یہ موت سانس ٹوٹنے سے نہیں۔” امید” ٹوٹنے پر آتی ہے ۔ تم ناامیدی چھوڑ دو۔ پھر سے زندہ ہو جاؤ گے۔” چرواہے نے چہرے پر طمانیت اور آنکھوں میں چمک لیے لڑکے کو دیکھا ۔ اُس کی آنکھیں بوڑھی ضررو تھیں لیکن ابھی بھی ان میں غضب کی چمک تھی، لیکن لڑکا کچھ بھی سنے سمجھے بغیر کھائی میں کود جانا چاہتا تھا۔ چرواہے کی ہر بات جیسے ہوا میں تحلیل ہو تی گئی ۔وہ لڑکا ابھی بھی اپنی بات پر بضد تھا۔ اس نے کسی گہری سوچ کی اوٹ میں ویرانی میں لپٹی کھائی کوبنا پلکیں جھپکائے معنی خیز نظروں سے دیکھا ۔ وہ کھائی ابھی بھی اس کی آخری امید تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

لیکھ — عطیہ خالد

Read Next

مڈل کلاس — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!