زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

25 اپریل
آج میں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کیا ہے۔ شادی کرنے کا فیصلہ اور وہ بھی اس شخص سے جو چند دن پہلے میرے لیے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا۔ کالج میں وہ مجھے کبھی کسی بات پر قائل نہیں کر سکا حالانکہ وہ ہمیشہ دلائل کے ساتھ بات کیاکرتا تھا مگر آج پہلی دفعہ اس کی باتوں نے مجھے قائل کیا ہے۔
آج جب میں سر ابرار کے گھر گئی تو نہ تو مجھے یہ توقع تھی کہ وہاں میری ملاقات اس سے ہوگی اور نہ ہی مجھے یہ اندازہ تھا کہ سر ابرار مجھ سے اس موضوع پر بات کریں گے۔ حیرت کا پہلا جھٹکا مجھے تب لگا جب ملازم نے مجھے لاؤنج میں بٹھایا اور کہا کہ میں سر ابرار کو بتا کرآتا ہوں۔ پہلے وہ مجھے ہمیشہ سیدھا اسٹڈی میں لے جایا کرتا تھا۔
پھر تھوڑی دیر بعد وہ مجھے لے کر اسٹڈی میں گیا۔اسٹڈی میں داخل ہوتے ہی میں جان گئی تھی کہ زارون وہاں ہے کیونکہ کالج سے لے کر اب تک وہ ایک ہی پرفیوم استعمال کرتا رہا تھا اور اس وقت بھی اسٹڈی میں اسی پرفیوم کی خوشبو تھی لیکن وہ مجھے اسٹڈی میں نظر نہیں آیا۔ پھر جب میں کرسی پر بیٹھی تو ٹیبل پر مجھے جو کار کی رنگ نظر آیا وہ اسی کا تھا۔ میں اسے دیکھتے ہی پہچان گئی تھی کیونکہ جب وہ میرے آفس آیا تھا تو اس نے یہی کی رنگ میری میز پر رکھ دیا تھا۔
ٹیبل پر کافی کے دو کپ تھے۔ایک سر ابرار کے سامنے تھا اور دوسرا ان کے بالمقابل رکھی ہوئی کرسی کے سامنے اور وہ کپ کافی سے آدھا بھرا ہوا تھا۔ وہ یقینا وہیں تھا اس لیے سر ابرار نے ملازم کو ہدایت کی ہوگی کہ پہلے مجھے لاؤنج میں بٹھائے تاکہ وہ زارون کو ادھر ادھر کر سکیں پھر میں نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ کہاں ہو سکتا ہے؟ یقینا اسٹڈی کے ساتھ والے کمرے میں اور بعد میں میرا اندازہ درست ثابت ہوا تھا اور جب سر ابرار نے اس کے پرپوزل کے بارے میں بات کرنا شروع کی تو میں جان گئی کہ یہ سب ڈرامہ کیوں ہو رہا تھا۔
میں سر ابرار کی باتوں سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوئی۔ مجھے ان کے خلوص پر شبہ نہیں تھا مگر یہ بھی جانتی تھی کہ وہ زارون سے بہت محبت کرتے ہیں اور صرف اس کی خاطر مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں یہ جانتی تھی کہ زارون ہماری باتیں سن رہا ہے۔ اس لیے میں نے بہت واضح انداز میں اس کے بارے میں اپنے خدشات اورخیالات بتائے تھے۔ لیکن جب اس نے بولنا شروع کیا تو میں حیران ہو گئی تھی۔
وہ بہت سنجیدہ تھا اور مجھے اس کی باتوں میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا یہ ضروری تو نہیں کہ جس سے میں شادی کروں وہ واقعی پارسا ہو۔ میں اس قدر خوش قسمت کہاں ہو سکتی ہوں اور اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر زارون میں کیا برائی ہے۔ اس دور میں فرشتہ تو کوئی بھی نہیں ہوتا پھر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں اس کی باتوں پراعتبار کروں۔ شادی تو ویسے بھی جوا ہوتی ہے۔ سو میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں جوا زارون پر کھیلوں گی۔ اس کے جانے کے بعد سر ابرار نے اس کے بارے میں مجھے بہت سی یقین دہانیاں کرائی تھیں وہ نہ بھی کرواتے تب بھی میں اپنی رضا مندی ضرور دے دیتی۔





کچھ دیر پہلے اس نے شکریہ ادا کرنے کے لیے فون کیا تھا، شاید وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر پتا نہیں یک دم مجھے کیوں اس سے اتنی بے زاری ہونے لگی تھی۔ میں نے فون بند کر دیا تھا میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوںجن پر خدا مہربان رہتا ہے۔ اس لیے اگر یہ فیصلہ غلط ثابت ہو تا ہے تب بھی یہ میرے لیے شاک نہیں ہو گا۔ مجھے آزمائشوں اور مصیبتوں کی عادت ہے۔ ایک اور سہی۔
…**…
6اکتوبر
اس وقت رات کے گیارہ بجے ہیں اور میں غصہ سے بے حال ہو رہا ہوں۔ پتا نہیں کشف خود کو سمجھتی کیا ہے۔ اسے کس چیز پر اتنا زعم ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے ایبنارمل لگتی ہے۔ میں صرف اس کی خاطر فیصل آباد گیا تھا اور اس کا رویہ اتنا روڈ تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک بار پھر وہ مجھے پہلے کی طرح خود سر اور اکھڑ لگی۔
آج جب میں اس کے آفس گیا تھا تو مجھے توقع نہیں تھی۔ کہ وہ مجھ سے دوبارہ وہی سلوک کرے گی۔ کارڈ بھیجنے کے بعد مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا حالانکہ اس کا پی اے پریشان تھا کیونکہ اس کے ذہن میں پچھلی ملاقات کا نقشہ یقینا تازہ ہو گا۔
”بیٹھیں۔” میرے اندرجاتے ہی اس نے سپاٹ انداز میں کہا تھا۔
”فرمائیے۔ اب کیا کام ہے؟”
میرے بیٹھتے ہی اس نے پوچھا تھا۔ اس کا انداز میرے لیے حیران کن تھا۔
”میں کس کام کے لیے آ سکتا ہوں یار! تم مجھ سے اس طرح بات کر رہی ہو جیسے مجھے جانتی ہی نہیں یا پہلی بار دیکھا ہے۔”
”تم مجھ سے آفس میں ملنے آئے ہو اور آفس میں مجھ سے ملنے وہی لوگ آتے ہیں جنہیں کوئی کام ہوتا ہے۔” اس کا رویہ اب بھی وہی تھا۔
”چلوپھر یہی سمجھ لو کہ مجھے تم سے کام ہے۔ اصل میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں لاہور آیا تھا۔ سوچا فیصل آباد جا کر تم سے مل لوں۔” میں نے اسے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔
”ٹھیک ہے۔ اب تم مجھ سے مل چکے ہو، اس لیے جا سکتے ہو۔” اس نے بڑے کورے اندازمیں کہا تھا۔
”میں تو کل صبح جاؤں گا۔آج عارف کے پاس ٹھہروں گا۔ تم اب اپنا کام ختم کرو اور میرے ساتھ چلو۔ کہیں لنچ کرتے ہیں پھر ڈرائیو پر چلیں گے مگر پہلے تم مجھے چائے پلواؤ کیونکہ میں لاہور سے سیدھا تمہارے پاس آیا ہوں کچھ کھائے پیئے بغیر۔” میں تب کافی اچھے موڈ میں تھا۔
”ٹھیک ہے اگر تم چائے پینا چاہتے ہو تو میں پلوا دیتی ہوں لیکن اس کے لیے تمہیں وزیٹرز روم میں جانا پڑے گا۔ میں پی اے کو چائے کے بارے میں کہہ دیتی ہوں اور لنچ یا ڈرائیو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تم نے یہ سوچا کیسے کہ تم مجھے آفر کرو گے اور میں منہ اٹھا کر تمہارے ساتھ چل پڑوں گی۔ تمہارے نام کی ایک انگوٹھی ہے صرف میرے ہاتھ میں اور انگوٹھی مجھے تمہارے ساتھ گھومنے پھرنے کا کوئی جواز فراہم نہیں کرتی۔ تمہارا شکریہ کہ تم مجھ سے ملنے آئے مگر آئندہ ایسی زحمت نہ کرنا۔یہاں لوگ میری عزت کرتے ہیں اور میں چاہتی ہوں وہ کرتے رہیں۔”
”تم زیادتی کر رہی ہو۔ اسی آفس میں ایک بار پہلے بھی تم نے میری انسلٹ کی تھی۔ تب میں برداشت کر گیا تھا لیکن اب نہیں کرسکتا۔ تمہیں مجھ پراس قدر بے اعتباری ہے کہ بات تک کرنا پسند نہیں اور میں بے وقوفوں کی طرح تمہارے دل سے ماضی کی غلط فہمیوں کو نکالنے کی کوشش کرتا پھرتا ہوں۔ میں کوئی بیکار یا آوارہ آدمی نہیں ہوں۔ اتنا ہی مصروف رہتا ہوں جتنی تم بلکہ شاید تم سے بھی زیادہ مگر پھر بھی تمہارے لیے وقت نکال کر آیا ہوں اور تم مجھے یوں ٹریٹ کر رہی ہو جیسے میں کوئی مصیبت ہوں۔ میں اب یہ سب کچھ برداشت نہیں کروں گا کیونکہ میں ایسے رویوں کا عادی نہیں ہوں، تمہیں خود کو بدلنا پڑے گا۔ مجھ سے یوں بی ہیو کر کے تم اپنے لیے اچھا نہیں کر رہی ہو۔”
میں یہ کہہ کر در وازہ پٹخ کر عارف کے پاس چلا گیا تھا۔رات کا کھانا کھانے کے بعد میں کمرے میں سونے چلا گیا۔ جب عارف نے مجھے بلوایا تھا۔
”تمہاری منگیتر یعنی ہماری اے سی کشف مرتضیٰ کا فون ہے اگر یہاں بات کرنی ہے تو کر لو ویسے بہتر ہے کہ فون اپنے کمرے میں لے جاؤ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے تم میرے سامنے ڈائیلاگز بولتے ہوئے شرماؤ اور اگر تم نہ شرمائے تو میں تو ضرور شرماؤں گا۔”
وہ مجھے چھیڑ رہا تھا مگر میں اتنے اچھے موڈ میں نہیں تھا کہ اس کی چھیڑ چھاڑ کا جواب دیتا۔ اس لیے خاموشی سے فون لے کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ شاید کشف معذرت کرنا چاہتی ہے اور اس خیال نے مجھے خوش کر دیا تھا۔
”دیکھیں زارون جنید صاحب! آفس میں میں آپ سے زیادہ بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے آ پ کو روکا نہیں۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو کلیئر ہو جانی چاہیں۔ میں آ پ کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتی ہوں۔ میں شادی سے پہلے آپ کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے کہیں نہیں جا سکتی۔ میں ایسے چونچلے افورڈ نہیں کرسکتی۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کے ساتھ لنچ پر جاؤں اور اگلے دن کسی لوکل اخبار میں میری تصویر آ جائے کہ خاتون اسسٹنٹ کمشنر اپنے آشنا کے ہمراہ! ہر کوئی یہ نہیںجانتا کہ تم میرے منگیتر ہو اور میں تمہارے لیے اپنا کیریئر داؤ پر نہیں لگا سکتی اور اگر مجھے یہ مجبوری نہ ہوتی، تب بھی میں تمہارے ساتھ ہوٹلنگ نہیں کرسکتی تھی۔ جو باتیں مجھے دوسروں کے لیے بری لگتی ہیں انہیں خود کرنا کیسے شروع کر دوں۔ سب سے آخری بات یہ ہے کہ مجھ میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو تمہیں نا پسندہیں اور رہیں گی اس لیے بہتر ہے کہ شادی کے فیصلے پر ایک بار پھر نظر ثانی کر لو اور مجھے بتا دینا تا کہ میں تمہاری چیزیں تمہیں واپس بھجوا سکوں۔”
اس نے میری ساری خوش فہمیوں کو یک دم ختم کر دیا تھا۔
”کشف ! تم کس قدر قدامت پسند ہو۔ کتنی تنگ نظر ہو۔کیا تم آج کی عورت ہو؟ تم ہر روز مردوں سے ملتی ہو مگر اپنے منگیتر کے ساتھ تمہیں لنچ تو دور کی بات ملنا تک پسند نہیں۔”
”ہاں میں قدامت پسند ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے۔” اس کی بات پر غصہ کی ایک لہر سی میرے اندر اٹھی تھی۔
”تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟”
”میں چاہتی ہوں کہ تم اس منگنی کے بارے میں ایک بار پھر سوچو اور یقین رکھو کہ اگر تم یہ منگنی توڑنا چاہو گے تو مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا۔”
”تم نے مجھ سے بات کرتے ہوئے دوبار منگنی توڑنے کا کہا ہے۔ تمہارے نزدیک رشتے توڑنا کیا اس قدر آسان ہے؟ بہر حال جو ہوا سو ہوا۔ اب میں تمہیں یہ بتا رہا ہوں کہ میں اگلے ماہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس ہفتے تاریخ طے کرنے کے لیے اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجوں گا اور پلیز میں کوئی بہانہ سننا نہیں چاہتا۔” میں نے اسے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
”لیکن اتنی جلدی شادی کیسے ہو سکتی ہے۔ میں ابھی اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔” پہلی دفعہ اس کے لہجے میں پریشانی تھی۔
”میں کل تو شادی نہیں کر رہا ہوں۔ تمہارے پاس کافی دن ہیں۔ تم اپنے لیے کچھ زیور اور کپڑے تیار کروا سکتی ہو اور اگر اس لیے زیادہ دن چاہتی ہو کہ کوئی جہیز وغیرہ تیار کر سکو تو فارگیٹ اباؤٹ اٹ۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس ضرورت کی ہر چیز ہے۔ آج میں اسلام آباد میں پوسٹڈ ہوں۔ کل کسی اور ملک میں چلا جاؤں گا تو کیاچیزیں اٹھا کر پھرتا رہوں گا۔ تم اپنے والدین کو بتا دینا۔”
اس کا جواب سننے سے پہلے ہی میں نے فون رکھ دیا تھا۔ میرے دل میں اس کے لیے بہت غصہ ہے۔ اسے اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو خود کو بدلنا پڑے گا۔ اس حد تک جس حد تک میں چاہوں ورنہ اسے بہت برے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں شادی کے بعد اس کی کسی غلطی کو معاف نہیں کروں گا۔
…**…
9 نومبر
سو آخر میں نے کشف کو پا ہی لیا اور آج میری شادی کو تین دن گزر چکے ہیں۔وہ اپنے گھر جا چکی ہے اور میںڈائری لکھ رہا ہوں۔ بہت سی باتیں ہیں جو مجھے لکھنا ہیں کیونکہ تین دن پہلے میں اپنی زندگی کے سب سے خوبصورت دور میں داخل ہوا تھا۔
جب کالج میں میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ معمولی شکل و صورت کی اس لڑکی کے لیے کبھی میں اتنی دیوانگی میں مبتلا ہو جاؤں گا کہ اس سے شادی کر لوں گا۔
شادی کی رسومات کے دوران میں اسے ٹھیک طرح نہیں دیکھ سکا لیکن گھر آنے کے بعد جب میں نے اسے دیکھا تو وہ قیامت لگ رہی تھی۔ میں بہت دیر تک اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا پایا۔ شاید پہلی بار میں نے اسے اتنا سجا سنورا دیکھا تھا اس لیے ایسا ہوا تھا۔ پھر رات کو جب میں اپنے کمرے میں گیا تو وہ دلہنوں والے روایتی انداز میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ خوشی کا ایک عجیب سا احسا س ہوا تھا مجھے۔شاید میری انا کی تسکین ہوئی تھی۔ میں سیدھا ڈریسنگ روم میں گیا اور جب کپڑے بدل کر آیا تو وہ تب بھی اس طرح بیٹھی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے مجھے اس پر ترس آیا تھا۔ کیا محسوس کر رہی ہوگی وہ اس وقت؟ وہ تو مجھے اپنے سامنے بات نہیں کرنے دیتی تھی اور اب وہ خاموشی سے سرجھکائے بیٹھی تھی۔ میں ڈریسنگ روم سے آ کر بھی اس کے پاس نہیں گیا بلکہ کمرے میں ایئر فریشز کا اسپرے کرنے لگا، پھر میں نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایٹرنٹی اٹھا کر اپنی نائٹ شرٹ پر اس کا سپرے کیا، پھر میں فریج سے چاکلیٹ اور پیسپی کین نکال کر پینے لگا۔ صوفے پر بیٹھے ہوئے میں اطمینان سے اسے دیکھتا رہا۔ اس کا چہرہ گھونگھٹ میں چھپا ہوا تھا اس لیے میں اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ پایا۔ لیکن مجھے یقین ہے اس وقت وہ مجھے دل میں گالیاں دے رہی ہوگی اور اب مجھے یہ خیال آ رہا ہے کہ اس رات ساڑھے بارہ بجے یخ پیپسی میرے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی، آفٹر آل یہ ہے بھی نومبر کا مہینہ لیکن بس میں اسے کافی انتظار کروانا چاہتا تھا۔
چاکلیٹ ختم کرنے کے بعد میں نے واش روم جا کر دانت برش کئے۔واپس آنے کے بعد میں اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا اور آہستہ سے اس کا گھونگھٹ الٹ دیا۔ زندگی میں پہلی بار وہ میرے اس قدرقریب بیٹھی تھی۔ اپنے ہاتھوں پرنظریں جمائے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر تک میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر میں نے کہا۔
”اگر میں کوئی انا پرست آدمی ہوتا تو آج تمہارے ساتھ میرا سلوک کچھ اور طرح کا ہوتا لیکن تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میں ایسا نہیں ہوں۔”
اس نے میری بات پر نظر نہیں اٹھائی۔ میں نے سائڈ ٹیبل کی دراز سے ڈائمنڈ رنگ نکال لی۔
”اپنا ہاتھ دو۔” میں نے انگوٹھی نکال کر کہا اس نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں لرزش تھی۔ مجھے بے اختیار اس پر پیار آیا۔ کیا وہ مجھ سے خوفزدہ تھی، حالانکہ وہ تو ہمیشہ مجھے ڈرایا کرتی تھی۔ میں نے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنائی۔ انگوٹھی پہننے کے بعد اس نے ہاتھ کھینچنا چاہا مگر میں نے اس کا ہاتھ پکڑے رکھا۔
”کیسا لگ رہا ہے یہاں آ کر ؟” میں نے اسے بولنے پر اکسایا لیکن وہ چپ رہی۔
”کچھ بولو گی نہیں؟ کیا ہاتھ نہیں چھڑاؤ گی؟ میری طرف دیکھو گی بھی نہیں؟ آر یو آل رائٹ ؟” میں نے اسے چھیڑا۔
”اگر دوسرا ہاتھ پکڑ لوں تو بھی کچھ نہیں کہو گی؟”
میری بات پر اس نے بے اختیار اپنا دوسرا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ بے حد کنفیوز لگ رہی تھی اور مجھے اس کی کنفیوژن مزہ دے رہی تھی۔
”تم تھک گئی ہوگی۔ کپڑے چینج کر لو۔”
میں نرمی سے کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بھی اپنا لباس سمیٹتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جب وہ ڈریسنگ روم سے باہر آئی تو نائٹی میں ملبوس تھی۔ جب وہ بیڈ پر بیٹھی تو میں نے اس سے کہا۔
”کشف ! پہلے تم مجھ سے محبت نہیں کرتی تھیں۔ کیا اب کرو گی؟” وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولی۔
”ہاں۔” اس کا صرف ایک لفظ میرے اندر جلتی ہوئی ذلت کی اس آگ کو بجھا گیا جو وہ اپنی باتوں سے لگاتی رہی تھی۔ میں نے پہلے کبھی خود کو اس قدر مطمئن اور پرسکون محسوس نہیں کیا۔ میں والہانہ انداز میں اس سے محبت کا اظہار کرتا رہا۔ لیکن وہ پہلے ہی کی طرح تھی۔ سنجیدہ اور شرمائی شرمائی۔
صبح جب میں سو کر اٹھا تو وہ پہلے ہی اٹھ چکی تھی اور کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔ میں گاؤن کی ڈوری بند کرتا ہوا اس کے پاس چلا گیا۔
”گڈ مارننگ !” میں نے ہولے سے اس کے بالوں کو چھوا۔
”مارننگ۔”
”تم روز اتنی ہی جلدی اٹھتی ہو۔”
”ہاں۔” وہ ہنوز میری طرف متوجہ نہیں تھی۔
”کشف ! کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم ایک نظر مجھے بھی دیکھ لو۔ باہر کا نظارہ ایک رات کی دلہن کے لیے اس کے نئے نویلے شوہر سے زیادہ پرکشش نہیں ہو سکتا۔”
میں نے اسے کندھوں سے پکڑا کر اپنی طرف گھما لیا۔
”میوزک سنتی ہو؟” میں نے اس سے پوچھا۔
”ہاں تھوڑا بہت۔” وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے نظر چرا رہی تھی اور میں اس انقلاب پرحیران تھا۔
”ٹھیک ہے۔ تم یہ ریکارڈ سنو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔”
میں اس سے یہ کہہ کر باتھ روم میں چلا گیا۔ آدھ گھنٹہ کے بعد جب میں نہا کر تیار ہو کر آیا تو وہ صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ناشتہ ہم نے کمرے میں ہی کیا۔ وہ میری باتوں پرمسکراتی رہی مگر زیادہ نہیں بولی مگر میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ میرے پاس موجود تھی۔
پھر وہ بھابھی اور سارہ کے ساتھ گیارہ بجے بیوٹی پارلر چلی گئی تھی۔ دوبارہ میں نے اسے را ت کو دیکھا اور مجھے وہ بہت پر سکون اور خوش نظر آئی۔ اسامہ اور فاروق کی چھیڑ چھاڑ پر وہ مسکراتی رہی اور مجھے بے چین کرتی رہی۔
آج صبح وہ اپنے گھر چلی گئی ہے اور اب جب میں ڈائری لکھ رہا ہوں تو بے حد تنہائی محسوس کرہا ہوں۔ اس کے ساتھ گزاری ہوئی دو راتیں مجھے اس قدر بدل سکتی ہیں۔ یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میرے بیڈ روم کی سب سے قیمتی چیز غائب ہو گئی ہے۔ اس وقت میں اسے بہت شدت سے مس کرہا ہوں اور اب تھوڑی دیر تک میں اسے فون کروں گا۔ اس سے مل نہیں سکتامگر باتیں تو کر سکتا ہوں۔
…**…
9 نومبر
میری شادی ہو گئی ہے اور زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو گیا ہے۔ گزرے ہوئے تین دن میری زندگی کے سب سے خوبصورت دن ہیں۔ میں جانتی ہوں، آنے والا ہر دن میرے لیے سب اچھا کی خبر نہیں لائے گا، بعد میں جو ہونا ہے وہ تو ہوتا رہے گا مگر میں زندگی کے کم از کم یہ چند دن خوش فہمیوں کے سہارے گزارنا چاہتی ہوں۔ میں شادی کے دن تک بہت پریشان تھی۔ کوئی چیز بھی مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
جب زارون کی طرف سے آنے والے زیورات اور عروسی جوڑا کمرے میں لائے گئے تو میرا دل چاہا، میں انہیں آگ لگا دوں۔ میری کزنز اور فرینڈز ان چیزوں کی تعریفیں کر رہی تھیں۔ ان کے نزدیک میں خوش قسمت تھی اور وہ میری کیفیات سے بے خبر ان چیزوں پر رشک کر رہی تھیں اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ وہ سب چیزیں اس وقت مجھے پھانسی کے پھندے کی طرح لگ رہی تھیں۔
جب مجھے زارون کے کمرے میں پہنچایا گیا تو مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرا نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔ وہ کمرے میں آنے کے بعد کچھ دیر تک مجھے نظر انداز کرتا رہا اور میرے اس خوف کومستحکم کرتا رہا کہ میرے سارے خدشات ٹھیک تھے مگر پھر کیا ہوا کچھ بھی تو نہیں، اس کا رویہ بالکل نارمل تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا تھا۔
”کیا تم مجھ سے محبت کرو گی؟”
میں نے ”ہاں ” کہا تھا اور اس کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک دیکھ کر میں حیران رہ گئی تھی۔میں نہیں کہہ سکتی کہ وہ محبت نہیں تھی شاید وہ واقعی مجھ سے محبت کرتا تھا۔
صبح میں بہت جلدی اٹھ گئی تھی۔ جب میں نے آنکھیں کھولی تھیں اس وقت میں نے اٹھ کر اپنے اردگرد نظر دوڑائی تھی اور تب مجھے رات کی ساری باتیں یاد آنے لگیں۔ زارون میرے بائیں جانب بڑے پر سکون انداز میں سو رہا تھا۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔ کمرے میں پھیلی ہوئی ہلکی سی روشنی میں وہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ پھر میں نہانے کے بعد ٹیرس پرچلی گئی۔ اس وقت ملگجا اندھیرا تھا اور آسمان پرکافی گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ مجھے بہت سردی محسوس ہوئی اور میں واپس اندر آ گئی پھر میں بیڈ روم کی کھڑکی سے نیچے لان کو دیکھتی رہی جو اس وقت بہت عجیب سا نظر آ رہا تھا۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا وہ کب بیدار ہوا مگر تب بھی اس کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔
خوف کی وہ کیفیت جو پچھلے کئی دنوں سے مجھے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی تب تک غائب ہوچکی تھی۔
رات کو ولیمہ میں میں بہت مطمئن تھی۔ میری کزنز نے کہا تھا۔
”تم کل کی نسبت آج زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو۔”
لیکن میں جانتی تھی کہ تب چونکہ میں خوفزدہ نہیں تھی، اس لیے فریش لگ رہی تھی۔
ڈنر کے بعد ایک میوزک پروگرام پیش کیا گیا تھا اور تقریباً دو بجے ہم ہوٹل سے واپس گھر آئے تھے۔ سارہ میرے ساتھ تھی اور زارون مہمانوں کو رخصت کرنے کے لیے ہوٹل ہی میں ٹھہر گیا تھا۔ واپس آنے کے بعد سارہ نے میری ساری پیکنگ کی۔ وہ بہت اچھی ہے۔ میرے کمرے کو اسی نے سیٹ کیا تھا اور وہی سب چیزیں سمیٹتی رہی۔ پیکنگ کروانے کے بعد وہ میرے ساتھ بیٹھی گپ شپ کرتی رہی تب ہی زارون آ گیا تھا۔ سارہ کے جانے کے بعد زارون نے کہا تھا۔
”میری فیملی میں جو سب سے زیادہ میرے قریب ہے، وہ میری بہن ہے۔ یہ جو اس قدر تمہارے آگے پیچھے پھر رہی ہے صرف اس لیے کیونکہ تم میری پسند ہو اور اسے مجھ سے وابستہ ہر چیز سے محبت ہے۔”
اس کے لہجے میں سارہ کے لیے محبت نمایاں تھی۔
”تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔”
اس نے یک دم بات بدل دی تھی۔ مجھے پہلی بار اس کا لہجہ اجنبی نہیں لگا۔ اس کے ہاتھوں کی گرمی، اس کا لمس، اس کی توجہ مجھے اچھی لگ رہی تھی کیونکہ وہ میری زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا۔ وہ میرے ہاتھوں کو چوم رہا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ یہ محبت کوئی خواب ہے یا حقیقت۔
آج صبح اسماء اور اظہر کے ساتھ میں گھر آ گئی تھی۔ زارون پہلے ہی مجھے بتا چکا تھا کہ ان کی فیملی میں سسرال جا کر رہنے کی کوئی رسم نہیں ہے اس لیے وہ میرے ساتھ نہیں جا پائے گا۔ میں نے اصرار نہیں کیا تھا۔
کچھ دیر پہلے زارون نے مجھے فون کیا تھا۔
”تم کیسی ہو؟” میرے ہیلو کہتے ہی اس نے پوچھا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔” میں نے اس سے کہا تھا۔ وہ بہت دیر تک مجھ سے باتیں کرتا رہا پھر میں نے ہی اسے فون بندکرنے پر آمادہ کیا تھا ورنہ تو شاید وہ ساری رات ہی باتیں کرتا رہتا۔ میں اس کے گھر صرف دو دن رہی ہوں لیکن آج مجھے اپنا کمرہ اجنبی لگ رہا تھا۔شاید شادی کے بعد سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اور میں کوئی دوسروں سے مختلف تو نہیں ہوں۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!