زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

6 اکتوبر
آج میری پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر کھاریاں میں، اور اس ہفتے کے اندر میں وہاں جا کر چارج سنبھال لوں گی اور پھر میں صحیح معنوں میں عملی زندگی کا آغاز کروں گی۔ مجھے وہاں جاتے ہوئے خوشی تو ہو رہی ہے مگر بہت زیادہ ذمہ داری کا احساس بھی ہو رہا ہے ، کھاریاں میں پہلی بار کسی عورت کو اس عہدے پر بھیجا جا رہا ہے اور میں پوری کوشش کروں گی کہ میں اپنے فرائض کو پوری تن دہی سے انجام دوں۔کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دوں کہ فلاں کام میری وجہ سے نہیں ہو پایا یا بگڑ گیا اور پھر مجھے اس فیلڈ میں اب صحیح معنوں میں سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ابھی تک تو صرف کتابی علم تھا اور وہ عملی دنیا میں بڑی حد تک لاگو نہیں ہوتا۔
میری اس ایک سال کی پرفارمنس کی بنیاد پر ہی میری اگلی پوسٹنگ ہوگی اور کسی اچھی جگہ پوسٹنگ لینے کے لیے ضروری ہے کہ میں تربیت کے اس سال میں بہت محنت کروں اور میری پرفارمنس غیر معمولی ہو۔ زندگی بہت ہموار اور آسان سی ہوتی جا رہی ہے یوں لگتا ہے، جیسے ساری تکلیفیں اور پریشانیاں یک دم ختم ہو گئی ہیں اور کبھی کبھی مجھے ان آسانیوں سے خوف آنے لگتا ہے کیا واقعی میری ساری مشکلیں ختم ہو گئی ہیں؟ پتہ نہیں یہ اطمینان اور سکون کب تک رہتا ہے مگر جب تک یہ ہے میں اسے انجوائے کرنا چاہتی ہوں پتہ نہیں کب…
…**…
2 جنوری
آج مجھے اپنے کیریئر کی پہلی پروموشن ملی ہے۔ اب مجھے ڈپٹی چیف آف مشن بنا کر قاہرہ بھیجا جا رہا ہے اور اگلے دنوں میں ، میں وہاں ہوں گا۔ میں نے ماریشس میں اپنی پوسٹنگ کو بہت انجوائے کیا ہے کیونکہ یہ بہت خوبصورت ملک ہے بالکل ایک پرفیکٹ ہالی ڈے سپاٹ کی طرح۔ یہاں میں تھرڈ سیکرٹری کے طور پر بھیجا گیا تھا اور اپنی Tenure کے خاتمہ سے پہلے ہی مجھے ترقی دے کر قاہرہ بھیجا جا رہاہے اور مصر کی سر زمین تو ہر ایک کو ہی پر اسرار لگتی ہے مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے حالانکہ میں پہلے بھی دوبار چند دنوں کے لیے مصر جا چکا ہوں۔ اس کے باوجود ایک لمبے عرصے کے لیے وہاں قیام کرنا مجھے عجیب لگ رہا ہے۔
اپنی زندگی مجھے کبھی کبھی ایک راؤنڈ اباؤٹ کی طرح لگتی ہے۔ یہ ملک وہ ملک پھر پاکستان پھر کہیں اور۔ کبھی کبھی میں بور بھی ہونے لگتاہوں۔ حالانکہ فارن سروس میں نے اسی گھومنے پھرنے کے لیے جوائن کی تھی مگر خیر زندگی ایسے ہی گزار نی ہے۔ اب کبھی کبھی مجھے تنہائی بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ جیسے آج میں خود کو تنہا محسوس کر رہا ہوں روزانہ ایک ہی روٹین ہوتی ہے۔ گھر سے آفس، آفس سے پھر گھر اور گھر واپس آنے کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرنا چاہیے۔ ادھر ادھر پھرنے کے باوجود بہت بوریت ہوتی ہے۔ شاید اب مجھے شادی کر ہی لینی چاہیے۔ ہو سکتا ہے میں اسی وجہ سے تنہائی محسوس کرتا ہوں اور فیملی ہی میرے اکیلے پن کا علاج ہو مگر پرابلم پھر وہیں پر آ جاتی ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کہاں سے آئے گی۔ جو لڑکیاں مجھے ملتی ہیں۔ ان سے میں شادی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ میرا آئیڈیل نہیں ہیں اور جو میرا آئیڈیل ہے وہ کہیں نظر ہی نہیں آتی۔





میں اکثر کوشش کرتا ہوں کہ یہاں نہ صرف پاکستانی کمیونٹی بلکہ دوسری کمیونٹیز کی لڑکیوں سے بھی ملوں اور انہیں سمجھنے کی کوشش کروں لیکن کوئی بھی لڑکی میرے معیار پر پورا نہیں اترتی، ان میں وہی بے باکی ہے جو مجھے نا پسند ہے اس کے باوجود اب مجھے شادی کر ہی لینی چاہیے کیونکہ اب تیس سال کا ہو گیا ہوں اور اپنے والدین کو خاصا ناراض بھی کر چکا ہوں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اب تک مجھے دو بچوں کا باپ ہونا چاہیے تھا۔
مجھے یہ سوچ کر کبھی ہنسی آتی ہے کہ جب میں باپ بنوں گا تو اپنے بیٹے کی شادی کے لیے اتنے ہی جتن کروں گا؟ اور کیا وہ بھی اپنی ڈائری میں ایساہی لکھے گا۔ میرے سب دوستوں کی شادی ہو چکی ہے اور پچھلے ماہ جب میں اسامہ کی شادی پر گیا تھا تو بہت دیر تک اسے کشف کے حوالے سے چھیڑتا رہا تھا اور وہ مجھ پر بگڑتا رہا تھا۔ عجیب بات ہے جب بھی اسامہ سے ملتا ہوں مجھے کشف ضرور یاد آتی ہے۔ یقینا اب تک اس کی شادی بھی ہوگئی ہوگی۔ وہ کیسا آدمی ہو گا یہ تو میں نہیں جانتا۔ ہاں مگر خوش قسمت ضرور ہو گا کیونکہ اس کی بیوی بہت اچھی ہے۔ میں ان دو سالوں میں چار دفعہ پاکستان گیاہوں مگر پوری کوشش کے باوجود میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جان پایا اور نہ ہی مجھے اب اس سے ملنے کی کوئی امید ہے مگر میں اس کے لیے دعاگو ہوں کہ وہ جہاں بھی ہو خوش ہو۔
…**…
8 جنوری
کل ثناء کی شادی بھی ہو گئی ہے اور ذمہ داریوں کے پہاڑ ایک ایک کر کے میرے کندھوں سے اتر رہے ہیں۔ میں اپنی بہنوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتی تھی کیونکہ روپے نا م کی کوئی چیز ہمارے پاس نہیں تھی اور انہیں تعلیم میں دلچسپی نہیں تھی اور میں سوچتی تھی کہ ان کی شادی کیسے ہوگی۔ کیا ایک بار پھر ہمیں رشتے داروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا، مگر وہ بہت خوش قسمت ہیں، انہیں کسی محنت اور پریشانی کے بغیر ہی سب کچھ مل گیا ہے اور میرا یہ عقیدہ مزید مضبوط ہو گیا ہے کہ دنیا میں صرف وہی شخص کچھ پا سکتا ہے جو دولت مند یا خوبصورت ہو، میری بہنیں بہت زیادہ خوبصورت نہ سہی بہر حال خوبصورت ہیں۔
جب اسماء کے لیے اظہر کا پروپوزل آیا، تو مجھے حیرت ہوئی تھی کیونکہ اسماء نے رو دھو کر گریجویشن کیا تھا اور اظہر انجینئر تھا اور بہت قابل تھا۔ مالی لحاظ سے وہ بہت امیر نہ سہی مگر بہت اچھے تھے پھر انہوں نے جہیز لینے سے بالکل انکار کر دیا تھا۔ پہلے اظہر کی امی میرے رشتے کی خواہش مند تھیں مگر میں نے امی سے کہا تھا کہ میرے بجائے انہیں اسماء کے لیے کہیں اور اظہر کی امی ہر قیمت پر ہمارے خاندان سے رشتہ داری قائم کرنا چاہتی تھیں سو انہوں نے اسماء کے لیے وہی پرپوزل بھجوا دیا۔ اس کی شادی کو ایک سال ہو چکا ہے اور وہ اظہر کے ساتھ بہت خوش ہے۔
…**…
23 فروری
کیا دن تھا آج کا دن بھی۔ غلط چیزیں، غیر متوقع باتیں۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسامہ مجھے یہ سرپرائز دینا چاہتا تھا۔G.Cکے اولڈ سٹوڈنٹس کی ایک گیدرنگ کروائی تھی اس نے شیخوپورہ میں، اور مجھے بھی انوائٹ کیا تھا۔ بیوروکریٹس کا ایک بڑا اجتماع وہاں تھا۔ بہت سے نئے پرانے چہرے نظر آئے تھے۔ کچھ سے میں واقف تھا کچھ سے انجان تھا مگر پھر بھی میں نے فنکشن کو انجوائے کیا تھا۔ فنکشن کے دوران وہ میرے پاس آیا تھا۔
”یار ! سر پرائز مکمل نہیں ہو سکا وہ کسی مصروفیت کی وجہ سے آہی نہیں سکی۔”
میں نے بڑی حیرانی سے اس سے پوچھا تھا۔
”کون نہیں آ سکی؟”
”مس مرتضیٰ۔” اس نے مختصر جواب دیا تھا۔
”کون ہیں بھئی یہ مس مرتضیٰ؟” وہ میرے سوال پر کچھ حیران نظر آیا تھا۔
”ہماری کلاس فیلو ہیں۔”
”بھئی نام بتاؤ تو پتا چلے گا ناں؟” میں نے سو فٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے کہا تھا۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔
”ایسا کرو کہ تم ہماری ہر کلاس فیلو کے نام کے ساتھ مرتضیٰ لگا کر دیکھو۔”
”نبیلہ مرتضیٰ ، عالیہ مرتضیٰ، شازیہ مرتضیٰ۔”
میں ایک ایک نام لینے لگا۔ وہ عجیب سی مسکراہٹ سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
”نورین مرتضیٰ ، کشف مرتضیٰ۔” یک دم میرے ذہن میں جھماکا ہوا تھا۔ میں بے اختیار چپ ہوگیا۔
”باقی نام بھی لو چپ کیوں ہو گئے؟” اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ مس مرتضیٰ کشف مرتضیٰ ہے نا؟ تم نے اسے کہاں سے ڈھونڈ نکالا؟”
”ہاں یہ کشف مرتضیٰ ہی ہے۔ ایک دفعہ لاہور میں میٹنگ ہوئی تھی پورے پنجاب کے انتظامی عہدیداران کی ، اسی میں کشف سے ملاقات ہوئی۔ وہ اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر گجرات میں پوسٹڈ ہے۔ بعد میں بھی ایک دوبار اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے یہ گیدرنگ اسی لیے ارینج کی تھی کہ تمہیں اس سے ملواؤں مگر وہ آئی ہی نہیں، سو میرا سرپرائز صحیح معنوں میں سرپرائز ثابت ہوا۔”
”کیا ہم اس سے ملنے نہیں جا سکتے؟”
”ہاں ہاں کیوں نہیں بہت اچھے تعلقات رہے ہیں تمہارے اس سے کہ اب تم اس سے ملنے جاؤ گے۔”
میں اس کی بات پر خاموش ہو گیا تھا۔
پھر ہم لوگوں نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔ مگر اپنے کمرے میں آنے کے بعد سے میں سوچ رہا ہوں کہ میں کشف سے کیسے مل سکتا ہوں۔یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ وہ اس عہدے تک پہنچ سکتی ہے مگر اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ عام لڑکی نہیں ہے۔ کشف مرتضیٰ کا نام میرے پچھلے سالوں کی ڈائریوں میں بار بار لکھا ہے مگر میں کتنا اسٹوپڈ ہوں کہ آج مجھے اس کا نام ہی یاد نہیں آیا۔ آج رات میں سو نہیں پاؤں گا کیونکہ میں سونا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ ایک بار صرف ایک بار۔ مگر یہ کیسے ہو گا میں نہیں جانتا، میں جو ہر بات کا حل نکال لیتا ہوں، اس مسئلے کا حل نکالنے سے قاصر ہوں۔
…**…
10فروری
اس وقت رات کے دس بج رہے ہیں۔ آج گجرات میں میری پوسٹنگ کا آخری دن تھا۔آج میں نئے آنے والے اے سی کو چارج دے چکی ہوں اور کل مجھے فیصل آباد میں چارج لینا ہے۔ پتہ نہیں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ہی انتظامی تبدیلیاں کیوں شروع ہو جاتی ہیں۔ میں ذہنی طور پر پہلے ہی اپنا چارج چھوڑنے کے لیے تیار تھی کیونکہ صوبہ میں بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں ہو رہی تھیں پھر میں اس وبا سے کیسے بچ سکتی تھی۔
میں کبھی بھی گجرات میں پوسٹنگ کے ڈیڑھ سال کو نہیں بھول سکتی۔ یہی میری زندگی کا سب سے یادگار عرصہ ہے۔ اگر سوچوں کہ ان ڈیڑھ سالوں میں سب سے اچھا کام کون سا کیا۔ تو ذہن پر زیادہ زور دینا نہیں پڑے گا۔ اپنے منجھلے ماموں کے بڑے بیٹے کو پولیس کسٹڈی سے چھڑوانا ہی سب سے بہتر ین کام تھا۔ اس پر کار چوری کا الزام لگایا گیا تھا اور وہ اس جرم سے انکاری تھا حالانکہ میں جانتی تھی کہ تفریحاً سہی مگر اس نے یہ کام ضرور کیا ہو گا، اس کے باوجود میں اپنی ماں کے کہنے پر بلکہ مجبور کرنے پر اسے رہا کروانے پر مجبور ہو گئی اور جس آدمی کی کار چوری ہوئی تھی۔ اسے مجبور کیا کہ وہ میرے ماموں کے ساتھ تصفیہ کرلے۔ یہ کام میری زندگی کا سب سے مشکل کام تھا کیونکہ مجھے جن لوگوں سے نفرت ہے، ان میں منجھلے ماموں کا خاندان بھی شامل ہے۔
جب ہم اپنے حالات کے بگڑ جانے کی وجہ سے ان کے ہاں رہنے پر مجبور ہوئے تو ان کا سلوک ہمارے ساتھ انسانیت سے گرا ہوا تھا۔ ممانی ہمیشہ کھانے کے وقت ہمیں کہا کرتیں کہ ہم تھوڑا کھانا لیں کیونکہ باقی لوگوں نے بھی کھانا ہے اور ہم حیران ہو کر ان کا منہ دیکھا کرتے کہ کیا ہم اتنا کھانا کھا رہے ہیں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔
اخبار پڑھنے کے لیے میں ممانی کے کمرے میں دس دس چکر لگایا کرتی تھی اور انہوں نے اگر اخبار پڑھ بھی لیا ہوتا، تب بھی مجھے آتا دیکھ کر وہ دوبارہ اخبار اٹھا لیتیں۔
ناشتے میں ہمیں ڈبل روٹی نہیں ملتی تھی۔ لیکن چوہوں کی کتری ہوئی ڈبل روٹی کے پورے لفافے ڈسٹ بن میں پڑے ہوتے۔ ہم لوگ ٹی وی دیکھنے ان کے کمرے میں جاتے تو وہ یا ان کا کوئی بچہ ٹی وی بند کر دیتا۔ ذلّت کے وہ تین سال میرے لیے بہت اہم ثابت ہوئے تھے انہوں نے آگے پڑھنے کے لیے مجھے تیار کیا تھا۔ میں تب بارہ سال کی تھی اور ان کی ساری باتیں آج بھی میرے ذہن پر نقش ہیں۔
سجاد کو چھڑوانے پر میں امی کی وجہ سے مجبور ہوئی تھی اور میں حیران تھی کہ کیا امی وہ سب بھول گئی ہیں مگر وہ ایک محبت کرنے والی بہن ہیں اور ایسی بہنوں کی یادداشت بھائیوں کے معاملے میں ہمیشہ کمزور ہوتی ہے۔
اس ڈیڑھ سال میں میں اپنے رشتہ داروں کے بہت سے چھوٹے بڑے کام کرتی رہی ہوں اور اب میرے سر پر یہ بوجھ نہیں ہے کہ میں نے ان کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا، میں نے سارا احسان نہیں تو اس کا بڑا حصہ اتار دیا ہے۔ اب ان کے سامنے میری گردن پہلے کی طرح جھکی نہیں رہے گی۔ مجھے اپنی ٹرانسفر سے خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس نے میرے ذہنی دباؤ کو کم کر دیا ہے۔ میں چاہوں گی آئندہ میری پوسٹنگ کبھی گجرات میں نہ ہو۔شاید میں دوبارہ کسی کے کام آنا نہیں چاہتی۔
…**…
25 دسمبر
تو آج میں نے کشف مرتضیٰ کو دیکھ ہی لیا۔ اس کشف مرتضیٰ کو جس سے ملنے کے لیے میں پچھلے سات سالوں سے بے قرار تھا اور یہ ملاقات بہت غیر متوقع تھی۔
جب میں فیصل آباد آیا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مجھے وہاں ملے گی۔ میں تو صرف ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے فیصل آباد آیا تھا کیونکہ لاہور میں بور ہو رہا تھا۔ اس لیے سوچا کہ چلو کرکٹ ہی سہی تفریح کا کوئی سامان تو ہو اور پھر یہاں میرا کزن عارف بھی پوسٹڈ تھا۔تو سوچا اس بہانے اس سے بھی مل لوں گا۔
آج ٹیسٹ میچ کے اختتام پر دونوں ٹیموں کے اعزاز میں دعوت دی گئی تھی اور عارف کے ساتھ میں بھی اس دعوت میں گیا تھا۔ ڈنر سے پہلے جب رسمی تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلے تقریر اس کی تھی۔ وہ اسٹیج پر آکر رسمی کلمات دہراتی رہی تھی اور میں اس کا جائزہ لیتا رہا۔ وہ آسمانی رنگ کے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس تھی اور اس کے اوپر اس نے کالی جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس کے بٹن سامنے سے کھلے تھے اور جسے اس نے آستینوں سے فولڈ کیا ہوا تھا۔ اس کے بال اسٹیپس میں کٹے ہوئے تھے۔ میں نہیںجانتا کہ کالج میں بھی اس نے بال کٹوائے ہوئے تھے یا نہیں کیونکہ اس کے سر پر ہمیشہ ایک بڑی سی چادر ہوتی تھی۔ ایک اور تبدیلی جو میں نے اس میں دیکھی تھی وہ اس کی مسکراہٹ تھی۔ وہ اپنی تقریر کے دوران مسلسل مسکراتی رہی تھی اور کالج میں میں نے اسے مسکراتے کم ہی دیکھا تھا۔ اپنی تقریر ختم کرکے وہ اسٹیج سے اتر آئی تھی اور میری نظریں اس کی سیٹ تک اس کے تعاقب میں گئیں۔
اس وقت تک میں نہیں جانتا تھا کہ اس نے مجھے دیکھا ہے یا نہیں اور اگر دیکھا تھا تو کیا پہچانا تھا یا نہیں۔ ڈنر سے کچھ دیر پہلے وہ عارف کے پاس گئی تھی اور عارف اسے لے کر میری طرف آگیا، اور میں اس لمحے بہت نروس تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اب عارف اس کے ساتھ میرا تعارف کروائے گا اور میں اس کے ردّعمل کے بارے میں فکر مند تھا لیکن جب عارف نے اس سے میرا تعارف کروایا تو اس کی آنکھوں میں کوئی شناسائی نہیں جھلکی تھی۔ اس نے بڑے رسمی طریقے سے مجھ سے دعا سلام کی۔ میں اس کے انداز پر حیران رہ گیا تھا کہ اس نے مجھے پہچانا کیوں نہیں۔ میرے نام پر میرے چہرے کو دیکھ کر اسے اتنا بے تاثر تو نہیں رہنا چاہیے تھا۔
ڈنر کے بعد وہ چائے کا کپ لے کر ہال سے باہر نکل گئی میرا دل چاہا کہ میں اسے اپنی شناخت کرواؤں۔ میں بھی اس کے پیچھے باہر چلا گیا۔ وہ برآمدے کے ستون کے پاس کھڑی چائے پی رہی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرا ہاتھ جیکٹ کی جیب میں تھا وہ لان کو دیکھ رہی تھی۔ میرے قدموں کی چاپ پر اس نے گردن موڑ کر مجھے دیکھا تھا۔
”کشف ! آپ نے مجھے پہچانا؟”
اسے اپنی جانب متوجہ دیکھ کر میں نے کہا تھا۔ بڑی گہروں نظروں سے اس نے مجھے دیکھا تھا پھر پیپر کپ کو رول کر کے لان میں پھینکتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھی طرح۔ کیونکہ اس حوالے سے میں نے بہت کم لوگوں کو یاد رکھا ہے اور جنہیں میں یاد رکھتی ہوں انہیں کبھی بھلاتی نہیں ہوں زارون جنید!”
اس کا لہجہ اس قدر سرد تھا کہ میں چاہتے ہوئے بھی خود کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر سکا، پھر وہ وہاں سے چلی گئی تھی وہ واقعی بدل گئی تھی۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تھی اور ایک لمحہ کے لیے بھی میری آنکھوں سے اس نے نظریں نہیں ہٹائی تھیں اور کالج میں وہ کسی سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ ادھر ادھر دیکھا کرتی تھی۔ میں اس کی آنکھوں کا تاثر نہیں بھول پایا ہوں۔ بالکل سرد آنکھیں برف کی سلاخوں کی طرح، بالکل انسان کے اندر اتر جانے والی نظریں۔ کم از کم میں توجان گیا ہوں کہ میں اسے بھولا نہیں ہوں۔ آخر مجھے یہ توقع کیوں تھی کہ وہ سب کچھ فراموش کرچکی ہوگی۔ کیا وہ سب کچھ فراموش کر دینے والا تھا اور پھر جب آج تک میں کالج کے اس واقعہ کو نہیں بھلا پایا تو وہ کیسے بھول سکتی ہے۔ لیکن آج پہلی دفعہ میرا دل چاہا تھا کہ کاش وہ سب کچھ بھول چکی ہوتی۔
اب جب میں ڈائری لکھ رہا ہوں تو میرے ذہن میں صرف ایک ہی سوچ ہے کہ میں اس سے دوبارہ کیسے ملوں، میں اس کے دل سے اپنے لیے بد گمانی کا زہر نکالنا چاہتا ہوں۔ کیوں یہ میں نہیں جانتا میں تو ابھی تک اس کیفیت سے ہی نہیں نکلا ہوںجو آج اسے سامنے دیکھ کر مجھ پر طاری ہو گئی تھی۔ آج تک کسی عورت کو دیکھ کر میں ویسے جذبات سے دوچار نہیں ہوا جیسے آج ہوا ہوں۔ اے خدا! کیا ضروری تھا کہ تم کشف کو بناتے۔
…**…
26مارچ
کل جب میں نے زارون جنید کو دیکھا تھا تو مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ آج وہ میرے آفس آ جائے گا۔ جب پی اے نے مجھے اس کا کارڈ لا کر دیا توچند لمحوں کے لیے میں حیران رہ گئی تھی کیونکہ مجھے یہ امید نہیں تھی کہ میری رات کی بے اعتنائی کے باوجود اگلے ہی دن دوبارہ میرے سامنے آ کھڑا ہوگا۔
”ان صاحب کو انتظار کرنے کے لیے کہو، جب میرے پاس کا م ختم ہو جائے گا تب میں ان سے ملوں گی۔”
پی اے میری بات پرہچکچاتے ہوئے بولا تھا۔
”لیکن میڈم ! انہیں اس طرح انتظار کروانا ٹھیک نہیں ہوگا۔”
میں جانتی تھی کہ وہ کارڈ پڑھ چکا ہے اور فارن منسٹری کے ایک آدمی کو بلاوجہ انتظار کروانا اپنا سروس ریکارڈ خراب کرنے کے مترادف تھا اور شاید یہی بات وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں نے آپ سے جو کہا ہے آپ وہی کریں۔”
اس دفعہ میرا لہجہ سخت تھا۔ اس لیے وہ خاموشی سے چلا گیا۔ پھر میں معمول کے کام سر انجام دیتی رہی۔ لنچ آور کے دوران پی اے نے مجھے پھر اس کی موجودگی کے بارے میں بتایا اور میں نے اسے دوبار انتظار کروانے کے لیے کہا۔ لنچ انٹرول کے بعد پی اے دوبارہ میرے پاس آیا۔
”میڈم ! اب لے آؤں انہیں؟”
”آپ اس قدر بے چین کیوں ہو رہے ہیں؟ میں نے کہا نا جب مجھے فرصت ملے گی میں ان سے ملوں گی اگر وہ انتظار کر سکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ چلے جائیں۔”
میرا لہجہ اتنا بگڑا ہوا تھا کہ اس نے کچھ کہنے کی کوشش ہی نہیں کی میں دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
آف ٹائم ختم ہونے سے پہلے میں نے پی اے کو بلوایا اور اسے معمول کی ہدایات دیں۔
”وہ صاحب اب بھی بیٹھے ہیں؟”
”جی میڈم ! لے آؤں اندر؟” میرے استفسار پر اس نے فوراً کہا تھا اور میں نے سر ہلا دیا۔
چند لمحوں کے بعد زارون جنید دروازہ کھول کر اندر آ گیا تھا۔
”جی فرمائیے۔ کس لیے زحمت کی آپ نے؟” میں نے اس کے اندر آتے ہی پوچھا تھا۔وہ میری بات پر مسکرانے لگا۔
”آپ بیٹھنے کے لیے نہیں کہیں گی مجھے؟”
”میں نے تمہیں اندر آنے دیا۔ کیا یہ کافی نہیں ہے؟”
”میرے خیال میں مجھے خود ہی بیٹھ جانا چاہیے۔ اتنے لمبے انتظار کے بعد اتنا حق تو بنتا ہے میرا۔”
وہ یہ کہہ کر بڑے پر سکون انداز میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا، میں کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔
پھر انٹر کام پر پی اے کو اندر بلایا۔ پی اے کے آنے تک وہ مسکراتا رہا، پی اے کے اندر آنے پر میں نے اس سے کہا۔
”باری صاحب ! اس شخص کو اچھی طرح دیکھ لیں اگر یہ دوبارہ یہاں آئے اور مجھ سے ملنے پر اصرار کرے تو اسے دھکے دے کر یہاں سے نکال دیجئے گا۔”
زارون کے چہرے کا اڑتا ہوا رنگ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی تھی اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔
”بس مجھے آپ سے یہی کہنا تھا۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔” پی اے بوکھلایا ہوا سر ہلاتا میرے کمرے سے نکل گیا۔
”تمہیں یاد ہو گا ، جب تم نے مجھے کالج میں تھپڑ مارا تھا تو میں نے تم سے کہا تھا کہ میں اس وقت کا انتظار کروں گی جب میں تمہیں اس سے زیادہ زور دار تھپڑ مار سکوں گی اور یہ وہی وقت تھا جس کا مجھے انتظار تھا لیکن میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گی کیونکہ جو کچھ میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ وہ کسی تھپڑ سے کم نہیں ہے۔ آئندہ یہاں آنے کی زحمت مت کرنا، ناؤ گیٹ آؤٹ فرام ہیئر۔”
وہ میری بات پر سرخ چہرے کے ساتھ ایک جھٹکے سے کھڑا ہو گیا۔
”جس عہدے پر تم ہو اور جس کرسی پر بیٹھ کر تم یہ سمجھ رہی ہو کہ تم نے دنیا فتح کر لی ہے، اسے ختم کرنے کے لیے میرا ایک ہی فون کافی ہے اور پھر تم اس عہدے پر نہیں رہو گی جس کے بل بوتے پر تم مجھے یہاں سے نکال رہی ہو۔” میں اس کی بات پر مسکرائی تھی۔
”چلو کوشش کر کے دیکھ لو۔ میں تمہاری طاقت ، پہنچ اور کمینگی تینوں سے واقف ہوں پھر بھی خوفزدہ نہیں ہوں۔ تم میرا کیریئر ختم کر سکتے ہو دنیا تو نہیں۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہارے کہنے پر مجھے او ایس ڈی بنا دیا جائے گا یا میرے خلاف کوئی انکوائری شروع کروا دی جائے گی۔ ایسی آزمائشوں سے میں نہیں گھبراتی۔ عادی ہوں ان سب کی ہاں تمہارے جیسے آسائشوں کے عادی ڈر جاتے ہیں۔ میں ہر چیز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن تمہیں جو کرنا ہے وہ تو تم یہاں سے جانے کے بعد ہی کرو گے ، ابھی تو نہیں کر سکتے۔”
Now , get out of my room and do whatever you like. But at present I’m the boss here.
(فی الحال تو میں یہاں باس کا درجہ رکھتی ہوں تم یہاں سے دفع ہو جاؤ اور جو جی چاہے کرو۔)
وہ چند لمحوں کے لیے مجھے دیکھتا رہا اور پھرکرسی کو ٹھوکر مارتا ہوا باہر چلا گیا۔
میں جانتی ہوں وہ جو کہہ رہا تھا، وہ کروا سکتا ہے لیکن میں اب خوفزدہ نہیں ہوں۔ آج سے چند سال پہلے اگر وہ مجھ سے ملتا تو میں کبھی بھی اس سے اس طرح بات نہیں کر سکتی تھی کیونکہ تب یہ جاب میری کمزوری تھی اور میرے سر پر ذمہ داریوں کے پہاڑ تھے مگر آج حالات ویسے نہیں ہیں پھر اسے کیسے بخش دیتی۔
وہ ان چند لوگوں میں شامل ہے جن سے میں نے زندگی میں سب سے زیادہ نفرت کی ہے۔ مجھے لائبریری میں کہا گیا اس کا ایک ایک لفظ یاد ہے۔ میں آج بھی اس ایک ہفتے کو نہیں بھولی ہوں جب میں ہاسٹل کے کمرے میں چہرے پر تکیہ رکھ کر رویا کرتی تھی تا کہ میرے رونے کی آواز کسی اور تک نہ پہنچے نہ میں آج تک وہ شام بھولی ہوں جب میں ہاسٹل کی چھت سے چھلانگ لگا دینی چاہتی تھی۔ اس شخص نے کالج میں مجھے ذلیل کر دیا تھا۔ کیا چیزتھی جس کی اس کے پاس کمی تھی پھر بھی اس نے مجھے نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی۔ میری ذات کو اس نے اپنے دوستوں کے سامنے چیس بورڈ بنانا چاہا تھا جس پر وہ اپنی مرضی کے مہرے اپنی پسندکے مطابق چلا سکے۔ کیا تھا میرے پاس ، خوبصورتی نہ دولت نہ اس جیسی ذہانت نہ وہ فیملی بیک گراؤنڈ نہ اسٹیٹس نہ اس جیسی قابلیت، صرف عزت تھی اور وہ بھی وہ خاک میں ملا دینا چاہتا تھا اور اب وہ پھر میرے سامنے آ گیا ہے۔ پر اب میں سات سال پہلے کی کشف نہیں ہوں، اب مجھے کسی چیز کی پروا نہیں ہے۔ میرے لیے یہی احساس کافی ہے کہ میں نے اپنی توہین کا بدلہ چکا دیا۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!