زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

18 اپریل
پتا نہیں میرے سارے دن ایک جیسے کیوں ہوتے جا رہے ہیں، فرسٹریشن اور ڈپریشن سے بھر پور۔
آج پھر میرا دن بہت برا گزرا ہے اور اس کی وجہ وہی ہے۔ آج اس واقعہ کے بعد وہ پہلی بار کالج آئی تھی۔ ہم لوگ اس وقت ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پہ کھڑے باتیں کر رہے تھے جب وہ نظر آتی تھی، سرجھکائے بڑی خاموشی سے وہ ہمارے پاس سے گزری تھی۔
سر ابرار نے اس واقعہ کے دوسرے دن ہی مجھ سے اس بارے میں بات کی تھی میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ اس نے مجھے بدکردار کہا تھا مگر انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے ایسی کوئی بات کر سکتی ہے۔ میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ جب وہ کالج آئے تو وہ خود ہی اس سے پوچھ لیں اور آج سر ابرار نے اسے دیکھتے ہی اپنے کمرے میں بلوا لیا تھا۔ میں خوفزدہ تھا کہ وہ سر ابرار کو ساری بات بتا دے گی لیکن اس نے جس طرح بات کی تھی۔ اس کے انداز نے مجھے اور زیادہ خوفزدہ کر دیا تھا۔ اس نے کچھ نہ بتاتے ہوئے بھی سب کچھ بتا دیا تھا اس کے جاتے ہی سر ابرار نے مجھ سے کہا تھا۔
”تم نے اسے کیا کہا تھا جو اس نے تمہیں بدکردار کہا؟”
”سر ! میں نے اسے کچھ نہیں کہا اسے غلط فہمی ہو گئی تھی۔” میں نے جھوٹ بولنا ضروری سمجھا۔
”میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ کوئی لڑکی اتنی بڑی بات بغیر وجہ کے نہیں کہہ سکتی اور پھر وہ بھی کشف جیسی لڑکی۔ نہیں اسے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہوگی۔ تم نے ضرور اسے کچھ کہا ہو گا۔” سر ابرر کا لہجہ بہت خشک تھا۔
”ہاں۔ میں نے اس کے بارے میں کچھ ریمارکس دیئے تھے لیکن اس کے سامنے نہیں، پہل میں نے بہر حال نہیں کی تھی۔” میں نے اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کی کوشش کی۔
”کیا ریمارکس دیئے تھے تم نے؟”
سر ابرار کے انداز میں کوئی تبدیل نہیں آئی تھی اور پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ میرے الفاظ اس قدر بھی بے ضرر نہیں تھے کہ میں انہیں سر ابرار کے سامنے دہرا پاتا۔
”سر ! یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں کچھ کہیں تو ہمارا واقعی وہی مطلب ہو، بعض باتیں ہم ویسے ہی کر دیتے ہیں۔ دوستوں کے سامنے شو آف کے لیے مگر ضروری نہیں کہ ہم واقعی کسی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔”
میں نے اصل بات بتانے سے پہلے تھوڑا جھوٹ بولنا شروع سمجھا اور پھر انہیں سنسر کے ساتھ ساری باتیں بتاتا گیا۔
”اور یہ یقینا اس ساری بکواس کا کچھ حصہ ہو گا۔ ساری بات بتانے کی ہمت تو تم کبھی نہیں کر سکتے۔” میں ان کی بات پر سر نہیں اٹھا سکا۔





”پھر تمہیں لفظ بدکردار گالی کیوں لگا؟ اس ساری بکواس کے بعد تم اپنے آپ کے لیے کون سی عزت اور لقب چاہتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ تمہارے سارے افیئرز انہیں لڑکیوں تک محدود ہیں جو خود بھی کالج میں انجوائے منٹ کے لیے آتی ہیں مگر تم اس حد تک گرچکے ہو۔ یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، تم نے اسے تھپڑ مارا ؟ تھپڑ تو اسے تمہارے منہ پر مارنا چاہئے تھا۔ تم عورت کی عزت کرنا تک بھول گئے ہو۔ اپنے دوستوں میں بیٹھ کر تم ایسی باتیں کرتے ہو، تمہیں تو ڈوب مرنا چاہیے۔” ان کا ہر لفظ میری شرمندگی کے بوجھ میں اضافہ کر رہا تھا۔
”اب یہاں سے دفع ہو جاؤ اور آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔” میں اپنی چیئر پر سے اٹھا اور ان کے قریب کارپٹ پر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔
”آئی ایم ساری۔ میں مانتا ہوں۔ میں نے غلطی کی ہے مگر یہ میری پہلی غلطی تھی۔ کیا آپ مجھے ایک چانس نہیں دیں گے؟”
”تم نے مجھے اتنا صدمہ پہنچایا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں نے آج تک تم سے تمہارے افیئرز کے بارے میں اس لیے بات نہیں کی کیونکہ کوئی غلط بات مجھ تک نہیں پہنچی اور پھر تم نے اپنی اسٹڈیز کے معاملے میں بھی لاپروائی نہیں برتی مگر تم نے تو میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ میں نے ہمیشہ تمہیں بیٹے کی طرح چاہا ہے، اس لیے مجھے زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔ تمہاری جگہ کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو میں کبھی اس سے اس سلسلے میں بات تک نہ کرتا مگر تمہاری بات اور ہے۔ مجھ سے معذرت کر کے کیا ہو گا تمہیں اس سے معذرت کرنا چاہیے جس کے ساتھ تم نے یہ سب کیا ہے۔” ان کے آخری جملے پرمیری، بحال ہوتی ہوئی سانس دوبارہ رکنے لگی تھی۔
”سر ! کیا یہ ضروری ہے؟” میں نے بہت بے بس ہو کر ان سے کہا تھا۔
”بے حد ضروری ہے۔” ان کا نرم پڑتا ہوا لہجہ دوبارہ سخت ہو گیا تھا اور میں نے مجبوراً ہامی بھر لی۔
لیکن اب میں سوچ رہا ہوں کہ میں اس سے کیسے معذرت کروں گا اس سے جس سے میں نفرت کرتا ہوں۔
میں اس سے کیسے کہوں گا کہ مجھے اپنے کئے پر افسوس ہے حالانکہ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ اس سارے تماشے میں مجھے کیا ملا ہے۔ میں اسے فلرٹ نہیں کر پایا، سر ابرار کے سامنے اس کا امیج خراب کرتے کرتے میں اپنا امیج خراب کر بیٹھا، کالج میں بدنام ہو گیا، کوئی ایک شکست ہے جو اس نے مجھے دی ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ میں اسے کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میری نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید مجھے اسے اتنی اہمیت دینی ہی نہیں چاہیے تھی۔ میں اپنا وقت ضائع کرتا رہا ہوں اور یہ احساس مجھے دیر سے ہوا ہے۔
…**…
13 اگست
کالج سے فری ہونے میں بہت تھوڑا عرصہ رہ گیا ہے اور پھر مجھے عملی زندگی کا آغاز کرنا ہو گا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہوتی ہے کہ مجھے واپس اپنے گھر جانا ہو گا اور جب تک کوئی جاب نہیں ملتی وہیں مقید رہنا ہو گا۔ وہاں اس گھر میں جس سے مجھے محبت نہیں ہے۔ وہاں کی کسی بھی چیز سے مجھے اپنائیت نہیں ہے پر ابھی تومجھے فائنل سمسٹرز کا مرحلہ طے کرنا ہے۔ زارون مجھ سے معذرت کرنے کے بعد کالج سے غائب ہو گیا تھا اور میں بہت مطمئن تھی مگر اب وہ پھر سے کالج آنے لگا اور میری ساری خوشی رخصت ہو گئی ہے۔ میں خوفزدہ ہوں کہ کہیں وہ پھر پہلے جیسی حرکت نہ کرے۔ کتنا مشکل ہوتا ہے ہم جیسے لوگوں کا عزت سے رہنا، مگر مجھے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے عزت حاصل کرنی ہے ہر قیمت پر اور یہ عزت مجھے کسی کے ساتھ نیکی کر کے نہیں ملے گی، عزت صرف روپے سے ملتی ہے۔دوسرے لوگ شاید نیکی کر کے ان کے بدلے عزت کی خواہش کریں اور ہو سکتا ہے خدا نہیں عزت دے بھی دے مگر مجھے کسی نیکی کے بدلے میں خدا نئی آزمائش تو دے سکتا ہے عزت نہیں۔ اگر خدا میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تو میں بھی کسی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کروں گی۔ یہاں جو لوگ گناہ کرتے ہیں صرف وہی عیش اور مزے کر رہے ہیں نیکی کرنے والے تو صرف دھکے کھاتے ہیں اور میں اب دھکے کھانا نہیں چاہتی۔
…**…
27 اکتوبر
آج سے میری آزادی اور بے فکری کے دن شروع ہو رہے ہیں۔ کل سی ایس ایس کا آخری پیپر تھا اور آج میں دوپہر تک سوتا رہا ہوں اور اب اٹھنے کے بعد میں خود کو بالکل آزاد اور مطمئن محسوس کر رہا ہوں۔ ابھی مجھے انٹرویو کو الیفائی کرنا ہے اور پھر فائنل ایئر کے پیپرز بھی دینے ہیں مگراب میں ان کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوں۔ اب میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا سی ایس ایس کا رزلٹ بہت اچھا آئے تبھی میں اپنی مرضی کے ڈیپارٹمنٹ میں جا سکتا ہوں۔
پچھلے دو ماہ سے میں کالج کو تو جیسے بھول ہی گیا تھا اور اب کل سے پھر وہاں جانا شروع کر دوں گا اور آج میں کالج کو بہت مس کر رہا ہوں، وہاں کی ہر چیز مجھے یاد آ رہی ہے حتیٰ کہ کشف بھی۔ اچھا ہی ہوا کہ میں نے معذرت کر لی، غلطی واقعی میری ہی تھی اور پتا نہیں کیوں میرا دل اسے دیکھنے کو چاہ رہا ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب میں کالج جانا شروع کروں گا تو وہ مجھے دیکھے گی بھی نہیں اور اگر میں اس سے بات کرنے کی کوشش کروں گا تو وہ تو شاید بھاگ ہی جائے۔ مگر پھر بھی آج میں اتنا خوش ہوں کہ مجھے اس پر بھی غصہ نہیں آیا۔
…**…
22 دسمبر
سو آج میرا تعلیمی دور ختم ہوگیا ہے۔ زندگی کا یہ باب بھی مکمل ہو گیا ہے اور اب مجھے عملی زندگی میں قدم رکھنا ہے ، آگے کیا ہو گا میں کچھ نہیں جانتی نہ ہی مجھے کوئی خوش فہمی ہے۔ اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید وہی ہوتاہے جس کے پاس روپیہ ہو اور میرے جیسے لوگوں کا مستقبل تو ہمیشہ ہی غیر محفوظ ہوتا ہے۔ کل میں اپنے شہر واپس چلی جاؤں گی۔
اگر ایک نظر کالج کے دور پر ڈالوں توحیرت ہوتی ہے کہ یہ تلخیوں بھرا دور کتنی جلدی گزر گیا۔ اس عرصہ کے دوران مجھے کوئی دوست نہیں ملا، ہاں دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ یہ میرے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لائے، بس میری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ابھی ایک طویل سفر مجھے طے کرنا ہے اور میںجانتی ہوں میں اپنی منزل تک پہنچ جاؤں گی۔ آج میں نے ایک نظم پڑھی تھی اس کی صرف ایک لائن مجھے اچھی لگی۔
چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز
میرے دل کو چھو لیا تھا اس لائن نے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ میں بھی اپنے آپ کو کبھی یہ کہہ کر تسلی دے پاتی مگر میری پریشانیاں چند روزہ نہیں ہیں مجھے ابھی بہت جدوجہد کرنا ہے، کبھی تو صرف سوچ کر ہی تھکن ہونے لگتی ہے۔ مجھے اپنی بہنوں کے بڑھتے ہوئے قد سے خوف آتا ہے۔ میرے ماں باپ کے چہرے پہلے سے زیادہ بوڑھے ہو گئے ہیں اور ابھی تک ہمارے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اگر اللہ نے مجھ پر اتنی ذمہ داریاں ڈالنی تھیں تو پھر اس کو چاہیے تھا کہ وہ مجھے یہ یقین بھی دیتا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ پھر شاید زندگی مجھے اتنی مشکل نہ لگتی مگر اس نے کبھی بھی مجھ سے محبت نہیں کی۔ کیا میں صرف اس لیے اسے اچھی نہیں لگتی کہ میرے پاس دولت نہیں ہے؟ کیا اللہ بھی انسانوں میں تفریق کرتا ہے۔ میں آج پھر پریشان ہوں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
…**…
8 اگست
کبھی کبھی میں اپنی موجودگی سے بور ہونے لگتا ہوں۔ کہاں میں لاہور جیسے ہنگامہ خیز شہر کا رہنے والا اور کہاں یہ اسلام آباد جیسا فارمل شہر، میرے لیے یہاں کوئی انجوائے منٹ کوئی تھرل نہیں ہے۔ کبھی کبھی مختلف سفارت خانوں میں ہونے والے فنکشنز میں چلا جاتا ہوں مگر یہ فنکشنز بھی اتنے فارمل ہوتے ہیں کہ میرا دل وہاں سے بھاگنے کو چاہتا ہے۔ اب میں بس یہ چاہتا ہوں کہ میری پوسٹنگ کسی دوسرے ملک میں ہو جائے تا کہ میں اپنی جاب کو انجوائے کر سکوں۔ اگلے سال میری پوسٹنگ کسی دوسرے ملک ہو ہی جائے گی کیونکہ ساؤتھ ایسٹ ایشیاڈیسک پر کام کرتے مجھے ایک سال ہو گیا ہے۔ فارن سروس میرا خواب تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے جو چاہا پا لیا لیکن کبھی کبھی مجھے یہ جاب بور بھی لگتی ہے کیونکہ یہاں نہ حسین چہرے ہیں نہ رنگین آنچل۔ فارن سروس میں ایک دو جو لڑکیاں آتی ہیں، وہ بھی صرف نچلے درجے پر اور میں ان سے زیادہ فری نہیں ہو سکتا۔
میں کالج لائف کو بہت مس کرتا ہوں۔ کیا زندگی تھی کالج کی ،ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک ایکٹیوٹی ہوتی تھی، ایک سے ایک خوبصورت چہرے ہوتے تھے ایک ایک چیز یاد آتی ہے مجھے کالج کی۔ میرے دوست ، گرل فرینڈز اور یہاں تک کہ کشف مرتضیٰ بھی! وہ عجیب لڑکی تھی شاید میری زندگی میں آنے والی لڑکیوں میں سب سے عجیب۔ دو ہفتے پہلے میں لاہور گیا تھا اور اسامہ کے ساتھ باتوں کے دوران کشف کا ذکر بھی آیا تھا۔ اسامہ نے مجھ سے پوچھا تھا۔
”زارون ! کشف کے بارے میں کچھ جانتے ہو تم ؟”
میں اس کے سوال پر حیران ہوا تھا۔
”نہیں مجھے تو کچھ پتہ نہیں ہے۔ کیوں؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟”
”ایسے ہی یار! میں نے سوچا شاید تمہیں کچھ علم ہو گا۔”
”چھوڑ یار ! مجھے کیا پتہ اس کا۔ اس واقعہ کے بعد تو اس سے میری بات چیت بھی ختم ہو گئی تھی۔”
”ویسے کہیں تمہیں کوئی عشق ٹائپ کی چیز تو نہیں ہو گئی اس سے؟”
میری بات پر اس نے کشن اٹھا کر مجھے مارا تھا۔
”تمہاری کمینگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ چلو ایک بات تو ثابت ہوئی کہ جو کمینہ ہے وہ کمینہ ہی رہتا ہے، چاہے وہ وزیر بن جائے یا سفیر۔”
میں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”پھر تم پوچھ کیوں رہے ہواس کے بارے میں؟”
”ایسے ہی وہ لڑکی مجھے ہمیشہ اٹریکٹ کرتی تھی اور آج بھی وہ میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ وہ خوبصورت ہوتی تو میں سمجھتا کہ شاید میں اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوں لیکن وہ خوبصورت نہیں تھی پھر بھی اس میں کچھ تھا جو اسے دوسری لڑکیوں سے الگ کرتا تھا۔ وہ کیا چیز تھی، یہ میں کبھی سمجھ نہیں پایا۔ میری ان باتوں کو تم پیار و محبت کے معنوں میں مت لینا۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر تعلق محبت کا ہی ہو۔”
وہ بڑے عجیب انداز میں کہہ رہا تھا اور میں حیران تھا کہ جو کچھ میں کشف کے بارے میں محسوس کرتا تھا وہی اسامہ نے بھی محسوس کیا تھا۔ تو کیا باقی لڑکے بھی اس کے بارے میں یہی سوچتے ہوں گے؟ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ کچھ غلط کیا تھا۔ بہت دفعہ میں نے چاہا کہ اس سے دوبارہ معذرت کر لوں مگر ہمت نہیں ہوئی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ وہ اب کہاں ہو گی۔ ہو سکتا ہے اس کی شادی ہو گئی ہو یا وہ کہیں جاب کرتی ہوں، کیا وہ اب بھی ویسی ہی ہوگی جیسی وہ کالج میں تھی یا بدل گئی۔ میری خواہش ہے کہ میں دوبارہ کبھی اس سے ملوں، اکثر خواہشات پوری ہو جاتی ہیں دیکھتا ہوں یہ خواہش کب پوری ہوتی ہے۔
…**…
5دسمبر
آج اکیڈمی میں میرا پہلا دن تھا اور عجیب قسم کی آزادی کا احساس ہو رہا ہے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں دنیا میں آج ہی آئی ہوں۔ ذلت کی زندگی ، زندگی کہاں ہوتی ہے۔ اب زندگی میرے لیے کانٹوں کا بستر نہیں رہی میں جانتی ہوں کہ ابھی مجھ پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں مگر اب میں انہیں اٹھا سکتی ہوں آگے جانے کے راستے اب مجھے صاف نظر آنے لگے ہیں۔
ایک نظر اپنے ماضی پر ڈالوں تو وہ بد صورت اور بھیانک نظر آتا ہے اور میں کسی طور پر اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ ان دو سالوں میں ، میں نے جتنی محنت کی ہے وہ میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اسکول میں پڑھانے کے بعد ٹیوشنز کرنا اور پھر ساری ساری رات خود بیٹھ کر پڑھنا۔ مجھے لگتا تھا جیسے میں ایک مشین ہوں مگر مجھے یہ سب کرنا ہی تھا، اگر نہ کرتی تو اپنی کتابوں اور گھر کے اخراجات کہاں سے پورے کرتی۔ مجھے خوشی ہے کہ میری محنت ضائع نہیں ہوئی۔ ورنہ پتا نہیں میں کیا کرتی اور آج جب میں یہاں ہوں تو یوں لگتا ہے زمین پر نہیں آسمان پر ہوں اور ابھی مجھے بہت محنت کرنی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میں ڈسٹنکشن کے ساتھ اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوں۔ یہ کام مشکل سہی پر اتنا ناممکن نہیں ہے اور مجھے یہ بھی کرنا ہی ہے۔ اب اور میں کچھ لکھنا نہیں چاہ رہی۔ آج بس میں سونا چاہتی ہوں اور خوب سونا چاہتی ہوں کیونکہ کل سے میرے پاس فرصت کے لمحات پھر سے غائب ہو رہے ہیں۔
کبھی کبھی اچھا لگتا ہے کچھ نہ کہنا، کچھ نہ بولنا، کچھ نہ لکھنا، بس سوچنا، صرف محسوس کرنا اور آج میں بھی اپنی کیفیات کو محسوس کرنا چاہتی ہوں۔ بھلا کیسالگتا ہے اپنے احساسات کو محسوس کرنا، آج میں دیکھوں گی کیسا لگتا ہے۔ آج میں سب کچھ دہراؤں گی، ماضی کو یاد کروں گی، ہر اچھی بری یاد کو سامنے لاؤں گی اور میں جانتی ہوں زندگی میں پہلی بار ان میں سے کوئی چیز بھی مجھے اداس نہیں کرے گی کیونکہ آج میں بہت خوش ہوں، بہت زیادہ ، میرا دل چاہتا ہے میں اس پورے صفحے پر خوشی کا لفظ بہت بڑا سا لکھ دوں اور پھر اس پر دونوں ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر لوں پھر خود سے پوچھوں کیا میں خوش ہوں؟”
…**…
23 نومبر
سو اب مجھے شادی کرنا ہوگی، اور مجھے یہ بات کس قدر عجیب لگ رہی ہے۔ میں نے آج تک شادی کے بارے میں سوچا ہی نہیں نہ کسی عورت نے مجھے اس حد تک متاثر کیا کہ میں شادی کے بارے میں سوچنے لگتا یا شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ میں کسی عورت کے بارے میں ایسا سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ میرے لیے عورت صرف ٹائم پاس کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور بس۔ اب ایک عورت کے ساتھ مستقل طور پر زندگی گزارنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے لیکن ماما کے پاس تو اس موضو ع کے علاوہ اور کوئی موضوع ہوتا ہی نہیں۔
میں جب بھی ان کے پاس بیٹھتا ہوں وہ کسی نہ کسی لڑکی کا ذکر شروع کر دیتی ہیں۔ میں ماریشس سے سارہ کی شادی کے لیے چھٹیاں لے کر آیا ہوں اور وہ تو میری شادی پر بھی تیار نظر آتی ہیں۔ سارہ کی شادی پر بھی وہ مجھے لڑکیاں ہی دکھاتی رہیں اور میں شادی کے فنکشنز کو بھی ٹھیک سے انجوائے نہیں کر پایا حالانکہ وہاں ایک سے ایک خوبصورت لڑکی تھی، لیکن میں جانتا تھا کہ ماما مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر میں نے ٹائم پاسنگ کے لیے بھی کسی لڑکی پر التفات دکھایا تو وہ یہی سمجھیں گی کہ مجھے وہ لڑکی پسند آ گئی ہے اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ شادی کے فنکشن کے دوران ہی اس لڑکی کی فیملی سے بات طے کرلیتیں، اس لیے مجھے بہت ریز رو رہنا پڑا۔
آج پھر وہ یہی ذکر لے کر بیٹھ گئی تھیں کہ میں شادی نہیں تو منگنی کر جاؤں۔ میری ٹال مٹول پر انہوں نے کہا تھا۔
”زارون ! تم شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے؟”
”میں شادی کرنا چاہتا ہوں اور کروں گا بھی، لیکن اپنی پسند کی لڑکی سے اور وہ لڑکی مجھے ابھی تک نظر نہیں آئی۔” میں نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی تھی۔
”زارون ! جو لڑکیاں میں تمہیں دکھا رہی ہوں۔ وہ سب اچھی ہیں۔ تم ان میں سے کسی کو پسند کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟”
”میں انہیں پسند نہیں کر سکتا کیونکہ ان میں وہ خوبیاں نہیں ہیں، جو میں چاہتا ہوں۔”
‘ وہ خوبصورت ہیں، دولت مند ہیں، ایجوکٹیڈ ہیں، اچھی فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ اور کیا کوالٹی چاہیے تمہیں جو ان میں نہیں ہے؟”
”ہاں ان میں یہ سب کچھ ہے لیکن ان کے علاوہ بھی ایک چیز ہوتی ہے اور وہ کردار ہے۔ مجھے ایسی لڑکی چاہیے جس کا کبھی کوئی اسکینڈل نہ بنا ہو جس نے مذاق میں بھی کسی کے ساتھ فلرٹ نہ کیا ہو اور نہ ہی کسی نے اس کے ساتھ کوئی افیئر چلایا ہو۔”
میری بات پر ماما میرا منہ دیکھ رہ گئی تھیں۔
”زارون ! میں جن لڑکیوں کی بات کر رہی ہوں وہ بھی آوارہ نہیں ہیں۔ ان میں تمہاری مطلوبہ اہلیت پائی جاتی ہے، وہ بہت اچھی ہیں۔”
”مجھے پاکستان سے گئے صرف دو سال ہوئے ہیں، ان دو سالوں میں کون سا انقلاب آ گیا ہے ہماری سوسائٹی میں کہ ساری لڑکیاں پارسا ہوگئی ہیں۔ اب وہ فلرٹ نہیں کرتیں یا ان کے اسکینڈل نہیں بنتے۔”
میں نے کافی ترشی سے ماما کا جواب دیا تھا اور انہوں نے بھی اسی لہجے میں کہا تھا۔
”کسی کے ساتھ فلرٹ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ لڑکی کرپٹ ہے اور تم خود کون سے پارسا ہو، تم خود بھی تو یہ سب کچھ کرتے رہے ہو۔”
انہوں نے صاف مجھ پر طنز کیا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے میں واقعی خاموش ہوگیا۔
”ٹھیک ہے میرے افیئرز رہے ہیں اور میں ایک فلرٹ ہوں لیکن میں مرد ہوں یہ کر سکتا ہوں۔ میری بیوی کو میرے جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ میری زندگی میں لاکھ لڑکیاں سہی مگر اس کی زندگی میں میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہونا چاہیے اور اگر آپ کو ایسی لڑکی نہیں ملتی تو پھر یہ کام مجھ پر چھوڑ دیں۔”
میں یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔ میرے لیے ماما کو یہ بات سمجھانا بہت مشکل ہو رہا تھا کہ میں کسی بدنام لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا اور وہ میرے سامنے ایسی ہی لڑکیوں کو لا رہی تھیں۔
ان چند دنوں میں ، میں یہ بات تو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ والدین کتنے بھی آزاد خیال کیوں نہ ہو، بچوں کی شادی کے معاملے میں وہ بہت قدامت پسند ہو جاتے ہیں اور ہم جیسی فیملیز میں تو شادی بھی بزنس ڈیلنگز کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ لوگ اپنے بزنس کو بچوں کی شادیوں کے ذریعے وسیع کرتے ہیں مگر میں ایسی کسی بزنس ڈیل کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ میں زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ میری زندگی ہے اور فی الحال تو میں اپنی موجودہ زندگی سے بہت خوش ہوں اور شادی جیسا کوئی پھندا گلے میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ ہاں جب شادی کروں گا تو ایسی لڑکی چاہوں گا جو خوبصورت ہو ، ویل آف ہو، اچھی فیملی سے تعلق رکھتی ہو، ایجوکیٹڈ ہو اور کریکٹر وائز اسٹرونگ ہو، مگر فی الحال میں بیوی جیسا کوئی بکھیڑا پالنا نہیں چاہتا کیونکہ بیوی مجھ پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرے گی اور وہ میں نہیں چاہتا۔
ماما اگر میری ڈائری پڑھ لیں تو وہ مجھے قد امت پسند، تنگ نظر شاؤ نسٹ اور پتہ نہیں کیا کیا کہیں گی مگر میں اپنے اصل کو روشن خیالی کے پردوں میں نہیں چھپا سکتا جو میں ہوں، وہ میں ہوں اور خود کو بدلنا بہت مشکل کام ہے کم از کم میں یہ نہیں کر سکتا۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!