زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

30دسمبر
کل زارون مجھے گجرات چھوڑ کر گیا تھا۔ ہم پر سوں لندن سے واپس آئے تھے۔ پچھلا ایک ماہ اتنا مصروف گزرا ہے کہ میں چاہتے ہوئے بھی ڈائری نہیں لکھ پائی اور اب جب فرصت ملی ہے تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔کل جب وہ مجھے گھر چھوڑنے آیا تھا توراستے میں گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
”کشف ! تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے۔ تمہارا تبادلہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں کر کے تمہاری خدمات فیڈرل گورنمنٹ کے سپرد کر دی گئی ہیں۔ اب تم بھی اسلام آباد میں کام کرو گی۔ میں ہر جگہ تمہیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔”
میں اس کی بات پر حیران رہ گئی تھی۔
ہنی مون کے دوران میرے لیے اس طرح روپیہ خرچ کرتا رہا تھا جیسے وہ بہت بے کار سی چیز تھی اور میں سوچتی رہی تھی کہ کیا واقعی اس کے لیے میں باقی ہر چیز سے زیادہ اہم ہوں۔ میں سوچتی ہوں اس میں کون سی خوبی ہے جو خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے۔ میں نے ایک بار بھی اسے نماز پڑھتے نہیں دیکھا اور شاید اس نے عید کی نماز کے علاوہ کبھی نمازیں پڑھی بھی نہیں ہیں پھر بھی خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کا فون آیا تھا اور وہ کافی ناراض تھا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا۔
”کیا ضرورت ہے تمہیں اپنے والدین کے گھر اتنا زیادہ رہنے کی۔”
میں اس کی بات پر حیران رہ گئی تھی۔ کیونکہ میں ابھی ہی تو آئی ہوں اور وہ کہہ رہا تھا کہ اتنا زیادہ رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہر حال میں اب پرسوں واپس چلی جاؤں گی۔ کیونکہ وہ میرے بغیر کچھ زیادہ ہی پریشان ہے۔
…**…
29جنوری
کل میرے اور کشف کے درمیان پہلی جھڑپ ہوئی۔ وہ ابھی تک اپنے پرانے انداز میں تھی اور کل میں نے اس کی طبیعت اچھی طرح صاف کی اور مجھے اپنے رویے پر قطعاً کوئی افسوس نہیں ہے اس کی اصلاح کے لیے یہ سلوک بہت ضروری ہے۔
کل ہمیں ایک ڈنر میں جانا تھا اور جب میں شام کو گھر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ براؤن رنگ کے لیے میری ناپسندیدگی جاننے کے باوجود اپنے لیے اسی رنگ کی ساڑھی پریس کر رہی تھی۔ ڈریسنگ روم میں جانے سے پہلے میں نے اس سے کہا تھا۔
”کشف ! اس ساڑھی کو واپس رکھ دو اور کسی دوسرے رنگ کا ڈریس پہنو۔ تم اچھی طرح جانتی ہوں کہ یہ کلر مجھے نا پسند ہے اور یہ بات میں تمہیں دوبارہ نہیں بتاؤں گا۔”
جب میں تیار ہو کر ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو یہ دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی کہ اس نے وہی ساڑھی پریس کر کے بیڈ پر رکھی ہوئی تھی۔ یعنی اس نے میری بات کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔
”میں نے تم سے کہا تھا کہ یہ ساڑھی واپس رکھ دو۔ تم یہ نہیں پہنو گی۔”
”زارون ! جو چیز تمہیں پسند ہے میں تمہیں اس کے استعمال سے کبھی نہیں روکتی پھر تم مجھے کیوں روک رہے ہو۔ یہ کلر تمہیں پسند نہ سہی مگر مجھے پسند ہے اور میں یہی پہنوں گی۔”





میں اس کے لہجے پر کھو ل کر رہ گیا تھا وہ اسی ٹون میں بات کر رہی تھی جس میں وہ شادی سے پہلے بات کرتی تھی۔
”لیکن مجھے یہ کلر پسند نہیں ہے۔”
”تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔” اس کے جواب نے مجھے آگ بگولہ کر دیا تھا۔
”میں تمہیں بتاتا ہوں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔” میں نے ساڑھی اٹھائی اور اسے بازو سے کھینچتا ہوا واش روم میں لے گیا۔ واش بیسن میں ساڑھی پھینکنے کے بعد میں نے لائٹر سے آگ لگا دی۔ وہ دم بخود جلتے ہوئے شعلوں کو دیکھ رہی تھی اور مجھے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ کر سکون مل رہا تھا۔
”آج ایک بات تم کان کھول کر سن لو۔ تمہیں صرف وہی کرنا ہے جو میں چاہتا ہوں، وہی پہننا ہے جو مجھے پسند ہے اور تمہارے منہ میں جو زبان ہے، اسے کنٹرول میں رکھو ورنہ میں اسے کاٹ دوں گا۔ میں گاڑی میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ پورے پندرہ منٹ بعد تم باہر ہو ورنہ …”
میں اپنی بات کو ادھورا چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ پورچ میں نمودار ہو گئی تھی۔ جب وہ کار میں آ کر بیٹھی تو میں نے بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ بے تاثر تھا اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی نہ ہی میں نے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی۔
ڈنر سے واپسی پر سونے سے پہلے اس نے روز کی طرح مجھے دودھ کا گلاس لا کر دیا اور پھر خاموشی سے سونے کے لیے لیٹ گئی۔ آج صبح بھی ہر روز کی طرح اس نے مجھے بیڈ ٹی دی پھر آفس کے لیے تیار ہونے میں میری مد دکرواتی رہی لیکن اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ جب میں نے اسے اس کے آفس چھوڑا تو آج پہلی بار اس نے مجھے خدا حافظ نہیں کہا۔ مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوئی کہ اس نے میری بات کو اتنا سنجیدگی سے لیا ہے۔ میں یہی چاہتا تھا۔ آج شام کو بھی اس کا رویہ نارمل تھا بس وہ مجھ سے بات نہیں کر رہی تھی۔ شاید اس کا خیال تھا کہ میں اس سے معذرت کروں گا اور وہ بے حد احمق ہے میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ آج تک میں اس کی بے اعتنائی برداشت کرتا رہا اب اسے یہ سب برداشت کرنا ہو گا۔
…**…
17 مارچ
شادی کے چار ماہ دس دن بعد کل میں نے اس کا گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ پتا نہیں میں نے غلط کیا یا صحیح مگر یہ سب ہونا ہی تھا۔ اگر میں خود اس کاگھر نہ چھوڑتی تو کچھ عرصہ بعد وہ خود مجھے گھر سے نکال دیتا۔ میرا اس سے شادی کا فیصلہ غلط تھا۔ ہم دونوں دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔ مگر افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ اسے میرے کردار پر شبہ ہے۔ ایک ایسا شخص جس کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کا رویہ دن بدن عجیب ہوتا گیا تھا۔ پہلے وہ نرمی سے مجھے اپنی بات ماننے پر مجبور کرتا۔ پھر سختی کرنے لگا میں اس کی ہر ناجائز بات بھی صرف اس لیے مان لیتی کیونکہ میں اپنا گھر برباد نہیں کرناچاہتی تھی۔ لیکن کل کے واقعے کے بعد میرے لیے مزید کچھ برداشت کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔
کل رات کو کھانا کھانے کے بعد وہ ایک کتاب لے کر بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔ میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی جب مجھے یوں لگا جیسے وہ بڑے غور سے مجھے دیکھ رہا تھا مگر میں نے اس بات کو نظر انداز کیا۔
”کشف ! ایک بات پوچھوں؟” اس نے اچانک مجھے چونکا دیا۔ میں نے بالوں میں برش کرنا روک دیا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
”یہ جو تمہارا بڑا بہنوئی ہے اظہر، سنا ہے اس کا پرپوزل پہلے تمہارے لیے آیا تھا اور وہ تمہیں کافی پسند کرتا تھا؟”
”وہ مجھے پسند کرتا تھا یا نہیں۔ یہ تو میں نہیں جانتی ہاں اس کا پرپوزل ضرور میرے لیے آیا تھا۔” میں نے بلا توقف جواب دیا۔
”ویسے تم اسے کافی پسند کرتی ہو۔ اکثر تعریفیں کرتی رہتی ہو۔” اس کا لہجہ بے حد عجیب تھا۔
”ہاں۔ میں اسے پسند کرتی ہوں کیونکہ وہ ایک اچھا آدمی ہے۔” میری بات پر اس کے چہرے پر ایک رنگ سا گزر گیا تھا۔
”پھر تم نے اس کا پرپوزل قبول کیوں نہیں کیا؟”
”کیونکہ اس وقت مجھے شادی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھ پر بہت زیادہ ذمہ داریاں تھیں۔”
”تم جھوٹ بول رہی ہو۔ اصل میں اس کی امی کو اسماء تم سے زیادہ پسند آ گئی تھی، کیونکہ وہ زیادہ خوبصورت ہے اس لیے انہوں نے اظہر کو اسماء سے شادی پر مجبور کر دیا۔ ویسے کشف ! تم لاہور میں پڑھتی تھیں۔ اظہر بھی وہیں انجینئرنگ یونیورسٹی میں ہوتا تھا۔ تم لوگوں کی اکثر ملاقات ہوتی ہوگی۔”
میں اس کی باتوں پر بالکل سن ہو گئی تھی۔ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی مجھ سے ایسی بات کرے گا۔ کچھ دیر تک میں بالکل بول ہی نہیں سکی۔ وہ مجھے اتنی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے میں کوئی مجرم تھی اور اس نے مجھے جرم کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔
”زارون ! تم کیا کہہ رہے ہو۔ میری سمجھ میں بالکل نہیں آ رہا۔” میں نے اسے کہا۔
”حالانکہ میں نے کوئی مشکل بات نہیں پوچھی۔ ویسے اگر میں تمہاری جگہ ہوتا اور کوئی میری انسلٹ کرتا اور پھر مجھے پرپوز کرتا تو میں کبھی اس سے شادی نہ کرتا۔ لیکن تم نے مجھ سے شادی کرلی سب کچھ بھول کر۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے؟ شاید نہیں۔ کیونکہ تمہاری جیسی عورتیں میرے جیسا مرد دیکھ کر سب کچھ بھول جاتی ہیں، چاہے وہ پرانا محبوب ہی کیوں نہ ہو۔”
”بہت ہو گیا۔ میں اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی۔ تمہیں جو کہنا ہے صاف صاف کہو معموں میں بات مت کرو۔”
میں کھڑی ہو گئی۔
وہ میری بات پر بڑے عجیب انداز میں مسکرایا۔
”کشف ! یاد ہے جب میں نے تمہیں یونیورسٹی میں تھپڑ مارا تھا تو تم نے کہا تھا جو شخص جیسا ہو، اسے ویسی گالی دو تو وہ اسی طرح تڑپتا ہے جیسے میں تڑپ رہا ہوں۔ کیا آج تمہارا رویہ بھی ویسا ہی نہیں ہے جب میں نے ماما کے سامنے شادی کے لیے تمہارا نام لیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کشف میں ایسی کون سی بات ہے جو تمہیں متاثر کر رہی ہے اور میں نے کہا تھا اس کا کریکٹر، تب انہوں نے کہا تھا تم مڈل کلاس لڑکیوں کو نہیں جانتے یہ اتنی پارسا ہوتی نہیں جتنا ظاہر کرتی ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ صحیح تھا۔”
مجھے اس کی بات گالی کی طرح لگی تھی اپنے شوہر کے منہ سے اپنے کردار کے بارے میں ایسی بات سننا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ پھر میں نے اس سے پوچھا تھا۔
”تو تمہارا خیال ہے کہ میں کرپٹ ہوں؟”
”میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اپنے بارے میں تم زیادہ بہتر جانتی ہو۔”
اس نے سرد مہری سے کہہ کر کتاب کھول لی تھی۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ میں نے اس کے ہاتھ سے کتاب چھین کر دور اچھال دی۔
”تمہیں میرے کردار پر شبہ ہے مگر اپنے کردار کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟”
میں چلائی تھی اور اس نے سرد لہجے میں کہا تھا۔
”وہ کتاب اٹھا کر مجھے دو اور اپنی آواز آہستہ کرو۔ یہ میرا گھر ہے اور میں یہاں کسی کا چلّانا پسند نہیں کرتا۔”
”مجھے نہ تمہاری پروا ہے نہ تمہارے گھر کی۔” میں ایک بار پھر چلّانے لگی۔”تم ایک فلرٹ ہو کر میرے بارے میں یہ کہہ رہے ہو کہ تمہیں میرے کردار پر شک ہے خود کیا ہو تم؟ کس کس کے ساتھ عیاشی کرتے رہے اور پھر بھی تمہیں مجھ پر شک ہے۔”
”بہتر ہے تم اپنا منہ بند کر لو۔ میں تمہاری بکواس برداشت نہیں کروں گا۔”
”میں اپنا منہ بند نہیں کروں گی۔ میری باتیں بکواس ہیں تو تمہاری باتیں کیا ہیں؟ تم واقعی ایک ذلیل انسان ہو اور تمہیں عورت کی عزت کرنا کبھی نہیں آئے گا۔”
میں شاید اسے اور بھی بہت کچھ کہتی مگر اس کاتھپڑ مجھے خاموش کروا گیا تھا۔ ”میں تم جیسی عورت کی عزت کرنا چاہتا بھی نہیں۔ اپنا منہ بند رکھا کرو ورنہ میں تم پر ہاتھ اٹھانے سے گریز نہیں کروں گا۔”
چند لمحے اسی خاموشی سے دیکھنے کے بعد میں ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔ بیگ میں اپنی چیزیں رکھنے کے بعد میں جب دوبارہ بیڈ روم میں آئی تو وہ پھر کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے تھا۔
”میں جا رہی ہوں۔”
”شوق سے جاؤ۔ میں تمہیں روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ہاں یہ بات ضرور یاد رکھنا کہ اگر آج یہاں سے جاؤ گی تو دوبارہ واپس نہیں آ سکو گی۔ اگر پھر بھی جانا چاہتی ہو تو جاؤ، میں چند دن تک تمہیں طلاق بھجوا دوں گا۔”
اس نے کتاب سے نظر ہٹائے بغیر کہا تھا۔
”میں خود بھی دوبارہ یہاں نہیں آنا چاہتی اور یہ تمہاری مہربانی ہوگی اگر تم مجھے جلد ازجلد طلاق بھجوا دو۔ تم نے حق مہر کے طور پر جو رقم مجھے دی تھی۔وہ بینک میں ہے میں نے چیک بک پر سائن کر دیئے ہیں۔ تم اسے نکلوا سکتے ہو۔ ہر ماہ پندرہ ہزار تم مجھے دیا کرتے تھے، وہ بھی بینک میں جمع کروا دیتی تھی اسی اکاؤنٹ میں۔ یہ وارڈ روب کی چابیاں ہیں۔ دراز میں وہ سارے زیورات موجود ہیں جو تم نے مجھے دیئے تھے۔ میں اپنے ساتھ صرف وہی چیزیں لے کر جا رہی ہوں جو میرے ذاتی روپے سے خریدی گئی ہیں۔ تم چاہو تو میرا بیگ چیک کر سکتے ہو۔”
”دروازے کو ٹھیک سے بند کر کے جانا۔”
یہ وہ واحد فقرہ تھا جو اس نے میری باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ اگر میں ایک لمحہ بھی وہاں مزید کھڑی رہتی تو پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتی۔
جس وقت میں وہاں سے نکلی تو یہ نہیں جانتی تھی کہ کہاں جاؤ ں گی۔ پھر میں اپنی کار میں ایم این اے ہاسٹل چلی گئی تھی۔ زارون نے ایک بار بھی مجھے رکنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ شاید وہ مجھے روکنا چاہتا ہی نہیں تھا۔ اگر وہ مجھے رکنے کے لیے کہتا تو شاید میں رک جاتی۔ میں اپنا گھر برباد نہیں کرنا چاہتی تھی، یا شاید میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں، اس لیے کہ وہ میری زندگی میں آنے والا واحد مرد ہے جو مجھے محبت کے خواب دکھاتا رہا جس نے مجھے میرے ہونے کا احساس دلایا۔ لاکھ چاہنے کے باوجود میں اس سے نفرت نہیں کر سکی نہ کبھی کرسکوں گی۔
مجھے نیکی کا بہت اچھا اجر ملا تھا۔ میں اظہر کے پرپوزل سے اپنی بہن کے حق میں اس لیے دست بردار ہوئی تھی تا کہ اس کی شادی کسی اچھی جگہ ہو جائے۔ لیکن اس ایثار کا مجھے یہ صلہ ملا کہ اظہر کا نام ایک داغ کی طرح میرے دامن پر لگا دیا گیا۔ خدا نے کبھی میرے ساتھ انصاف نہیں کیا اور مجھے اس سے اس کی توقع بھی نہیں ہے۔ زارون بھی خدا کے ہاتھوں میں ایک پتلی ہے۔ اس کی بھی کیا غلطی ہے۔ یہ تو خدا ہے جو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے۔ مجھے دیکھنا ہے وہ مجھ سے اور کیا چھینے گا۔
…**…
17مارچ
کل رات کشف مجھے چھوڑ کر چلی گئی اور کل رات سے لے کر اب تک میں اپنی کیفیات کو سمجھ نہیں پا رہا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ ان چند ماہ میں میں اس کے وجود کا اتنا عادی ہو جاؤں گا۔ کتنی آسانی سے وہ میرے گھر سے چلی گئی ہے۔ یوں جیسے اس کے نزدیک میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ میں نے اسے صرف ایک تھپڑ مارا تھا حالانکہ وہ زیادہ کی مستحق تھی۔ اس نے کل پھر میرے کردار کو ہدف بنانے کی کوشش کی تھی۔ شادی کی رات کو اس نے مجھ سے کہا تھا میں تم سے محبت کروں گی مگر ان چار ماہ میں ایک بار بھی میں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔ اس نے کبھی مجھ سے محبت کا اظہار نہیں کیا اور وہ کرتی بھی کیسے جب اسے مجھ سے محبت تھی ہی نہیں۔ وہ تو کسی اور سے محبت کرتی تھی۔ کاش یہ بات میں پہلے جان جاتا تو کبھی اس سے شادی نہ کرتا۔
مجھے اس میں یہی چیز تو اٹریکٹ کرتی تھی کہ وہ بے داغ کردار کی مالک تھی۔ اس کا کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ مگر میں کیا جانتا تھا کہ یہ سب فریب ہے۔ وہ بھی میری سوسائٹی کی لڑکیوں کی طرح ہے۔ میں کل رات سے بہت پریشان ہوں۔ مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ دل چاہتا ہے جو چیز سامنے آئے توڑ دوں۔ ایک اس کے نہ ہونے سے مجھے ہر چیز ادھوری لگ رہی ہے۔ آج صبح جب میں اٹھا تھا تو رات کا واقعہ بھول چکا تھا۔ کچھ دیر بعد میں انتظارکرتا رہا کہ وہ میرے لیے بیڈ ٹی لے کر آئے لیکن پھر ایک جھماکے کے ساتھ میرے ذہن میں رات کا واقعہ آ گیا تھا۔
شادی کے بعد پہلی بار میں نے خود آفس جانے کے لیے وارڈ روب سے کپڑے نکالے اور تیار ہوا مگر ہر قدم پر مجھے اس کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ میں ناشتہ کئے بغیر آفس چلا گیا اور زندگی میں پہلی بار بغیر کسی وجہ کے ماتحتوں پر برستا رہا۔ مجھے اپنے غصے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ واپس آنے کے بعد بھی میری بے چینی میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ صرف ایک دن اس کے بغیر رہنے سے پاگل ہوگیا ہوں ابھی تو پوری زندگی گزارنی ہے۔ ایک میں ہوں جس کے لیے اس کے بغیر خود پر قابو رکھنا مشکل ہو رہا ہے اور ایک وہ تھی جو میری ہر چیز میرے منہ پر مار کر چلی گئی ہے، اگر اسے مجھ سے محبت ہوتی تو کیا وہ میرے سارے گفٹس اس طرح پھینک کر چلی جاتی۔ ایک بات تو طے ہے اب میں آئندہ اسے کبھی اس گھر میں نہیں لاؤں گا۔ میری زندگی سے وہ ہمیشہ کے لیے نکل گئی ہے۔ جتنی جلدی میں اس سے چھٹکارا حاصل کر لوں بہتر ہے میرا یہ فیصلہ بہت سے لوگوں کو ناراض کر دے گا۔ سر ابرار تو شاید کبھی مجھے معاف نہیں کریں گے لیکن میں نے اب اگر اسے طلاق نہ دی تو شاید ساری عمرنہ دے پاؤں۔
…**…
21مارچ
چار دن پہلے میں نے لکھا تھا کہ میں نے زارون کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا لیکن کل میں دوبارہ اس کے گھر واپس آ گئی ہوں۔ گھر چھوڑتے وقت زارون نے مجھ سے کہا تھا اگر ایک دفعہ تم اس گھر سے چلی گئیں تودوبارہ یہاں نہیں آ سکو گی اور کل وہ خود مجھے لے کر آیا تھا۔ یہ شخص زارون بھی عجیب ہے۔ جو کہتا ہے اس کے برعکس کرتاہے۔
کل شام کو میں ہاسٹل کے کمرے میں تھی جب وہ آیا تھا، اسے وہاں دیکھ کر مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ میرا خیال تھا وہ مجھے طلاق کے کاغذات دینے آیا ہے۔ اسی لیے میں نے اسے اپنے کمرے میں آنے دیا۔
”تم طلاق کے کاغذات لائے ہو؟” میں نے اس کے اندر آتے ہی پوچھا تھا۔
”نہیں میں تمہیں لینے آیا ہوں۔” اس کا جواب میرے لیے غیر متوقع تھا۔
”کیوں؟” وہ میری بات کا جواب دینے کے بجائے ایک چیئر پر بیٹھ گیا اور کچھ توقف کے بعد اس نے کہا تھا۔
”ہماری شادی کو صرف ساڑھے چار ماہ ہوئے ہیں اور ہم لوگ ایک دوسرے سے اتنے بیزار ہو گئے ہیں کہ طلاق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کشف ! ہوسکتا ہے تمہارا خیال ہو کہ میں نے شاید تمہیں تنگ کرنے کے لیے تم سے شادی کی ہے لیکن یقین کرو ایسا نہیں ہے۔ میں اپنا گھر برباد کرنا نہیں چاہتا۔ مجھ سے پھر ایک غلطی ہو گئی ہے لیکن اس بار میں نے جان لیا کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میرے ساتھ چلو۔”
وہ دھیمے لہجے میں بات کر رہا تھا اور اس کاہر لفظ میرے غصہ میں اضافہ کر رہا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں اسے جان سے مار دوں۔ وہ مجھے ذلیل کرنے کے بعد پھر مجھے اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہا۔
”میں ایک بدکردار عورت ہوں۔ تم جیسا شریف آدمی میرے ساتھ کیسے رہے گا؟ مجھے صرف یہ بتاؤ تم مجھے کیسے برداشت کرو گے؟ مجھے صرف طلاق چاہیے میں کمپرومائز کے سہارے زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔”
”کشف ! میں تمہیں تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا مگر پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ لیکن تم مجھے ایک موقع اور دو۔”
”میں تمہاری ان باتوں میں نہیں آؤں گی۔ تم طلاق نہیں دو گے نہ دو مگر میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جاؤں گی۔ مجھے تم سے نفرت ہے میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔”
میری بات پر اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا تھا۔
”تم کو مجھ سے محبت تھی ہی کب۔ جب تم نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی تو نفرت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ محبت تو صرف میں کرتا تھا۔ تم مجھ سے جان چھڑانے کا موقع چاہتی تھیں۔ میں یہ سب نہ بھی کرتا تب بھی تم کسی نہ کسی بہانے مجھے چھوڑ کر ضرور چلی جاتیں۔”
مجھے اس کی بات پر بے اختیار رونا آ گیا۔ وہ سارا الزام میرے سر دھر رہا تھا۔
”تم نے کب یہ محسوس کیا کہ میں تم سے نفرت کرتی رہی ہوں؟ تمہاری ہر ضرورت کا خیال صرف اسی لیے رکھتی تھی کیونکہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔اگر تم سے جان چھڑانا ہوتی تو اس سے پہلے بھی ایسے بہت سے مواقع آئے تھے جب میں تمہیں چھوڑ کر جا سکتی تھی۔ لیکن جب کوئی مرد اپنی بیوی سے یہ کہے کہ اسے اپنی بیوی کے کردار پر شبہ ہے تو پھر بیوی کے پاس کیا رہ جاتا ہے کیا میں اس وقت کا انتظارکرتی جب تم دھکے دے کر مجھے گھر سے نکالتے؟ تمہیں اگر مجھ سے محبت ہوتی تو تم مجھے رکنے کے لیے کہتے مگر تم نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا۔”
”ٹھیک ہے۔ میں ہی غلط تھا مگر اب میں تم سے معذرت کر رہا ہوں۔ تم میرے ساتھ چلو۔”
”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں کسی قیمت پر تمہارے ساتھ نہیںجاؤں گی۔”
”تم نہیں جاؤ گی؟”
”نہیں۔”
”ٹھیک ہے پھر میں بھی یہیں رہوں گا۔” وہ یہ کہہ کر بڑے اطمینان سے بیڈ پر دراز ہو گیا۔
”تم یہاں سے جاؤ ورنہ میں کسی کو بلوا کر تمہیں زبردستی یہاں سے نکلوا دوں گی۔”
وہ میری بات پر مسکرانے لگا تھا۔
”تمہیں ساتھ لیے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ میرے ساتھ چلو یا مجھے بھی یہیں رہنے دو اور کسی کو بلوانے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ میں تمہارا شوہر ہوں اورتمہیں ساتھ لے جانے کا حق رکھتا ہوں۔ مجھے تمہاری عزت کا احساس ہے ورنہ میں تمہیں یہاں سے زبردستی بھی لے جا سکتا ہوں۔”
کافی دیر تک میں خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر میں نے اپنی چیزیں پیک کرنا شروع کردیں۔ جب میں نے بیگ کی زپ بند کی تو اس نے کچھ کہے بغیر بیگ اٹھا لیا۔ گھر آنے کے بعد میں نے اس پر چلّانا شروع کر دیا۔وہ خاموشی سے میری باتیں سنتا رہا پھر اس نے مجھے کچھ خط لاکر دیئے۔
”کشف ! اگر تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہو تو تم انہیں پڑھ لو پھر تمہیں میری پوزیشن کا احساس ہو جائے گا۔ تم سے منگنی ہونے کے بعد سے یہ خط مجھے ملنا شروع ہوئے ہیں اور اب تک مل رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ خط کون بھیجتا ہے مگر یہ گجرات سے آتے ہیں اس لیے میرا اندازہ ہے تمہارے خاندان میں سے کوئی بھیج رہا ہے۔ شادی سے پہلے جب یہ خط ملتے تھے تو ان میں لکھا ہوا تھا کہ میں جس سے شادی کر رہا ہوں وہ ایک آوارہ لڑکی ہے اور اس کے کالج میں بہت سے لڑکوں کے ساتھ چکر تھے تب میں نے ان لیٹرز کی پروا نہیں کی کیونکہ شاید لکھنے والا یہ نہیں جانتا تھا کہ میں تمہارا کلاس فیلو رہ چکا ہوں اور تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ لیکن دو ماہ پہلے جو خط مجھے ملا اس میں لکھا تھا کہ تم شادی سے پہلے اظہر سے محبت کرتی تھیں اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کی امی کو اسماء پسند آگئی۔ میں اس خط کو نظر انداز نہیں کر سکا کیونکہ تم اظہر کی اکثر تعریفیں کرتی ہو۔ اگر میں غلط فہمی کا شکار نہ ہوتا تو کیا کرتا۔”
میرے خط پڑھنے کے دوران وہ بولتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ خط کون لکھتا ہے لیکن زارون سے میری ناراضگی قدرے کم ہوگئی۔
خط پڑھنے کے بعد میں نے اس کی طرف اچھال دیئے۔
”ان لیٹرز کی بنا پر تم میرے کردار پر شک کر رہے ہو جنہیں لکھنے والے میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ وہ ان پر اپنا نام لکھ دیتا۔ تمہیں مجھ سے زیادہ ان بے نام خطوط پر یقین ہے۔ میری اظہر یا کسی کے ساتھ کوئی جذباتی وابستگی نہیں رہی۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ تم میری ایک نام نہاد غلطی برداشت نہیں کر پائے۔جب کہ میں نے تمہارے سارے حقیقی افیئرز کو بھلا کر تمہیں معاف کیا ہے۔ تم تھوڑی سی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ بھی نہیں کرپائے۔”
وہ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا پھر ا س نے بڑی سختی سے مجھے کہا تھا۔
”کشف ! میں تمہارے منہ سے کسی دوسرے مرد کی تعریف برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر تم میری تعریف نہیں کرتیں تو کسی دوسرے کی بھی مت کرو۔”
میں اس میچور آدمی کی احمقانہ بات پر حیران رہ گئی تھی پھر میں نے اسے مزید کچھ نہیں کہا۔
آج صبح وہ مجھ سے یوں بات کر رہا تھا جیسے ہمارے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ آفس سے واپسی پر وہ مجھے ڈنر پر لے گیا اور ابھی کچھ دیر پہلے وہ اسٹڈی میں گیا ہے تو میں ڈائری لکھ رہی ہوں۔
پتانہیں میں نے گھر چھوڑ کر غلطی کی تھی یا واپس آ کر غلطی کی ہے لیکن بہر حال میں ایک بار پھر اسے آزمانا چاہتی ہوں۔ وہ میرے بار ے میں پوزیسو ہے اور شاید اسی لیے میری کوئی غلطی، کوئی کوتاہی معاف نہیں کر سکتا مجھے اب پہلے سے زیادہ محتاط ہونا پڑے گا۔ میں کوشش کروں گی کہ اب اسے مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!