دربارِدل — قسط نمبر ۱

یہ نہیں تھا کہ میں یہ نہیں جانتی تھی کہ میں خوبصورت ہوں مگر میں نے کسی مرد کے منہ سے یہ پہلی بار سنا تھا۔ سنک کے سامنے کھڑے برتن دھوتے ہوئے میرے ذہن میں بار بار اس کی آواز آ رہی تھی۔ ”کیا میں نے تمھیں بتایا ہے کہ تم خوبصورت ہو؟” ”نہیں۔” ”تم بہت خوبصورت ہو۔” چار پلیٹوں کو اس رات سنک کے سامنے کھڑے میں نے شاید 40 بار دھویا… مجھے اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ میں انھیں پلیٹوں کو بار بار دھو رہی ہوں… دو ہفتوں میں پہلی بار میں اس کالر کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئی تھی کیونکہ اس نے مجھے اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا تھا۔
”جب مرد کسی عورت کو یہ کہتا ہے کہ وہ خوبصورت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عورت اس کے لیے کسی نہ کسی وجہ سے خاص اہمیت رکھتی ہے، وہ اسے بہت سی دوسری عورتوں میں Identify کر سکتا ہے۔” صرف چند دن پہلے ہی تو کالج میں میری فرینڈز اسی ایشو پر بات کر رہی تھیں۔ فری پیریڈ میں کالج کے گراؤنڈ میں بیٹھ کرسمیعہ، ثنا اور صوبیہ کسی اور موضوع سے شروع ہو کر اسی موضوع پر پہنچ گئی تھیں۔
”میں سمجھتی ہوں کہ مرد جب کسی عورت سے یہ کہتا ہے تو دراصل وہ وہ فیلنگز اس تک پہنچاتا ہے جو اس عورت کو دیکھ کر اس کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔” ثنا نے سمیعہ کی بات کے جواب میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔
”کہ اس کے چہرے اور اس کے وجود کو دیکھ کر وہ اپنے اندر کیا محسوس کرتا ہے… کیونکہ خوبصورتی یا تو ہمیں متاثر کرتی ہے یا مرعوب کرتی ہے یا پھر excite اور شاید مرد یہ تینوں چیزیں محسوس کرتا ہے۔” میں مونگ پھلی کھاتے ہوئے ان لوگوں کی گفتگو سن رہی تھی۔ ہم چاروں سائیکالوجی کے سٹوڈنٹ تھے اور ایسی بحثیں اکثر ہوا کرتی تھیں۔
”میرا خیال ہے مرد جب کسی عورت سے یہ کہتا ہے کہ تم خوبصورت ہو تو وہ اس کو ان ڈائریکٹلی یہ بتا رہا ہے کہ تم میرے لیے خاص ہو کیونکہ ہر خوبصورت عورت ہر مرد کو خوبصورت نہیں لگتی اور ہر مرد ہر عورت کو خوبصورت نہیں کہتا… لیکن جب وہ کسی عورت سے کہہ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس عورت کے لیے کوئی خاص Vibe محسوس کر رہا ہے…” یہ صوبیہ کی فلاسفی تھی۔
”تمہارا کیا خیال ہے مہر؟” سمیعہ نے مجھے مخاطب کیا۔
میں نے مونگ پھلی چھیلتے ہوئے سر اٹھا کر باری باری تینوں کو دیکھا۔ پھر دانہ نکال کر اطمینان سے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے جب کوئی مرد کسی عورت کو یہ کہتا ہے کہ وہ خوبصورت ہے تو وہ اسے بے وقوف بنا رہا ہے وہ دراصل یہ نہیں کہہ رہا ہوتا کہ تم خوبصورت ہو بلکہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ تم کو بڑی آسانی کے ساتھ بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور جس لڑکی پر ان الفاظ کا اثر ہو وہ ثابت کرتی ہے کہ مجھے نہ صرف بے وقوف بنایا جا سکتا ہے بلکہ میں پہلے سے ہی بے وقوف ہوں۔” میں مزید کچھ نہیں کہہ سکی صوبیہ نے پوری قوت سے میرے کندھے پر ہاتھ مارا۔
”کیا ہوا؟” میں نے کندھا سہلاتے ہوئے کہا۔
”Get lost تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے ایسے کسی ایشو پر رائے لی جا سکے تم پہلے سے ہی Biased ہو۔” صوبیہ بے حد ناراض ہوئی تھی۔
اور اب یہ میں تھی کہ اس رات کئی گھنٹے اسی ایک جملے کے بارے میں سوچتی رہی… بار… بار… بار… مجھ پر جیسے کوئی طلسم پھونکا گیا تھا… یہ ٹھیک تھا کہ میں اس جملے کو فریب ہی سمجھتی تھی مگر ہر لڑکی یہی سمجھتی ہے کہ یہ فریب دوسروں کو دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اگر یہ جملہ کہا جا رہا ہے تو وہ حقیقت ہے وہ حقیقت کے علاوہ اس میں کچھ اور دیکھنا ہی نہیں چاہتی… خود سے اس حد تک محبت کرتی ہے ہر عورت… اور میں… میں بھی اسی صنف سے تعلق رکھتی تھی۔
……***……





”تمھیں کیا ہوا؟” امی نے اگلی صبح تشویش کے عالم میں میرا چہرہ دیکھا تھا۔
”کچھ نہیں… میں بس رات کو سو نہیں سکی۔” میں نے انھیں ٹالا۔
”کیوں؟” وہ اور پریشان ہوئیں۔
”ایسے ہی بس نیند نہیں آ رہی تھی۔” میں نے ناشتہ شروع کرتے ہوئے کہا۔
”اگر ساری رات جاگتی رہی ہو تو پھر کالج مت جاؤ… آرام کرو۔” امی نے کہا۔
”ہاں میں پہلے ہی کالج نہیں جا رہی۔”
”تم سے کتنی بار کہا ہے مہر تہجد مت پڑھا کرو… اسی عمر سے اتنی عبادت شروع کر لی ہے… آگے چل کر مسئلے ہوں گے۔” وہ سوچ رہی تھیں شاید میں تہجد کے لیے جاگنے کی وجہ سے سو نہیں پاتی۔ مگر میں انھیں کیا بتاتی کہ اتنے سالوں کے بعد پہلی بار میں نے کسی وجہ کے بغیر تہجد نہیں پڑھی… مجھے اس کا خیال ہی نہیں آیا…
”کیا میں نے تمھیں بتایا کہ تم خوبصورت ہو؟”
”نہیں۔”
”تم بہت خوبصورت ہو۔” میرا ذہن ان دو جملوں سے ہٹتا تو کچھ اور سوچتا۔
”اب ناشتہ کیوں نہیں کر رہی؟” امی پوچھ رہی تھیں۔
”بھوک نہیں ہے نیند آ رہی ہے۔” میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”جب نیند آنے کا وقت تھا تب نیند آ نہیں رہی تھی اور اب نیند آ رہی ہے۔” امی ناراضگی سے بڑبڑائی تھیں۔ مجھے واقعی نیند آ رہی تھی۔
مگر بیڈ پر لیٹنے کے بعد میں آنکھیں بند کرنے میں ناکام رہی۔ اور اس وقت پچھلے بارہ گھنٹے میں میں پہلی بار جھنجھلائی۔ ”آخر ہو کیا گیا ہے تمھیں مہر۔ کیا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یا تم پر صوبیہ کا اثر ہو گیا ہے؟ کس طرح کی باتیں سوچ رہی ہو تم؟… کس طرح کی حرکتیں کر رہی ہو تم؟… تم کو احساس ہے؟… امی اور بابا کو پتہ چلے کہ تم کسی لڑکے کے ساتھ فون پر تو وہ… خود سوچو کیا عزت رہے گی ان کی نظر میں تمہاری؟… اور خود تمہاری نظروں میں تمہاری؟” مجھے پچھلے بارہ گھنٹوں میں پہلی بار شرمندگی محسوس ہوئی میں واقعی حماقت کر رہی تھی۔ میں نے کروٹ لی اور آنکھیں بند کر لیں۔
……***……
”آج کے بعد تم دوبارہ کبھی مجھے فون مت کرنا۔” میں نے دوسرے دن اس کا فون ریسیو کرتے ہی کہا تھا۔
”کیوں؟… اب کیا ہوا؟… کل تو تم نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کیا تھا اور آج یک دم اتنی بے رخی؟” مجھے اس کی بات پر بے اختیار غصہ آیا۔
”میری امی آ گئی تھیں اس لیے مجھے یوں ظاہر کرنا پڑا کہ میں اپنی دوست کے ساتھ فون پر بات کر رہی ہوں انھیں کے کہنے پر خدا حافظ کہا میں نے۔” میں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”چلو کسی کے کہنے پر دوست مانا مگر دوست مانا تو سہی۔”
”میں نے دوست ”مانا” نہیں دوست ”ظاہر کیا” ہے۔”
”دونوں میں فرق ہوتا ہے؟” وہ باقاعدہ بحث کر رہا تھا۔
”بہت فرق ہوتا ہے۔”
”کیا فرق ہوتا ہے؟” ”تمھیں بتانا ضروری نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے تم مجھے دوست مت مانو صرف دوست ظاہر کر دیا کرو۔” اس نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”کیوں ظاہر کروں میں؟” میں ناراض ہوئی۔
”کیونکہ تم ایک بار ظاہر کر چکی ہو۔”
”تم انتہائی ڈھیٹ انسان ہو۔”
”تم شاید ثابت قدم کہنا چاہتی ہو۔”
”اپنی ڈھٹائی کو ثابت قدمی کہو گے تم؟”
”میں نہیں دنیا کہتی ہے… مجنوں سے رانجھے تک ہر عاشق ڈھیٹ ہوتا ہے یا مہذب لفظوں میں ثابت قدم۔”
”عاشق؟” میں چونکی ”ہاں محبت کرنے والے کو کہتے ہیں۔”
”تم کس سے محبت کرتے ہو؟” میں اپنے اس سوال کے لیے ساری رات پچھتائی تھی۔
”تم سے۔” فون کا ریسیور بے اختیار میرے ہاتھ سے گرا۔ وہ مجھ سے کیا تعلق قائم کر رہا تھا؟…
میں ابھی دو دن پہلے ہی تو فون پر صوبیہ سے کہہ رہی تھی۔ ”لڑکے پہلے تعریف کرتے ہیں پھر آپ کی خوبیاں گنواتے ہیں پھر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں پھر آپ کو تحائف دیتے اور پھراتے ہیں اور پھر آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں۔”
”لیکن اگر کوئی سیدھا سیدھا اظہار محبت کر دے تو؟” اس بار اس کے کسی نئے بوائے فرینڈ نے یہی کیا تھا اور وہ مصر تھی کہ بالآخر اسے اپنا مسٹر رائٹ مل گیا تھا۔
”تو… تو پھر تم اس Sequence کو الٹا کر لو۔” صوبیہ نے دانت کچکچا کر فون پٹخا تھا۔
اور اب وہ تعریف سے سیدھا اظہار محبت پر آیا تھا اس نے درمیان کا فاصلہ طے کرنے کی زحمت ہی نہیں کی…
”امپاسبل… یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے مجھ سے محبت ہو۔” میں سرد کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ بہت دیر ریسیور گود میں لیے گنگ بیٹھی رہی۔ ”اور بھلا کیوں ہو گی محبت؟”… میں اگلا ایک گھنٹہ وہیں بیٹھے اسی ایک سوال کا جواب تلاش کرتی رہی۔
اس رات میں نے تہجد کے ساتھ ساتھ عشاء کی نماز بھی نہیں پڑھی… اس کی آواز مسلسل میرے ذہن میں گونج رہی تھی… محبت… محبت… محبت… میں تم سے محبت کرتا ہوں… ایک جملہ تھا جو میرے وجود کو بھنور بنائے ہوئے تھا… آخر یہ ممکن ہی کیسے تھا کہ… اور اس کے بعد آنے والے جملے کا جواب میرے پاس نہیں تھا… کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا اور کسی کو اس سوال کے جواب کی تلاش بھی نہیں ہوتی بلکہ کوئی یہ سوال کرتا ہی نہیں… ہر ایک کے لیے یہ ہی کافی ہوتا ہے کہ اس سے ”کوئی” محبت کرتا ہے۔ صرف میں تھی جو ایک اعتراف کو سوال بنائے بیٹھی تھی… کسی نے میرے پورے وجود کو جیسے محبت کی میخوں سے ٹھونک دیا تھا… اور میں میں زندگی میں پہلی بار دربارِ دل میں داخل ہو رہی تھی… اور وہاں دل اپنے تخت پر بڑے تنفر اور تمکنت کے ساتھ براجمان تھا… عجیب غرور تھا اس کے وجود میں… اور اس کے دربار میں ہر کوئی گھٹنوں کے بل گرا ہوا تھا… صرف میں تھی جو اپنے پیروں پر چلتی ہوئی وہاں آئی تھی… شاید کبھی وہ سب بھی اپنے پیروں پر چلتے ہوئے ہی وہاں آئے ہوں گے… صرف میں تھی جو اپنے پیروں پر وہاں کھڑی تھی… شاید وہ سب بھی وہاں اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے… اور صرف میں تھی جو وہاں تخت پر بیٹھے دل کے سامنے کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی۔ اور دل… اس کے ہونٹوں پر عجب مسکراہٹ تھی۔ شاید وہاں آنے والا ہر کوئی پہلے یونہی دیکھتا ہوگا۔ تنی گردن، اُٹھی ٹھوڑی سیدھے کندھے، تخت کے پار ہتھوں پر پھیلے بازو… وہ اپنے دربار میں بادشاہ تھا۔ وہ دربارِ دل تھا اور میں… میں… آخر میں وہاں کیوں آئی تھی؟… یالائی گئی تھی۔
”نام؟…”
”مہر سمیع…”
”عمر؟…”
”20 سال…”
”جنس؟…”
”عورت…”
”محبت؟…”
”اندھی…”
میں نے چونک کر usher کو دیکھا… وہ کیا حد جاری کر رہا تھا مجھ پر؟… محبت اندھی؟… اندھی محبت؟… تو میں اندھی محبت کا شکار ہوئی تھی۔ کسی نے قہقہہ لگایا۔ میں نے گردن موڑ کر تخت کو دیکھا۔ ”مہر سمیع… Blind love… Rare species۔” اس دربار کا حکمران مجھے دیکھتے ہوئے پسندیدگی سے کہہ رہا تھا۔ “Pure and Blind love” میں اسے رکھنا چاہوں گا۔ اس نے تالی بجائی… کسی نے میرے وجود کو زنجیروں سے جکڑا… پھر میں اوندھے منہ فرش پر گری۔
……***……




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!