دربارِدل — قسط نمبر ۱

”اب ٹھیک ہو تم؟… بیٹا کیا ہو گیا؟… کس بات کی ٹینشن لے لی؟” میں نے آنکھیں کھولتے ہی امی کو اپنے بیڈ پر بیٹھے دیکھا۔ بابا ڈاکٹر سے بات کرتے کرتے میری طرف پلٹے اور میں نے ان کے چہرے پر اطمینان نمودار ہوتے دیکھا۔ میں کلینک کے ایک بیڈ پر تھی اور میرا پورا وجود بوجھل ہو رہا تھا۔ ایک عجیب سی تھکن تھی جو مجھے محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں اور پھر یک دم آنکھیں کھولیں۔ مجھے مومی کا خیال آیا تھا۔ میں اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”کیا ہوا؟” امی مجھے اس طرح اٹھتے دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ کیا نہیں ہو گیا تھا۔
”مجھے کیا ہوا ہے؟” ”ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ تمہارا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا وہ تو کہہ رہے تھے کہ اگر ہم تمھیں یہاں نہ لے آتے اور وہ تمھیں Sedate نہ کرتے تو تمھیں برین ہیمبرج ہو جانے کا خطرہ تھا۔ بابا نے پاس آتے ہوئے بتایا۔
”گھر چلیں بابا… گھر چلیں۔” میں نے اپنی ٹانگوں سے چادر اتار دی۔
”اتنی صبح۔”
”صبح؟” میں نے حیرانگی سے ان کا چہرہ دیکھا۔
”بیٹا 4 بج رہے ہیں۔”
”سہ پہر کے؟” ”صبح کے۔” میں بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ تم ساری شام اور ساری رات ٹرینکو لائزرز کی وجہ سے بے ہوش رہی ہو… میں اور تمھارے بابا تو پچھلی رات سے جاگ رہے ہیں۔” امی بتا رہی تھیں۔ میرے ہاتھ سے بستر کی چادر گر گئی… 14 گھنٹے گزر گئے اور مومی… پتہ نہیں اس کو کسی نے اس سڑک سے اٹھایا بھی ہوگا یا نہیں… پتہ نہیں اس نے وہاں میرا کتنا انتظار کیا ہوگا… پتہ نہیں اس کو کتنی چوٹیں لگی ہوں گی کتنی تکلیف ہوئی ہوگی… کتنا خون بہا ہوگا۔ وہ کہہ رہا تھا اس کی ٹانگوں کو چوٹ لگی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا اس کو سانس نہیں آ رہا تھا… پتہ نہیں اس نے میرے بارے میں کیا سوچا ہوگا۔
”کیا ہوا ہے بیٹا؟… کچھ تو بتاؤ… ڈاکٹر کہہ رہا تھا تمھیں کوئی شاک لگا ہے… کیسا شاک؟ میں تو تمھیں بالکل ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئی تھی… پھر کیا ہو گیا تمھیں۔” امی بات کرتے کرتے رونے لگیں۔
میں نے ان کے بہتے آنسوؤں کو دیکھا۔ میں ان کی اکلوتی بیٹی تھی وہ اس لیے رو رہی تھیں… مومی کی ممی بھی تو رو رہی ہوں گی وہ بھی تو ان کا اکلوتا بیٹا ہے… بیٹا ”ہے” یا… پھر ”تھا” میں نے امی کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچا۔





”یہ مومی کون ہے؟” میں بے اختیار تھرائی بابا کرسی کھینچے میرے بیڈ کے پاس پریشانی کے عالم میں مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ ان کو مومی کے بارے میں کیسے پتہ چلا… میں نے تو مومی کا نام تک… ”تم اس کا نام لے رہی تھی بار بار” بابا کہہ رہے تھے۔
میں گم صم ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ کب… کس وقت میں نے اس کا نام لینا شروع کر دیا تھا۔ شاید ٹرینکولائزرز کے زیر اثر مکمل طور پر بے ہوش ہونے سے پہلے… کسی وقت… مگر اب وہ نام میرے ماں باپ کے کانوں تک پہنچ چکا تھا۔
”کون ہے مومی؟… مجھے بتا دو مہر… میں کچھ نہیں کہوں گا… ڈرو مت۔” بابا مجھ سے کہہ رہے تھے۔ میں نے ان کا چہرہ دیکھا… ان کی آنکھیں دیکھیں… میرے باپ کی جان پر بنی ہوئی تھی… کیا وہ دونوں واقعی مومی کا تعارف چاہتے تھے؟… اور اس تعارف کے بعد… کوئی ”بعد” نہیں رہنا تھا… اگلے دن یونیورسٹی کے روسٹرم کے پیچھے کھڑے میرے باپ کے بالوں کی سفیدی دگنی نظر آنی تھی… اس کے کندھے جھک جانے تھے… اگلی بار نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اخلاقیات پر لیکچر دیتے ہوئے ان کی نظروں کے سامنے سب سے پہلے میرا چہرہ آنا تھا اور ان کی آواز اور زبان نے لڑکھڑا جانا تھا… اگلی بار گھر میں اتفاقاً آ جانے والی کوئی Dumb call ریسیو کرتے ہوئے انھوں نے سب سے پہلے میرا چہرہ دیکھنا تھا… اگلی بار اپنے دوستوں کے درمیان اپنی اکلوتی بیٹی کے کردار کے بارے میں بات کرنے کے لیے ان کے پاس لفظ نہیں ہونے تھے… اور جب پہلے کی طرح کوئی ان سے کہتا ”یار مہر بیٹی بہت نیک اور معصوم ہے۔” تو پہلے کی طرح الحمدللہ کہنے کی بجائے ان کے ہونٹوں پر چپ لگ جانی تھی… کیونکہ میں جانتی تھی میرا باپ منافق نہیں تھا اور میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ مجھے بڑی آسانی کے ساتھ اس غلطی کے لیے معاف کر دیتا… مگر انھوں نے ساری عمر اپنے آپ کو معاف نہیں کرنا تھا۔
”مہر مجھے بتا دو… یہ مومی کون ہے؟” بابا ایک بار پھر پوچھ رہے تھے۔
”مومی… مومی… ایک لڑکا تھا…” میں نے لڑکھڑاتی زبان میں کہنا شروع کیا۔ امی کا رنگ زرد ہو گیا۔ بابا کا وجود ساکت تھا۔
”وہ… اپنی بائیک پہ… سڑک پر جا رہا تھا تو ایکسیڈنٹ ہوا اور…” میں رُک گئی۔ میری آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”اور وہ مر گیا؟” بابا نے میری بات مکمل کی۔
”پتہ نہیں۔” میں رونے لگی۔
”پتہ نہیں۔”
”مگر یہ مومی ہے کون؟” امی کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی۔
”تم کیسے جانتی ہو اسے؟” بابا کی آواز میں چٹخ تھی۔
”میں نے… میں نے TV پر دیکھا… ڈرامے میں…” میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”کوئی ایکٹر تھا؟” بابا نے بے یقینی سے کہا میں نے سر ہلا دیا۔
”اور تم… مہر… بیٹا ایک ڈرامہ دیکھ کر اتنا اثر لے لیا۔” بابا کرسی چھوڑ کر میرے پاس بیڈ پر آ گئے ان کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
”بابا اس کو بہت چوٹیں آئی تھیں۔” میں کم از کم اب اس کا نام لے سکتی تھی اس کے لیے آزادانہ رو سکتی تھی۔
”ڈرامے سچ تھوڑی ہوتے ہیں… جھوٹ ہوتا ہے سب… ایکٹنگ ہوتی ہے بیٹا… اتنی بڑی ہو کر تم بچوں کی طرح… میری جان… میرا بیٹا۔” بابا مجھے سینے سے لگا کر تھپکنے لگے۔
”میں پہلے ہی کہہ رہی تھی کوئی لڑکا نہیں ہے… آپ خوامخواہ ایک نام سن کر شک کر رہے ہیں۔” امی نے ناراضگی سے بابا سے کہا۔
”ہماری مہر ایسی لڑکی تھوڑی ہے… اور تمھارے بابا نے دیکھو ساری رات اس کمرے میں ٹِک کر نہیں گزاری… ان کو تم سے زیادہ اس بات کی پریشانی تھی کہ آخر مومی کون ہے؟” امی مجھے بتا رہی تھیں۔
”اور تم خود جو بار بار مجھ سے کہہ رہی تھی کہ وہ مومی نہیں می می کہہ رہی تھی… مجھ سے جھوٹ بول رہی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کسی لڑکے کا ہی نام لے رہی تھی۔”
”تو میں اور کیا کہتی کہ ہاں وہ کسی لڑکے کا ہی نام لے رہی ہے۔” امی نے قدرے خفگی سے بابا سے کہا۔
ان دونوں میں سے کوئی بھی اس وقت میری طرف متوجہ نہیں لگ رہا تھا۔ پوری رات میں بے ہوش رہی تھی مگر وہ دونوں… مومی کا نام جیسے کوئی بھوت بن کر ان کو ڈراتا رہا ہوگا… ان کی عزت کے درپے ہوگا اور اب وہ دونوں بچوں کی طرح ہنس رہے تھے… بھوت غائب ہو گیا تھا۔ ان کی ”پیاری بیٹی” اب بھی ”پیاری بیٹی” تھی… ”نیک”، ”معصوم”، ”پاک”، ”شریف”، ”باحیا”… مجھے اپنے وجود سے ”بے پناہ نفرت” محسوس ہوئی۔
اس دن کلینک سے گھر جاتے ہوئے گاڑی میں مجھے پتہ چلا کہ سناٹا کسے کہتے ہیں… اور یہ انسان کے باہر سے اندر کیسے اترتا ہے۔ سڑک پر بے شمار گاڑیاں، لاتعداد بائیکس، اَن گنت انسان تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی… مجھے لگ رہا تھا۔ وہاں جنگل اُگ آیا ہے… میں ہر بائیک والے لڑکے کو دیکھتی مجھے لگتا ابھی کوئی گاڑی پھر کل رات کی طرح اس بائیک کو… میں نے ہاتھ سے اپنی آنکھیں ڈھانپ لیں۔ دنیا میں اب دیکھنے کے لیے رہا ہی کیا تھا۔
”بابا۔” میں نے یک دم کہا۔ ”ہاں بیٹا۔” ”ہم خیابانِ شمشیر پر کیوں نہیں جاتے؟” ”پر بیٹا وہ تو بالکل دوسرے راستے پر ہے۔ ہمارا گھر تو دوسری طرف ہے۔” ”ہاں مگر… آپ وہاں جائیں… ادھر سے گزر کر۔” بابا نے قدرے تشویش سے بیک ویومرر سے مجھے دیکھا۔ پھر گاڑی موڑ لی۔
اور پھر ہماری گاڑی اس روڈ پر تھی اس روڈ پر جہاں کل کسی وقت وہ… میں پتہ نہیں کیا دیکھنے آئی تھی وہاں… اسے کیا کل کا وہیں ہونا تھا… یا پھر میں شاید ایکسیڈنٹ کا کوئی نشان ڈھونڈنے آئی تھی… اس سڑک پر ایک گاڑی اور بائیک کے درمیان ہونے والے ایکسیڈنٹ کا نشان… یا پھر شاید میں… میں… پتہ نہیں میں کس لیے وہاں آئی تھی۔
سڑک کے دونوں طرف کہیں بھی کچھ بھی نہیں تھا… اور سڑک پر صرف ٹریفک تھی… نامانوس لوگ… صرف وہ چہرہ نہیں تھا… چہرہ؟ مگر مومی چہرہ کب تھا میرے لیے… وہ تو صرف ایک آواز تھی… تھی؟… تھی کیوں؟… مجھے کیوں یہ یقین ہو گیا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی… کبھی مجھے کال نہیں کرے گا۔ مجھے یہ یقین کیوں ہو گیا تھا کہ وہ نہیں رہا تھا۔ خیابانِ شمشیر ختم ہو گئی تھی۔ اور زندگی بس زندگی ختم نہیں ہوتی۔
”تم میرے لیے کیا کیا کر سکتی ہو می می؟” اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا تھا۔
”سب کچھ۔” میں نے بڑے یقین سے جواب دیا۔
”سب کچھ کیا؟”
”سب کچھ مطلب سب کچھ…”
”جو لوگ سب کچھ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بعض دفعہ کچھ بھی نہیں کرتے۔” اس نے طنز کیا تھا۔ میں کر سکتی ہوں۔” میں نے دعویٰ کیا۔
”ملنے آ سکتی ہو مجھ سے؟” میں بول نہیں سکی۔ وہ بے اختیار ہنسا۔
”بس بولتی بند ہو گئی… سب کچھ کر سکتی ہوں۔” اس نے میرا جملہ دہرایا۔
”بس ملنے نہیں آ سکتی۔” میں نے بے چارگی سے کہا۔
”اگر میں مر جاؤں تب بھی نہیں؟” ”ایسی بات کیوں کر رہے ہو… آخر تم کیوں مرو گے؟”
”کیوں میں انسان نہیں ہوں کیا؟” اس نے مجھے چھیڑا۔
”ہاں مگر…” میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں بات کو کیسے مکمل کروں۔
”مجھے یقین ہے کہ تم میرے مرنے پر کبھی نہیں آؤ گی۔” اس نے ایک بار پھر کہا۔
”ہاں… کیونکہ تمھارے مرنے سے پہلے میں خود مر جاؤں گی۔”
”یہ دھمکی ہے؟” اس نے ہنس کر کہا۔
”پتہ نہیں۔” میں نے مدہم آواز میں کہا۔
”لڑکیاں جھوٹ بہت بولتی ہیں۔” اس نے بلند آواز میں کہا تھا اور ٹھیک کہا تھا… لڑکیاں جھوٹ بہت بولتی ہیں۔ ہماری زندگی جھوٹ سے شروع ہو کر جھوٹ پر ختم ہو جاتی ہے اور ہم تو اپنے آپ سے بھی کبھی سچ نہیں بول سکتیں… آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بھی صرف وہ دیکھتی ہیں جو ہمارے ذہن میں ہوتا ہے وہ نہیں جو آئینے میں ہوتا ہے۔ میں بھی جھوٹی تھی۔
……***……




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!