دربارِدل — قسط نمبر ۱

”تمہارا نام کیا ہے؟”
”مومی”
”یہ تو کوئی نام نہیں ہوا۔”
”پھر… تمہارا کیا خیال ہے کیا نام ہوگا میرا؟”
”مجھے کیسے پتہ؟”
”تمہارا نام کیا ہے؟” اس نے اس بار مجھ سے پوچھا۔ میں مہر کہتے کہتے رک گئی، مجھے عجیب سی جھجھک ہوئی اپنا نام بتاتے ہوئے۔
”میرا نام می می ہے۔” وہ ہنسا۔
”یعنی تم بھی اپنا اصلی نام نہیں بتاؤ گی۔”
”مہرین۔”
”می می… مہرین او کے۔” اس نے نام پر غور کیا اور مطمئن ہو گیا۔
”اور تمہارا نام کیا ہے؟” ”مونس” اس بار اس نے کہا۔
”اچھا نام ہے۔”
”مجھے اس کا نام پسند آیا۔”
”تمہارا نام بھی اچھا ہے۔” اس نے جواباً کہا۔
”تم کیا کرتے ہو؟”
”پڑھتا ہوں۔”
”کیا؟”
”گریجویشن کر چکا ہوں ابھی آگے پڑھوں گا۔”
”تمہارا سٹار کیا ہے؟”
”یہ لڑکیاں ہمیشہ سٹار کیوں پوچھتی ہیں؟” اس نے بے اختیار کہا۔
مجھے ایک دھچکہ سا لگا۔ ”کون لڑکیاں؟”
”کوئی بھی لڑکی… کسی سے بھی بات کرو تو پہلا سوال سٹار کے بارے میں ہی کرتی ہیں۔” میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
”تم سمجھ لو آسمان میں سب سے اوپر اور سب سے روشن سٹار میرا ہی ہے۔”
”ٹھیک ہے مگر پھر بھی۔”
”میں نے اصرار کیا۔”
”اوکے… Scorpio۔” میں بے اختیار چپ ہو گئی۔ مجھے عقرب لوگ کبھی اچھے نہیں لگے تھے مجھے کسی اور Zodiac سائن سے اتنی چڑ یا کچھ زیادہ صاف الفاظ میں اتنی نفرت نہیں تھی جتنی اس سٹار کے لوگوں سے… کیونکہ وہ بے حد خود غرض اور اَناپرست ہوتے ہیں… کم از کم میرے خیال میں… اور وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ اپنی خوشی اپنا آرام اپنی زندگی، سب کچھ صرف اپنا… اور وہ کبھی بدلہ لینا نہیں بھولتے… اور اب ”وہ” کہہ رہا تھا ”وہ” عقرب ہے۔





”کیا ہوا خاموشی کیوں چھا گئی؟” اس نے کچھ دیر بعد کہا۔
”کیا سٹار پسند نہیں آیا؟”
”نہیں… نہیں… ایسی کوئی بات نہیں ہے…” میں نے بے ساختگی سے کہا۔
”ایسے ہی کچھ سوچ رہی تھی۔”
”تمہارا سٹار کیا ہے؟” “Aries”۔
”Compatibility ہے؟”
”پتہ نہیں۔”
”میرا خیال تھا تمھیں پتہ ہوگا۔ چلو اب پتہ کرنا۔”
”کیوں؟”
”اب تو ضروری ہے۔” اس نے معنی خیز انداز میں کہا۔
”تمہاری فیملی…” اس نے میری بات کاٹی۔
”میں اکلوتا ہوں۔”
”میں بھی اکلوتی ہوں۔” میں نے بے اختیار خوشی سے کہا۔ وہ ہنسا۔ مجھے لگا اسے یقین نہیں آیا۔
”واقعی… میں اکلوتی ہوں۔”
”میں نے کب کہا می می کہ تم نہیں ہو۔” اس نے میری بات کے جواب میں کہا۔
”تمھیں کونسا کلر پسند ہے۔” “White” اس نے فوراً کہا
”اور کھانا؟”
”چکن کی بنی ہر ڈش۔”
”کوئی خاص ڈش۔”
”فرائیڈ چکن۔”
”پرفیوم؟” “D&Q”
”ڈرنک؟”
”سپرائٹ ود لیمن”
”میوزک سنتے ہیں؟”
”کون پاگل ہے جو نہیں سنتا۔” اس نے بے اختیار کہا۔
”میں نہیں سنتی۔” میں نے بے ساختہ کہا۔ وہ گڑبڑایا۔
”ہاں… کچھ سمجھ دار لوگ نہیں سنتے۔” میں بے ساختہ ہنسی۔
”انٹرویو ختم ہو گیا؟” میرے خاموش ہونے پر اس نے کہا۔
”ہاں۔”
”ارے مگر تم نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ فیورٹ پھول کون سا ہے۔ فیورٹ جگہ، فیورٹ ایکٹر، ایکٹرس” وہ میرا مذاق اڑا رہا تھا۔
”جو جاننا ضروری تھا وہی پوچھا ہے۔” میں نے مدہم آواز میں کہا۔
”بس اور کچھ جاننا ضروری نہیں ہے۔”
”ہے۔”
”کیا؟”
”مجھے کیسے جانتے ہیں آپ؟” وہ بے اختیار ہنسا۔
”یہ نہیں بتاؤں گا میں۔”
”میرا فون نمبر جانتے ہیں… میں کہاں پڑھتی ہوں یہ بھی جانتے ہیں… کہاں رہتی ہوں کیا یہ بھی جانتے ہیں؟”
”ایڈریس بتاؤں؟” اس نے بڑے اطمینان سے جیسے اجازت چاہی۔
”میرے خدا… مگر کیسے؟”
”بس جانتا ہوں… میں تو تمہاری فرینڈز کے نام تک جانتا ہوں۔”
”یہ جھوٹ ہے۔” میں نے بے اختیار کہا۔
”اچھا تو صوبیہ تمہاری دوست نہیں ہے؟” میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
”اور سمیعہ اور ثنا؟ ہیلو…” اس نے شرارتی انداز میں کہا۔
”جناب سو گئی ہیں کیا؟” میں سو نہیں رہی تھی مجھے تو ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے۔ آخر وہ مجھے کس حد تک حیران کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔
”میں تو یہ تک جانتا ہوں کہ تم پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو… تہجد پڑھتی ہو… کنسرٹس میں نہیں جاتی… دوسری لڑکیوں جیسے کوئی فضول شوق نہیں ہیں تمھارے۔ اتنا کافی ہے؟”
”کب سے جانتے ہیں آپ مجھے؟” میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”صدیوں سے۔” اس نے اطمینان سے کہا۔
”میں مذاق نہیں کر رہی ہوں مومی۔” میں نے سنجیدگی سے کہا۔
”میں بھی نہیں کر رہا۔”
”پھر تم میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہے ہو۔”
”جواب تو دیا ہے یہ الگ بات ہے کہ تم اسے ماننے پر تیار نہیں۔”
”کیا تم ہماری کالونی میں رہتے ہو؟”
”ہاں۔”
”کہاں؟”
”دائیں بائیں… آمنے سامنے… کہیں نہ کہیں۔” اس نے گنگناتے ہوئے کہا۔
”تم پھر مذاق کر رہے ہو۔”
”نہیں… سیریس ہوں کہا تو ہے کہ ہاں…”
……***……
”مہر… مہر…” میں بے اختیار چونکی۔
”جی بابا۔”
”بیٹا دھیان کہاں ہے؟… ناشتہ نہیں کر رہی۔”
”جی میں کر رہی ہوں۔”
”آج کل پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے اسے…” میں نے امی کی بات خاموشی سے سنی اور چائے بنانے لگی۔
”قہوہ کب سے پینا شروع کر دیا تم نے؟” میں بابا کی بات پر یک دم گڑبڑائی اور اپنا کپ نیچے کر کے دیکھا۔ میں دودھ ڈالنا بھول گئی تھی۔
”آج ہی… بس دل چاہ رہا ہے اس لیے۔” میں نے جھوٹ بولا اور قہوے کا کڑوا گھونٹ مسکراتے ہوئے بھرا۔
میرا حلق نیچے تک کڑوا ہو گیا۔ ”جو لوگ قہوہ پیتے ہیں وہ اس میں چینی ڈال کر پیتے ہیں۔” بابا نے بڑی رسانیت سے کہا۔ میں نے کپ رکھ کر اس میں ایک چمچ چینی ڈال لی مگر دوسرا گھونٹ بھرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔
”بابا چلیں… کالج سے دیر ہو رہی ہے۔” میں نے یک دم ناشتہ چھوڑتے ہوئے کہا۔
”پہلے تم اپنا ناشتہ ختم کرو اس کے بعد کرسی سے اٹھنا۔” امی نے ناراضگی سے کہا۔
مجھے کھانے پینے کا پہلے بھی شوق نہیں تھا مگر ان دنوں میری بھوک مکمل طور پر غائب ہو گئی تھی۔ میں نے زندگی میں کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ مجھے کبھی کچھ اپنے ماں باپ سے چھپ کر کرنا پڑے گا… میں کبھی اپنے ماں باپ کو دھوکہ دوںگی… ان کے اعتبار کو ٹھیس پہنچاؤں گی… مگر سوچا تو میں نے یہ بھی نہیں تھا کہ میں کبھی کسی کی محبت میں گرفتار ہو جاؤں گی اور میرے اپنے لفظ کھوکھلے ہو کر میرے آگے پیچھے ناچیں گے… پر شاید اسے ہی قسمت کہتے ہیں یا پھر بدقسمتی۔
مومی اب ایک خاص وقت پر فون کیا کرتا تھا اس نے Dumb Calls کرنی چھوڑ دی تھیں اور جس وقت اس کا فون آنا ہوتا میں لاؤنج میں آ جاتی… اگر کبھی اسے فون کرنے میں کچھ دیر ہو جاتی تو میں جلے پاؤں کی بِلّی کی طرح لاؤنج کے چکر کاٹتی۔
……***……




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!