دربارِدل — قسط نمبر ۱

”ہیلو” ”السلام علیکم”
”وعلیکم السلام… آپ کون ہیں؟” اس دن پھر میں نے فون اٹھایا تھا اور میں نے اس کی آواز نہیں پہچانی۔
”میں وہ ہوں جس پر آپ نے ابھی ابھی سلامتی بھیجی ہے۔”
”جی؟” میں اس کے سنجیدگی سے کہے جملے پر حیران ہوئی۔
”کیسی ہیں آپ؟”
”آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟”
”جس سے کر رہا ہوں۔” اس کے انداز میں کمال کی بے تکلفی تھی۔ میں نے یک دم اسے پہچان لیا۔
”Oh! I see میں نے پہچان لیا ہے آپ کو۔” میں نے بے اختیار کہا۔
”really… ذہین تو میں بھی ہوں مگر آپ جتنی ذہانت…” وہ مجھے داد دے رہا تھا۔
میں نے اس کی بات کاٹی۔ ”آپ وہی آدمی ہیں جو…” اس بار اس نے میری بات کاٹی۔
”آدمی؟” وہ تقریباً چیخا تھا۔
”ابھی تو میں لڑکا ہوں اور آپ نے مجھے آدمی بنا دیا۔”
”میں نے اس دن بھی آپ کو کتنی بے رحمی سے ڈانٹا تھا کہ…” اس نے ایک بار پھر میری بات کاٹی۔
”آپ نے ڈانٹا کب تھا آپ نے تو بس ریسیور کریڈل سے اٹھا کر رکھ دیا تھا۔ پورے دو منٹ میں آپ کے TV پر چلنے والا نیوز بلیٹن سنتا رہا۔”
”آپ واقعی پاگل ہیں۔” میں نے بے اختیار کہا۔
”آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا… اس دور میں PTV کا نیوز بلیٹن سننے والا واقعی پاگل ہوتا ہے… اور یہ خاصیت آپ میں بھی ہے کیونکہ آپ بھی اس وقت یہی کام کر رہی تھیں۔” میں نے فون پٹخا پھر ایک خیال آنے پر ریسیور کریڈل سے اتار کر رکھ دیا… اور پھر مجھے اس کے آخری جملے پر ہنسی آئی… آخر واقعی کیا تُک بنتی تھی نیوز بلیٹن دیکھنے کی۔
……***……
”کبھی کبھی مجھے تم پر رشک آتا ہے مِی مِی۔” صوبیہ نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
میں فون سنتے ہوئے اس کی بات پر مسکرا دی۔ ”جھوٹ مت بولو… تمھیں مجھ پر رشک آ سکتا ہے؟ تمھیں تو مجھ پر صرف ترس آتا ہے۔”
”نہیں نہیں کبھی کبھی مجھے تم پر رشک بھی آتا ہے۔”
”کیوں؟”
”تمھیں کوئی ٹینشن جو نہیں ہے۔”
”کیسی ٹینشن؟” میں نے حیرانگی سے پوچھا۔
”بوائے فرینڈز کی ٹینشن Figure conscious رہنا، Fashion freak ہونا، کنسرٹس اور شوز میں بھاگنا… تمھیں تو یار میری طرح کے مسئلے ہی نہیں ہیں۔” اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔
”مجھے مسئلے ہیں نہیں یا میں نے مسئلے پالے نہیں؟ تم چاہو تو تم بھی ان مسئلوں سے پیچھا چھڑا سکتی ہو۔”
”امپاسبل ان سب کے بغیر سوسائٹی مجھے قبول نہیں کرے گی۔”
”تم سمجھتی ہو ہم اپنی حدود و قیود کو جتنا زیادہ پھلانگیں گے معاشرے میں اتنا اونچا مقام پائیں گے؟” میں جانتی تھی میرا سوال چبھنے والا تھا۔
”میں اسی لیے تو کہتی ہوں مجھے بعض دفعہ تم پر بڑا رشک آتا ہے۔” صوبیہ نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
میں جانتی تھی اسے مجھ پر رشک نہیں آتا تھا اسے مجھ سے حسد ہوتا تھا… کیونکہ میں اس کی طرح کنفیوزڈ Ethics لے کر نہیں پھرتی تھی… اور اس لیے بھی کیونکہ مجھے اپنے نفس پر اس سے زیادہ قابو تھا… کم از کم تب میری سوچ یہی تھی… میں صرف یہ نہیں جانتی تھی کہ انسان اپنے ہر لفظ اپنے ہر خیال کے لیے آزمایا جائے گا۔
……***……





”تم آخر چاہتے کیا ہو؟” ایک بار پھر فون اٹھانے پر میں نے اس کی آواز سنی تھی اور میں بے اختیار جھلائی تھی وہ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے ہی پڑ گیا تھا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں؟” اس نے جواباً سوال کیا۔
”تم اپنا اور میرا وقت ضائع کرنا چاہتے ہو۔” میں نے خفگی سے کہا۔
”بالکل ٹھیک… میں یہی کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے بڑی ڈھٹائی سے کہا۔
میں نے دانت کچکچائے۔ ”تمھیں دوسرے لوگوں کے گھروں میں فون کرتے شرم نہیں آتی؟”
”لوگ گھروں میں فون لگواتے ہی اس لیے ہیں کہ ان سے رابطہ کیا جائے۔ وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔” ہاں ٹھیک ہے فون اس لیے لگوایا جاتا ہے کہ رابطہ کیا جائے مگر اس طرح کے رابطے کے لیے نہیں جو تم کر رہے ہو۔”
”میرے رابطے میں کیا خرابی ہے؟”
”تمھارے رابطے میں خرابی نہیں ہے تمھارے دماغ میں خرابی ہے۔” میں نے جھلا کر کہا۔
”آپ ثابت کریں۔” اس کی ڈھٹائی اپنے عروج پر تھی۔
”مجھے یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”پھر آپ نے یہ بات کہی کیوں؟”
”تو اور تمھارے بارے میں کیا کہا جائے؟”
”کوئی اچھی بات۔”
”تم ہمیں فون کر کے تنگ کر رہے ہو اور یہ چاہتے ہو کہ ہم تمھارے بارے میں کوئی اچھی بات کریں۔” مجھے وہ واقعی پاگل لگا۔
”پورا شہر چھوڑ کر اگر میں صرف آپ کے گھر ہی فون کر رہا ہوں تو یہ آپ لوگوں کے لیے اعزاز کی بات ہے۔”
”ہمیں اس اعزاز کی ضرورت نہیں ہے یہ اعزاز آپ کسی اور کو عطا کریں اور ہمیں بخش دیں۔”
”خیر ضروری نہیں ہے کہ میں آپ کی ہر بات مانوں۔” اس کا انداز برقرار تھا۔
”تم نے ہمارا نمبر کہاں سے لیا ہے؟” مجھے ایک بار پھر خیال آیا۔
”آخر یہ سوال کتنی بار پوچھیں گی آپ؟… آپ تنگ نہیں آتیں ہر بار یہی بات پوچھ کر؟”
”اور تم نے ایک بار بھی اس سوال کا جواب نہیں دیا۔”
”کیونکہ یہ اتنا اہم سوال نہیں ہے۔” اس نے کہا۔ مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں اس سے فون پر غیر ارادی طور پر بہت لمبی گفتگو کرنے لگی تھی… بظاہر بے ضرر اور طویل گفتگو… بے معنی باتیں… بے مقصد تکرار… وہ بات کو طول دیتا جاتا اور میں لاشعوری طور پر اس کی باتیں سنتی اور ان کے جواب دیتی رہتی۔ اسے بات سے بات بنانے یا بڑھانے میں کمال حاصل تھا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی باتوں کی عادی ہوتی جا رہی تھی۔
پہلے وہ میرے کالج سے آنے کے بعد دن میں کئی مرتبہ کال کیا کرتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ ایک مخصوص وقت کال کرنے لگا۔ جب میں لاؤنج میں ہوتی اور زیادہ تر میں ہی فون اٹھایا کرتی… مجھے اس کی کالز جھنجھلا دیا کرتی تھیں کیونکہ اس سے پہلے کبھی مجھے اس طرح کی کالز کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ نہ ہی میں نے کبھی اس طرح باقاعدگی سے کبھی کسی کی کالز ریسیو کی تھیں مگر وہ شخص عجیب تھا… کمال درجے کی ڈھٹائی تھی اس میں… اور اس کی حسِ مزاح بھی اتنی ہی اعلیٰ تھی… میں اس کی جن باتوں کو سننے کے دوران اس سے ناراض ہوتی… بعد میں ان باتوں کا خیال آنے پر مجھے کئی بار ہنسی آتی… وہ پتہ نہیں واقعی اتنا ہی احمق تھا یا پھر صرف میرے سامنے احمق بن رہا تھا۔
……***……
”مہر ذرا فون اٹھاؤ۔” امی نے کچن سے آواز دے کر لاؤنج میں بجتے فون کی طرف میری توجہ مبذول کروائی۔ میرے ذہن میں فوری طور پر اسی کالر کا خیال آیا تھا کیونکہ وہ اسی وقت فون کرتا تھا مگر… میں نے سوچا تھا آج اگر یہ وہ ہوا تو میں اسے ٹھیک ٹھیک سناؤں گی۔
”ہیلو می می۔” اس نے فون اٹھاتے ہی کہا۔
”مجھے ایک بات بتاؤ تم آخر میرا نام کیسے جانتے ہو؟” میں نے بالآخر اس سے وہ سوال کیا جو میں پہلے دن سے کرنا چاہتی تھی۔
”نام؟”… میں تو آپ کے کام بھی جانتا ہوں۔ وہ بے اختیار ہنسا
”کیسے کام؟” میں کچھ اُلجھی۔
”تم گریجویشن کر رہی ہو۔” اس نے ایک ہی جست میں آپ سے تم کا فاصلہ طے کیا تھا مگر اس وقت میں نے اس پر غور نہیں کیا۔ مجھے تو اس بات نے پریشان کیا تھا کہ وہ یہ کیسے جانتا ہے کہ میں گریجویشن کر رہی تھی۔
”تمھیں کیسے پتہ؟” میں نے بے اختیار کہا۔
”مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کہ تم بہت عبادت گزار ہو۔”
”مائی گاڈ۔”
”دیکھا” وہ ایک بار پھر ہنسا۔
”اور میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ تم پردہ کرتی ہو۔”
”تم نے دیکھا ہے مجھے؟”
”ہاں۔”
”کہاں۔”
”تمھارے کالج۔” وہ اب کالج کا نام بتا رہا تھا۔
”تم وہاں بھی پہنچ چکے ہو۔” میں نے بے ساختہ کہا۔
”میں کہاں نہیں پہنچ چکا۔” اس نے مزے سے کہا اور پھر اسی سانس میں بولا۔
”کیا میں نے تمھیں یہ بتایا ہے کہ تم بہت خوبصورت ہو؟”
”نہیں۔” میں نے بے اختیار کہا۔
”تم بہت خوبصورت ہو۔” میں چند لمحے کچھ بول نہیں سکی اور اس سے پہلے کہ میرے حواس بحال ہوتے امی لاؤنج میں آ گئی تھیں۔
”کس کا فون ہے؟” انھوں نے کہا۔
”آہ… صوبیہ… صوبیہ کا۔” میں بے اختیار ہکلائی۔
”اچھا مگر اب بس کرو۔ بہت دیر سے باتیں کر رہی ہو تم اس کے ساتھ۔” انھوں نے کہا
”جی۔”
”بس خدا حافظ کہہ دو اسے۔” امی نے مزید کہا۔
میں نے ریسیور دوبارہ کان سے لگایا۔ ”خدا حافظ۔” اور دھڑاک سے ریسیور رکھ دیا۔
”کچن میں برتن پڑے ہیں انھیں صاف کر دو۔” امی نے لاؤنج سے نکلتے نکلتے کہا۔
”میں کر دیتی ہوں۔” میں نے کھڑا ہوتے ہوئے کہا۔ مگر اس وقت میرا ذہن کہیں اور تھا… اور دل… پتہ نہیں وہ تو شاید کہیں تھا ہی نہیں۔

**…**…**




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!