دربارِدل — قسط نمبر ۱

”مہر اب اخبار کیوں اٹھا لیا؟” امی نے گھر پہنچتے ہی مجھے لاؤنج میں پڑا اخبار اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف جاتے دیکھ کر کہا۔
”تمھیں کہا ہے کہ تم جا کر سو جاؤ… اور تم پھر اخبار لے کر بیٹھنے لگی ہو… پھر کوئی ایسی ویسی خبر پڑھ لو گی تو…” انھیں پریشانی لاحق ہوئی۔
”میں سونے لگی ہوں… اگر نیند نہیں آئی تو اخبار دیکھوں گی…” میں نے امی سے کہا۔
”ڈاکٹر نے کہا ہے تم سے کہ ٹیبلٹ لے کر لیٹنا… پھر نیند کیسے نہیں آئے گی۔” میں نے امی کی بات کو نظر انداز کر دیا اور اخبار لے کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ مگر اخبار پڑھنے کی بجائے میں نے دراز کھول کر اس میں رکھ دیا اور اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ بابا تھوڑی دیر میں میرے کمرے میں آ کر مجھے دیکھیں گے وہ گاڑی اندر کھڑی کر رہے تھے۔
اور ایسا ہی ہوا تھا۔ انھوں نے کچھ دیر بعد دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ مجھے آنکھیں بند کیے لیٹا دیکھ کر وہ مطمئن ہو گئے اور دروازہ بند کر کے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اخبار نکال کر میں نے اس کے ایک ایک صفحے پر ایک ایک کالم… ایک ایک خبر چھان ماری۔ وہاں خیابان شمشیر پر بائیک کے کسی حادثے کے بارے میں کچھ نہیںتھا۔ 24 گھنٹوں میں پہلی بار مجھے اپنے اندر زندگی کی رمق محسوس ہوئی۔ وہ مر گیا ہوتا تو خبر ضرور ہوتی… ہو سکتا ہے وہ زندہ ہو صرف زخمی ہو… اور زخموں کا کیا ہے وہ تو بھر جاتے ہیں مندمل ہو جاتے ہیں۔ میں نے ایک بار پھر دھڑکتے دل کے ساتھ پورے اخبار کو دیکھا… پھر ایک ایک سطر… ایک ایک خبر… ایک ایک لفظ… نہیں کل خیابانِ شمشیر پر کسی ایکسیڈنٹ میں کوئی نہیں مرا تھا۔ میرے ہاتھ کپکپانے لگے… تو کیا وہ زندہ تھا… نہیں… زندہ ”ہے” اور اگر زندہ ہے تو… میں بیڈ سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور اگر زندہ ہے تو… تو… میں کمرے کے چکر کاٹنے لگی اور تب مجھے اللہ یاد آیا وہ اللہ جو انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے… جس کے ہاتھ میں موت اور زندگی ہے۔
”دعا ایسے مانگنی چاہیے کہ انسان کو اس ایک چیز کے علاوہ کسی اور چیز کا خیال نہ رہے… اور دعا ہر وقت مانگتے رہنا چاہیے۔” میری امی نے بچپن میں ایک بار مجھ سے کہا تھا… اور میں نے دعا کے دوران اپنے ذہن کو فوکس کرنا سیکھ لیا تھا۔ میں Unifocal ہو کر دعا مانگا کرتی تھی… میرا ذہن اس ایک چیز کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف جاتا ہی نہیں تھا… کوئی دوسرا خیال میرے پاس بھٹکتا تک نہیں تھا۔ اور میں جانتی تھی میری دعائیں قبول ہوتی تھیں اور یہ صرف میں نہیں جانتی تھی… دوسرے بھی کہتے تھے… ”مجھے دعا مانگنا آتا تھا۔” یا پھر یہ کہوں کہ مجھے اللہ سے مانگنا آتا تھا۔ مجھے لگتا تھا میری دعا اس لیے بھی قبول ہوتی تھی کیونکہ میں صراط مستقیم پر تھی… میں گناہ سے اپنے آپ کو بچاتی تھی۔ آلائشوں سے خود کو دور رکھتی تھی… ذہنی غلاظت سے کوسوں دور بھاگتی تھی… اور میں… میں عبادت بھی کرتی تھی… بغیر کسی خاص مقصد کے… بغیر کسی خاص وجہ کے… صرف اس لیے کیونکہ عبادت اللہ کو خوش ”کرتی” ہے… اور خوش ”رکھتی” ہے… سو آفات سے بچاتی ہے… اور تب میری زندگی کا ایک ہی مقصد تھا… اللہ کو خوش رکھنا… طمانیت قلب پانا۔
تب اللہ سے پیار تھا مجھے… وہ ہر وقت اپنے پاس محسوس ہوتا تھا… میں سوچتی تھی اس کے بارے میں… ان چیزوں کے بارے میں جو اسے خوش کرتی ہوں گی… ان چیزوں کے بارے میں جو اسے ناراض کرتی ہوں گی… اور شائد یہ محبت اس لیے بھی تھی کیونکہ میں تہجد پڑھتی تھی۔ رات کے پچھلے پہر… جب ساری دنیا سو رہی ہوتی تھی۔ مجھے لگتا تھا نماز تو دن میں کروڑوں لوگ پڑھتے ہوں گے جو نہیں بھی پڑھتے ہوں گے وہ نماز کے بغیر بھی اللہ کو پکارتے ہوں گے… مگر رات کو تہجد کے وقت اللہ کے پاس میرے لیے زیادہ وقت، زیادہ توجہ ہوگی۔ اس وقت اس کے پاس لوگوں کا رش نہیں ہوگا اس وقت وہ مہر سمیع کی باتیں زیادہ غور سے سنے گا… محبت میں بھی تو ایسا ہی ہوتا ہے سب سے زیادہ قرب تب پیدا ہوتا ہے جب دو محبت کرنے والے اتنا وقت پاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے کچھ کہہ سکیں اور سب سے زیادہ انہماک تب پیدا ہوتا ہے جب آس پاس کوئی ایسی شے نہ ہو جو توجہ بھٹکائے…





اور رات کو خاموشی تنہائی میں اللہ کے سوا اور کون ہوتا ہے جو توجہ اپنی طرف کھینچے… تو میں رات کو تہجد میں اللہ سے بات کیا کرتی تھی اور پتہ نہیں کیوں مگر میں کبھی تہجد میں اس طرح دعا نہیں کرتی تھی جس طرح نماز کے بعد کرتی تھی… مجھے لگتا تھا ہر وقت اللہ سے ”مانگنے” کے لیے میں کیا اس کی عبادت کروں… کبھی صرف اللہ کا ”شکر” ادا کرنے… اسے یہ بتانے کے لیے بھی تو مجھے اس کے سامنے جھکنا چاہیے کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں… بے پناہ محبت… لوگ تہجد صرف مانگنے کے لیے پڑھتے ہیں… جو چیز سارا دن عبادت کر کے نہ ملے… وہ تہجد میں مانگی جائے… تب دعا مقبول ہوتی ہے… اور میں سوچتی تھی نہیں تہجد کے وقت مجھے صرف اللہ کو یہ بتانا ہے کہ اس نے مجھے کتنا خوش قسمت بنایا ہے۔ مجھ پر کتنی نعمتیں نازل کی ہیں۔ کتنا رحم کیا ہے… اور یہ بتانا ہے کہ میں اس کی کتنی شکر گزار تھی… اور مجھے… مجھے اس سے محبت تھی… بس… اور کچھ نہیں… مانگنا وغیرہ دن کے لیے… ہاں بس ایک چیز کے لیے ضرور کہتی تھی… ”رحم”
”تم بہت عبادت کرتی ہو مہر… تم بتاؤ اگر انسان اللہ سے دعا کر ے تو اسے اپنے لیے کیا مانگنا چاہیے۔” کالج میں ایک بار صوبیہ نے مجھ سے پوچھا تھا۔ ”انسان کو اللہ سے کیا مانگنا چاہیے؟” میں سوچ میں پڑ گئی۔ ”انسان کو اللہ سے ”رحم” مانگنا چاہیے۔” ”رحم؟” اس نے دلچسپی سے کہا۔ ”ہاں اللہ رحم کرے گا تو بھوک میں کھانا بھی دے گا، خالی جیب میں روپیہ بھی دے گا، ننگے جسم پر لباس بھی دے گا، تکلیف سے نجات بھی دے گا، بیماری سے شفا بھی دے گا… اگر وہ رحم کرے گا تو۔” میں نے اطمینان سے کہا۔ ”ورنہ وہ یا تو دولت دے گا، یاعزت، یا محبت، یا شہرت یا وہ خاص چیز جو تم مانگو گی… مگر تم ایک وقت میں آخر کتنی چیزیں مانگو گی کچھ نہ کچھ تو بھول جائے گا تمھیں… پر صرف رحم مانگ لینے سے… اس نے میری بات کاٹی۔ ”تم رحم مانگتی ہو؟” ہاں… ہر روز رات کو تہجد میں… میں ”شکر ادا کرتی” ہوں اور ”رحم مانگتی” ہوں۔ میں نے فخریہ انداز میں کہا۔
اور اب… اب میں زندگی میں پہلی بار کچھ اور مانگنے کے لیے اللہ کے سامنے جھکی تھی… مومی کی زندگی… بس اس کی زندگی… میں نے اس رات کسی نعمت کا ”شکر ادا” نہیں کیا صرف ”مانگا”… اور بے حد خود غرضی سے… انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی اللہ کو اپنی نیکیاں، اپنی عبادت ”جتاتا” ضرور ہے… کبھی نہ کبھی اس سے مول تول کے لیے ضرور بیٹھتا ہے… کبھی نہ کبھی اس سے عبادت کا سودا کرنے کے لیے اپنے اور اس کے رشتے کو Purely commercial ضرور بناتا ہے… میں نے بھی بنایا تھا میں نے بھی اپنی فرمائشوں کی فہرست اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے وہ میری عبادتوں کا ”اجر” دے… مومی کی زندگی کی صورت میں… میرے دل کو نہ اُجاڑے… مومی کو میری زندگی سے نہ نکالے… یوں… اس طرح… اتنے لوگوں کو محبت مل جاتی ہے۔ مجھے بھی مل جائے… اتنے گناہ گار لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں… میری بھی ہو جائے… میں نے اللہ سے کہا تھا کہ
(1) مومی دوبارہ مجھ سے رابطہ کرے۔
(2) اور اپنی مدد کے لیے اس دن نہ آنے پر بھی مجھے معاف کر دے… میں نے اللہ سے کہا تھا۔
(3) کہ وہ صحیح سلامت ہو۔
(4) اسے چوٹیں نہ آئی ہوں…
(5) اسے خراش تک نہ آئی ہو…
میں نے اللہ سے کہا تھا۔
(6) کہ مومی مجھے مل جائے…
(7) میری شادی اس سے ہو جائے…
(8) وہ مجھے اتنا چاہے جتنا میں چاہتی ہوں…
میں نے اللہ سے کہا تھا کہ کوئی میری طرح بے غرض بے لوث ہو کر اس سے محبت نہیں کرتا رہا… کوئی میری طرح دل اور دماغ ایک جگہ رکھ کر اس کی عبادت نہیں کرتا رہا… پھر کیا وہ مہر سمیع کو دوسرے لوگوں کی طرح Treat کرے گا… ان میں اور مجھ میں کوئی فرق ہی نہیں رکھے گا… میں نے بلک بلک کر اسے اپنی ہر نیکی جتائی… پھر مجھے لگا شاید اللہ اتنی بہت ساری دعائیں قبول نہیں کرے گا میں بھی تو معجزے چاہ رہی تھی۔ اپنے کانوں سے مومی کی چیخیں سننے کے باوجود یہ چاہ رہی تھی کہ اسے خراش تک نہ آئی ہو… ایک قطرہ خون تک نہ بہا ہو… اس کے لیے کچھ نہ کرنے کے باوجود یہ چاہتی تھی کہ وہ مجھ سے ہی محبت کرتا رہے… مجھ سے ہی شادی کرے…
اور پھر میں نے بھی وہی کیا جو ہم سب کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اپنی دعاؤں کی فہرست کو چھوٹا کرنا شروع کر دیا… ایک ایک کر کے اس میں سے چیزیں کم کرنا شروع کر دیں… اور یہ کام ہی انسان کی زندگی کا سب سے کٹھن امتحان ہوتا ہے۔ آخر وہ کون سی ایک چیز ہے جس کے لیے وہ باقی سارے مطالبات ساری خواہشات چھوڑ دیتا ہے… صرف ایک چیز؟… اور میں نے اللہ سے کہا تھا… وہ مومی کو زندگی دے دے… چاہے اس کو میرا مقدر نہ بنائے مگر اس کو زندگی دے دے… اور یہ دعا کرتے ہوئے میں نے جیسے کسی تیشے کے ساتھ اپنے دل کو کاٹ ڈالا تھا… وہ مجھے نہ ملتا تو میری زندگی کیا رہ جاتی؟… پر میرے لیے کافی تھا کہ وہ تو زندہ ہوتا… وہ شخص جس کو میں نے چاہا تھا جس سے محبت کی تھی… اس کے بعد میں نے وہی کیا جو ہم سب کرتے ہیں۔ اس چیز کا بتاتے ہیں جسے ہم مانگے جانے والی چیز کے لیے قربان کر سکیں… اور میں نے اللہ سے کہا تھا وہ مومی کو میری زندگی بھی دے دے… مگر اس کو زندگی دے دے…
اس رات تہجد میں بلکتے ہوئے مجھے لگا اللہ میرے قریب ہے وہ میری سن رہا ہے میری دعا میں خشوع و خضوع تھا… وہ سب تھا جو دعا کو مقبول کرتا ہے… رقت، آنسو، گریہ، عاجزی، بے قراری، بے تابی، یکسوئی، بے بسی… سب کچھ تھا۔
تب تک اللہ پر بڑا مان تھا مجھے… ساری عمر مجھے یہ گمان رہا کہ میں… میں مہر سمیع کبھی اللہ کے سامنے جھکوں… ہاتھ بڑھاؤں… جھولی پھیلاؤں اور اللہ… اللہ… ”میری”… ”میری”… دعا قبول نہ کرے… میرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دے؟… ناممکن… عجب غرور تھا مجھے اپنی دعا پر… یا پھر شاید اللہ سے اپنے تعلق پر… مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھے تو خالی ہاتھ لوٹائے گا ہی نہیں… گمان، فریب، غرور، خوش فہمی… جو چاہے کہہ لیں… پر میں یہی تھی… ایسی ہی تھی مہر سمیع جگنو کے پیچھے چلتے ہوئے جنگل سے گزر جانے کی تمنا رکھنے والی… زندگی میں جب پہلے سب کچھ اللہ نے دیا تھا تو پھر اب کسی اور سے جا کر کیوں مانگتی… اور دنیا میں ”کوئی اور” تھا کیا؟… کم از کم میرے لیے نہیں تھا۔
……***……
میں اگلے دن لاؤنج میں رہی تھی… ایک فون کال کے انتظار میں… سارا دن وہیں… ساری دوپہر… ساری شام… پھر رات… اور بالآخر فون کی گھنٹی بجی تھی… میرا دل بے اختیار اُچھلا… میں نے پہلی گھنٹی پر فون اٹھایا۔
”تم آج کالج کیوں نہیں آئی؟” وہ صوبیہ تھی میرا دل ڈوب گیا۔
”ایسے ہی۔” میں نے بجھی آواز میں کہا۔
”تم ایسے ہی چھٹیاں کرنے والی تو نہیں ہو۔” صوبیہ نے جواباً کہا۔
”میں سونے جا رہی تھی صوبیہ۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی… میں نے اس سے کہا۔
”اتنی جلدی سو جاؤ گی تم؟” وہ حیران ہوئی۔
”ہاں بس طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” میں چاہتی تھی وہ جلد از جلد فون بند کر دے۔
”کیوں طبیعت کو کیا ہوا؟” صوبیہ پریشان ہوئی… میں اس سے زیادہ… آخر بات لمبی کیوں ہو رہی تھی… اگر اس دوران مومی نے فون کرنے کی کوشش کی اور فون بزی ہوا تو…
”سر میں درد ہے۔”
”صبح کالج آؤ گی؟”
”نہیں۔”
”پرسوں؟”
”ہاں… اچھا خدا حافظ۔” میں نے اس کے کسی مزید سوال سے پہلے فون رکھ دیا۔
”تم اب جا کر سو جاؤ… مہر… صبح سے یہیں بیٹھی ہوئی ہو۔” امی لاؤنج میں آ گئی تھیں۔
”میں ابھی سو جاؤں گی… TV دیکھ رہی ہوں۔” میں نے بہانہ بنایا۔
”TV دیکھنا تو اب بند ہی کر دو تو بہتر ہے پہلے ہی کتنا مسئلہ ہوا ہے۔”
”امی میں سپورٹس چینل دیکھ رہی ہوں۔”
”یہ سپورٹس میں تمھیں دلچسپی کب پیدا ہو گئی۔” امی نے حیرانگی سے میرا چہرہ دیکھا۔
TV پر کوئی کرکٹ میچ چل رہا تھا اور مجھے کرکٹ کی الف بے کا بھی پتہ نہیں تھا۔ مزید بات کرنے کی بجائے میں TV آف کرتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔ مگر میں نے کمرے کا دروازہ بند نہیں کیا۔ وہ 9 بجے کے قریب فون کرتا تھا… اب دس بجنے والے تھے… میں ساری رات جاگتی رہی… اور میں نے پھر تہجد پڑھی… پھر وہی سب دعائیں… اور پھر وہی دعا ایک رات اور گزر گئی۔ پھر اگلا دن… پھر اگلی شام… پھر اگلی رات… رات کا پچھلا پہر… تہجد… دعائیں… ”دعا”… ایک اور دن… ایک اور رات… ایک اور دن… ایک اور رات… ایک اور دن… ایک اور رات…
میں پورا ہفتہ کالج نہیں گئی… امی اور بابا میں سے کسی نے مجھے جانے کو کہا بھی نہیں… وہ سمجھتے تھے ابھی آرام میرے لیے بہتر ہے… آرام؟ میں انسومنیا کا شکار ہو رہی تھی… میں ساری رات جائے نماز پر عبادت کرتے اور فون کی گھنٹی کے انتظار میں گزار دیتی… اور سارا دن لاؤنج میں فون کے پاس… نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے میری آنکھوں کے گرد حلقے پڑ رہے تھے… میری بھوک پیاس ختم ہو گئی تھی… امی اور بابا میرے بارے میں اور پریشان ہو رہے تھے۔ امی کو یقین تھا مجھے کسی کی نظر لگ گئی تھی… وہ پتہ نہیں پانی پرکیا کیا دم کر کر کے مجھے پلاتی رہتیں… رات کو پتہ نہیں کتنی سورتیں پڑھ کر مجھ پر میرے بستر پر میرے سرہانے پر میرے کمرے کے کونوں میں پھونکتی رہتیں… اور جب وہ مطمئن ہو کر کمرے سے چلی جاتیں تو میں اپنے کمرے سے باہر سیڑھیوں میں آ کر بیٹھی رہتی… اور پھر وہاں سے مصلےٰ پر… میری فرینڈز میری کالج سے غیر حاضری کے بارے میں جاننے کے لیے بار بار مجھے فون کرتیں اور میں ان کا فون ریسیو نہیں کرتی… امی ان کو ہر روز کہتیں وہ کل آئے گی… میں اگلے دن پھر نہیں جاتی… اس فون کے علاوہ دنیا میں اور کچھ نہیں رہا تھا میرے لیے۔
ایک ہفتے کے بعد بابا کے اصرار پر میں کالج چلی گئی تھی… انھیں لگ رہا تھا کہ گھر پر رہ کر مجھ پر زیادہ برا اثر پڑ رہا ہے۔ میری فرینڈز مجھے دیکھ کر حیران ہو گئی تھیں۔ میرا چہرہ واقعی ایسا ہو رہا تھا جیسے میں کسی لمبی بیماری سے اٹھ کر آئی تھی۔ ”تمھیں کیا ہوا ہے مہر؟” ثنا نے بے حد پریشانی کے عالم میں کہا۔
”بس کچھ دن بخار رہا تھا۔” میں نے مسکرانے کی کوشش کیے بغیر کہا۔
”بخار تھا تو کم از کم ہمیں فون پر کہتی ہم تمھیں ملنے آتے۔” سمیعہ نے ناراضگی سے کہا۔
وہ سارا دن اور بھی پتہ نہیں کیا کیا کہتی رہی تھیں۔ ان کی آدھی باتیں مجھے سمجھ آ رہی تھیں باقی آدھی نہیں… میرا دھیان گھر کی طرف تھا فون کی طرف تھا…
”اور بخار آخر ہو کیسے گیا تمھیں؟” ثنا نے مجھ سے پوچھا۔
”اب یہ میں کیسے بتاؤں کہ مجھے بخار کیسے ہو گیا… جیسے سب کو ہوتا ہے ویسے ہی ہوا ہے۔” مجھے اس کا سوال عجیب لگا۔




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!