دربارِدل — قسط نمبر ۱

”کیا ہوا مہر؟”
”کچھ نہیں۔”
”چپ کیوں ہو اتنی؟”
”ایسے ہی۔”
”ساری رات جاگتی رہی ہو کیا؟”
”نہیں۔”
”پھر آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہیں؟”
”ہاں۔”
”ہاں کیا؟” ”رات کو جاگتی رہی ہوں۔”
”کیوں؟”
”سر میں درد تھا۔”
”تو کوئی ٹیبلٹ لے لیتی۔”
”کس لیے؟”
”سر درد کے لیے۔”
”ہاں… لی تھی۔”
”پھر بھی نیند نہیں آئی؟”
”کس کو؟”
”تم کو مہر اور کس کو… میں کیا پوچھ رہی ہوں تم کیا جواب دے رہی ہو۔” صوبیہ بالآخر چلاّ اٹھی تھی۔ میں نے بے چارگی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ میں واقعی بالکل غائب دماغ تھی… صبح سے کالج آنے کے باوجود ہر کلاس چھوڑ رہی تھی… اور اب جب صوبیہ آ کر پاس بیٹھ گئی تھی تو مجھے اس سے بھی اُلجھن ہو رہی تھی میں اس وقت وہاں تنہائی چاہتی تھی۔
”تم آخر ہو کہاں؟” صوبیہ نے میرے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
میں اسے کیا بتاتی کہ میں کہاں تھی… مہر سمیع کہاں تھی؟ کیا میں اسے بتاتی کہ مہر سمیع ”اب” کہیں نہیں تھی۔
……***……





میں ابھی لاؤنج میں داخل ہی ہوئی تھی کہ فون کی بیل بجنے لگی میرا دل جیسے اُچھل کر حلق میں آ گیا۔ بابا نے فون اٹھا لیا۔ میں امی کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی۔
وہ اسی کا فون تھا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے وہ بابا یا امی کے فون اٹھانے پر پہلے کی طرح فون بند کرنے کی بجائے انھیں سلام کر کے فون بند کرتا تھا مگر آج وہ بابا کے ساتھ باتوں میں لگ گیا تھا۔ بابا میرے اتنے قریب صوفہ پر بیٹھے تھے کہ میں دوسری طرف سے آنے والی اس کی آواز صاف سن سکتی تھی۔
”السلام علیکم۔” ”وعلیکم السلام۔”
”بابا نے بھی اس کی آواز پہچان لی تھی۔”
”برخوردار جتنے سلام تم ایک دن میں مجھے اور میری بیوی کو کرتے ہو، اتنے سلام میں نے پوری زندگی اپنی اولاد سے نہیں سنے۔”
”تربیت تربیت کی بات ہوتی ہے۔” اس نے آج خلاف توقع سلام کرنے کے بعد فون بند کرنے کی بجائے کہا۔
”بالکل تربیت تو تم پر ختم ہے… نیکی کمانے کا اتنا شوق کہ سلام کرنے کے لیے تین روپے کی کال کرتے ہو اور وہ بھی دن میں 30 بار۔” بابا اس کو شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
”انسان اس چھوٹی سی زندگی میں جتنی نیکیاں کما سکتا ہے اسے کما لینی چاہئیں اس میں روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔” بابا کے ماتھے پر موجود تیوریوں میں اضافہ ہو گیا۔
”جس قوم میں اسلام کے زریں اصولوں پر اس طرح کی پیروی ہو اور یہ پیروی کرنے والے تم جیسے نوجوان ہوں۔ اس قوم کا انجام جاننے کے لیے فال والے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔” اس بار دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا۔
”بند کر دیا خبیث نے۔” بابا نے فون کا ریسیور رکھتے ہوئے کہا۔
”آپ بھی خوامخواہ کی بحث میں لگ گئے… دفع کرتے اسے۔” امی نے کہا۔
”اب مجھے واقعی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا یہ لڑکا تو واقعی جان کو آ گیا ہے۔” بابا نے اخبار اٹھاتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں کیسے ماں باپ ہوتے ہیں جن کی اولاد یہ سب کچھ کرتی پھرتی ہے اور ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی۔” امی نے چینل بدلتے ہوئے کہا۔ میرے جسم میں ایک عجیب سنسنی سی ہوئی۔
”ہاں ساری بات ماں باپ کی تربیت کی ہی ہوتی ہے… ماں باپ بھی تو کتنے لاپرواہ ہو گئے ہیں آج کل… انھیں اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے۔” بابا نے اخبار پر نظر جماتے ہوئے امی کی بات کی تائید کی۔
”ابھی تو شکر ہے کبھی مہر نے فون نہیں اٹھایا ورنہ وہ پتہ نہیں کیا بدتمیزی کرتا…” میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”تمھیں کیا ہوا؟” امی نے کچھ حیرانگی سے مجھے دیکھا۔
”وہ… میں کالج کی ایک اسائنمنٹ تیار کرنا چاہتی ہوں۔” میں نے خالی الذہنی کے عالم میں امی سے کہا اور اپنے کمرے میں آ گئی۔
زندگی میں بہت بار ماں باپ کا سامنا کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور میں بھی اس وقت نہیں کر پائی تھی۔ انھیں یہ پتہ چل جاتا کہ ان کی ساری اچھی تربیت کے باوجود ان کی بیٹی… میرے خدا… میں کیا کر رہی تھی۔
اپنے کمرے میں شاکڈ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔
اس دن وہاں بیٹھ کر میں نے طے کیا تھا کہ اس رات اس کا فون آئے گا تو میں اسے جتنا برا بھلا کہہ سکتی ہوں کہوں گی… میں اسے بتاؤں گی کہ میں اس سے نفرت کرتی ہوں… اور اس نے آئندہ اگر کبھی فون کیا تو ہم اس کے خلاف ایکشن لیں گے اس کا فون کٹوا دیں گے… اور اور ضرورت پڑی تو پولیس تک کی مدد لیں گے…
مگر اس رات اس کا فون نہیں آیا… میں صبح چار بجے تک اپنے کمرے میں بیٹھی لاؤنج میں فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار کرتی رہی… میں واقعی اس سے کہنا چاہتی تھی کہ میں اس سے نفرت کرتی ہوں… مگر اس کا فون نہیں آیا اور اس دن عشائ، تہجد کے ساتھ ساتھ میں نے فجر کی نماز بھی نہیں پڑھی۔
پھر اس کا فون اگلی رات بھی نہیں آیا اس سے اگلی رات بھی… اس سے اگلی رات بھی نہیں…
میں نے زندگی میں کبھی کسی کے فون کا انتظار اتنی بے تابی سے نہیں کیا تھا… اگلے کئی دن فون کی ہر گھنٹی پر میں اس طرح بھاگتی رہی… اس کا فون نہیں آیا… ایک دن… دو دن… تین دن… چار دن… پانچ دن… چھ دن… سات دن… اور ساتویں دن میں یہ بھول گئی تھی کہ مجھے اس سے نفرت کا اظہار کرنا ہے اور جب میں یہ بھول گئی تو آٹھویں دن اس کا فون آ گیا۔
**…**…**
”تم نے اتنے دن فون کیوں نہیں کیا؟” میں نے اس کی آواز سنتے ہی بے اختیار کہا۔
”تم نے مجھے مِس کیا؟” میں نے بے اختیار فون کا ریسیور رکھ دیا۔ چیک میٹ… اب بس اسی بات کی کسر رہ گئی تھی کہ اسے یہ پتہ چل جائے کہ میں نے اسے مِس کیا… اور میں اس سے کیا کہوں کہ نہیں میں نے تمھیں مِس نہیں کیا… میں نے تمہاری آواز کو مِس کیا… تمہاری کالز کو مِس کیا۔ میں ہونٹ بھینچے سوچتی رہی۔ فون کی گھنٹی دوبارہ بجنے لگی۔ اس بار ریسیور اٹھاتے ہوئے میں جھجھک رہی تھی۔
”ہیلو۔”
”فون کیوں بند کر دیا؟… تمھیں اچھا نہیں لگا کہ میں نے تمھیں فون کیا؟…” میں نے کوئی جواب نہیں دیا… جواب تھا ہی نہیں میرے پاس۔
”میں نے تمھیں اس لیے فون نہیں کیا تھا کیونکہ تم خود منع کر رہی تھی۔” اس نے کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا۔
”تو پھر اب فون کیوں کر رہے ہو؟” میں نے مدہم آواز میں کہا۔
”مگر یہ تو بہت مشکل ہے می می کہ میں تمھیں فون نہ کروں… میں تمھیں فون نہیں کروں گا تو زندہ کیسے رہوں گا۔” میری آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔ میں اس سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ مجھے فون نہیں کرے گا تو ”میں” زندہ کیسے رہوں گی۔
میں نے گھٹنے ٹیک دیے تھے… ہتھیار ڈال دیے تھے… شکست مان لی تھی… ہار کے لیے جو بھی لفظ ڈکشنری میں استعمال ہوتے ہیں میں کسی نہ کسی طرح ہر لفظ کے مفہوم پر پوری اترتی تھی۔ کچھ لوگوں کو اعترافِ محبت زمین سے آسمان پر لے جاتا ہے کچھ کو آسمان سے زمین پر لے آتا ہے… میں پتہ نہیں کس فہرست میں تھی۔
ایک دفعہ اعترافِ محبت کے بعد ساری مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔ آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے پھر آپ دوسرے فریق کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو کچھ کرنا ہوتا ہے اس نے کرنا ہوتا ہے… انا، عزت نفس نام کی چیزیں منٹوں میں غائب ہو جاتی ہیں پھر آپ کا وجود صرف نام کا وجود رہتا ہے… اور میرا… میرا تو شاید نام کا بھی نہیں تھا۔ میں تو مومی کے لیے بالکل موم کی گڑیا ثابت ہوئی تھی… مجھے دوسری لڑکیوں کا نہیں پتہ… مگر میرے دل کو تسخیر کرنے میں تو ایک مرد کو صرف چند ہفتے لگے تھے… چند کالز… چند لفظ… اور میں اس کی تھی… شکل و صورت، تعلیم، حسب و نسب، کردار… حتیٰ کہ نام تک سے تو میں بے خبر تھی… اور میں اس سے کیا تعلق جوڑ بیٹھی تھی… محبت کا… اندھی محبت کا… کیا صرف اس لیے کہ میرا نام مہر تھا… محبت… مجھ پر اس کا اثر تو ہونا ہی تھا۔
”تمہارا نام کس نے رکھا تھا؟” صوبیہ نے ایک بار بہت تنتنا کر پوچھا تھا۔
”ماں باپ نے رکھا ہے اور کس نے رکھا ہے۔” میں اس کے سوال پر حیران ہوئی۔
”انھیں کیا پتہ تھا کہ مہر نام رکھ کر وہ تمھیں محبت سے نفرت کروا رہے ہیں… مجال ہے ذرہ برابر بھی تم پر اپنے نام کا اثر ہو۔” سمیعہ نے کہا۔
”کیوں اثر نہیں ہے کیا میں تم لوگوں سے محبت نہیں کرتی؟… اپنے ماں باپ سے محبت نہیں کرتی؟”
”اور کل کو اپنے شوہر اور بچوں سے بھی محبت کروں گی مگر اور کسی سے نہیں۔” صوبیہ نے میری بات کاٹ کر مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ سمیعہ اور ثنا نے قہقہہ لگایا۔
”مجھے تو خیر یہ بھی یقین نہیں ہے کہ اسے اپنے شوہر سے بھی محبت ہوگی یا نہیں… محبت کے بارے میں یہ جتنے کٹّر خیالات رکھتی ہے اصولی طور پر تو اسے اپنے شوہر سے بھی محبت نہیں کرنی چاہیے۔” صوبیہ نے ایک بار پھر مذاق اڑایا۔
میں محبت کے بارے میں ”کٹر” خیالات نہیں رکھتی میں محبت کے بارے میں ”صحیح” خیالات رکھتی ہوں۔ جس طرح تم بوائے فرینڈز بدلتی رہتی ہو یا بوائے فرینڈز تم کو بدلتے رہتے ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کے تعلقات میں محبت نام کا کوئی Element ہو؟… میں نہیں سمجھتی۔”
”اپنا نام بدلوا لو مہر… بلکہ میں آج سے ہی بدل دیتی ہوں… می می کہا کروں گی میں تمھیں۔” صوبیہ نے اسی وقت میری بات کاٹ کر فیصلہ سنایا اور اس کے بعد وہ مجھے زیادہ تر می می ہی کہا کرتی تھی۔
اور اب میں کم از کم ان سب کے ساتھ بحث میں محبت کے بارے میں وہ سب کچھ نہیں کہہ سکتی تھی جو میں پہلے کہتی تھی… میں تو محبت کے بارے میں ایک لفظ کہنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
……***……




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!