خود غرض — ماہ وش طالب

پانچ سال بعد…
”فضہ یار اُٹھ جا مجھے ناشتا چاہیے دفتر سے دیر ہورہی ہے۔ میں نے پیار سے اپنی پیاری بیوی فضہ کو نیند سے بے دار کیا۔ ”
وہ تھوڑا سا کسمسائی، نیم وا آنکھوں سے سوئی جاگی کیفیت میں مجھے گھورنے کی کوشش کی۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک بار پھر اس سے پیار بھری التجا کی، تو اب کے اس نے بھی بستر چھوڑ دیا۔
”ابھی لائی سرتاج۔” میری گھڑی ٹیبل سے اٹھا کر اس نے مجھے پکڑائی اور ایک ادا سے کہتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی۔
میں دو سالوں تک اپنی زندگی کا مقصد اپنے اس دنیا میں آنے کا جواز ڈھونڈتا رہا تھا۔ اس عورت نے اپنی خود غرضی کے ہاتھوں مجبور ہوکر میری زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر لاوارث ہی سہی، تھاتو میں ایک جیتا جاگتا انسان، جو جذبات سے بھرا دل بھی رکھتا ہے اور سوچوں سے بھرا دماغ بھی۔ پرانی ملازمت سے استعفا دینے کے بعد میں نے دوسری جگہوں پر ملازمت کی درخواست دی۔ اچھی جگہ سے جواب کے انتظار میں بہت سا عرصہ فارغ الوقتی میں گزارا۔ اس دوران میرے ذہن میں بہت سے تخریبی اور تعمیری خیالات نے جنم لیا۔ میں نے نت نئے منصوبے بنائے جن میں سرِفہرست اپنی سوتیلی ماں سے بدلہ لینے کا تھا۔ آئیڈیا جاندار تھا، بس مجھے بہت سنبھل کر اس پر عمل کرنا تھا۔ سب سے پہلے میں نے بے دلی سے اس ضوبیہ نامی عورت سے معافی مانگی جو بدقسمتی سے سوتیلی لیکن میری ماں تھی۔ اسے یقین دلایا کہ میرا قمروش آفاقی نامی لڑکی سے اب کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کہ وہ میرے قابل ہی نہیں تھی۔
میں نے ضوبیہ کی اجازت سے اس کی شاگردی اختیار کرلی تھی۔ گوکہ اسے اس بات پر قائل کرنا میرے لییبہت مشکل رہا تھا، مگر اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے کئی طرح کے دلائل سے میں نے اسے قائل کرلیا۔ پھر وہ بھی جلد ہی مطمئن ہوگئی کہ میرے معمولات میں صرف دو ہی تو ملازمتیں تھیں۔ ایک اس کے عوامل کو انجام تک پہنچانے میں اس کی مدد کرنا اوردوسری میری دفتر کی ملازمت۔ بعض اوقات مجھے اس عورت کے گھٹیا پن سے اس قدر وحشت ہوتی کہ جی چاہتا سب کچھ چھوڑ کر اس سے دور بہت دورچلا جاؤں، مگر یہ جنون کہ مجھے اس سے بدلہ لینا ہے، اپنی اس خواہش پر عمل نہ کرنے دیتا۔
وہ ہفتے میں ایک دن قبرستان جاتی، وہاں سے ہڈیاں اکٹھی کرکے انہیں گھر میں پکاتی اور پھر کئی طرح کے اُلٹے سیدھے وظائف پڑھ کر ان پر پھونکتی تھی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا تھا کہ مختلف طرح کے منتر مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھ عوامل تو ایسے تھے جنہیں وہ تنہا انجام دیتی تھی۔ میں نے ایک دو بار اصرار کیا تو اس نے سختی سے مجھے باز رہنے کی تنبیہ کی۔ ان سب کاموں کے عوض وہ ناصرف بڑے عامل بابا سے بھاری معاوضہ وصول کرتی تھی بلکہ عامل بابا کی چیلی اور مددگار ہونے کی حیثیت سے وہ اسے مزید نئے نئے علوم اور عوامل بھی سکھاتے تھے اور پھر تین سالوں میں شعوری اور لاشعوری طور پر میں بھی ان سب چِلوں اور جادو کے عوامل میں دل چسپی لینے لگا۔
سب سے اہم مرحلہ تو ایک جاسوس کی طرح کسی کے ناخن یا بال حاصل کرنا یا کسی کے کپڑوں پر کچھ پڑھ کر پھونکنا ہوتا تھا۔ پہلے پہل تو بلاشبہ میرے لیے یہ سب کسی ایڈونچر سے کم نہ تھا مگر گزرتے وقت کے ساتھ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھ بھی لیا۔ مثلاً کسی کی سوچ کو کنٹرول کرنا، اسے اپنے تابع کرنا، اس طریقہ کار میں مجھے بہت سے ناقابلِ برداشت کام کرنے پڑے۔ پاکیزگی اور صفائی سے ناتا توڑ کر گندگی اور نجاست سے دوستی کرنا میرے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ چہرہ شناسی پر مہارت حاصل کرنا میرے لیے حقیقتاً بہت دشوار گزار ثابت ہوا تھا حالاں کہ فیس ریڈنگ کرنا یا اس کی صلاحیت ہونا نیچرل سائنسز کی رو سے غلط ہرگز نہیں، مگر کسی بھی کام کو کرنے کی نیت اور طریقہ کار ہی اس عمل کو شر اور خیر کی کیٹگری میںشامل کرتے ہیں۔ یہ تھا بھی تو بے حد انوکھا اورناقابلِ بیان تجربہ یعنی کسی کے دماغ پر حکمرانی کرنا، کسی کے ذہن کو جکڑ لینا۔
نئے دفتر میں ملازمت کے دوران ہی مجھے فضہ ملی تھی۔ سانولی سی مناسب قد وقامت اور تیکھے نین نقش والی فضہ عروج۔ اس کے شروع دن سے ہی میرے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے جنہیں جذباتیت کے سانچے میں ڈھالنے میں، میں نے زیادہ وقت نہ لگایا اور ضوبیہ کو دانستہ طور پر اعتماد میں لینے کی اداکاری کی کہ جو غرض اسے قمروش سے تھی، وہ مقاصد فضہ سے میری شادی کرواکے بھی وہ بہ خوبی حاصل کرسکتی ہے۔ سو اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ بہ خوشی میرے اور فضہ کی شادی پر راضی ہوگئی اور میری پلاننگ کے عین مطابق فضہ سے میرے نکاح کے ٹھیک ایک ہفتے بعد میں نے ضوبیہ کو فوڈ پوائزن دے دیا۔ میں جانتا تھا وہ دوسروں کی زندگیاں قابو کرنے والی خود اتنی جلدی اپنی زندگی کی بازی نہیں ہارے گی۔ سو آخری دنوں میں اسے اندازہ تو ہوگیا کہ اسے بے بسی کے اس دوراہے تک پہنچانے میں میرا ہاتھ ہے، مگر ایک تو وہ اس قدر لاغر اور عمر رسیدہ ہوچکی تھی کہ وہ جلد کوئی جوابی کارروائی نہ کرسکی اور دوسرا میں نے اس کا داؤ اسی پر چلایا یعنی اس کی سوچ کو کنٹرول کیا تاکہ وہ اپنے عامل بابا سے کسی قسم کی کوئی مدد نہ حاصل کرسکے۔ میں نے سوچا تھا کہ اب یقینا میری ایک مکمل فیملی جلد ہی بن جائے گی کہ ضوبیہ کے انتقال کے ایک ماہ بعد سادگی سے فضہ کو رخصت کرواکر میں شہر سے ذرا دور بنے نئے گھر میں لے آیا تھا۔ میں اور وہ بلاشبہ بہت پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ ہاں بس ایک چیز کی کمی تھی۔ دوسال گزر جانے کے بعد بھی ہم دونوں بے اولاد تھے۔ میں نے اپنے عمل اور علم سے معلوم کرنے کی کوشش کی، تو تسلی ہوئی کہ مجھ میں اور فضہ میں کوئی نقص نہیں۔ سو میرے ذہن میں ایک اور خناس بھرا خیال آیا۔ مجھے قمروش آفاقی کے متعلق نئے سرے سے معلومات حاصل کرنی تھی کہ وہ اب کہاں ملازمت کرتی ہے۔ شادی کرچکی ہے اور کہاںرہتی ہے؟
اس کے لیے مجھے پرانے دفتر اور اس کے علاقے میں جانا تھا اور اس کی سوچ کو قابو کرنا تھا۔ کسی بھی طرح سے، اسے دیکھ کر اس کے بال حاصل کرکے یا کسی بھی طریقے سے۔ یہ بلاشبہ بہت محنت طلب کام تھا۔ بہت سی احتیاطیں تھیں جومجھے کرنی تھیں۔ سو میں نے شہر کے مشہور عامل بابا سے رابطہ کیا کیوں کہ مجھے محبوب اپنے قدموں میں کرنا تھا تاکہ فضہ سے مایوسی کی صورت میں کوئی تو ہو جو مجھے اولاد کی خوشی دے اور وہ کوئی قمروش سے بہتر اور کون ہوسکتا تھا۔ اب چاہے وہ خودشادی شدہ ہو یا بال بچوں والی ہو یا پھر اب تک میری یاد میں سلگ رہی ہو۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔دل کے کسی کونے میں تو وہ بھی ہمیشہ سے ہی براجمان رہی ہے سو اب اگر کسی بھی غرض سے اور کسی بھی راستے کو اپنا کر مجھے اس کو حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے، تو میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔
آپ بھی حیران ہورہے ہوں گے کہ بہرام اور خود غرض؟ مگر آپ خود بھی تو سوچیے، لے پالک ہی سہی مگر ہوں تو میں اس جادوگرنی کا بیٹا۔ اپنی زندگی کا اہم اور بیشتر حصہ میں نے اس کی سرپرستی و صحبت میں گزارا تھا۔ سو اگر اس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی نفس پرستی شروع کردی خودغرضی کو اپنی خصلت بنا لیا، تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ یہ معاشرہ یہ ارد گرد کے لوگ جو آپ کو دیتے ہیں، سکھاتے ہیں تو آپ بھی تو معاشرے کو وہی لوٹاتے ہیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Read Next

لیکھ — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!