خود غرض — ماہ وش طالب

موسم بدل رہا تھا۔ آج میں نے نانی کے ساتھ مل کر گرم کپڑے پیٹی میں رکھوائے اور لان اور شیفون کے کپڑوں کو دھوپ لگوانے کی غرض سے چھت پر پھیلا دیا۔ نائمہ اپنی فراغت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے موبائل سے جی بھر کر فیس بک استعمال کررہی تھی۔حالاں کہ میں نے اسے بانو قدسیہ کی ”فٹ پاتھ کی گھاس” پڑھنے کو دی تھی مگر خیر آج تو نانا بھی مالی بننے کے موڈ میں تھے۔ بوگن ویلیا اور موتیے کی کانٹ چھانٹ جاری تھی۔ انار کے پیڑ نے بھی قد نکالنا شروع کردیا۔ مجھے نانی کے گھر کا یہ ہرا بھرا صحن بہت پسند تھا۔ چاروں اطراف پکی دیواروں سے بنائی گئی باؤنڈری کے مرکز میں بڑی سی مستطیل کیاری تھی جس کے وسط میں انار کا پیڑ اور اطراف میں دیگر چھوٹے بڑے پودے بہار دکھانے کو تیار تھے۔
غسل لینے کے بعد میں نے نانی کے لیے سویاں تیار کیں۔ کچھ کھانے کا دل نہ ہوتا تو وہ دودھ میں پکی دیسی سویاں بہت شوق سے کھاتی تھیں۔ پھر اپنے اور نانا کے لیے چائے بنا کر میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی جو اب رات کی رانی کی کتر لگا رہے تھے۔
”جیتی رہو بیٹی۔”
”نانا جی آپ کو ڈر نہیں لگتا؟” میری نظریں پیڑ کی سفید ڈوڈیوں پر تھیں۔
”کیسا ڈر ؟” نانا چوکی پر بیٹھ کر اطمینان سے چائے پینے لگے۔
”رات کی رانی اور سانپ کے آجانے سے۔” یہ پودا دو دن پہلے اکیڈمی سے واپسی پر نانا قریبی نرسری سے خرید کر لائے تھے اور آج انہیں اس کی دیکھ بھال کی فرصت ملی تھی اس کا حال احوال پوچھنے کی۔
”اوہو! کردی نا جاہلوں والی بات۔”
”اس میں جاہلوں والی کیا بات ہوئی؟ سب ہی کہتے ہیں رات کی رانی گھر میں رکھنے سے سانپ آتے ہیں، تو پھر آپ کیوں لائے اس کی شاخیں۔”
”اے بیٹا ہوش کے ناخن لو یہ توہم پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔”
”نانا! ہم ہر بات کو توہم پرستی کہہ کر ٹال تو نہیں سکتے نا۔ کچھ تو سچائی ہوگی اس میں بھی۔” میں بحث کے موڈ میں تھی۔
”میری چندا! رات کی رانی ہی تو صرف خوشبودار پودا نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کی مہک میں شدت بہت ہوتی ہے، مگر دنیا میں اس سے زیادہ دل فریب خوشبو والے پھول ہیں۔ تم گلاب کو ہی لے لو، یہ اپنی روز میری ہے۔ ان کی مہک سے تو جی ہی نہیں بھرتا۔” نانا کے اپنی روز میری کہنے پر گمان ہوا جیسے پڑوس میں رہتی کسی گوری دوشیزہ کی بات کر رہے ہوں۔
”یہ بس انسان کے ذہن کی باتیں ہیں جس چیز پر یقین کرلے وہ ہے اور جس پر نہ کرے اس چیز کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔”
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کچھ لوگ جن بھوتوں کے وجود پر یقین نہیں رکھتے تو کیا وہ ہیں ہی نہیں۔” میں نانا کی نرالی منطق سے کچھ کچھ متفق ہوئی تھی ۔
”ناری مخلوق کے وجود کو تو ہم کسی صورت چیلنج نہیں کرسکتے۔ جب قرآن نے کہہ دیا، تو پھر منکر ہونے کی گنجائش نہیں بیٹا۔”
”اور جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل نہیں ان کا تو آوے کا آوہ ہی بگڑ چکا۔”




”ہاں بحیثیت مسلمان ناری مخلوق کے صرف وجود کو تسلیم کرنا یا اپنے اوپر ان کی روحوں کو سوار گمان کرلینا دو مختلف صورتیں ہیں۔ پھر ان میں انسانوں کی طرح ہی اچھائی برائی بھی پائی جاتی ہے مگر پاکیزہ روح کو یہ کبھی نقصان نہیں پہنچاتیں۔ جو شر انگیز گروہ ہے، وہ سب گندگی کی پیداوار ہے اور غلاظت ہی ان سب کی طاقت بنتی ہے۔”
”بہر حال جو لوگ ان کے وجود سے انکار کرتے ہیں وہ خود کو دھوکا دیتے ہیں اور اس چیز کا وبال انہی پر ہے۔” بات کہاں سے کہاں نکل گئی تھی مگر یہ گفتگو تھی دل چسپ۔
ڈیڑھ ماہ تک فارغ الوقتی کی سند لینے کے بعد دھکے سے ہی سہی۔ نائمہ نے نانا کے ساتھ ان کے دوست کی اکیڈمی جانا شروع کردیا تھا۔
گرمی شدید ہو چلی تھی اور لو اعصاب کو تپا دیتی تھی۔ آج گھر میں قرآن خوانی تھی لہٰذا میں نے دفتر سے چھٹی کی۔ بہرام نے مجھے خاص طور پر تاکید کی تھی کہ میں اس کے لیے دل سے دعا کروں۔ بھلا یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی ؟ میرا تو رواں رواں اس کی اور اپنی سلامتی کی دعائیں کرتا تھا۔ خیر میں نے اور نائمہ نے تخت والے کمرے کی خوب صفائی کی۔ فرش پر خوب صورت پرنٹ شدہ سفید چادریں بچھائیں۔ کمرے کے وسط میں بڑی میز رکھ کر سپارے اور سورۂ یٰسین ترتیب دی۔ کمرے کے نکڑ پر رکھے اسٹینڈ میں اگربتیاں جلا کررکھیں اور پڑھائی کرنے والی خواتین کے آنے کے بعد خود بھی سپارہ پکڑ کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ دوگھنٹے بعد جب میں اور نائمہ کھانا لگارہے تھے تو وہی خاتون وارد ہوئی جس سے نہ جانے کیوں میرا یک طرفہ بیر بندھ گیا تھا۔ اس کے لیے بیٹھنے کی جگہ بنانے کے بعد میں نے اسے پہلے میٹھا پیش کیا، مگر اس نے محض ہاتھ کے اشارے سے بہ غور میری جانب دیکھتے ہوئے منع کردیا۔ مجھے یک دم شدید گھبراہٹ ہوئی۔
پھر جب ہجوم چھٹا تو اس نے اپنے دیر سے آنے کی وضاحت نانی کو دی ۔ بہ قول اس کے وہ اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں گئی ہوئی تھی اور جلدی جلدی کرتے بھی وقت زیادہ ہوگیا سو وہ نہ آسکی۔
”ہونہہ۔” میں جی ہی جی میں تلملانے لگی۔ ہر محلے میں دوچار خواتین ایسی ضرور ہوتی ہیں جو پڑوس کی محفل و میلاد پر عین کھانے کے وقت پہنچ کر حیلے بہانے بنانا شروع کردیتی ہیں اور یہ موصوفہ بھی پڑوسیوں کی یقینا اسی قسم سے تعلق رکھتی تھیں۔ پھر بات کرتے کرتے نہ جانے کیا ہوا کہ وہ بے ڈھنگ سا کھانسنے لگی۔
”کیا ہوا ضوبیہ! نائمہ بیٹا جا پانی لے کر آ۔” انہوں نے سپاروں کو غلاف میں لپیٹتی نائمہ سے کہا۔
”پانی سے کچھ نہیں ہوگا مجھے دراصل خوشبو سے الرجی ہے۔” اس نے کہا تو میں نے کونے میں رکھے اگر بتی والے گلدان کو دیکھا جس میں سلگتی بتیاں پوری طرح مہک رہی تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر وہ ساری بجھائیں اور گلدان خالی کرنے کی غرض سے باورچی خانے میںلے گئی۔
”عجیب ڈراما ہے یہ عورت۔”
”کون ؟” مجھینائمہ کی موجودگی کا احساس ہی نہیں رہا۔
”کچھ نہیں۔” بڑبڑاتے ہوئے میں دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
”نانی یہ آپ نے اس عجیب الخلقت عورت سے اتنا دوستانہ کیوں بنا لیا ہے۔” سب کے جانے کے بعد بالآخر میں نے سوال کرہی ڈالا ۔
”تم کس کی بات کر رہی ہو ؟”
”ارے وہی سرمے کی ڈوئی۔”
”بہت غلط بات ہے قمروش۔ اس نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟ بے چاری اتنی اچھی تو ہے۔ نئی پڑوسن ہے ہماری۔”
”نئی تو خیر اب نہیں رہیں، چھے ماہ ہوچکے ہیں اور بے چاری کی خوب کہی آپ نے گھر میں کوئی نہیں اس کے جو ہر وقت ہمارے گھر آ موجود ہوتی ہے۔”
”بے اولاد ہے وہ اور بیوہ بھی۔ لکڑی کے کھلونے بنا کر اور بیچ کر گزارا کرتی ہے۔”
نانی نے بتایا تو مجھے کچھ لمحوں کے لیے چپ لگ گئی۔ فوراً جی میں استغفار کی۔
قبل اس سے کہ ہمارے درمیان بحث جاری رہتی، دروازے پر ہونے والی مخصوص دستک کے باعث دونوں کو خاموش ہونا پڑا۔ نانا پھلوں کیتھیلے سمیت اندر داخل ہوئے تھے۔
٭…٭…٭
آج آفس سے واپسی پر کالونی کے قریب پہنچ کر مجھے دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑا کہ بلدیہ والوں کی مہربانی سے گٹر اُبلنے کو بے تاب تھے اور سیوریج کے لیے مشینیں شاید نمائش کے لیے کھڑی کی گئی تھیں اور یہ تقریبِ نمائش سال میں دو بار ضرور ہوتی۔
”اب یہ مصیبت نہ جانے کب تک رہنی تھی۔” میں غصے سے بڑبڑا کر رہ گئی۔ دوسرا راستہ نسبتاً صاف مگر ویران تھا۔ سڑک کے ایک طرف اِکا دُکا خستہ حال مکان تھے جب کہ دوسری جانب خالی پلاٹوں کی لمبی قطار تھی جہاں کہیں سبزہ، کہیں کچرا تو کہیں خود رو پودوں کی بہتات تھی۔ سہ پہر تک تو یہاں پھر بھی کالونی کے لڑکے کھیل لیتے مگر شام ہوتے ہی سناٹا اس گلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ اب بھی میرے علاوہ چند ایک ہی گاڑیاں تھیں۔ پورا چاند جگمگانے کو تیار، نیلے گگن کی بلندیوں پر سفر کر رہا تھا ۔ میری گاڑی جوں ہی سڑک کے وسط میں پہنچی، انتہائی تیز بدبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔
”اونہہ۔” بے اختیار میں نے دایاں ہاتھ اپنی ناک پر رکھا۔ جلدی سے وہاں سے گاڑی گزارتے ہوئے میں گلی کے آخری سرے تک پہنچی اور کب کی روکی سانس بحال کی۔ سیوریج کا کام ہفتہ بھر چلتا رہا تھا۔
”حد ہے نالائقی کی۔” چوتھے دن بھی واپسی پر جب مجھے اسی غلیظ راستے سے گزرنا پڑا تو میں بڑبڑائے بغیر نہ رہ سکی۔ آج بھی پچھلے تین دن والا حال تھا۔ میں جیسے ہی آدھی سڑک پار کرتی۔ بے حد غلیظ بدبو میرے نتھنوں کا احاطہ کرلیتی۔
میں وثوق سے کچھ نہیں کہ سکتی تھی مگر یوں لگتا تھا جیسے … جیسے وہ سڑے ہوئے گوشت کی بو ہو، لیکن ایک ہی طرح کی بو ہر روز ایک ہی جگہ پر۔ کیا یہاں کوئی جانور ذبح کیے جاتے ہیں جو تعفن زدہ گوشت کی بو آتی ہے؟ کون لوگ یہ کام اتنی مہارت سے کررہے ہیں کہ کوئی انہیں پکڑتا ہی نہیں ؟حیرت در حیرت تھی۔ سوچا آج نانا سے بات کروں گی۔
”قمروش بیٹی! تم بھی تو اسی راستے کا استعمال کر رہی ہو تمہیں کسی عجیب صورت حال کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا۔” خلافِ توقع نانا مجھ سے زیادہ بھرے بیٹھے تھے۔
”صورتِ حال تو نہیں پر بہت ہی تیز بہت ہی گندی بدبو ہے جو روز مجھے سر درد لگا دیتی ہے۔ اب تو اتنی عادت ہوگئی ہے کہ رات کو سوتے میں بھی مجھے اطراف سے بو آتی محسوس ہوتی ہے۔” میں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا مگر نانا پتا نہیں میری بات غور سے سن رہے تھے یا نہیں کہ ان کی نگاہیں کسی غیر مرئی نقطے پر تھیں۔
”اللہ جانے کون لوگ روز مردہ گوشت تیار کرتے ہیں۔ نانا آپ دو چار افراد مل کرپتا تو کروائیں۔”
”نانا؟” ان کے جنبش نہ کرنے پر میں نے ٹہوکا دیا۔
”ہاں بیٹا کوئی بندوبست کرنا پڑے گا ورنہ بڑی مصیبت ہوجائے گی۔ ”
”بالکل …”
”نانا ، آپی! کھانا لگا دیا ہے میں نے، آجائیں۔” نائمہ نے لاؤنج سے آواز دی۔
نانی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں شادی پر گئی ہوئی تھیں سو ان کی کمی بھی محسوس ہورہی تھی۔
اگلے دن گلی کی نکڑ تک پہنچنے پر میری ایک اور غلط فہمی دور ہوئی۔ جب گاڑی سے اتر کر اطراف کا جائزہ لینے پر مجھے بدبو کا اصل ماخذ معلوم ہوا۔ میں جو اتنے دن سے سمجھ رہی تھی کہ یہ نظامِ انہضام کو الٹا دینے والی بو کسی پلاٹ سے ابھرتی ہے تو ایسا ہر گز نہ تھا۔ وہ بہت گندی انتہائی غلیظ بو کہ جس کو ٹھیک سے بیان کرنے کے لیے مجھے مناسب الفاظ بھی نہیں مل رہے، میری گاڑی کے دائیں جانب بنے خستہ حال اندھیرے میں ڈوبے مکان سے آرہی تھی۔ اپنے طور پر میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔ گلی میں حسبِ معمول غضب کا سناٹا تھا۔ غروبِ آفتاب کے بعد کی تاریکی چہار اطراف بسیرا کرنے لگی تھی مگر وہ بدبو اب بھی آرہی تھی لیکن میں ڈھیٹ بن کر اچھی طرح سے جائزہ لیتی رہی۔
”یہ گھر تو بند ہے کافی عرصے سے کیا کوئی ہوائی مخلوق ۔” گاڑی میں بیٹھ کر گیئر بدلتے ہوئے ایک کوندا لپکا میرے دماغ میں۔
”آں نہیں! ہوسکتا ہے آباد ہوگیا ہو۔ مالک مکان یا کرائے داروں سے۔” ایک اور خیال آنے پر دماغ کے دوسرے حصے نے پہلے والے کی بات کو مسترد کردیا۔ میں نے الجھ کر اپنی انگلیاں بالوں میں پھنسائیں۔
”نانا! بہت غلط بات ہے۔ آپ نے کیوں چھپایا کہ اس بو کی اصل وجہ بلکہ ماخذ کیا ہے؟” رات کے کھانے سے فارغ ہوکر میں پھر ان کے سر ہولی کہ انہیں یقینا پہلے سے پتا تھا، مگر مجھ سے یوں بات چھپائی جیسے میں چھوٹی بچی ہوں۔
”ارے بیٹا کیا بتاتا تمہیں، میں تو خود حیران ہوں کہ سالوں سے ہم یہاں رہتے ہیں ایسی کوئی بات آج تک نہیں ہوئی۔” مگر اب نانا جو بہ ظاہر ٹاک شو دیکھ رہے تھے، میرے سوال پر کچھ لمحوں کی خاموشی کہ بعد سرد آہ بھرتے ہوئے بولے۔
”کیا وہ مکان آسیب زدہ ہے؟” بالآخر میں یہی قیاس کرسکی۔
”کوئی بھی چیزیا انسان کبھی بھی بیٹھے بٹھائے آسیبوں کی زد میں نہیں آتے۔ یہ خاص عوامل ہیں جو چیزوں کو غیر معمولی بناتے ہیں۔”
”اچھا تو پھر کیا ہے وہاں؟ کون اس خالی اندھیر نگری میں رہتا ہوگا یا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جانوروں کی بوسیدہ آلائشیں پڑی ہوں یا ہر شام ایک عورت اس گھر میں مردہ انسانوں کی ہڈیاں بھونتی ہو؟” میں نے نانا کو یوں دیکھا جیسے وہ جھوٹ بول رہے ہوں۔ میں جو پے در پے قیاس کررہی تھی۔ اب حقیقتاً مجھے چپ لگ گئی۔ وہ رات نہ جانے کیسے کٹی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Read Next

لیکھ — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!