خود غرض — ماہ وش طالب

میری یادداشت اور یہ واقعات اتنے معمولی نہ تھے کہ میں انہیں نظر انداز کردیتی۔ ویسے بھی دل و دماغ میں ایک عجیب سی کھد بد شروع ہوچکی تھی۔ سو میں نے سوچا کہ آفس سے واپسی پر دوبارہ کالونی کے پچھلی جانب ضرور جاؤں گی آخر کو کچھ تو پتا چلے کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون بے پر کی اُڑا رہا ہے۔ پھر وہ ضوبیہ نامی عورت نانی کے بہ قول اس کا گھر بھی اسی جانب تھا، تو ممکن تھا کہ نانا والی بات درست ہونے کی صورت میں اسے کوئی نقصان پہنچتا۔
دفتر پہنچی تو بہرام بھی غیر حاضر تھا۔ یہ ایک اور پریشانی کی حد تک حیران کردینے والی بات تھی کیوں کہ میری کال کا بھی وہ جواب نہیں دے رہا تھا۔ ہوسکتا ہے ضروری کام سے اسے اپنے گھر جانا پڑگیا ہو۔ یہ ایک خیال تھا۔ وہ مجھے میسج کے ذریعے تو بتا ہی سکتا تھا، خواہ کتنا بھی ضروری کام ہوتا۔ اللہ خیر کرے، دوسرا خیال وسوسوں بھرا تھا۔ بہرام اپنے والدین سے الگ بسلسلہ نوکری یہاں کسی قریبی ہاسٹل میں رہتا تھا اور ہر مہینے وہ اپنے گھر کا چکر بھی لگا آتا تھا، مگر اس مہینے تو وہ گھر سے ہو آیا تھا تو پھر آج؟ دراصل زیادہ الجھن اس لیے بھی تھی کہ وہ علاوہ گھر جانے کے اضافی چھٹی کرتا بھی نہیں تھا۔ خیر میں نے کام میں دل لگانے کی کوشش کی۔ واپسی پر طے شدہ مقام پر جانے کا اپنا ارداہ ترک ہی کردیتی اگر بہرام کا تسلی بخش پیغام وصول نہ ہوتا ۔
”معذرت میری قمروش! ضروری کام سے گھر جانا پڑا، کل آکر تفصیلی بات ہوگی۔” مسکراہٹ نے میرے لبوں کا احاطہ کیا اور گہرے ہوتے اندھیرے کی پروا کیے بغیر میں نے کھنڈر نما علاقے کی سڑک پر گاڑی ڈال لی۔ جوں جوں وہ گھر قریب آرہا تھا، میرا تنفس بڑھتا جارہا تھا۔ وسط میں پہنچی تو خلافِ توقع بو کی شدت قدرے کم تھی اور نکڑ والے گھر سے روشنی کی ہلکی لکیر بھی پھوٹ رہی تھی۔ جب فاصلہ دوگز رہ گیا تو میں نے گاڑی روک کر ادھ کھلے بالوں کو لپیٹ کر جوڑے میں قید کیا، مگر گاڑی سے اترتے ہوئے میں بری طرح چونکی کیوں کہ بہرام کی گاڑی بھی دو گز کے فاصلے پر کھڑی تھی۔
”بہرام اور یہاں؟”
بے یقینی کی کیفیت میں، میں نے چلنا شروع کیا۔ کوئی خاص قوت تھی جو مجھے آگے کو کھینچتی تھی۔ گھر کے سامنے پہنچ کر میری نگاہ کھڑکی کے اندر گئی جہاں سے آگ کے شعلوں جیسی جلتی بجھتی روشنی آرہی تھی۔ کھڑکی سے نظر آتے کمرے کی دیواریں سیلن زدہ اور انتہائی بدرنگ تھیں جیسے سالوں ان کی صفائی نہ کی گئی ہو۔ پھر میں نے ایڑھیوں کے بل اونچا ہوتے ہوئے کمرے سے گھر کے باقی حصے میں جھانکنے کی کوشش کی جو نسبتاً کم روشن تھا اور اس سے پہلے کے میں اُلجھن زدہ سی واپس مڑتی ہولناک منظر میرے سامنے تھا۔ بلکہ شاید میں اس منظر کو کبھی ٹھیک سے بیان ہی نہ کرسکوں۔ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ کیسے اور کس شدت سے دوڑتی ہے، یہ کوئی مجھ سے یعنی قمروش آفاقی سے پوچھتا۔
وہ بہرام تھا اور اس کے ساتھ کھڑی وہ عورت۔ اس کا حلیہ بتارہا تھا کہ یہ وہی عورت تھی جسے میں نے اپنے بچپن میں کئی بار قبر نما کمرے کا دروازہ کھولتے دیکھا تھا اور یہی وہ عورت تھی جس نے نحوست بن کر گزشتہ پانچ ماہ سے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ رکھا تھا اور جس کی نظروں کے حصار سے میں ڈرتی تھی۔ وہی سیاہ گہری آنکھیں۔ گہرا گلا گندگی کا ڈھیر اور… اچانک ایک کالی بلی چھلانگ لگا کر کھڑکی کے راستے اوپر چڑھی اور بے ساختہ میرے منہ سے نکلی دل دوز چیخ نے ان دونوں کو متوجہ کردیا۔ ہانپتے کانپتے ہوئے میں اس گہری ہوتی منحوس رات میں اپنے گھر کیسے پہنچی، یہ میں خود بھی نہیں جانتی۔
اس کے بعد ہفتہ بھر میں بخار میں جکڑی رہی۔ نانی پریشان صورت لیے مجھ پر دم کرتی رہیں اور نانا، وہ جن نظروں سے مجھے دیکھتے تھے وہ رحم یا ہمدردی کی نہیں تھیں بلکہ کچھ ایسا تھا ان کی آنکھوں میں جیسے پوچھنا چاہ رہے ہوں۔ ”ہوگئی تسلی؟” بہ ظاہر میں ان سے نظریں چرالیتی مگر حقیقتاً میں اپنے آپ سے چھپتی تھی۔
کچھ سوال تھے جو کسی جھکڑ کی طرح میرے ذہن میں چل رہے تھے۔
”وہ سب کیا تھا؟”
”وہ سب کیوں تھا؟”
”اور وہ سب۔ وہ سب ممکن کیسے تھا؟”
٭…٭…٭




قمروش آفاقی کے سارے سوالوں کے جواب میرے پاس تھے۔ میرے سوا اب اسے کون سچ بتا سکتا تھا ؟
”میں بہرام ہوں، بہرام!”
”ہاں! بس بہرام، آگے پیچھے کچھ نہیں۔ نہ جانے کس یتیم خانے سے بارہ سال کی عمر میں مجھے اٹھایا گیا ۔ ضوبیہ وہ عورت ہے جس نے مجھے گود لیا تھا۔ میںاس کے ساتھ جس گھر میں گیا تھا وہ بہت بے ڈھنگا تھا۔ ایک غیر معمولی سی بو ہمہ وقت نتھنوں میں سمائی رہتی۔ میرا اس گھر میں دل نہ لگتا تھا۔ مجھے اپنا پہلے والا گھر یاد آتا جہاں میری عمر کے اور مجھ سے کچھ بڑے بہت سے بچے تھے۔ کچھ بیمار تھے، کچھ صحت مند۔ کچھ میری طرح دبو سے مگر پھر بھی ہم سب مل کر کھیلتے تھے، کام کرتے تھے اور پڑھتے بھی تھے۔ وارڈن کی ڈانٹ بھی اتنی بری نہیں لگتی تھی جتنی اس گھر کی خاموشی مجھے رلاتی تھی۔ میرے کھلونے، میری کتابیں سب ادھر ہی رہ گئے۔ شروع شروع میں بالکل خاموش رہا جب کہ یتیم خانے سے نکلتے وقت میرے ساتھیوں نے حسرت بھرے لہجے سے کہا تھا:
”بہرام اب تمہاری آزادی کے دن شروع، یہ لوگ تمہارے اتنے لاڈ اٹھائیں گے تمہیں اتنا پیار دیں گے کہ تم خود رشک کرو گے اپنی قسمت پر۔ کاش ہمیں بھی کوئی یہاں سے لے جائے۔” پندرہ سالہ بلال جو بے حد ذہین بھی تھا، میرے مستقبل کے اندازے لگا رہا تھا۔
یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھابلکہ سارا دن میں اپنے چھوٹے سے بد رنگ کمرے میں بند رہتا۔ ایک رات پیاس کی شدت سے میں ڈرتے ڈرتے کمرے سے باہر نکلا۔ پھر وہی مگر قدرے تیز بدبو نے مجھے الٹی کرنے پر مجبور کردیا۔
باورچی خانے کے قریب پہنچ کر ساتھ والے کمرے میں پڑی کھال ادھڑی ہڈیاں دیکھ کر میں اپنی چیخوں پر قابو نہ رکھ سکا اور شاید میں بے ہوش بھی ہوا تھا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد ہی اس نے مجھے ایک بہت بڑے اسکول میں داخل کروادیا۔ پہلے دن اسکول کے گیٹ پر چھوڑتے ہوئے اس نے پہلی بار مجھے سینے سے لگایا اور ماتھے پر بوسہ بھی دیا۔ اس کے بدن سے آتی تیز بدبو نے پھر مجھے ناک سکیڑنے پر مجبورکردیا۔ اسکول کے ہوسٹل میں بچوں کے ساتھ رہنا قدرے آسان تھا اورمجھے خوشی اس بات کی تھی کہ میرا تعلیمی سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا تھا۔ وہ مجھے تقریباً سال بعد ہی لینے آتی تھی، لیکن اگر وہ مجھے دس سالوں تک بھی نہ لینے آتی تو بھی مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاتھا۔
میٹرک کے امتحان کے بعد جب میں ضوبیہ کے ساتھ گھر گیا تو ایک انجان آدمی کی گود میں کسی نو مولود کو دیکھا۔ اس آدمی نے عجیب مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھا مگر میں کوئی بھی تاثر دیے بغیر آگے بڑھ گیا۔ اگلی صبح میں سو کر جاگا تو حیرت انگیز طور پر گھر میں کسی بھی ناخوش گوار مہک کا نام و نشان نہیں تھا۔
باہر نکلا تو مزید حیرت ہوئی۔ ضوبیہ اس نومولود کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ رونے کی آواز نحوست پھیلادینے والی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھا تو بے اختیار بچے کی جانب بڑھتا میرا دایاں بازو اس نے جھٹک دیا ۔ ”یہ مردہ ہے” پھر اس نے سامان باندھا بچے کو گود میں لیا اور مجھے کچھ بتائے بغیر چلی گئی۔ میرا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا اور اپنے کمرے میں جاکر میں نے بھی زارو قطار رونا شروع کردیا۔ مگر یہاں کوئی نہیں تھا جو میرے رونے کی وجہ پوچھتا اور میرے لیے ہلکان ہوتا۔ پھر وہ تقریباً ہر سال ہی ایک بچہ پیدا کرتی۔ جب وہ مر جاتا تو اسے لے کر یہاں سے چلی جاتی اور دو تین دن کے وقفے کے بعد لوٹتی۔
٭…٭…٭
میرا کالج میں داخلہ ہوچکا تھا اور مصروفیت نے مجھے پھر الجھادیا۔ اپنی زندگی کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ احساسِ کمتری میری رگوں میں اتر چکا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ میری راتیں بھی برباد ہوتی جارہی تھیں۔ بے خوابی میرے لیے وبالِ جان بن گئی۔ آدھی آدھی رات تک مجھے نیند نہ آتی تھی۔ اگر کچھ وقت کے لیے آنکھ لگ بھی جاتی تو خواب میں کبھی بہت سے مردہ انسان مجھے چھتوں سے لٹکے دکھائی دیتے۔ کبھی کچھ مردہ بچے آگ میں جلتے دکھائی دیتے۔ کبھی یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی جانوروں کی کھال کھینچ رہا ہو اور قریب کھڑے لوگ قہقہے لگا رہے ہیں۔ کبھی بہت سی چمگادڑوں کو اپنے اوپر حملہ کرتے دیکھتا اور پھر میں جھٹکے سے اٹھ جاتا یوں کہ تنفس بگڑا ہوا ہوتا۔ جسم پسینے میں شرابور کبھی کبھی یہ کیفیت اس قدر شدید ہوجاتی کہ جی چاہتا خود کو ختم کرلوں اور ایسی ایک کوشش میں کر بھی چکا تھا، مگر ناکام ٹھہرا۔ وہ عورت مجھے مرنے دیتی تھی نہ چین سے جینے۔ جب میں یونیورسٹی پہنچا، تو وہ مرد جو سال میں ایک سے دو بار ضرور آتا تھا اور جس کی گود میں اکثر مردہ بچے ہوتے تھے، مرگیا ۔اس کے بعد کچھ عرصہ تک میں نے اس عورت کو بہت نڈھال دیکھا، مگر میری بے چینی بھی جوں کی توں تھی۔
پھر کچھ سوچ کر میں نے ایک روحانی سائیکا ٹرسٹ سے رجوع کیا۔ اس نے صرف مجھ سے اس عورت کا نام پوچھا تھا۔ اتفاق سے میں نے ایک دو بار اس مرد کو ہی اسے ضوبیہ پکارتے سنا تھا۔ لہٰذا ایک ہفتے بعد ماہرِ روحانی نفسیات کے ہول ناک انکشافات نے مجھے بھی اندر تک ہلا دیا۔
”وہ عورت کالے جادو کا وسیع علم رکھتی ہے اور کسی بہت بڑے عامل بابا کی مرید ہے اور اسی کے لیے کام بھی کرتی ہے۔ وہ مرد جس کا تم نے ذکر کیا اس عورت کا چوتھا شوہر تھا۔ یہ عورت اپنے مردہ بچوں کی ہڈیاں نکال کر پکاتی ہے۔ پھر عامل بابا کے حکم پر ضرورت کے مطابق ان کا استعمال کرتی ہے۔ یہ کاروبار سالوں سے چل رہا ہے جس کے باعث لوگوں کی نسلیں تباہ ہورہی ہیں، گندگی، بے ضابطگی اور ایمان سے دوری ان عوامل کی جڑ ہے۔” میرے ذہن میں گھر کی غلاظت اور اس عورت کا اپنا بے ہودہ وہ حلیہ گھوم گیا۔
”تو پھر اس نے مجھے کیوں اپنایا ۔”
”فی الحال اسے تمہاری ضرورت نہیں۔ اس لیے کسی بھی پریشانی سے تمہیں بچانے کے لیے اس نے تمہیں اس گھر سے دور رکھا۔ ظاہر ہے تمہیں نقصان پہنچے گا تو اسے بھی نقصان کا سامنا کرنے پڑے گا۔” ماہرِ نفسیات نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر حقائق سے آگاہ کیا ۔
”اسے میری کس قسم کی ضرورت پڑے گی۔” تھوک نگلتے ہوئے میں نے پوچھا۔
”اس کے لیے مجھے مزید غور کرنا پڑے گا۔ تم اگلی جمعے میرے پاس آنا۔ فی الحال میں تمہیں چند اذکار بتا رہاہوں وہ تسبیح کرنے سے تمہاری بے خوابی کی شکایت دور ہوجائے گی۔”
اور میں جو بے تابی سے انتظار کررہا تھا جمعہ کا۔ اگلے جمعرات کی صبح مجھے اطلاع ملی کہ وہ سائیکاٹرسٹ گزشتہ رات ہونے والے ہارٹ اٹیک سے گزر گئے ہیں۔
”اوہ میرے خدایا۔”شدید بے بسی کے عالم میں میں نے اپنا سر تھام لیا۔
میرے دوستوں کی پیشین گوئی کتنی غلط ثابت ہوئی تھی۔ میں جسمانی طور پر تو کیا ذہنی طور پر بھی آزاد نہ تھا۔ میری زندگی، میری سوچیں مکمل طور پر اس عورت کے رحم و کرم پر تھیں۔ میری بے خوابی مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئی مگر نسبتاً کم ضرور ہوئی تھی۔ البتہ پریشانی کی شدید کیفیت میں مجھے دن کا ہوش رہتا تھا نہ رات کی خبر ہوتی تھی۔




Loading

Read Previous

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Read Next

لیکھ — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!