خود غرض — ماہ وش طالب

سڑک کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی لہٰذا اب میں معمول کے مطابق راستے سے آ جا سکتی تھی۔
”بہرام! تمہیں آج کی ہولناک خبر سناتی ہوں۔” لنچ بریک میں وہ اپنے اور میرے لیے چائے لے کر آیا تھا۔
”ہمہ تن گوش ہوں۔” وہ آج کافی خوش گوار موڈ میں تھا۔
”ہماری گلی میں عرصہ سے خالی مکان میں ایک عورت رہتی…” نہ جانے اس کی اپنی کہنی لگی تھی یا غیر معیاری شیشے کے کپ میں درجہ حرارت شدید ہونے کے باعث دراڑ آئی تھی کہ کڑک کی آواز اور میز پر گری چائے نے مجھے رکنے پر مجبور کردیا۔ ایک دو بار پہلے بھی میں نے اسے اور دیگر کولیگز کو بتانے کی کوشش کی، مگر نہ جانے کیا مسئلہ تھا، ہر بار ہی کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی۔ خیر میںنے چپراسی کو بلواکر میز صاف کروائی۔
٭…٭…٭
وہ ایک وسیع میدان تھا جس کے چاروں اطراف اینٹوں سے حدود بنائی گئی تھی اور احاطے میں بے شمار سبزیاںاور خوش رنگ پھول کھلے تھے۔ پھر اچانک اس باغیچہ نما جگہ پر کچھ بچے جن میں دو آٹھ سالہ لڑکیاں اور تین نو دس سال کے لڑکے تھے نمودار ہوئے۔
اونچ نیچ کا پہاڑ
سات موتیوں کا ہار
پانچ بچے گول دائرہ بناکر کھڑے تھے اور انہی میں سے ایک نسبتاً لمبا اوردبلا بچہ انگلی کے اشارے سے سب کو پگا رہا تھا۔ پھر منظر بدلا وہی خوش شکل اور خوش لباس بچے اس چوکور احاطے میں مسکراتے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں طرف بھاگ رہے تھے۔ منظر نے ایک اور رنگ بدلا اب وہی بچے چھپن چھپائی کھیل رہے تھے اور میدان کے وسط میں بنے ایک پختہ کمرے کے کونوں سے ظاہر ہو ہوکر ایک دوسرے کو ہا ہا کر رہے تھے۔ وہ کمرا باہر سے زنگ آلود تالے سے مقفل تھا جس کا لوہے کا دروازہ بھی اپنا اصل رنگ کھو چکا تھا۔ اچانک اسی منظر میں ایک دبلی پتلی خاتون (جو عورت کم ملنگ بی بی زیادہ دکھتی تھی۔) ظاہر ہوئی۔ اس نے سیاہ رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا۔ گہرے رنگ سے غلاظت ٹپکتی تھی اور گلے میں تین چارنارنجی، ہرے اور سیاہ رنگ کے منکے لٹک رہے تھے۔ چغے کا گلا اتنا گہرا تھا کہ ڈھلکتی چھاتیاں بھی نظرآتی تھیں۔ اس کے ہاتھوں میں ایک دو مومی لفافے تھے اور جیسے ہی وہ عورت کیاریوں سے راستہ بناتی دروازے تک پہنچی۔ بچے سہم کر احاطے سے نکلنے لگے۔ اب وہ ڈراؤنی عورت گریبان کے ساتھ چِپکی پوٹلی سے چابی نکالنے لگی کچھ لمحوں بعد جھٹکے سے دروازہ کھلا۔
٭…٭…٭




”قمروش بیٹی اُٹھ جا! آج دفتر نہیں جانا کیا۔”
”اوہ! دیر ہوگئی۔” میں نے جلدی سے منہ پر پانی کے چھپاکے مارے اور کُلی کرکے پانچ منٹ میں دفتر کے لیے نکل گئی۔
آفس میں بھی آج اعصاب پرسستی ہی چھائی رہی۔ لنچ بریک میں کرسی کی پشت سے ٹک کر میں نے آنکھیں موند لیں۔
وہ خواب گزشتہ رات میرا سہانا بچپن خواب کی صورت وقت کے پردے سے جھانکا تھا۔ ایک خوش گوار حیرت نے مجھے اپنی حصار میں لے لیا۔ بچپن کو سوچنا کسے اچھا نہیں لگتا سو میں بھی پھر سے یادوں کے سنگ بچپن کی بھول بھلیوں میں کھو گئی جہاں امی بابا تھے، میں تھی اور میرے کچھ دوست۔ ہمارا گھر ایک متوسط درجے کے رہائشی علاقے میں تھا۔ تب سب کتنا آسان لگتا تھا۔ تتلیوں کے پیچھے بھاگنا، ستاروں کے مانند چمکنا، بادلوں کے سنگ اُڑنا اور نہ جانے کیا کیا۔
تب خواہشیں بھی تو معصوم سی ہوتی تھیں۔ کچھ بھی پانے کے لیے کسی دوسرے کو ڈسنا نہیں پڑتا تھا۔ کسی کے اعتبار کا قتل نہیں کرنا پڑتاتھا۔ ہم اسکول سے آکر سامنے والے گھر میں چلے جاتے تھے۔ امی پیچھے سے آوازیں دیتی رہ جاتیں کہ پہلے کھانا کھالو آرام کرلو مگر من تو موجی تھا جو کسی کے کہنے سننے میں نہیں آتا تھا۔ وہ گھر بھی ویسے عجیب سا تھا۔ بس ایک بڑا سا کمرا تھا اس کے درمیان اور اطراف میں سبزہ ہی سبزہ ،وہ کمرا بھی ایسا تھا جو ہم میں سے کبھی کسی نے کھلا نہیں دیکھا تھا۔ نہ جانے کون سے خزانے پڑے ہوئے تھے اس میں بس اک عورت جس کے چہرے کے خدوخال مجھے ٹھیک سے یاد نہیں مگر سراپا ذہن پر ابھی تک نقش ہے، سال میں ایک بار آکر اس کمرے کو ضرور کھولتی اور کچھ دن وہاں رہ کر جاتی تھی۔ اس سے قبل کہ میں کچھ دیر مزید اپنے ماضی میں جیتی فائلز کا پلندہ اٹھائے صائمہ میرے کیبن میں آگئی۔
٭…٭…٭
رات کی رانی کی مہک میری سانسوں میں بس رہی تھی اور میں بہرام کے خیالوں میں قید ہوکر مسکرائے جارہی تھی۔ میرا اور بہرام کا رشتہ بھی عجیب تھا۔ ہم لوگ بہت کم ایک دوسرے سے بات کرتے تھے مگر ایک حصارِ محبت تھا جس نے ہم دونوں کو احساس کے دھاگے سے باندھ رکھا تھا۔ نہ وہ چھچھورے لڑکوں کی طرح چوبیس گھنٹوں میں چوبیس بار مجھ سے بات کرنے کو بے تاب ہوتا تھا نہ ہی میں زبردستی گلے پڑی گرل فرینڈز کی طرح نخرے کرتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میری وفا اسے بھٹکنے نہ دے گی۔ یہ سچ تھا کہ خود کو بے پروا ظاہر کرتے ہوئے بھی میں نے اسے اپنی زندگی کا محور بنا لیا تھا، مگر پروانہ تو وہ بھی میرا ہی تھا نا۔
ایک دم سے ہوا تیز ہوئی اور میری سوچوں کا رُخ بھی اچانک سے اپنے بچپن کی جانب چلاگیا۔ میں دس برس کی تھی جب میرے امی بابا کا ایک سنگین حادثے کے نتیجے میں انتقال ہوا اور کچھ دنوں بعد میں اپنے نانا نانی کے ساتھ یہاں آگئی تھی جنہوں نے حقیقتاً مجھے اپنی چوتھی اولاد سمجھ کر پالا تھا۔ وہ گھر جہاں میں نے ہوش سنبھالتے ہی اڑوس پڑوس کے بچوں کو کھیلتے پایا اور پھر نت نئے کھیل کھیلتے ان بچوں کے گروہ میں، میں بھی شامل ہوگئی۔ وہ عورت مجھے یاد ہے۔ امی بابا کے انتقال سے شاید پہلے یہ بات کالونی میں پھیلی تھی کہ اس عورت کے بچے مر جاتے تھے اور وہ عورت اپنے نومولود مردہ بچوں کو اس کمرے میں دفناتی تھی وہ گھر اسی کی ملکیت تھا اور اپنے ہر دورے پر وہ کم از کم دودن تو اس کمرے میں گزارتی تھی۔ پتا نہیں وہ وہاں رہ کیسے لیتی تھی اور کیوں رکتی تھی کیوں کہ میری یاد داشت کے مطابق میں نے اسے پانچ سالوں میں تین بار اس گھر میں آتے دیکھا تھا اور اللہ جانے میرے یہاں آنے کے بعد وہ کتنے عرصے تک وہاں جاتی رہی ہو، ممکن ہے اب اس کا مستقل ٹھکانا ہی وہ گھر ہو یا وہ خود اس قبرستان نما کمرے کا ہمیشہ کے لیے حصہ بن گئی ہو۔
اُف میں کیا الا بلا سوچ رہی تھی۔ ایک جھرجھری بھرتے ہوئے میں نے اندر قدم بڑھائے کیوں کہ اب گرد آلود ہوا چلنے لگی تھی اور فضا میں عجیب سی سرگوشیاں ابھرنے لگی تھیں۔
٭…٭…٭
نانی اپنے رشتہ دار کی شادی نپٹا کر آچکی تھیں اور پچھلے دنوں کی ساری روداد بھی میں نے ان کے گوش گزار کر دی۔ نائمہ دوسرے کمرے میں بیٹھ کر پڑھ رہی تھی جب کہ نا نا آج سونے کے لیے جلدی لیٹ گئے تھے۔
”میں نہیں مانتی۔” نانی دل تھام کر بیٹھ گئیں۔
”آپ کے نہ ماننے سے کیا ہوگا۔ آپ کے سرتاج نے تو پورے وثوق سے کہا ہے۔”
”ارے تم چھوڑو ان کو رائی کا متنجن تو وہ ایسے بناتے ہیں کہ کیا ہی کوئی ماہر شیف بناتا ہوگا۔”

نانی کے منہ سے اچھے بھلے محاورے کی درگت بنتی سنی تو بہ مشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔
”بائی دا وے! آپ کی سہیلی بھی نہیں آئی جب سے آپ گئیں۔” میں نے سفری بیگ سے کپڑے نکال کر نانی کی الماری میں منتقل کرتے ہوئے تجسس سے پوچھا۔ کیوں کہ نانی کی غیر موجودگی میں ان کی بھی غیرحاضری عجیب اتفاق تو تھا ہی بہر حال۔
”ایں کون سی ؟” نانی کے اس بھولپن پرتو میرا ان کے صدقے واری جانے کو دل چاہ رہا تھا۔
”کتنی سہیلیاں بنائی ہیں آپ نے ان پانچ مہینوں میں؟”
”اچھا وہ ضوبیہ ! وہ تو خود بھی کسی رشتے دار کی فوتگی پر گئی تھی مجھے خود بتایا تھا اس نے تقریباً ہفتہ پہلے۔”
”اچھا! وہ رہتی کہاں ہیں؟”
”گلی کی پچھلی جانب نکڑ پر گھر کرائے پر لیا ہے اس نے۔ جاؤں گی کسی دن میں۔ بس وقت ہی نہیں ملتا ۔”
”لیکن اس اجاڑ ویران جگہ پر کیوں رہ رہی ہے؟ سامنے بھی تو ایک گھر خالی ہے۔” نہ چاہتے ہوئے بھی نقطہ اعتراض میرے منہ سے نکلا۔
”بھئی جو قیمت اسے مناسب لگی ہوگی اسی حساب سے لیا ہوگانا گھر۔”
”اچھا۔” میں نے کندھے اُچکائے۔ نانی کے لیے بستر درست کیا اور خود بھی سونے کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Read Next

لیکھ — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!