تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے آرٹ اینڈ کرافٹ کے آن لائن انسٹیٹیوٹ سے ایک دو کورسز کیے اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرنے لگا۔ کچھ دن ہی گزرے تھے جب وہ مجھ سے مطالبہ کرنے لگی کہ میں جلد از جلد شادی کرلوں۔ وہ جو اپنے چوتھے شوہر کے مرنے کے بعد خود بھی بچے پیدا کرنے سے قاصر تھی۔ اب اسپتالوں سے مردہ بچے اٹھاتی تھی مگر حال ہی میں وہ یہ گھناؤنا جرم کرتے ہوئے پکڑی گئی اور اس مشہور عامل بابا کی ضمانت سے اسے فوراً رہائی مل گئی تھی۔ سو اب وہ میری شادی کے درپے تھی۔
”شادی۔”
میرے لیے اس لفظ میں کوئی کشش نہ تھی۔ مجھے تو اپنی زندگی کی کوئی سدھ بدھ نہ تھی۔ بھلا میں کیسے جان سکتا تھا کہ شادی اصل میںہے کس بلا کا نام۔ ظاہر ہے براہِ راست انکار کرکے میں اسے ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے کچھ وقت مانگ لیا اور سوئے اتفاق میری نظر قمروش آفاقی پر پڑگئی۔ جانے کیوں مجھے وہ آفس میں کام کرتی دیگر لڑکیوں سے منفرد لگی۔ بے نیاز ،میچورڈ اور سب سے بڑھ کر نسوانی حسن سے مالا مال، اس کی اُٹھان غضب کی تھی۔ ستواں ناک اور سیاہ ریشمی بال، لمبا قد مانو سورج مکھی کی ڈال ہو اور نگینہ سی آنکھیں، پہلی بار کسی لڑکی کو اتنے غور سے دیکھا تھا جو میری پہلی اور آخری چاہت کیسے بن گئی، مجھے خود بھی اندازہ نہ ہوسکا۔
آفس میں میرے بارے چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ میں بہت سڑو ہوں، مغرور، بد دماغ ہوں اور نہ جانے کیا کیا، مگر مجھے ان سب باتوں کو نظرانداز کرکے اس کا صرف اس کا دل جیتنا تھا اور جلد ہی میں اس میں کام یاب بھی ہوگیا۔ بس میری کچھ خود ساختہ حدود تھیں جو مجھے قمروش پر ظاہر کرنی تھیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ وہ بہت میچورڈ تھی۔ سو میرے ساتھ اس نے پورا تعاون کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارا رشتہ بہتی ندی پہ چلتی ناؤ کی طرح سبک روانی سے چلتا رہا۔ میں بہ ظاہر جتنا مضبوط نظرآتا تھا اند ر سے اتنا ہی کمزور تھا اورمیری یہ کمزوری لوگوں پر ظاہر نہ ہو اس لیے میں ان سے فاصلے پر رہتا، میں ہجوم سے ڈرتا تھا۔ ضوبیہ بہت خوش تھی کہ مجھے جلد ہی شکار مل گیا۔ پہلے پہل میں بھی اسے اپنا شکار ہی سمجھتا تھا لیکن کب تک۔
اگر کوئی آپ کو اتفاق سے اتنا پیار کرنے والا خیال رکھنے والا مل جائے تو کیسے دل چاہے گا کہ آپ اس کو دھوکا دیں۔ حقیقتاً ایسا کرکے تو آپ پھر اپنا ہی نقصان کریں گے ہے نا؟ اسی طرح میرے خیالات بھی اس کے بارے میں بدلنے لگے۔ میں سنجیدگی سے سوچنے لگا۔ سو اس لیے میں فی الحال مطمئن تھا، مگر ضوبیہ کو میرا سکون ایک آنکھ نہیں بھایا۔ اسے مجھ پر یقین نہ تھا سو فوراً سے پیشتر اس کا نام پتا معلوم کروا کے اس کے قریب کٹیا نما گھر پر رہنے لگی۔ اپنے طور پر اس نے اس کی نانی سے راہ و رسم بھی بڑھا لیے تھے۔ وہ کہتی تھی:
”اگر تم نے ذرا سی بھی گڑ بڑ کی تو تمہاری اس دونمبر محبوبہ کے سامنے تمہارا پول کھول دوں گی۔ ویسے تو تمہارے پول میں ہے ہی کیا؟ نہ کچھ آگے نہ کچھ پیچھے مگر ایسا کچا چٹھا بیان کروں گی کہ وہ تو کیا تم بھی اپنے آپ سے نظریں نہیں ملا سکو گے۔”
وہ ایک خاص مقامی لہجے میں بولتی تھی مگر اس کی آواز نہایت بھونڈی تھی اور بولتے ہوئے منہ سے بو اور تھوک کے چھینٹے بھی برآمد ہوتے تھے۔ وہ یونہی ہر بار میری انا کی دھجیاں اپنی گندی ذہنیت سے ادھیڑ کر چلی جاتی اور میں اس کے اشاروں پر چلتا۔ میں پھر سے گھبرانے لگا۔ یہی وجہ تھی کہ قمروش جب بھی اپنی کالونی میں ہونے والے عجیب و غریب واقعات کا ذکر کرتی۔ میرا دل میرے کانوں میں دھڑکنے لگتا اور میں آنے بہانے سے اس کی بات ٹال دیتا۔ اس دن غصے میں آکر میں نے ضوبیہ سے پہلی بارفون پر بدزبانی کی تھی۔ میں نے ضد میں آکر شادی کرنے سے انکار کردیا، مگرتھوڑی دیر بعد انجام کو سوچتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوگئے۔ میں جلدی سے ہوسٹل سے نکلا۔ گاڑی میں سوار ہوکر اس کے پاس پہنچا۔ میری ایک اور بدقسمتی کہ اس روز عجلت میں ہونے کے باعث میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کے بہ جائے اپنی ذاتی گاڑی پر گیا اور وہ بپھری شیرنی بنی بیٹھی تھی اور میرے معذرت کرنے کے باوجود مغلظات بکنے سے باز نہ آئی۔
”تم جاننا چاہتے تھے نا کہ میں تمہاری شادی کے پیچھے کیوں پڑی ہوں۔ تو سن لو، مجھے تم سے اور تمہاری اس بدذات سے مردہ بچے چاہئیں۔ تمہیں یتیم خانے سے اٹھانے سے پہلے میں نے تمہارے بال اور ناخن حاصل کیے تھے اور تم جانتے ہو بہت سے بچوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی تمہاری صورت میں میرا حسبِ منشا بچہ مجھے مل سکا۔ شادی تو تمہیں کرنی ہی ہے جس سے مرضی کرو، مگر تمہارے گھر ہونے والے بچوں پر حق صرف میرا ہی ہوگا۔”
میں اتنا بے یقین ہوچکا تھا کہ مجھے لگا وہ کسی اور کے بارے میں بات کر رہی ہے، مگر نہیں کچھ ہی لمحوں میں مجھے احساس ہوگیا کہ وہ بدقسمت کوئی اور نہیں میں ہی ہوں۔
اس سے کہیں اچھا تھا کہ وہ ایڈاپٹ کرنے کے بعد مجھے مار کر میری ہی ہڈیاں بیچ دیتی یا میری کھال اتار کر جلاتی رہتی یا کچھ بھی اور کرلیتی مگر میری ذات کی ایسی نفی؟
کیا میرا اس دنیا میں آنے کا یہی مقصد تھا؟
کیا اس عورت نے اپنی اسی سفاکیت کے لیے مجھے اپنایا تھا ؟
برسوں سے میرے دل ودماغ میں چک پھیریاں کھاتے اِس سوال کا جواب مجھے آج ملا تھا اور شاید یہی وہ جواب تھا جس کی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی پاداش میں اس عورت نے روحانی ماہرِ نفسیات کو اپنے سفلی عمل کی مدد سے موت کی بھینٹ چڑھا دیا۔میرا خون کھول اٹھا تھا۔ میں یہ سوچے بنا نہ رہ سکا کہ کیا انسانی درندگی کی بھی کوئی حد ہے؟ مگر میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ اب جو بھی ہو میں قمروش سے ہی شادی کروں گا اور اسے یہاں سے دور لے جاؤں گا۔ اتنا دور کہ یہ عورت میرا اور قمروش کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی، مگر کبھی جاگتے میں دیکھے ہوئے سپنے بھی سچ ہوئے ہیں بھلا؟
خوشیاں تبرک کی طرح ہی ہوتی ہیں شاید، مشکل سے ملتی ہیں۔ تھوڑی سی ملتی ہیںاور تھوڑی سی مدت کے لیے ملتی ہیں۔ اب اس کے ہر چیز کی وضاحت کردینے کامجھے کیا فائدہ۔ اگر میں اسے اب بھی نہ دیکھتی اور وہ بھی مجھے اس رات وہاں نہ دیکھتا تویقینا وہ ابھی بھی اس دلیری کا مظاہرہ نہ کرتا۔ میرا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ میرے دل، میرے جذبوں کی قیمت جو اس نے لگائی تھی، اس نے میری ذات تک کے پرخچے اُڑادیے تھے۔ یوں لگ رہا تھا سانپ نہیں بلکہ بہت سے کالے ناگوں نے رات کی رانی کے روپ کو مسخ کردیا ہو۔
٭…٭…٭
”میں بتیس سالہ بہرام، ہاں صرف بہرام! آگے پیچھے کچھ نہیں۔ بہرام جو کل بھی لا وارث تھا، آج بھی لاوارث ہے اور شاید لاوارث ہی مرجائے گا۔ کوئی گھر کوئی فیملی میرے مقدر میں نہیں۔ میں نے ایک ماہ بعد اسے ہر بات سچ سچ بتا دی تھی اور بتانی ہی تھی کہ سوائے اس کے کوئی چارہ بھی نہ تھا، مگر میرا یہ زہریلا سچ اس کے کسی کام کا نہ تھا۔ بھلا کیا کوئی عقل مند سمجھ دار لڑکی آنکھوں دیکھی مکھی نگل سکتی ہے ؟ اورشاید اگر یہ صرف مکھی ہوتی تو نگلی بھی جا سکتی مگریہ تو ایسا ناگ تھا جس کے ڈسنے سے پیدا ہونے والے زخم نے تاعمر رستے رہنا تھا۔”
٭…٭…٭