وہ ایک وسیع قبرستان تھا اور قبروں کا حجم غیرمعمولی حد تک چھوٹا تھا۔ قبروں کے ارد گرد اور درمیان میں خود روجھاڑیوں نے اُسے مزید پراسرار بنا دیا تھا جیسے آدم زاد کو یہاں سے گزرے مدت بیت گئی ہو۔ قبرستان کے دائیں جانب ذرا فاصلے پر خستہ حال گرجا گھر تھا جس کے عین وسط میں استادہ دیو قامت جامن کا درخت کسی اور دیس کی کہانیاں سنا رہا تھا۔ سوکھے پتوں سے سرکتی تیز ہوا خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی اور دور کہیں وقفے وقفے سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں تھرا دینے والی تھیں۔ ایک جگہ چار پانچ قبریں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھیں اُن میں سے ایک نسبتاً بڑی قبر کے سرہانے ایک عورت بیٹھی گریہ و زاری کررہی تھی۔ وہ غلیظ بدبو دار عورت جسے روتے دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی۔ پھر ایک سیاہ بلی دم ہلاتی قبرستان میں داخل ہوئی اور دوسری لحد کے سرے پر جاکر بیٹھ گئی۔ بلی کی چمکتی سبز آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ منظر بدل گیا اور قبرستان کی جگہ کسی کھلے میدان نے لے لی جس کے احاطے میں بے شمار سبزیاں اور خوش رنگ پھول کھلے تھے۔ پھر اچانک اس باغیچہ نما جگہ پر کچھ بچے جن میں دو آٹھ سالہ لڑکیاں اور تین نو دس سال کے لڑکے تھے، نمودار ہوئے۔
اونچ نیچ کا پہاڑ
سات موتیوں کا ہار
پانچ بچے گول دائرہ بناکر کھڑے تھے اور انہی میں سے ایک نسبتاً لمبا اوردبلا بچہ انگلی کے اشارے سے سب کو پگا رہا تھا۔ پھر منظر بدلا۔ وہی خوش شکل اور خوش لباس بچے اس چوکور سے احاطے میں مسکراتے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں طرف بھاگ رہے تھے۔ منظر نے ایک اور رنگ بدلا۔ اب وہی بچے چھپن چھپائی کھیل رہے تھے اور میدان کے وسط میں بنے ایک پختہ کمرے کے کونوں سے ظاہر ہو ہوکر ایک دوسرے کو ہا ہا کر رہے تھے۔ وہ کمرا باہر سے زنگ آلود تالے سے مقفل تھا جس کا لوہے کا دروازہ بھی اپنا اصل رنگ کھو چکا تھا۔ اچانک اسی منظر میں ایک دبلی پتلی خاتون ظاہر ہوئی۔ اس نے کالے رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا۔ گہرے رنگ سے غلاظت ٹپکتی تھی اور گلے میں تین چارنارنجی، ہرے اور سیاہ رنگ کے منکے لٹک رہے تھے۔ چغے کا گلا اتنا گہرا تھا کہ ڈھلکتی چھاتیاں بھی نظرآتی تھیں۔ اس کے ہاتھوں میں ایک دو مومی لفافے تھے۔ جیسے ہی وہ عورت کیاریوں سے راستہ بناتی دروازے تک پہنچی، بچے سہم کر احاطے سے نکلنے لگے۔ اب وہ ڈراؤنی عورت گریبان کے ساتھ چِپکی پوٹلی سے چابی نکالنے لگی۔ کچھ لمحوں بعد جھٹکے سے دروازہ کھلا۔ اس عورت کے اندر آنے سے لے کر کمرے میں نانی کے پاس بیٹھنے تک میرے ذہن میں یہ کھٹ پٹ چلتی رہی کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ مگر کہاں ؟ یہ سوچنے کی اتنی ضرورت بھی نہ تھی اور نہ ہی وقت تھا کہ ابھی نائمہ کو سوال نامہ بھی بنا کر دینا تھا۔ ایک ہفتے بعد اس کے دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ سو اسی لیے میں شام کو اسے لے کر بیٹھ جاتی۔ کچھ دیر پہلے داخلی دروازے پر دستک ہوئی اور دروازہ میں نے ہی کھولا تھا۔
”تمہاری نانی ہے گھر پر؟” جب وہ بولی تو مجھے گمان ہوا یہ لہجہ پہلے بھی کہیں سن رکھا ہے۔
اس کی بولی اس علاقے سے میل نہ کھاتی تھی۔ خیر نانی کے ”کون ہے” پکارنے پر میں نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا اور خود ساتھ والے کمرے میں چلی گئی جہاں نائمہ جنرل سائنس کے رٹے لگا رہی تھی۔ میرے بے حد اصرار بلکہ سمجھانے کے باوجود اس کوڑھ مغز نے آگے بائیو نہ رکھی تھی۔ کچھ نانا بھی زور زبردستی کے قائل نہ تھے لہٰذا میں بھی زیادہ دلائل نہ دے سکی تھی۔
نائمہ میری چھوٹی کزن اور ماموں کی بیٹی تھی۔ ماموں کے انتقال کے بعد ممانی نے اپنی بیٹی کو چھوڑ کر دوسری شادی رچانے میں زیادہ دیر نہیں لگائی تھی۔ لہٰذا پہلے میں اور پھر نائمہ اپنے نانا نانی کے سہارے خود ان ہی کا سہارا بن گئے تھے۔ بات کتنی عجیب تھی نا، پر تھی تو سہی کیا کریں ۔ سرد آہ خارج کرکے میں نے نائمہ کی کتاب اور کاپی گھٹنوں پر رکھ لی۔
سردی کے باوجود آج فضا میں گھٹن گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ نہ کھل کر دھوپ لگتی تھی نہ ہی دھند نے غلاف چڑھائے ہوئے تھے۔ نانا اس وقت اپنے دوست کے یہاں گئے تھے اور نانی تخت والے کمرے میں اون سلائیاں سنبھالے نجی ٹی وی چینل پر انتہائی فضول ڈراما دیکھنے میں مصروف تھیں۔ اس گرد آلود فضا کی زد میں آنے سے خود کو بچانے کے لیے میں نے بھی فی الفور کڑک چائے کا ایک کپ تیار کیا اور کمرے کی کھڑکی سے کھلے صحن میں جھانکنے لگی۔ آج چھٹی تھی لہٰذا بہرام کوسوچنے کے لیے میرے پاس فراغت ہی فراغت تھی۔ یہ الگ بات کہ مصروفیت کے انتہائی لمحات میں بھی اس کاخیال کسی نیورون کی طرح میرے ذہن میں زندہ رہتا تھا۔
”اب یہ بہرام کون تھا؟”
ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد مجھے نجی ادارے سے منسلک ہوئے دو ماہ ہی ہوئے تھے۔ جب ایک خوش شکل اور خوش اطوار لڑکا ہماری کمپنی میں آیا۔ مجھ سمیت میری کولیگز بھی خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوئے بنا نہ رہ سکیں کہ مجسمہ سازی جیسی فیلڈ کا رُخ زیادہ تر گاؤں دیہات کے دبو اورکسی حد تک بدذوق لڑکے ہی کرتے تھے۔ پھر میٹنگ میں ابتدائی تعارف کے دوران معلوم ہوا کہ موصوف نا صرف اس شعبے کے ڈگری ہولڈر ہیں بلکہ دو تین آن لائن اضافی کورسز بھی کر رکھے ہیں۔ اپنی ساتھیوں کے سامنے کیے گئے میرے اس تبصرے میں حسد کی ذرا سی بو تھی۔ پھر جب گاہ بہ گاہ انہیں بہرام نامی شہزادے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے دیکھتی تو حلق تک کڑوا ہوجاتا کہ ایک تو خوب صورت اوپر سے اتنا ایٹی ٹیوڈ، اپنے کام سے کام رکھنے والا، محنتی اور ذمہ دار۔ بات اتنی غیر معمولی تو نہ تھی پر وہ مجھے یعنی قمروش آفاقی کو بھی نظرانداز کرتا رہا۔ یہ بات کسی صورت ہضم ہونے میں نہیں آرہی تھی کہ جسے ایک دنیا تو نہیں مگر زمانہ طالبِ علمی میں ایک دو ہم جماعت اور حالیہ نوکری کے دوران بھی اسی ریشو سے کولیگ چاہنے لگے تھے۔ اسے یہ بہرام نامی شہزادہ کیوں نہ دیکھ سکا۔ اس کا نام بھی تو اس کی شخصیت کے بالکل مترادف تھا ۔ میرے ساتھ بھی تو یہی معاملہ ہوا۔ خود کو بے پروا، بے نیاز ظاہر کرتے کرتے نہ جانے کب اور کیسے وہ میرے دل پر قابض ہوگیا۔ شاید تب، جب پہلی بار سب کی مداخلت کے باوجود اسے سپورٹ کرنے پر وہ بہ طورِ خاص میرا شکریہ ادا کرنے میرے کیبن میں آیا تھا اور مجھے کافی کی پیشکش کی تھی یا شاید تب جب نانا کی طبیعت خراب ہوجانے پر مجھے ایمرجنسی چھٹی لینی پڑی تھی تو اس نے ناصرف میری درخوست منظور کروالی بلکہ میری طرف سے اس دن کا سارا کام بھی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو جمع کروا دیا۔ مگر میں اس کی منظورِ نظر کیوں کر ٹھہری؟ شاید اس کی طرف بھی ایسے ہی کچھ واقعات ذمہ دار ٹھہرے ہوں گے۔
گو کہنے کو یہ تعلق ضرورت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا مگر شاید اس خوبصورت ناریل کے پانی کی طرح تازہ دم کردینے والے جذبے کو یوں ہی قائم ہونا تھا۔ یوں بھی گزرتے وقت کے ساتھ احساس اور اعتبار ایسے بیل بوٹے اس محبت کو مزید دلکش تو بناہی رہے تھے۔ بہرام فطرتاً تنہائی پسند تھا، اس بات کا اندازہ بھی مجھ سمیت دیگر اسٹاف کو اچھی طرح ہوگیا۔ جب وہ دو ٹوک انداز میں کولیگز کے ساتھ لنچ یا آؤٹنگ میں جانے سے انکار کردیتا۔ اسے اپنے گرد جمگھٹا بالکل پسند نہ تھا۔ یہ بات بھی سچ تھی کہ وہ میرے ساتھ چلتے۔ اس ڈیڑھ سالہ ریلشن شپ میں بھی بہ مشکل تین بار ہی ڈنر پر گیا تھا۔ اسے جو بات کرنی ہوتی، خاص یا عام، وہ سب کے سامنے میرے کیبن میں آتا تھا۔ کوئی پوچھتا تو ڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کرتا کہ قمروش آفاقی اس کی زندگی میں بے حد اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ خیال ہی کتنا مغرور کردینے والا ہے نا کہ دنیا ہے اس کے پیچھے، لیکن وہ میرے پیچھے۔ چہرے پر آئی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے میں نے چائے کی چسکی بھری تھی۔
٭…٭…٭
ہفتے بھر بعد وہ خاتون پھر نانی کے تخت پر براجمان تھی۔ گہرا رنگ، دبلا سراپا مگر بڑی بڑی آنکھیں جنہیں سرمے کی سلائیوں سے خوب بھرا گیا تھا۔ آج پھر اسے دیکھ کر ذہن میں ایک شبیہہ لہرائی مگر دھند میں لپٹی ہوئی اتنی دھندلی کہ نانی کے کہنے پر جب تک میں نے چائے بنا کر ان کے سامنے پیش کی تو وہ بھی شاید چینی کی طرح گھل کر غائب ہوچکی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے کمرے میں ٹھہرنے تک بہ جائے اس کے وہ براہِ راست مجھ سے کچھ پوچھتی، عجیب سی نظروں سے وہ میرا جائزہ لیتی رہی۔ نائمہ کا ایوننگ شفٹ کا پرچہ تھا لہٰذا وہ بھی گھر پر نہ تھی کہ اس سے کچھ کہہ سن لیتی لیکن میرے دل میں خواہش ابھری کہ میں دوبارہ کبھی اس عورت کو نہ دیکھوں۔ مگر کچھ دعائیں شاید قبولیت کے درجے پر فائز ہونے کے لیے نہیں نکلتیں یا یوں کہنا چاہیے کہ کچھ دعائیں ٹھیک نشانے پر نہیں لگتیں۔ وہ آر پار ہو کر آپ کو کسی نہ کسی صورت کم یا زیادہ فائدہ تو دے جاتی ہیں مگر نشانہ چوک جانے کا دکھ بہرحال رہتا ہے۔ مجھے دفتر سے آئے کچھ وقت ہی گزرا تھا لہٰذا تازہ دم ہونے کی غرض سے غسل خانے چلی گئی۔
٭…٭…٭