خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

کچھ دن بعد ان گملوں سے ننھے ننھے پودے سر اٹھانے لگے۔ امی جان کی خوشی کے ساتھ ساتھ میں بھی بہت خوش تھا کہ چلو محبت رنگ لا رہی ہے۔ مناسب کھاد، پانی کی بروقت فراہمی اور گوڈی سے ننھے ننھے پودے سر اٹھانے لگے اور کچھ ہی دنوں میں ننھی ننھی کونپلوں نے ہری بھری ڈالیوں کا روپ دھار لیا۔
پھر رفتہ رفتہ ان پر کلیاں آنے لگیں۔ جس دن پہلا پھول کھلا، امی جان کی خوشی دیدنی تھی اور ان کے چہرے کے ساتھ ساتھ میرا چہرہ بھی کھل اٹھا۔ کچھ دن بعد گملے رنگ برنگ پھولوں کی بہار دکھا رہے تھے۔ خوش رنگ پھولوں سے گھر کا وہ کونا سج گیا۔ جیسے بہار نے پرانی خفگی بھلا کرہمارے گھر سے دوستی کر لی ہو۔
امی جان کا کھانا پینا اور سینا پرونا بھی اب اسی جگہ ہوگیا۔
ایک مہینہ تو وہ خوشنما پھول خوب کھلے رہے، پھر جیسے برسات میں پتنگے بلب کی روشنی میں گرتے جاتے ہیں ایسے ہی ایک ایک کرکے پھولوں والی ٹہنیاں سر نگوں ہونے لگیں اور رنگ برنگ پھول پتنگوں کی طرح گملوں کے نیچے ڈھیر ہوگئے۔
جیسے جیسے پھول مرجھاتے جاتے، ایسے ایسے امی جان کے چہرے کا رنگ بھی بدلتا جاتا۔ اس بار وہ بہت دنوں تک غمگین رہیں اور سارے گھر میں اداس اداس پھرتی رہیں۔
ایک بار ابا جان نے بھی کہا کہ میں کہیں سے لا دیتا ہوں سدا بہار کی قلمیں یا پود ے تم ایسے اداس اور غمگین نہ رہا کرو لیکن اس بار امی جان نہ مانیں بلکہ دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگیں کہ شاید یہ پھول میرے آنگن کے نصیب میں ہی نہیں۔ وگرنہ جتنی محنت ان کے اگانے میں کی، اتنے میں تو پھلوں کے درخت لگاتی تو اب تک ٹوکروں کے حساب سے پھل دے رہے ہوتے۔
”شاید کچھ پھولوں کو ہمارے آنگن کی مٹی ہی راس نہیں آتی۔ پھر چا ہے جتنے بھی جتن کرلو وہ آپ کے آنگن میں نہیں کھلتے۔ کیونکہ ان کا کھلنا نصیب میں ہوتا ہی نہیں۔ ان پر جتنی مرضی محنت کرلو، اکارت چلی جاتی ہے۔”
امی کے لہجے میں برسوں کی ریاضت اور تھکن بول رہی تھی۔
…٭…





امی جان کچھ عرصے بعد دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئیں۔ سدا بہار کے پودے اور پھولوں کا ارمان وہ اپنے دل میں ہی لیے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ میرا یونیورسٹی میں ایڈمشن ہو گیا اور میں امی جان کی یادوں کو دل میں بسائے دوسرے شہر چلا گیا۔ یو نیورسٹی میں جب جب سدا بہار کے پھول دیکھتا تو دل خون کے آنسو روتا لیکن پھر فوراً ہی ان پھولوں میں امی جان کا چہرہ مسکراتا ہوا نظر آتا، تو ان کی یاد ایک کسک بن کر سینے کو دہکانے لگتی ۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد میری سعودیہ میں جاب ہو گئی اور پھر میں اپنے وطن کے ساتھ ساتھ امی جان کی قبر سے بھی دور ہوگیا۔
جب تک وہاں تھا، میری کوشش ہوتی کہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاؤں۔ اس طرح میرے دل کو کچھ سکون مل جاتا اور باقی کا دن بھی اسی سکون کے سہارے گزر جاتا۔
اب جب سے یہاں آیا تھا دل کے سکون کا وہ سامان بھی دور ہو گیا تھا۔ ایک بات تھی، جس کمپنی میں میری جاب تھی اس میں ہر طرف رنگا رنگ سدا بہار کے پھول ہوا کے دوش پر جھولتے نظر آتے اور مجھے ان میں اپنی امی جان کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آتا۔
کبھی کبھی خیال آتا کہ اس بے آب و گیاہ صحرا میں یہ پھول کیسی بہار دکھا رہے ہیں جبکہ ہمارے آنگن میں امی جان نے ہر طرح کی کوشش کر کے دیکھ لی، لیکن یہ پھول وہاں زیادہ دیر اپنی بہار نہ دکھا سکے۔
”شاید امی جان ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ ہمارے آنگن کی مٹی کے نصیب میں ان پھولوں کی بہار لکھی ہی نہیں گئی تھی۔”
کچھ باتیں بہت دیر سے سمجھ آتی ہیں۔ جیسے یہی بات اب میری سمجھ میں آئی تھی۔
٭…٭…٭
آج میں تقریباً دو سال اور کچھ دن کے بعد اپنے دیس لوٹا تھا اور فجر کی نماز کے بعد قبرستان میں آیا تھا۔ جب میں امی جان کی قبر پر پہنچا تو یہ دیکھ کر میری حیرانی اور خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان کی قبر پر مختلف خوشنما رنگوں کے سدا بہار کے پھول کھلے ہوئے تھے۔پھولوں نے پوری قبر کو ڈھکا ہوا تھا اور ایک کونے میں تھوڑے سے گلِ نرگس کے پھول ایسے جھانک رہے تھے جیسے اداس اداس آنکھوں سے میرا انتظار کر رہے ہوں۔ میں کچھ دیر تو حیرانی اور خوشی سے گنگ کھڑا رہا۔
حیرانی اس بات کی تھی کہ جانے کس نے یہ پھول اگائے اور خوشی اس بات کی تھی کہ امی جان کی بر سوں کی خواہش پوری ہو گئی تھی اور اب خزاں کے موسم میں ان کی قبر پر سدا بہار کے مختلف رنگوں کے کھلے ہوئے پھولوں نے عجب سماں باندھ دیا تھا۔
میں فاتحہ اور دوسری قرآنی سورتیں اور اذکار کر کے گھر لوٹ آیا۔
گھر آ کر میں نے ابا جان اور فرداً فرداً سب بہن بھائیوں سے پوچھا کہ کس نے امی جان کی قبر پر وہ پھول اگائے ہیں؟ لیکن میری طرح سب ہی اس بات سے بے خبر تھے۔
امی جان شاید نہیں جانتی تھیں کہ ان کے گھر کے آنگن کی مٹی کے نصیب میں تو سدا بہار کے پھول نہیں تھے لیکن ان کی قبر کی مٹی کے نصیب میں ضرور لکھے تھے جو خزاں کے موسم میں بھی عجب بہار دکھا رہے تھے۔ ربِ کریم بھی کچھ خواہشوںکو کیسے کیسے پورا کر دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کفنی — خواجہ حسن نظامی

Read Next

قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!