تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

منیزہ منصور علی کے جانے کے بعد ایک بار پھر امبر کے کمرے میں چلی آئیں، امبر اپنے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی رو رہی تھی۔
”منصور کہاں گیا ہے؟” منیزہ نے آتے ہی پوچھا۔
”مجھے کیا پتہ، کہاں گئے ہیں۔” امبر نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا۔
”تمہاری بات ہوئی ہے اس سے؟” امبر نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ اسی طرح روتی رہی۔
”امبر! میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔ سیدھی طرح اٹھ کر میری بات کا جواب دو۔” منیزہ نے اس بار بلند آواز میں کہتے ہوئے اس کو کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
”کی ہے میں نے ان سے بات۔ وہ بدل گئے ہیں ممی! وہ پہلے والے پاپا نہیں رہے۔”
”مجھے تم صرف یہ بتاؤ کہ اس نے کہا کیا ہے؟”
”وہ رخشی کو طلاق دینے پر تیار نہیں ہیں، آپ کو پتا ہے ممی انہوں نے مجھے تھپڑ بھی مارا ہے۔”
”میں جانتی تھی۔ میں پہلے ہی جانتی تھی کہ وہ رخشی کو طلاق نہیں دے گا، بڑھاپے کے عشق کا بھوت اتنی جلدی سر سے نہیں اترتا۔” وہ کمرے میں ٹہلنے لگیں۔
”اب تم دیکھنا، میں کیا کرتی ہوں… میں منصور علی اور رخشی دونوں کو مزہ چکھا دوں گی۔ میں حشر کر دوں گی ان دونوں کا۔”
”ممی! آپ مسعود انکل کو بتائیں، وہ پاپا کو سمجھائیں گے تو شاید پاپا کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔” امبر نے اپنے گیلے گالوں کو پونچھتے ہوئے کہا۔
”مسعود انکل؟… یہ سب ملے ہوئے ہیں… سب ایک جیسے ہیں منصور، مسعود، طلحہ، اسامہ سب۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا اور ان لوگوں نے ہمیں اندھیرے میں رکھا۔”
”ممی! ایسا نہ کہیں، شبانہ آنٹی نے ہی تو ہمیں پاپا اور رخشی کے بارے میں انفارم کیا تھا۔”
”شبانہ نے کیا تھا مسعود نے تو نہیں کیا تھا۔ طلحہ نے تو نہیں کیا تھا۔ اسامہ نے تو نہیں کیا تھا، مسعود نے تو شبانہ کو بھی منع کیا تھا کہ وہ مجھے رخشی کے بارے میں نہ بتائے۔ ان لوگوں نے جان بوجھ کر میرا گھر تباہ کیا ہے۔ جان بوجھ کر۔ یہ سب… سب ملے ہوئے ہیں آپس میں۔ میں ان میں سے کس کی کو بھی معاف نہیں کروں گی۔” منیزہ اب بلند آواز میں بولتے ہوئے کمرے کے چکر لگا رہی تھیں۔




”ہو سکتا ہے ممی! انکل مسعود کو یا طلحہ اور اسامہ کو اس سب کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ ہو۔”
”تم اپنا منہ بند کرو، ختم کرو ان کی حمایت۔ ان لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ رخشی اور منصور کیا گل کھلا رہے ہیں، میں ماننے پر تیار نہیں ہوں۔ میں تو گھر کے اندر رہنے والی عورت تھی چوبیس گھنٹے منصور کے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔ مگر یہ تینوں اس کے ساتھ ہوتے تھے۔”
”ممی! پاپا اب کہاں ان کے ساتھ ہوتے تھے… وہ تو اپنے نئے آفس میں نئی فیکٹری میں ہوتے تھے۔”
”جہاں بھی تھا وہ، ان تینوں سے اس کی حرکات چھپی نہیں رہ سکتی تھیں مگر انہوں نے اس کی پردہ پوشی کی۔ اسے کھل کھیلنے کا موقع دیا۔” منیزہ یک دم بات کرتے کرتے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”میں صبح رخشی کے گھر جارہی ہوں۔ میں وہاں جاکر اسے دھکے دے کر وہاں سے نکال دوں گی… تمہیں میرے ساتھ وہاں چلنا ہے۔”
”میں کبھی اس کے سامنے نہیں جاؤں گی، کبھی نہیں۔ میں کبھی اس کے سامنے جاکر بھیک نہیں مانگوں گی کہ وہ میرے باپ کی زندگی سے نکل جائے۔ مجھے اس سے جو کہنا تھا میں اس سے فون پر کہہ چکی ہوں۔ ممی! میں تو اب دوبارہ کبھی اس سے فون پر بات تک نہیں کروں گی۔”
”تم کیوں اب اس سے بات کرو گی جو کچھ تم نے کرنا تھا، وہ تو تم کر چکی ہو۔ اپنی سہیلی کو میری سوکن بنا کر لے آئی ہو تمہیں کیا ضرورت رہی ہے اب اس سے بات کرنے کی۔” منیزہ نے تند و تیز لہجے میں کہا۔
”ممی! آپ بھی مجھے ہی الزام دے رہی ہیں۔” امبر ایک بار پھر رونا شروع ہو گئی۔
”یہ سب کچھ پاپا نے کیا ہے… پاپا ایسے نہ ہوتے تو رخشی ہوتی یا کوئی بھی ہوتی۔ یہ سب کچھ کبھی نہیں ہونا تھا… غلطی پاپا کی ہے۔ وہ رخشی سے شادی نہ کرتے تو کسی اور کے ساتھ کر لیتے۔”
”میرا شوہر اور اولاد دونوں میرے دشمن نکلے ہیں… میں تو دونوں کو ہی الزام دوں گی تمہیں بھی، اسے بھی اور جہاں تک رخشی کے گھر جانے کا تعلق ہے۔ تم نہیں جانا چاہتیں نہ جاؤ میں جاؤں گی میں اس سے بات کروں گی اگر اس پر اثر نہیں ہوا تو پھر میں اس کو دھکے دے کر وہاں سے نکلوا دوں گی بلکہ میں پولیس کو بلوا کر رخشی اور اس کے تمام گھر والوں کو گرفتار کروا دوں گی۔” منیزہ کہتے ہوئے اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگیں۔
”آپ کے وہاں جانے کا کیا فائدہ ہوگا۔ آپ سمجھتی ہیں کہ رخشی آپ سے خوفزدہ ہو جائے گی… ممی! وہ آپ کی بات تک نہیں سنے گی۔”
”یہ تمہاری غلط فہمی ہے… تم دیکھنا، میں اسے کس طرح منصور سے الگ کرتی ہوں۔ منصور کا خیال ہے کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتی، اس نے شادی کر لی ہے تو میں اسے قسمت کا کھیل کہہ کر قبول کر لوں گی۔ میں تو اسے سبق سکھا دوں گی، اسے بھی اور اس کی اس نئی نویلی دلہن کو بھی۔”
”آپ کو جو بات بھی کہنی ہے ممی! آپ کو پاپا سے کہنی چاہیے۔ رخشی سے کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، وہ آپ سے بھی وہی سب کچھ کہے گی جو اس نے مجھ سے کہا ہے۔ اس نے اگر میری لعنت ملامت کی پرواہ نہیں کی تو آپ کی لعنت ملامت کی کیا پرواہ کرے گی۔”
‘تم نے اسے پیسے کی آفر نہیں کی ہوگی۔ میں اسے پیسہ دینے کی آفر کروں گی… اس سے کہوں گی کہ وہ پیسہ لے لے اور منصور کی زندگی سے نکل جائے۔”
”پیسے کی آفر…” امبر نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ ”آپ اسے کتنا پیسہ دے سکتی ہیں پاپا سے زیادہ پیسہ دے سکتی ہیں؟ نہیں دے سکتیں… پاپا اس کی مٹھی میں ہیں۔ وہ جتنا روپیہ چاہے ان سے نکلوا سکتی ہے۔ پھر وہ احمق تو نہیں ہے کہ آپ کی چند لاکھ کی آفر کو قبول کر لے۔ اسے رہنے دیں ممی! اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بات کرنی ہے تو پاپا سے کریں… بلکہ ماموں سے کہیں، وہ پاپا سے بات کریں، انکل مسعود سے کہیں وہ پھر بھی کسی نہ کسی حد تک پاپا پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ پاپا ان کی بات سنیں گے۔ وہ انہیں بالکل سرے سے رد نہیں کر سکتے۔”
”تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو… میں جو کرنا چاہتی ہوں، کروں گی تم اتنی عقل مند اور سمجھدار ہو تیں تو یہ سب کچھ نہ ہوتا… اب تمہیں ماں کو عقل سکھانا یاد آگیا ہے۔” منیزہ نے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔
”آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ میں بے وقوف اور احمق ہوں۔ میں تو اس بات پر بحث کر ہی نہیں رہی ویسے بھی مان رہی ہوں کہ میں بے وقوف ہوں، آپ بار بار کیوں جتا رہی ہیں مجھے۔” امبر نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”باربار جتا رہی ہوں کیونکہ میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔” منیزہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔
٭٭٭
”اوہ منیزہ بھابھی کو تمہاری شادی کا پتہ چل گیا۔” ہارون کمال نے چونکنے کی اداکاری کی۔ ”حیرت ہے کیسے پتہ چلا انہیں؟”
منصور علی اگلے دن صبح سیدھا ہارون کمال کے آفس آئے تھے اور انہوں نے آتے ہی ہارون کمال کو پچھلے چند دن میں ہونے والے تمام واقعات کے بارے میں بتا دیا۔ ہارون کمال کا ردِّعمل منصور علی کے لیے غیر متوقع نہیں تھا، وہ حیران ہوا تھا۔
”یہ تو میں نہیں جانتا کہ اسے کیسے پتہ چلا مگر اسے پتہ چل گیا ہے۔” منصور علی نے کہا۔
ہارون کمال چند لمحے خاموش رہا۔ اسے یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ منیزہ تک یہ خبر پہنچانے کا ذریعہ کیا ہو گا۔ وہ رخشی کو منصور علی سے بھی زیادہ بہتر جانتا تھا۔
”بہت برا ہوا۔”
”ہاں بہت برا ہوا مگر یہ تو کبھی نہ کبھی ہونا ہی تھا۔”
”منیزہ بھابھی یا امبر نے اگر تمہارے ساتھ جھگڑا کیا ہے تو وہ تو تمہارے لیے غیر متوقع نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے یہ اتنا بڑا قدم ہے کہ وہ اتنی آسانی سے تو اسے قبول نہیں کرسکتیں۔” ہارون کمال نے کہا۔
”جانتا ہوں میں کہ وہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے قبول نہیں کر سکتیں مگر انہوں نے جو کچھ مجھ سے کہا ہے۔ میں اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ میرا خون کھول رہا ہے۔” منصور علی نے غصے کا اظہار کیا۔
”اب تم آگے کی سوچو، آگے کیا ہونے والا ہے تمہارے ساتھ۔”
”میں تیار ہوں ہر چیز کے لیے۔” منصور علی نے کندھے جھٹکے۔
”منیزہ بھابھی نے اب تم سے یہی مطالبہ کرنا ہے کہ تم رخشی کو طلاق دے دو۔”
”یہ مطالبہ کرنا نہیں ہے۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں وہ یہ مطالبہ امبر کے ذریعے کر چکی ہے مگر میں رخشی کو طلاق نہیں دوں گا، کسی قیمت پر بھی نہیں۔”
”دیکھ لو، آگے چل کر تمہارے مسائل میں اور اضافہ ہوگا۔”
”اس سے زیادہ کیا اضافہ ہو گا۔”
”اگر تم نے رخشی کو طلاق نہ دی تو منیزہ بھابھی اپنے لئے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ ضروری تو نہیں ہے کہ اب وہ تمہارے ساتھ رہنے پر رضا مند ہوں۔”
”اگر اس نے طلاق کا مطالبہ کیا تو میں بڑی خوشی کے ساتھ اس کا یہ مطالبہ پورا کر دوں گا… مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اس کو اپنے ساتھ رکھنے کا۔”
”تو پھر تمہارے بچوں کا کیا ہوگا… ان کے بارے میں سوچا ہے کچھ تم نے؟”
”امبر اور صبغہ کی تو شادی ہو جائے گی… باقی تینوں بچے چاہیں تو اسی گھر میں میرے پاس رہ سکتے ہیں یا پھر اپنی ماں کے پاس چلے جائیں۔” منصور علی بے حد سرد مہری سے کہتے گئے۔
”لیکن میں نہیں سمجھتا… طلاق تک نوبت آئے گی… منیزہ یہ آرام و آسائش کبھی نہیں چھوڑ سکتی… طلاق لے کر وہ کہاں جائے گی، بھائی رکھیں گے اسے، ہونہہ!” منصور علی نے حقارت سے کہا۔
”سوچ لو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے خاندان والے سارے اکٹھے ہو کر تمہیں رخشی کو طلاق دینے پر مجبور کر دیں۔ آخر خاندانی دباؤ کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔” ہارون کمال نے کہا۔
”خاندان؟ کون سا خاندان؟ مسعود بھائی تو اس سلسلے میں مجھ سے بات کرنے کی جرات کبھی نہیں کریں گے۔ اور اگر انہوں نے کی بھی تو میں انہیں جھڑک دوں گا اور جہاں تک منیزہ کے خاندان کا تعلق ہے۔ تو میں ان کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔ مجبور ہونے کی تو بات دوسری ہے۔ آخر میں لیتا کیا ہوں ان سے کہ میں ان کی بات ماننے پر مجبور ہو جاؤں۔ نہیں ہارون کمال! میرے خاندان میں سے کوئی مجھے سمجھانے کے لیے آگے آنے کی حماقت نہیں کرے گا جو کرے گا، وہ منہ کی کھائے گا۔”
”اب دیکھو تم نے فیصلہ کر لیا ہے تو میں تمہیں کیا کہہ سکتا ہوں… صرف دعا ہی کر سکتا ہوں تمہارے حق میں اور دوست کے طور پر تو تم ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ پاؤ گے۔” ہارون کمال نے انہیں یقین دلایا۔
”اگر میں یہ نہ جانتا کہ رخشی کے ساتھ تمہاری بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے تو شاید میں بھی تمہارے فیصلے پر کچھ جز بز ہوتا مگر رخشی بہت اچھی لڑکی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اچھی بیوی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر منیزہ بھابھی سے تمہاری طلاق ہو بھی جاتی ہے، تب بھی تم رخشی کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہو۔”
ہارون کمال نے ایک ہمدرد دوست کا کردار نبھاتے ہوئے کہا۔ منصور علی نے اسے ممنون انداز میں دیکھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!