تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

”بیگم صاحبہ، باہر ایک عورت آئی ہے۔ کہہ رہی ہے کہ انہیں آپ سے ملنا ہے۔” چوکیدار نے اندر آکر رخشی کو بتایا۔
”نام پوچھ کر آؤ اس عورت کا۔” رخشی نے چوکیدار سے کہا۔
”نام نہیں بتا رہی وہ… بہت بد تمیزی سے بات کر رہی ہے۔ میں نے اس سے بار بار اس کا نام پوچھنے کی کوشش کی ہے مگر اس کی ایک ہی ضد ہے کہ آپ اس کا نام کیا اس کو بھی اچھی طرح جانتی ہیں۔” رخشی کا ماتھا بے اختیار ٹھنکا۔
”کیا حلیہ ہے اس عورت کا؟” اس نے چوکیدار سے پوچھا۔ وہ لاؤنج میں بیٹھی ایک میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی۔ چوکیدار نے جواباً اس عورت کا حلیہ اسے بتانا شروع کر دیا۔ رخشی کا اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا، وہ منیزہ ہی تھیں۔
رخشی کچھ دیر تک بالکل بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔ وہ توقع نہیں کر رہی تھی کہ پچھلی رات کی گفتگو کے بعد منیزہ اگلے ہی دن اس طرح اچانک اس کے گھر آن پہنچیں گی… منصور علی اس وقت آفس جا چکے تھے او ریہ ایک اتفاق ہی تھا کہ رخشی نے اس دن آفس نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا… مگر اب وہ بے اختیار پچھتائی۔
”تم اس سے کہہ دو کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔” رخشی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔
”مگر میں تو انہیں بتا چکا ہوں کہ آپ گھر پر ہی ہیں۔” چوکیدار نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے۔” رخشی نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ ”بس تم جاکر اس سے کہہ دو کہ میں گھر پر نہیں ہوں اگر وہ پھر بھی ملنے پر اصرار کرے تو تم اس سے کہہ دو کہ میں اس سے ملنا نہیں چاہتی۔” رخشی نے ایک بار پھر میگزین اٹھاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے جی… میں جاکر کہہ دیتا ہوں۔” چوکیدار کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ رخشی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ اس کے لیے منیزہ کا وہاں آنا غیر متوقع نہیں تھا۔ صرف اس وقت فوری طور پر آجانا غیر متوقع ثابت ہوا تھا۔
”بیگم صاحبہ! وہ عورت بہت شور مچا رہی ہے جانے پر تیار ہی نہیں ہے… وہ آپ کو بھی ادھر سڑک پر کھڑے ہو کر گالیاں بک رہی ہے… بہتر ہے آپ اس سے خود بات کر لیں۔” چوکیدار نے دوبارہ اندر آکر بے چارگی کے انداز میں کہا صاعقہ نے لاؤنج میں آتے ہوئے چوکیدار کی بات سن لی۔




”کس عورت کی بات کر رہا ہے، یہ کون عورت آئی ہے؟”
”منیزہ۔”
”تو پھر؟”
”تو پھر یہ کہ وہ باہر کھڑی مجھ سے ملنے کے لیے اصرار کر رہی ہے۔ میرے نہ ملنے پر وہ شور کر رہی ہے۔” رخشی نے کہا۔
‘تو تم اس کو اندر بلوا کر بات کر لو… زیادہ سے زیادہ جھگڑا ہی کرے گی۔”
”نہیں، میں اس کو اندر تو کسی قیمت پر نہیں بلواؤں گی۔ میں نے یہاں اپنے گھر میں ملازموں کے سامنے تماشا نہیں لگوانا۔” رخشی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تو پھر تم کیا کرو گی۔ وہ تم سے بات کیے بغیر تو نہیں ٹلے گی۔”
”میں اس سے انٹر کام پر بات کر لیتی ہوں۔ تم جاؤ جا کر اس سے کہو کہ وہ مجھ سے انٹر کام پر بات کر لے۔” رخشی نے آخری جملہ چوکیدار سے کہا۔ وہ سرہلاتے ہوئے باہر نکل گیا۔
”آپ بھی بعض دفعہ حد کر دیتی ہیں امی! مجھے اس کو اندر بلوانے کے لیے کہہ رہی تھیں۔ آپ جانتی ہیں اس عورت کو۔ اس عورت نے کیسی زبان استعمال کرنی تھی میرے اور منصور کے بارے میں اور ملازم پوری کالونی میں سب کچھ بتا دیتے۔ کیا عزت رہتی میری یہاں۔” چوکیدار کے باہر نکلتے ہی رخشی صاعقہ سے الجھنے لگی۔
صاعقہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ کچھ متفکر ہو کر اس کے قریب صوفہ پر بیٹھ گئی۔ رخشی اٹھ کر انٹرکام کے پاس گئی اور اس نے ریسیور اٹھا لیا۔ گیٹ پر منیزہ کی آواز اس کے کانوں میں آنے لگی۔ وہ چوکیدار کے ساتھ لڑ رہی تھی۔
”کس لیے آئی ہو تم یہاں پر۔” رخشی نے انٹر کام پر منیزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”میں تمہارا دماغ درست کرنے آئی ہوں۔” منیزہ نے جواباً غرا کر اس سے کہا۔ ”ایک بار دروازہ کھول کر تم مجھے اندر تو آنے دو۔ پھر میں تمہیںبتاؤں گی کہ یہاں کس لیے آئی ہوں۔”
”یہ میرا گھر ہے… میں جس کو چاہوں، اندر آنے دوں جس کو چاہوں نہ آنے دوں۔ تم کون ہوتی ہو مجھے دروازہ کھولنے پر مجبور کرنے والی۔”
”اپنا گھر… شکل دیکھی ہے تم نے اپنی، اپنا گھر؟ کبھی خواب میں بھی تم نے اور تمہاری ماں نے ایسا گھر دیکھا ہے جسے تم اپنا گھر کہہ رہی ہو۔”
”اپنی بکواس بند کرو او ریہاں سے دفع ہو جاؤ۔” رخشی نے غصے سے کہا۔
”تمہارے جیسی طوائف سے ملنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔ میں تم سے صرف یہ کہنے آئی ہوں کہ تمہیں جتنی رقم چاہیے، مجھ سے لو اور میرے شوہر کا پیچھا چھوڑ دو۔”
”تمہارا شوہر صرف تمہارا نہیں میرا بھی شوہر ہے۔” رخشی نے کہا۔
”تم جیسیوں کے ایسے بے شمار شوہر ہوتے ہیں۔ تم اس کی جگہ کسی اور کو پھانس لینا، جلد یا بدیر تم نے اس کو چھوڑنا تو ہے ہی تو بہتر نہیں کہ رسوا ہوئے بغیر چھوڑ دو۔” منیزہ نے ہتک آمیز انداز میں کہا۔
”تم چھوڑ دو اس کو، تم کیوں نہیں چھوڑ دیتیں اسے۔” رخشی نے سلگ کر کہا۔
”میں نہیں چھوڑ سکتی اسے، میرے پانچ بچوں کا باپ ہے۔ وہ پورے خاندان کے ساتھ علی اعلان بیاہ کر لایا ہے مجھے۔ خاندانی بیوی ہو ںمیں اس کی۔ تمہاری طرح چوری چھپے والا نکاح نہیں کیا اس نے میرے ساتھ۔” منیزہ کے لہجے کی حقارت بڑھتی جارہی تھی۔
”میں اس کو نہیں چھوڑوں گی۔ تم اپنے شوہر سے جاکر کہو کہ وہ مجھے چھوڑ دے۔”
”تم مجھے اندر آنے دو، میں اندر آکر تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔”
”میں تم سے اب اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی، یہاں سے چلی جاؤ۔” رخشی نے کہا۔
”تم احسان فراموش ہو رخشی! جانور سے بھی بد تر ہو۔ میری بیٹی سے بھیک لیتی رہی ہو۔ اس کی اترن پہنتی رہی ہو کبھی سوچو ان احسانوںکے بارے میں جو اس نے تم پر کیے تھے۔” منیزہ اور تلملائی۔
”ہاں اترن پہنتی رہی ہوں پہلے تمہاری بیٹی کی… اب تمہاری پہن لی ہے۔ عادت ہو گئی ہے مجھے احسان لینے کی۔ ایک اور احسان لے لیا ہے میں نے اپنے سر… جاؤ دفع ہو جاؤ۔” اب رخشی نے سرخ چہرے کے ساتھ کہتے ہوئے انٹر کام پٹخ دیا۔
”میرا دل چاہ رہا ہے۔ میں گیٹ پر جا کر اس عورت کا گلا دبا دوں۔” رخشی نے واپس صاعقہ کے پاس آتے ہوئے کہا۔
”اپنے آپ پر قابو رکھو۔ اتنا غصے میں آنے کی ضررورت نہیں ہے۔” صاعقہ نے رخشی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، خود اس کے اپنے ہاتھوں کے توتے اڑے ہوئے تھے۔
”آپ کو تو پتہ ہی نہیں ہے یہ عورت کس طرح کی زبان استعمال کرتی ہے۔ آپ اس عورت کی زبان سن لیتیں تو آپ کو بھی اس پر میری ہی طرح بلکہ مجھ سے بڑھ کر غصہ آتا۔” رخشی کہتی ہوئی ایک بار پھر صاعقہ کے پاس بیٹھ گئی۔
اس سے پہلے کہ وہ صاعقہ سے کچھ کہتی، چوکیدار تقریباً بھاگتا ہوا اندر آیا۔ وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔
”کیا بات ہے؟”
”بیگم صاحبہ! اس عورت نے سڑک پر لوگوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے۔ آس پاس کے گھروں سے نوکر نکل کر گیٹ پر آگئے ہیں۔ وہ آپ کے اور صاحب کے بارے میں بہت بری بری باتیں کر رہی ہے۔” چوکیدار نے بے چارگی سے کہا۔
”کرنے دو، تم گیٹ پر مت جاؤ، اندر ہی رہو۔” رخشی نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
”وہ گیٹ کو زور زور سے بجا رہی ہے آپ باہر نکل کر دیکھیں، کتنا ہنگامہ مچایا ہوا ہے اس نے بیگم صاحبہ! بہتر ہے کہ اسے اندر بلا کر آپ اس سے بات کر لیں ورنہ وہ کہہ رہی ہے کہ وہ یہاں سے نہیں جائے گی۔” چوکیدار نے رخشی کو مشورہ دیا۔
رخشی اس کے مشورے پر عمل کرنے کے بجائے اٹھ کر لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ پورٹیکو میں آتے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ چوکیدار غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ منیزہ نے واقعی باہر طوفان اٹھایا ہوا تھا، وہ بلند آواز میں بول رہی تھی۔
”گیٹ کی جھریوں میں سے بہت دور سے بھی اسے منیزہ اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے لوگ نظر آرہے تھے، منیزہ نے بھی گیٹ کی جھریوں میں سے اسے دیکھ لیا تھا۔ اب اس نے طیش کے عالم میں دروازہ پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ رخشی کو بلند آواز میں گالیاں دے رہی تھی رخشی کو صاعقہ کو، ان کے خاندان کو۔
رخشی کی آنکھوں میں خون اترنے لگا تھا۔ وہ شہر کے ایک پوش علاقے میں رہتی تھی۔ ایسا علاقہ جہاں لوگوں کو ایک دوسروں کے گھروں میں جھانکنے یا ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کا شوق نہیں ہوتا مگر منیزہ نے اس کے گیٹ کے باہر اتنا شور مچایا ہوا تھا کہ آس پاس کی چند کوٹھیوں کے ٹیرس، کھڑکیوں اور بالکونیاں میں گھر کی خواتین اور مرد آگئے تھے… بعض میں گھر میں موجود نوکر کھڑے تھے۔
رخشی گیٹ سے اندر کچھ فاصلے پر کھڑی ان نظروں کی تضحیک اور تحقیر کو اپنے وجود میں سوئیوں کی طرح چبھتا محسوس کر رہی تھی۔ منیزہ نے جیسے سر بازار اسے برہنہ کر دیا تھا۔
اسے بہت سال پہلے اپنی گلی میں صاعقہ کی ظفر کے ہاتھوں ہونے والی پٹائی یاد آئی… سبزیاں اور پھل پوری گلی میں پھیل گئے تھے… وہ روتے ہوئے سبزیوں کو، پھلوں کو شاپر میں ڈال رہی تھی… لوگوں کی نظریں ہنسی… تمسخر تضحیک وہ پھر پانچ سال کی رخشی بن گئی تھی۔ ماں کو باپ کی پٹائی سے نہ بچا سکنے والی رخشی، سبزیوں اور پھلوں کو اکٹھا کرتے روتی ہوئی رخشی۔
”رخشی! اندر آجاؤ… یہاں کھڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔” صاعقہ نے اس کا بازو پکڑا۔ رخشی نے جھٹکے کے ساتھ اپنا بازو چھڑا لیا اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!