تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

”مجھے اب اندازہ ہوا رخشی! تمہاری بہن کو کیوں قتل کیا گیا تھا… اس نے بھی یہی کچھ کیا ہو گا۔” امبر نے کہا۔
ریسیور پر رخشی کے ہاتھ کی گرفت سخت ہو گئی… اس کے ہونٹ بھینچ گئے… پہلی بار اس کے چہرے سے وہ تمسخر آمیز مسکراہٹ غائب ہوئی تھی جو اس پوری گفتگو کے دوران اس کے چہرے پر تھی۔
”میری بہن کا نام مت لو۔” وہ غرائی۔
”کیوں نہ لوں۔ میں لوں گی اس کا نام تم تمہاری امی تمہاری بہنیں سب ایک جیسی ہو، یہی سب کچھ کرتی ہو گی… اسی لیے تو تمہارے فادر نے چھوڑ دیا تمہیں۔ اسی لیے تمہارے محلے والو ںنے تم لوگوں کو سپورٹ نہیں کیا۔ کیونکہ وہ تم لوگوں کو، تمہارے حربوں اور ہتھکنڈوں کو اچھی طرح جانتے تھے، صرف میں احمق تھی جو تمہیں اور تمہاری اصلیت کو نہیں جان سکی۔” رخشی نے کچھ کہنا چاہا پھر چپ رہی۔
”میں دیکھوں گی۔ تم پاپا کے ساتھ کیسے رہتی ہو۔ میں تمہیں پاپا کی زندگی، ان کے گھر، ان کے دل ہر جگہ سے نکال باہر پھینکوں گی۔ تم جانتی ہو۔ پاپا میری بات کبھی نہیں ٹال سکتے اور مجھے تمہیں ان کی زندگی سے باہر نکالنے کے لیے اپنی جان بھی دینی پڑی تو میں دے دوں گی۔” امبر کہتی جارہی تھی۔
”تب تم جان لو گی کہ کوئی رشتہ جس کی بنیاد صرف پیسے پر رکھی ہو خون کے رشتے سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ تم نے پاپا سے شادی کرکے صرف روپیہ حاصل کیا ہے مگر تم نے میری نظروں میں اپنی عزت کھو دی ہے تم نے اسی چیز کو ترجیح دی ہے جس کی تمہیں پرواہ ہے۔” امبر نے ریسیور پٹخ دیا۔
رخشی کچھ دیر ریسیور ہاتھ میں لیے رہی پھر اس نے ریسیور نیچے رکھ دیا۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔
”کیا ہوا؟” صاعقہ نے بے تاب ہو کر پوچھا۔




”یہ آپ جان ہی گئی ہیں کہ کیا ہوا ہے… سب کچھ تو سنا ہے آپ نے رخشی نے بیڈ پر بیٹھ کر گہرا سانس لیا۔
”اب کیا ہو گا؟”
”کیا ہو گا؟ کچھ نہیں ہوگا۔ پہلے کیا ہو گیا ہے جواب ہوگا۔ آپ کے پاس بس ایک ہی سوال ہے جو آپ ہر وقت کرکے مجھے پریشان کرتی رہتی ہیں۔” رخشی نے بے حد بیزاری سے کہا۔
”تمہیں اب منصور علی کو فون کرکے یہ سب کچھ بتا دینا چاہیے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اسے یہاں بلواؤ۔” صاعقہ کو بے چینی ہو رہی تھی۔
”کوئی آسمان سر پر نہیں گر پڑا کہ میں منصور کو فوراً یہاں بلواتی پھروں… دیکھ لوں گی سب کچھ صبح۔”
”اور اگر امبر اور اس کی ماں نے منصور علی سے اس بارے میں اسی وقت بات کر لی تو مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔” صاعقہ نے کہا۔
”تو کر لیں امبر اور اس کی ممی بات آپ بھی دیکھ لیں کتنا اثر رہ گیا ہے ان کی باتوں میں۔ منصور صبح یہاں ہو گا یہ بھی ممکن ہے وہ۔ ابھی رات کو ہی آجائے پھر آپ اپنے سارے خدشات اس کے ساتھ بیٹھ کر ڈسکس کر لیں۔” رخشی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”پھر بھی رخشی! احتیاط تو لازمی ہے۔”
”تو کریں۔ آپ ہیں نا ہر قسم کی احتیاطوں کے لیے۔ مجھے معاف رکھیں اس سب کچھ سے۔ میں سونے جارہی ہوں۔” رخشی کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی صاعقہ قدرے متفکر انداز میں اسے جاتے دیکھتی رہی۔
٭٭٭
امبر نے ریسیور رکھ کر دونوں ہاتھوں سے سرتھام لیا۔ اس کا سراب بری طرح چکرا رہا تھا۔ اسے منیزہ کے کہنے کے باوجود ان کی اس بات پر دل سے یقین نہیں آیا تھا کہ رخشی اور منصور کے درمیان کوئی افیئر ہے مگر جو اب اس نے رخشی کے منہ سے سنا تھا۔ وہ اس سے بہت بدتر صورتِ حال تھی۔ اسے رخشی کی ڈھٹائی پر حیرت ہو رہی تھی اور منصور علی پر رنج اور وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ منیزہ کو یہ خبر کیسے سنائے گی اور منیزہ کا رد عمل اس خبر پر کیا ہو گا۔
لیکن اسے منیزہ کو یہ خبر سنانی نہیں پڑی۔ فون کا ریسیور رکھنے کے ٹھیک دو منٹ بعد ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر منیزہ اندر آگئیں۔ امبر حواس باختہ ہو کر انہیں دیکھنے لگی۔ منیزہ بے حد طیش میں تھیں۔
”سن لیا تم نے سن لیا یہ سب تھا جس کو روکنا چاہتی تھی میں۔” منیزہ بلند آواز میں چلائیں۔
”ممی… ممی! آپ… آپ…” امبر بات کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
”میں نے اس ذلیل کی ہر بات فون پر سنی ہے… ہر بات اور یہ سب کچھ۔ یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے امبر! تمہاری وجہ سے۔” وہ اس کے سر پر کھڑی بری طرح چلا رہی تھیں۔
”تم نے اسے یہ سارے راستے دکھائے تھے۔ تم ہاتھ پکڑ کر اسے ہر جگہ پہنچاتی رہی ہو، وہاں بھی جہاں اسے نہیں جانا چاہیے تھا۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا۔ بار بار منع کیا تھا… مگر تم… تم پر خدمت خلق کا بھوت سوار تھا۔ تم نے ماں کی بات نہیں سنی… اب تسلی ہو گئی تمہاری۔ سکون مل گیا تمہیں۔”
”ممی! مجھے سکون ملے گا… میری تسلی ہو گی۔ آپ… آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔” وہ بے اختیار رونے لگی۔
”میں، میں کیسی باتیں کرتی ہوں۔ میں ایسی ہی باتیں کرتی ہوں یہی کچھ کہتی رہی ہوں تم سے اور تم… تم نے امبر اپنے گھر کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تم نے آگ لگا دی ہے اپنے گھر کو”
”میں نے آگ لگائی ہے نا… میں ہی بجھاؤں گی۔ آپ دیکھ لیجئے گا، میں پاپا سے اس کو طلاق دلوا دوں گی۔ میں آج ہی پاپا سے اس کو طلاق دلوا دوں گی۔”
”اس کے بعد کیا ہوگا۔ تمہارے باپ اور میرے درمیان جو تعلق تھا، وہ ختم ہو گیا۔ اس شخص نے میرے بیس سال کے ساتھ کو منٹوں میں پس پشت ڈال دیا۔ میں اس شخص کو رخشی کے ساتھ خوش رہنے دوں گی نہ اس گھر میں، میں اس کی زندگی کو جہنم بنا دوں گی۔” منیزہ اب بھی بری طرح چلا رہی تھیں۔
”وہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے میں اسے بتاؤں گی جہنم ہوتا کیا ہے۔” منیزہ کہتے ہوئے دروازے کو پوری طاقت سے پٹخ کر باہر چلی گئیں۔
امبر روتے ہوئے اٹھ کر ان کے پیچھے ہی نیچے چلی آئی۔ منصور علی ابھی تک گھر نہیں آئے تھے۔ امبر لاؤنج میں بیٹھنے کے بجائے باہر پورٹیکو میں آکر منصور علی کا انتظار کرنے لگی۔
ایک گھنٹے کے اس انتظار میں اس نے کئی بار منصور علی کے موبائل پر اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی… منصور علی کا موبائل ہر بار آف ملتا رہا۔ امبر کو لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے دل کو مٹھی میں لے کر مسل رہا تھا… منصور علی اور رخشی دونوں کے اکٹھے ہونے کا تصور اسے پاگل کیے دے رہا تھا… اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ منصور علی اس طرح چوری چھپے اپنی بیٹی کی عمر کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں اور لڑکی بھی وہ جوان کی بیٹی کی بہترین دوست تھی۔
ایک گھنٹے کے بعد اسے گیٹ پر منصور علی کی کار کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ منصور علی نے گیٹ کھلتے ہی دور پورٹیکو میں کھڑی امبرکو دیکھ لیا تھا۔ ان کی چھٹی حس خبردار کرنے لگی تھی۔ وہ پہلے بھی اکثر فرمائشوں کے لیے اسی طرح پورٹیکو میں ان کا انتظار کرتی رہتی تھی مگر پچھلے چند ماہ سے منصور علی اور امبر کے درمیان بھی ایک نامحسوس کھچاؤ تھا۔ وہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ وہ اس وقت وہاں کسی فرمائش کے لیے کھڑی ہوگی۔ خاص طور پر منیزہ کے ساتھ ایک دن پہلے ان کے ہونے والے جھگڑے کے بعد۔
گاڑی روک کر وہ نیچے اترے اور پھر امبر کے ستے ہوئے چہرے اور وجود کو نظر انداز کرتے ہوئے اندر لاؤنج کی طرف چلے گئے۔ امبر کے دل کو جیسے دھکا سا لگا۔ منصور علی نے آج تک کبھی اس کو اس طرح نظر انداز نہیں کیا تھا اور اب وہ اس کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ وہ ان کے پیچھے ہی لاؤنج میں چلی آئی۔ منصور علی نے اپنے پیچھے اس کے قدموں کی آواز سنی تھی مگر وہ رکے نہیں۔
”مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔” وہ لاؤنج سے گزر جانے والے تھے جب امبر نے انہیں روک دیا۔ منصور علی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
”میں صبح بات کروں گا، اس وقت میں تھکا ہوا ہوں۔ سونا چاہتا ہوں۔”
انہوں نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ امبر سے کہا۔
”آپ تھکے ہوئے ہیں، آپ سونا چاہتے ہیں اور ہم سب کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی پرواہ ہے آپ کو؟” وہ بری طرح تلملائی۔
”تمیز سے بات کرو امبر! میں اس لہجے کا عادی نہیں ہوں۔” منصور علی نے زندگی میں پہلی بار اسے جھڑکا۔
”کیوں تمیز سے بات کروں میں آپ سے، آپ نے جس بری طرح ہم سب کو Let Down کیا ہے، اس کے بعد بھی میں آپ سے تمیز سے بات کروں۔”
”کیا کیا ہے میں نے؟” وہ بلند آواز میں دھاڑے۔
”آپ جانتے ہیں، آپ نے کیا کیا ہے۔ آپ کا کیا خیال تھا۔ رخشی کے ساتھ آپ کی شادی کا مجھے پتہ نہیں چلے گا۔”
چند لمحوں تک منصور علی اسی طرح بے حس و حرکت کھڑے رہے۔ رخشی سے اپنی شادی کا انکشاف امبر کے منہ سے سن کر انہیں اس وقت واقعی شاک لگا تھا۔
”مجھے شرم آرہی ہے کہ آپ میرے باپ ہیں۔ میں نے اسے آپ کے پاس جاب کے لیے بھجوایا تھا اور آپ نے اس سے شادی کر لی، یہ سوچے بغیر کہ آپ کا ایک گھر ہے، بیوی ہے، بچے ہیں، آپ کی اپنی بیٹیوں کی شادی ہونے والی ہے۔” منصور علی پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہے تھے۔
”خاندان والے اور دوسرے لوگ کیسے کیسے مذاق اڑائیں گے ہمارا آپ کا اس عمر میں آکر دوسری شادی۔ پاپا آپ کو… آپ کو کچھ تو سوچنا چاہیے تھا۔”
”میری شادی سے تمہارا کوئی تعلق ہے نہ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں تم ایک لفظ بھی مت کہنا۔” منصور نے اپنی خاموشی توڑی اور بے حد سرد لہجے میں امبر سے کہا۔
”کیوں نہ کہوں، کیا میرا مسئلہ نہیں ہے آپ کی شادی ہم سب کو متاثر کر رہی ہے اور کرے گی۔ کیا سوچ کر آپ نے رخشی سے شادی کی ہے اس جیسی خود غرض اور مادہ پرست لڑکی سے۔ بڑا خاندانی حسب و نسب کی بات کرتے تھے۔ آپ اب رخشی سے شادی کرتے ہوئے وہ خاندانی حسب و نسب کہا ںگیا۔ اب آپ کو یاد نہیں رہا کہ رخشی کا کوئی خاندان نہیں ہے۔ وہ ایک آوارہ لڑکی ہے۔”
”اپنا منہ بند رکھو تم، سمجھیں۔ مجھے تمہاری تقریروں اور نصیحتوں کی ضرورت نہیں ہے اگر منیزہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ تمہیں استعمال کر سکتی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔” منصور علی غرائے۔
”ممی مجھے استعمال کریں گی؟… کیوں کریں گی وہ… یہ تو میں احمق تھی جس نے آپ کو اور رخشی کو قریب ہونے کا موقع دیا… میں نے ممی کی ایک نہیں سنی، حالانکہ وہ صحیح کہہ رہی تھیں۔”
”میں اب تم سے اور کچھ سننا نہیں چاہتا… دفع ہو جاؤ یہاں سے۔”
”اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنا منہ بند کر لوں تو آپ رخشی کو طلاق دے دیں ابھی اور اسی وقت۔”
”میں رخشی کو کسی قیمت پر طلاق نہیں دوں گا۔ یہ تم بھی سن لو اور جا کر اپنی ماں کو بھی سنا دو… وہ میری بیوی ہے اور رہے گی… اگر تم لوگوں کو میری شادی کا پتہ چل گیا ہے تو بہت اچھا ہوا ہے۔ لیکن اگر تم لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تم لوگ میرے اور رخشی کے درمیان علیحدگی کروا سکتے ہو تو یہ تم لوگوں کی بھول ہے۔”
”پاپا! آپ، آپ کو رخشی میں کیا نظر آیا ہے… اس نے صرف پیسے کے لیے آپ سے شادی کی ہے۔” امبر نے دل گرفتگی کے عالم میں کہا۔
”تم لوگ بھی تو صرف پیسے کے لیے مجھ سے چپکے رہنا چاہتے ہو۔ صرف پیسے کی وجہ سے تو میری جان نہیں چھوڑ رہے۔ تمہیںمیرے اور رخشی کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میرا اور منیزہ کا معاملہ ہے۔ تم بیچ میں آؤ گی تو بہت پچھتاؤ گی۔ اس معاملے سے دور رہو۔” منصور علی نے اسے خبردار کیا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!