تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

”تمہیں میری دوسری شادی پر اعتراض ہے… رخشی ناپسند ہے تو بھی اپنا منہ بند رکھو… ویسے بھی تمہاری شادی ہونے والی ہے۔ تم طلحہ کے گھر چلی جاؤ گی پھر اس گھر کے معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں رکھو گی تم۔” منصور علی نے اسے بری طرح جھڑکتے ہوئے کہا۔
”آپ جب تک رخشی کو طلاق نہیں دیتے، میں اس گھر سے کہیں نہیں جاؤں گی… طلحہ سے شادی بھی نہیں کروں گی۔”
”تو مت کرو، یہ میرا درد سر نہیں ہے اگر اس انتظار میں بیٹھی رہو گی تو پھر تو تمہیں ساری زندگی ہی بیٹھنا پڑے گا۔”
”آپ تو مجھ سے بہت محبت کرتے تھے پاپا! کبھی میری کسی خواہش کو رد نہیں کرتے تھے اور اب۔”
”وہ میری غلطی تھی۔ میں نے تمہیں سر پر چڑھایا، خود سر بنا دیا۔ آج اسی لیے تو تم مجھ سے زبان درازی کر رہی ہو… اتنا لاڈ پیار نہ کرتا تو مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے سے پہلے تم سو بار سوچتیں۔” منصور علی نے تلخی سے کہا۔
”آپ نے اپنے اور ہمارے درمیان ایک دو ٹکے کی لڑکی کو لا کر کھڑا کر دیا ہے او رآپ، آپ چاہتے ہیں کہ ہم بولیں بھی نہ، احتجاج بھی نہ کریں۔”
”کون سا گناہ کیا ہے میں نے دوسری شادی کرکے۔ بہت سارے لوگ کرتے ہیں۔ کیا ہر ایک کی اولاد تمہاری طرح زبان درازی پر اتر آئی ہے۔”
”آپ کو دوسری شادی کرنی تھی تو بہت سال پہلے کرتے یا اپنی عمر کی کسی عورت سے کرتے۔ میری دوست سے شادی کر لی آپ نے، آپ کو شرم تک محسوس نہیں ہوئی۔”
”شٹ اپ، جسٹ شٹ اَپ۔ یہ سب منیزہ کی تربیت ہے۔ اس نے تم لوگوں کو میرے سامنے لاکر یوں کھڑا کر دیا ہے کہ تمہیں بات کرنے کی تمیز تک نہیں رہی اگر بات کرنے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھنا ہے تو جا کر رخشی سے سیکھو دیکھو جاکر۔ اس میں کتنی تہذیب ہے۔”




”میں رخشی سے جا کر تہذیب سیکھوں جو لڑکی دوسروں کے گھروں کو اجاڑتی ہے۔ دوسروں کے باپ پر دوڑے ڈالتی ہے۔ میں اس سے جاکر بات کرنے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھوں تاکہ میں بھی دوسروں کے گھر اجاڑنا سیکھ جاؤں دوسروں کے باپ کے ساتھ فلرٹ کرنے میں مجھے بھی آسانی ہو۔”
منصور علی نے پوری قوت کے ساتھ کھینچ کر تھپڑ امبر کے منہ پر مارا۔ امبر دم بخود رہ گئی۔
”رخشی تمہارے بارے میں جو کہتی ہے۔ ٹھیک کہتی ہے۔ بالکل ٹھیک پہچانا ہے۔ اس نے تمہیں۔”
”کیا کہتی ہے وہ میرے بارے میں؟ یہ کہ میں بے وقوف ہوں، پاگل ہوں، احمق ہوں میں نے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار لی ہے۔” امبر اب رو رہی تھی۔
”آپ نے پاپا! ہم سب کو ڈبو دیا۔ میں آپ کو کیا سمجھتی تھی اور آپ کیا نکلے ہیں۔ بہت ہی عام سے انسان، ایسا انسان جس کی کوئی اخلاقیات نہیں ہے… رخشی کا قصور نہیں ہے۔ وہ تو اسی کام کے لیے نکلی تھی۔ قصور آپ کا ہے جس نے اپنے آپ کو اس کا نشانہ بننے دیا جو اپنی بیٹی کے علاوہ کسی دوسری لڑکی کو بیٹی نہیں سمجھ سکتا۔”
”امبر! اپنا منہ بند کر لو ورنہ…” منصور علی کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
”ورنہ کیا کر لیں گے آپ… مار ڈالیں گے مجھے بس یا کچھ اور بھی۔ یہ جو تکلیف ابھی پہنچائی ہے آپ نے، یہ ہر تکلیف سے بڑی ہے، موت سے بھی۔ ایک وقت آئے گا جب آپ بہت پچھتائیں گے… اپنے اس فیصلے پر بہت پچھتائیں گے آپ۔” وہ بری طرح رو رہی تھی۔
”اس وقت آپ کے اس پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا… وقت آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ رخشی آپ کو چھوڑ دے گی پھر آپ کو پتہ چلے گا آپ نے اپنا گھر ایک غلط عورت کے ہاتھوں تباہ کیا۔ پھر آپ پچھتائیں گے مگر تب ہم نہیں ہو ںگے آپ کے پاس… آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہو گا، کچھ بھی نہیں۔”
وہ روتے ہوئے لاؤنج کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ گئی۔ منصور علی کا پارہ اس وقت آسمان سے باتیں کر رہا تھا اندر اپنے بیڈ روم میں جانے کے بجائے وہ واپس پورٹیکو میں آگئے۔
اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے وہ اگلے پندرہ منٹ میں رخشی کے گھر پر تھے۔ رخشی ابھی سونے کی تیاری کر رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈ روم میں تھی۔ اس نے منصور علی کا استقبال بڑی خوش دلی سے کیا۔ مگر منصور علی کے چہرے کو دیکھتے ہی اسے اندازہ ہو گیا تا کہ منصور علی بہت اشتعال میں ہیں۔
”آج امبر نے فون کیا تھا مجھے۔” رخشی نے بلا تمہید منصور علی کوبتانا شروع کر دیا۔ منصور علی کے ماتھے پر پڑے ہوئے بل کچھ گہرے ہو گئے۔
”کب؟”
”بہت بار رنگ کرتی رہی ہے، یہ سمجھ لیں سارا دن ہی میں اس کو Avoid کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے مجھے اس سے بات کرنی ہی پڑی۔” رخشی نے چہرے پر سنجیدگی لاتے ہوئے کہا۔
”کیا کہا اس نے تم سے؟”
”اس نے جو کچھ کہا، وہ میں اپنی زبان پر نہیں لانا چاہتی۔ اس نے بے حد بے عزتی کی ہے میری، اسے ہماری شادی کا پتہ چل گیا ہے۔ اسے بھی اور آپ کی پہلی بیوی کو بھی… اور وہ مجھے دھمکیاں دے رہی تھی۔”
”میں حیران ہوں کہ انہیں اس شادی کے بارے میں کیسے پتہ چلا۔ کون ہے جو انہیں بتا سکتا ہے۔” منصور علی بڑبڑائے۔
”منیزہ بے حد چالاک عورت ہے۔ آپ خود ہی تو بتا رہے تھے کہ پچھلے کچھ عرصے سے آپ دونوں کے درمیان جھگڑے ہوتے آرہے ہیں۔ ہو سکتا ہے، منیزہ نے ہی کسی سے آپ کی جاسوسی کروائی ہو۔”
”ہاں، اس جیسی عورت سے کچھ بعید نہیں ہے، وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔” منصور علی نے تلخ لہجے میں کہا۔
”پھر اب، اب کیا ہوگا؟ وہ لوگ تو آپ کے لیے بہت سے مسائل کھڑے کر دیں گے۔ خاص طور پر آپ کا خاندان امبر تو مجھ سے بھی کہہ رہی تھی کہ وہ آپ سے ابھی اور اسی وقت مجھے طلاق دلوا دے گی۔”رخشی نے پریشان نظر آنے کی پوری کوشش کی۔
”ہاں میں گھر سے ہی آرہا ہوں، بہت بدتمیزی کی ہے اس نے میرے ساتھ بھی۔ لیکن میں اسے صاف صاف بتا آیا ہوں کہ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔”
”اور آپ کی بیوی۔” رخشی نے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔
”مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، وہ جو چاہے کرتی رہے۔ خاندان اکٹھا کرنا چاہتی ہے تو خاندان اکٹھا کر لے۔” منصور علی کے لہجے میں ترشی تھی۔
”یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے منصور… اگر میں آپ کی زندگی میں نہ آتی تو… میں اسی لیے آپ سے شادی سے انکار کر رہی تھی۔ میں اسی سب سے بچانا چاہتی تھی آپ کو… مگر آپ نے میری کسی بات پر غور نہیں کیا۔”
”مجھے تمہارے ساتھ اپنی شادی کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور نہ ہی یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔ میں ایک ناکام ازدواجی زندگی گزار رہا تھا… اسے ہر قیمت پر ختم ہونا ہی تھا… تم میری زندگی میں نہ آتیں تو کوئی اور آجاتا۔”
”’کوئی اور آجاتا لیکن میں تو نہ آتی، کم از کم مجھے یہ پچھتاوا تو نہ ہوتا جو اس وقت ہو رہا ہے۔” رخشی نے اپنے لہجے کی افسردگی میں کچھ اضافہ کیا۔
”میں تمہیں بتا رہا ہوں رخشی! اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میری زندگی میں تم آئی ہو اور اس شادی کے بارے میں مجھے جلد یا بدیر اپنے گھر والو ںکو بتانا ہی تھا… کچھ زیادہ جلدی پتہ چل گیا انہیں… مگر ٹھیک ہے جو ہوا، صحیح ہوا۔”
”میں نے تو امبر سے بھی جھوٹ بولنے کی بہت کوشش کی تھی مگر اسے سب کچھ پتہ تھا اس نے میری کسی بات کومانا ہی نہیں، مجھے اتنا برا بھلا کہا کہ۔” رخشی نے توقف کیا۔
”وہ پاگل ہے، اپنی ماں کے ہاتھوں میںکھیل رہی ہے۔ تم اس کی پرواہ مت کرو۔”
”میں نے اس سے کہا کہ وہ ان وجوہات پر غور کرنے کی کوشش کرے جن کی وجہ سے منصور علی دوسری شادی کر چکے ہیں۔ مگر وہ تو کچھ سننے پر تیار ہی نہیں تھی۔ اس کی زبان پر بس ایک ہی بات تھی کہ میں نے اسے دھوکہ دیا اور اب میرے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ میں آپ کو چھوڑ دوں، آپ سے طلاق حاصل کروں۔” رخشی بڑی متانت سے سب کچھ بتا رہی تھی۔
”اس نے کہا کہ اس نے مجھے آپ کے پاس جاب کے لیے بھیجا ہے… اب میں اس کے کہنے پر جاب اور آپ کو چھوڑ دوں۔”
”میں نے کہا نا وہ پاگل ہے… تمہیں اس سے کہنا چاہیے تھا کہ تم کبھی مجھے نہیں چھوڑو گی، چاہے وہ کچھ بھی کر لے۔” منصور علی نے مداخلت کی۔
”میں نے اس سے ایسا ہی کہا۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں نے منصور علی سے محبت کی وجہ سے شادی کی ہے… مجھے ان سے ہمدردی ہے کیونکہ وہ ایک اچھی زندگی نہیں گزار رہے تھے، میں انہیں دوبارہ کسی تکلیف میں کبھی نہیں ڈال سکتی۔” رخشی کہتی گئی۔
”مگر جواب میں وہ تو مجھے دھمکیاں دینے لگی۔ کہنے لگی کہ میرا خاندان خراب ہے اور میرے ساتھ بھی وہی ہو گا جو میری بہن کے ساتھ ہوا… مجھے تو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ابھی کل تک میری دوست تھی… اتنی خود غرض دوست۔” رخشی نے تبصرہ کیا۔
”یہ سب اس کی ماں کا قصور ہے… اس کے منہ میں اپنی ماں کی زبان ہے۔”
”وہ چھوٹی بچی تو نہیں ہے کہ خود سے کسی چیز کے بارے میں کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکے۔ ٹھیک ہے منیزہ اس کے کان بھرتی ہو گی مگر اسے ان احسانات کو تو یاد رکھنا چاہیے جو آپ اس پر کرتے رہے۔ اولاد میں اس قدر طوطا چشمی، میں تو حیران ہو رہی ہوں۔” رخشی کو کچھ اور زہر اگلنے کا موقع مل رہا تھا… وہ یہ موقع کیسے ضائع کرتی۔
”میں سوچتی ہوں، آپ کے لیے امبر کی محبت اب کہاں گئی جس کا وہ ہمیشہ ڈھنڈورا پیٹا کرتی تھی۔ انہیں آپ ہاتھ سے نکلتے لگ رہے ہیں تو انہوں نے شور مچا دیا ہے کیونکہ انہیں یہ بھی تو اندیشہ ہے کہ آپ کی دوسری شادی کی صورت میں ان لوگوں کے ہاتھ سے آپ کی جائیداد بھی چلی جائے گی۔”
”ہاں جانتا ہوں، انہیں اس وقت کیا کیا اندیشے ستا رہے ہیں۔ میں نے صرف اسی وجہ سے تم سے شادی کی ہے کیونکہ میں اس گھر کے ماحول سے تنگ آگیا تھا۔”
”مگر اپنی عادتوں اور حرکات پر تو کبھی غور نہیں کریں گے یہ لوگ… سارا الزام آپ کے اور میرے سر ہی دھر دیں گے۔” رخشی نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے رنجیدہ لہجے میں کہا۔
”میں کسی الزام تراشی سے نہیں ڈرتا… نہ ہی تمہیں ڈرنا چاہیے۔ میں دیکھ لوں گا، منیزہ کیا کرتی ہے۔ میں نے شادی کی ہے۔ مذہبی اخلاقی، قانونی معاشرتی… ہر لحاظ سے جائز کام ہے یہ۔ پھر مجھے یا تمہیں شرمسار ہونے کی کیا ضرورت ہے۔”
”میں اب اس گھر میں نہیں جاؤں گا… جب تک کہ ان سب کو اپنے رویے کے غلط ہونے کا احساس نہیں ہو جاتا میں ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھوں گا۔” منصور علی نے تہیہ کیا۔
”اور آپ وہاں نہیں جائیں گے تو وہ لوگ یہاں آجائیں گے۔”
”کیسے آجائیں گے، انہیں اس گھر کا ایڈریس کیسے پتہ چل سکتا ہے۔”
”اگر انہیں آپ کی شادی کا پتہ چل سکتا ہے تو پھر اس گھر کا معلوم کرنا کیا مشکل ہے… ابھی تک تو امبر یہی سمجھتی رہی ہے کہ یہ فون نمبر پرانے گھر میں ہی ہے لیکن اگر اب انہوں نے شک ہونے پر فون کے ٹرانسفر ہونے کا پتہ کروایا تو انہیں بڑی آسانی یہاں کا نمبر مل جائے گا۔” رخشی نے بڑی چالاکی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا۔ ”اور اگر وہ لوگ یہاں آگئے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ آپ کی بیوی کس طرح کی باتیں کرے گی اور میں، میں اس بار کچھ بھی برداشت نہیں کروں گی۔”
”تم چوکیدار سے کہہ دینا وہ کسی کو اندر ہی نہیں آنے دے گا نہ کوئی اندر آئے گا، نہ تمہیں کسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔” منصور علی نے اپنی طرف سے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!