تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

”ایسے واقعات اور حادثات زندگی میں سبق سکھانے کے لیے پیش آتے ہیں اور میں نے بھی رخشی سے سبق سیکھا ہے۔ کم از کم زندگی میں دوبارہ کبھی میں آنکھیں بند کرکے کسی پر بھروسہ نہیں کروں گی۔” اس نے اپنے اعصاب پر سوار ہوئی ٹینشن کو جھٹکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
”کیا یہ سب رخشی کر سکتی ہے؟ میرے ساتھ؟ کیا وہ اس حد تک گر سکتی ہے؟ اور پاپا…” اس کی سوچ کا سلسلہ یہاں پہنچ کر ٹوٹ جاتا تھا۔ رخشی نے اسے شاک دیا تھا اور منصور علی نے اذیت۔
چند گھنٹوں میں منصور علی کا بت اس کے سامنے زمین پر دھڑام سے آن گرا تھا۔
اولاد کبھی یہ نہیں سوچتی کہ ان کے ماں باپ سے کوئی غلطی ہو سکتی ہے اور جب وہ ماں باپ کو غلطی کرتا دیکھتے ہیں تو ساری توڑ پھوڑ ان کے اپنے اندر ہوتی ہے۔ وہ پہلے ان غلطیوں کو اپنا واہمہ قرار دیتے ہیں پھر ان کے لیے توجیہہ دینے کی کوشش کرتے ہیں پھر آخر کار اعتراف کر لیتے ہیں کہ ان کے ماں باپ وہ نہیں تھے جو وہ سمجھتے تھے۔ پھر اس کے بعد ایک خلیج ہوتی ہے جو ماں باپ اور اولاد کے درمیان حائل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
امبر نے پہلی بار منصور علی اور اپنے درمیان ایک خلیج کو حائل ہوتے دیکھا تھا۔ مگر وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے منصور علی سے نفرت ہونی چاہیے یا نہیں، اور اگر ہونی چاہیے تو کتنی نفرت…
٭٭٭




امبر نے ایک بار پھر صاعقہ کو فون کیا، اسے وہی جواب ملا۔ صاعقہ نے فون بند کرتے ہی رخشی کی طرف دیکھا جو اس کی طرف متوجہ تھی، صاعقہ کو فون کا ریسیور رکھتے دیکھ کر رخشی نے کہا۔
”کچھ کہا اس نے؟”
”نہیں وہ تم ہی سے بات کرنا چاہتی ہے۔” صاعقہ نے کرسی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”وہ کہہ رہی تھی کہ وہ دوبارہ فون کرے گی، تم ساری رات تو باہر نہیں رہ سکتیں۔”
”فون کرتی ہے تو اسے شوق سے فون کرنے دیں، مگر میں اس سے بات نہیں کروں گی۔”
”توپھر میں اس سے یہ کہہ دیتی ہوں کہ تم اس سے بات کرنا نہیں چاہتیں۔”
”آپ اس سے کہیں گی تو وہ دندناتی ہوئی یہاں آن پہنچے گی۔ آپ اب فون ہی مت اٹھائیں۔” رخشی نے سنجیدگی سے کہا۔
”فون نہیں اٹھاؤں گی وہ تب بھی آجائے گی۔”
”کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ وہ منصور علی اور میرے بارے میں ہی بات کرنا چاہتی ہے۔”
”میں نے تمہیں بتایا تھا نا! اس کا لہجہ بے حد عجیب تھا اس نے پہلے کبھی اس طرح بات نہیں کی مجھ سے، جس طرح وہ آج کر رہی تھی اور نہ ہی کبھی تمہارا ذکر اس طرح کیا ہے جس طرح آج کیا ہے۔ اگر منصور علی اور تمہارا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر وہ اور کسی معاملے پر اس طرح تم سے اکھڑی ہوئی ہو سکتی ہے؟”
رخشی کچھ دیر تک صاعقہ کی بات پر غور کرتی رہی۔ ”ہاں! وہ دوسرے کسی معاملے پر تو مجھ سے اس طرح اکھڑی نہیں رہ سکتی اور اسے کیا ارجنٹ بات مجھ سے کرنی ہے جس کے لیے وہ اس طرح وقفے وقفے سے فون کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے مجھے منصور کو فون کرنا چاہیے۔”
”ہو سکتا ہے منصور نے اپنے گھر میں تم سے اپنی شادی کے بارے میں بتا دیا ہو۔”
”نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ منصور کا اس شادی کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور ویسے بھی اسے ضرورت بھی کیا تھی اپنے گھر والوں کو اس شادی کے بارے میں بتانے کی۔”
”ہمارے لیے کوئی پریشانی تو پیدا نہیں ہو گی اس صورتِ حال سے؟” صاعقہ یک دم بولی۔ ”تمہاری اور منصور علی کی شادی کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ منصور علی، امبر سے بہت محبت کرتا ہے، اگر اس مرحلے پر اس کے گھر والوں کو اس شادی کے بارے میں پتا چلا تو امبر تمہیں چھوڑ دینے پر مجبور کر دے گی اور تم خود مجھے بتاتی رہی ہو کہ منصور علی امبر کی بات کبھی نہیں ٹالتا۔” صاعقہ نے بے حد تشویش کے عالم میں کہا۔
رخشی، صاعقہ کو دیکھ کر بڑے عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”اتنا خوف مت کھایا کریں امی! دنیا میں کوئی بھی چیز پائیدار نہیں ہوتی پھر باپ اور بیٹی کی محبت پائیدار ہو سکتی ہے؟ ہاں بڑی محبت ہوتی تھی کبھی منصور علی کو امبر سے مگر تب اس کی زندگی میں میں نہیں تھی۔” رخشی نے بے حد لاپروائی سے کہا۔
”پھر بھی مجھے بہت ڈر لگتا ہے رخشی! اگر کہیں امبر نے واقعی منصور علی کو مجبور کر دیا کہ وہ تمہیں چھوڑ دے تو؟” صاعقہ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
”میں زندگی میں کسی اگر مگر پر یقین نہیں رکھتی، آپ بھی اس اگر مگر سے نکل آئیں۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ فی الحال تو ترپ کا پتہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں جانتی ہو ںاسے کیسے استعمال کرنا ہے۔”صاعقہ کچھ دیر رخشی کو دیکھتی رہی پھر اس نے گہرا سانس لیا۔ ”بعض دفعہ تم مجھے بہت ڈرا دیتی ہو رخشی۔”
”صرف میں؟ آپ کو تو کوئی کبھی بھی کسی بھی وقت ڈرا سکتا ہے… ڈر کے علاوہ کسی اور چیز کو آپ نے اتنے سالوں اتنی محبت سے نہیں پالا۔”
”تمہاری اور میری زندگی اور تمہارے اورمیرے حالات میں بہت فرق ہے۔” صاعقہ نے کمزور سے لہجے میں اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”اور یہ فرق آپ نے اور میں نے خود پیدا کیا ہے۔”
”نہیں حالات نے پیدا کیا تھا۔” صاعقہ نے کہا۔
”حالات کچھ نہیں ہوتے۔ کچھ بھی نہیں۔”
”تمہارے لیے اب یہ بات کہنا بہت آسان ہے کیونکہ تمہاری زندگی کچھ اور طرح سے گزر رہی ہے۔”
”ہاں میرے لیے یہ بات کہنا آسان ہے اور میری زندگی اگر اچھی گز ررہی ہے تو اس میں صرف میرا ہاتھ ہے، صرف میرا۔” رخشی اب بھی اپنی بات پر جمی ہوئی ہے۔
”زندگی میں پہلی بار جب آپ اس رستہ پر چلنا شروع ہوئی تھیں تو آپ کو ہر خوف دل سے نکال دینا چاہیے تھا خوف تو اس آدمی کو ہوتا ہے جسے رسوائی کا اندیشہ ہو، بے عزتی کا خوف ہو امی! ہم جیسی عورتوں کو کیسا خوف… عزت ہمارے پاس ہوتی نہیں۔ رسوائی وہ ہے جو ہمیں ہر صورت میں ملنی ہی ہوتی ہے۔ پھر کیسا خوف… جانے دیں سب کچھ جھلکنے دیں لوگوں کی نظروں میں نفرت اور حقارت… رسنے دیں ان کی زبانوں کے زہر سے ہمیں فرق نہیں پڑتا ہمیں فرق نہیں پڑنا چاہیے۔” وہ کھڑکی سے باہر کسی چیز پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
”بے خوفی بڑی نعمت ہوتی ہے… بے خوفی سے جینا سیکھ لیں امی۔” وہ واپس مڑی مگر کمرے میں اپنی جگہ پر آنے کے بجائے وہیں کمرے کی کھڑکی سے پشت ٹکا کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے اپنے بازو سینے پر لپیٹے ہوئے تھے۔
”امبر کون ہے؟ امبر کیا ہے؟ منصور علی کی بیٹی اور میں۔ میں منصور علی کی زندگی ہوں، محبت ہوں میں اس کی۔ مجھے وہ امبر کے لیے تو اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتا۔” اس نے نفی میں گردن ہلائی۔
”مرد کس کے لیے کس کو اپنی زندگی سے نکال سکتا ہے۔ یہ تم نہیں جانتیں۔ مرد قابل اعتبار نہیں ہوتا جو شخص تمہارے لیے اپنی بیوی کو اور خاندان کو دھوکا دے سکتا ہے۔ وہ کیا کبھی ان کے لیے تمہارے ساتھ یہ سب کچھ نہیں کر سکتا اور میں اس دن سے خوفزدہ ہوں جب وہ یہی کرے گا۔” صاعقہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”وہ فی الحال کچھ نہیں کر سکتا اور میں فی الحال میں جیتی ہوں مستقبل کے خوف کو ایک گٹھڑی میں باندھ کر سر پر لیے نہیں پھرتی۔” وہ ابھی بھی غیر متزلزل تھی۔
‘کیا تم امبر سے بات کرو گی یا پھر اسے اسی طرح ٹالتی رہو گی؟” صاعضہ نے بات کا موضوع بدل دیا۔
”آپ کے خیال میں کیا مجھے امبر سے بات کرنی چاہیے۔” رخشی نے ماں سے مشورہ لیا۔
”تمہیں پہلے منصور کو بتانا چاہیے کہ امبر تم سے بات کرنا چاہ رہی ہے اور اسے اس بات سے بھی خبردار کر دینا چاہیے کہ ہو سکتا ہے وہ تمہارے اور منصور علی کے اس رشتے کے بارے میں ہی بات کرنا چاہتی ہو۔ پھر اس صورت میں تمہیں سچ بولنا چاہیے یا جھوٹ، یہ تمہیں منصور علی بہتر بتا سکتا ہے اور خود وہ بھی ذہنی طور پر اپنی فیملی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔” صاعقہ نے اپنی طرف سے رخشی کو ایک بہت مناسب مشورہ دیا تھا مگر رخشی اس کی تجویز پر یوں مسکرائی جیسے یہ ایک بچکانہ تجویز ہو۔
”میں منصور علی سے بات نہیں کروں گی، میں اس سے کوئی مشورہ نہیں لوں گی۔ میں امبر سے بات کروں گی دیکھوں تو سہی کہ وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہے۔ منصور علی کو بعد میں بھی سب کچھ بتایا جاسکتا ہے۔”
”مگر تمہیں تو امبر سے سب کچھ چھپانا ہے۔ کیا کہو گی…” صاعقہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”ضروری تو نہیں کہ مجھے امبر سے سب کچھ چھپانا ہی ہے اگر وہ کسی شک کا اظہار کرے گی تو میں اس کی تصدیق کردوں گی۔ بلی کو کبھی نہ کبھی تو تھیلے سے باہر آنا ہی ہے۔” رخشی نے لاپروائی سے کندھے اچکائے اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی فون کی گھنٹی دوبارہ بجنے لگی۔
”رخشی! اس سے بات کرنے سے پہلے ایک بار پھر سوچ لو یہ نہ ہو کہ بعد میں تم پچھتاؤ۔” صاعقہ نے رخشی کو فون کی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا۔
”میں پچھتاؤوں پر یقین نہیں رکھتی اگر امبر اتنی بے چین ہو رہی ہے مجھ سے بات کرنے کے لیے تو مجھے اس سے بات کرنی چاہیے۔ آفٹر آل وہ میری بیسٹ فرینڈ ہے۔” اس نے صاعقہ سے مزید کچھ کہے بغیر فون کا ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف حسب توقع امبر ہی تھی۔ امبر اس بار رخشی کی آواز سن کر کچھ دیر کے لیے کچھ نہیں بول پائی۔ وہ توقع کر رہی تھی کہ پہلے کی طرح اس بار بھی صاعقہ فون اٹھائے گی۔
”میں امبر بول رہی ہوں۔” چند لمحوں کے بعد اس نے کہا رخشی نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔
”ہاں امبر کیسی ہو تم؟ امی نے مجھے تمہارے فون کے بارے میں بتایا تھا میں اصل میں کچھ دیر کے لیے باہر گئی ہوئی تھی۔ واپس آئی تو امی نے بتایا کہ تم بار بار کال کر رہی ہو۔ میں ابھی تمہیں کال کرنے ہی والی تھی کہ تمہاری کال آگئی۔ ہاں کہو کیا بات ہے۔”
امبر بولنے کے لیے لفظوں کا انتخاب کرتی رہی، بات کا آغاز کرنا اس کے لیے مشکل ثابت ہو رہا تھا۔
”میں، میں تم سے تمہارے اور پاپا کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔” بالآخر اس نے کہا۔
”میرے اور منصور علی کے بارے میں؟” رخشی نے حیرت ظاہر کی۔ امبر کو اس بے تکلفی نے تکلیف پہنچائی جس بے تکلفی سے اس نے منصور علی کا نام لیا تھا۔
دوسری طرف رخشی کے دل کی دھڑکن چند لمحوں کے لیے بے ترتیب ہوئی صاعقہ کا اندازہ ٹھیک نکلا تھا۔ امبر واقعی اس کے اور منصور علی کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی، تھوڑی دور بیٹھی صاعقہ بھی اس کے منہ سے نکلنے والا جملہ سن کر کچھ چونک گئی۔ اس کی اور رخشی کی نظریں ملی تھیں۔
”میں چاہتی ہوں، تم پاپا کے پاس سے جاب چھوڑ دو۔” امبر نے ایک لمحے کے توقف کے بعد کہا۔ وہ رخشی سے یہ نہیں کہہ سکی تھی کہ وہ اس کے اور منصور علی کے افیئر کے بارے میں سب جان گئی ہے ایک دوست اور اپنے باپ کے افیئر کے بارے میں بات کرنا… اس وقت اس کے لیے زندگی کا مشکل ترین کام ثابت ہو رہا تھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!