تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

”نہیں مجھے یہاں سے نہیں جانا۔ مجھے دیکھنا ہے، یہ مجھے اور کیا کہے گی اور کیا کرے گی۔”
”تم دفع کرو اسے۔” صاعقہ نے کہا۔
”نہیں، میں اسے دفع نہیں کروں گی میں صاعقہ نہیں ہوں امی! میں صاعقہ نہیں بنوں گی، میں کبھی صاعقہ نہیں بنوں گی۔” وہ بڑبڑا رہی تھی۔
”اس عورت کو ہر چیز کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ہر چیز کی، اپنی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کی۔ میں اسے اس طرح روندوں گی کہ یہ دوبارہ اٹھ نہیں سکے گی۔ اس بار میں، میں صرف سبزیاں اور پھل بچاتی نہیں پھروں گی۔ میں سبزیاں اور پھل اکٹھے نہیں کروں گی، میں ہاتھ پکڑوں گی۔”
صاعقہ کو تو اس کی کسی بات کی سمجھ نہیں آئی۔
رخشی تیز قدموں سے چلتے ہوئے یک دم مڑ کر اندر چلی گئی۔ صاعقہ نے بھی سکون کا سانس لیتے ہوئے اس کی پیروی کی، ورنہ اسے وہاں کھڑے اس طرح مٹھیاں بھینچتے اور بڑبڑاتے دیکھ کر وہ پریشان ہونے لگی تھی۔
رخشی نے لاؤنج میں جاکر بے حد غصے کے عالم میں منصور کا نمبر ملایا۔ صاعقہ نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ وہ خاموشی سے صوفے پر بیٹھ کر اسے دیکھتی رہی جو کارڈلیس پر منصور کا نمبر ملا کر اب کان سے فون لگائے لاؤنج کے چکر کاٹ رہی تھی۔ وہ بالکل بھوکی شیرنی لگ رہی تھی۔ صاعقہ نے اس سے پہلے رخشی کو کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
چند لمحوں کے بعد منصور علی نے اپنے موبائل پر رخشی کی کال ریسیو کر لی۔ وہ ہمیشہ کی طرح بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ رخشی جب بھی آفس نہ جاتی، گھر پر وہ انہیں یا پھر منصور علی اسے فون کرتے رہتے۔ وہ اس وقت بھی اس فون کو اسی نوعیت کا سمجھے تھے۔
”آپ فوراً گھر پر آجائیں۔” رخشی نے کسی دعا سلام کے بغیر منصور علی کی آواز سنتے ہی کہا۔ منصور یک دم سنجیدہ ہو گئے۔
”کیا ہوا؟”




”آپ یہاں آئیں، آپ کو پتا چل جائے گا کہ کیا ہوا” رخشی نے ان سے کہا۔
”رخشی! مجھے صاف صاف بتاؤ، کیا ہوا ہے؟” منصور علی اب پریشان ہو رہے تھے۔ اس نے رخشی کا یہ انداز اور لہجہ پہلی بار سنا تھا۔
”آپ کی بیوی یہاں آئی ہوئی ہے۔” رخشی نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔
”کون، منیزہ؟” منصور علی کو اپنی سماعت پر شبہ ہوا۔ ”وہ یہاں کیسے آسکتی ہے۔ اسے گھر کا پتا کیسے چل سکتا ہے۔” منصور علی کے حلق سے بمشکل نکلا۔
”گھر کا پتا…؟ اس عورت نے پوری کالونی کو گیٹ پر اکٹھا کیا ہوا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اسے یہاں کا پتا کیسے چلا۔” رخشی کی آواز بے حد بلند تھی۔ ”میں نے گیٹ بند کر لیا ہے اور وہ عورت گیٹ پر کھڑی خرافات بک رہی ہے۔ منصور! آپ فوراً یہاں آئیں، فوراً۔” منصور علی دوسری طرف دم سادھے اس کی آواز سن رہے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ منیزہ اس طرح کی حرکت کر سکتی ہے۔
”تم نے اسے جانے کے لیے کہنا تھا۔”
”اسے جانا ہوتا تو وہ یہاں آتی کیوں۔ وہ صرف مجھے ذلیل کرنے کے لیے یہاں آئی ہے۔”
”تم اسے اندر بلا لو۔”
”میں اسے اندر بلا لوں۔ اس عورت کو گیٹ کھول کر اندر بلا لوں؟” رخشی کے اشتعال میں اضافہ ہوا۔ ”کیوں بلا ؤں میں اسے، یہ کس کا گھر ہے؟ اس کا… یا میرا…؟”
”رخشی! تم صورت حال کی نزاکت کو سمجھو۔” منصور علی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”بھاڑ میں جائے صورتِ حال اور اس کی نزاکت۔” رخشی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”میں صرف یہ چاہتی ہوں، آپ یہاں آئیں اور اس عورت کو یہاں سے لے جائیں، ورنہ میں اسے گولی مار دوں گی۔”
”رخشی! میں وہاں آؤں گا تو وہ اور تماشا کرے گی۔ میں کیسے لے کر جاؤں گا اسے۔ تم اس کی زبان کو نہیں جانتیں، وہ بولنے پر آئے تو پتا نہیں کیا کیا کہہ دیتی ہے۔”
”اتنا ڈرتے ہیں آپ اس سے، اتنا خوفزدہ ہیں… میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔”
”میں کسی سے نہیں ڈرتا ہوں۔” منصور علی نے کچھ ناراض ہو کر اس کی بات کاٹی۔ ”مگر وہاں تمہارے گھر کے دروازے پر جاکر میں اس سے لڑوں گا تو تمہارے ساتھ ساتھ میری بھی بدنامی ہو گی۔”
”میرے ساتھ ساتھ آپ کی بدنامی کیوں نہ ہو؟” رخشی کو جیسے آگ لگ گئی۔ ”یہ کھیل ہی بدنامی کا ہے جو ہم دونوں کھیل رہے ہیں۔ منہ کالا ہو گا تو دونوں کا ہوگا، دونوں کا ہی ہونا چاہیے۔”
”میں نے تم سے شادی کی ہے، یاد رکھنا چاہیے تمہیں۔” منصور کو اس کے جملے پر اشتعال آیا۔
”آپ کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آپ نے مجھ سے شادی کی ہے۔ میرے کچھ حقوق ہیں آپ پر۔ آپ کی پہلی بیوی میرے ہی گھر کے گیٹ پر جو کچھ میرے اور آپ کے بارے میں کہہ رہی ہے وہ…”
منصور نے اس کی بات کاٹی۔ ”وہ پاگل ہے، اسے چھوڑو… میں اسے دیکھ لوں گا۔”
”نہیں، وہ پاگل نہیں ہے۔ وہ بے حد سمجھدار ہے۔ پاگل میں ہوں جو چوروں کی طرح اس کا بک میں چھپ کر بیٹھی ہوں۔ سننا چاہتے ہیں، وہ عورت کیا کچھ کہہ رہی ہے آپ کے بارے میں، میرے بارے میں، سنیں۔” وہ برہمی کے عالم میں انٹر کام کی طرف گئی اور اس نے کارڈ لیس کو انٹر کام کے ریسیور کے پاس کر دیا۔ انٹر کام گیٹ پر منیزہ کا شور اور گیٹ پر ہاتھ مارنے کی آوازیں منصور علی تک پہنچانے لگا۔
”منصور علی ان آوازوں کو سنتے ہوئے یہ تو نہیں جان پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہی ہے کیونکہ منیزہ کے عقب میں اور بہت سی آوازوں کا شور بھی تھا مگر یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ منیزہ نے واقعی وہاں ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ زندگی میں اس سے پہلے انہوں نے منیزہ کے لیے اتنی نفرت محسوس نہیں کی جتنی اس وقت کی تھی۔ رخشی اگر اس وقت اسے شوٹ کر دینے کی خواہش رکھتی تھی تو شاید وہ خود وہاں ہوتے تب بھی یہی کرتے۔
”رخشی! تم تحمل اور برداشت سے کام لو… میں اس عورت کو سبق سکھاؤں گا۔ ایسا سبق کہ یہ ہمیشہ یاد رکھے گی۔”
رخشی نے انٹر کام کا ریسیور دوبارہ رکھ دیا۔ ”اس سے زیادہ تحمل اور برداشت اور کیا ہو سکتی ہے کہ میں گیٹ پر اس عورت کی دوبدو نہیں کھڑی، یہاں اندر بیٹھی ہوں۔” رخشی غرائی۔
”تم اندر ہی رہو، وہ کتنی دیر گیٹ بجائے گی اور اس طرح شور شرابا کرے گی۔ خود ہی تھک کر تنگ آکر چلی جائے گی۔” منصور علی نے کہا۔
”اور اگر وہ نہ گئی تو…؟”
”چلی جائے گی، یہاں کتنی دیر رہے گی۔”
”اور تب تک میں اس گیٹ سے دوبارہ کبھی باہر نکلنے کے قابل نہیں رہ سکوں گی، اس کالونی میں کسی کو منہ نہیں دکھا سکوں گی۔ منصور علی صاحب! آپ کو ابھی اور اسی وقت یہاں آنا ہے، یہاں آکر لوگوں کو بتانا ہے کہ میں آپ کی کون ہوں۔” رخشی کے لہجے کی سختی بڑھ گئی۔
”رخشی! میرا اس وقت وہاں آنا مناسب نہیں ہوگا۔ آخر تم اس بات کو سمجھتی کیوں نہیں۔”
”آپ مجھے مشکل وقت میں اکیلا چھوڑ رہے ہیں؟” رخشی کے غضب میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”کون چھوڑ رہا ہے تمہیں مشکل میں؟”
”آپ کو مجھے لوگوں کے سامنے بیوی ماننے میں عار ہے۔”
”رخشی! مجھے غلط مت سمجھو۔”
”کیا حیثیت ہے آپ کی زندگی میں میری؟” وہ بلند آواز میں چلائی۔
”رخشی پلیز! میری بات سنو۔”
”نہیں۔ مجھے اس وقت وضاحتوں کی ضرورت نہیں ہے۔” رخشی نے اسی انداز میں اس کی بات کاٹی ”مجھے اپنے گیٹ کے باہر منصور علی کی ضرورت ہے جو اس عورت کے منہ پر تھپڑ مار کر اس کا منہ بند کر دے۔”
منصور کچھ بول نہیں سکے، ان کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکل رہی تھی۔
”آپ سن رہے ہیں میری بات؟”
”رخشی! میں تمہیں کچھ دیر بعد دوبارہ فون کرتا ہوں، ابھی تم غصے میں ہو، میری بات نہیں سمجھو گی۔”
منصور علی نے موبائل آف کر دیا۔ رخشی بے یقینی کے عالم میں ہاتھ میں پکڑے ہوئے فون کو دیکھنے لگی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ منصور علی اس طرح اس سے بات کرنے، اس کی بات سننے کے بجائے فون بند کر دیں گے۔ اس نے طیش کے عالم میں دوبارہ کال ملانے کی کوشش کی، منصور کا موبائل آف تھا۔ انہوں نے یقینا دانستہ طور پر اپنے موبائل کو آف کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ رخشی دوبارہ فون کرنے کی کوشش کرے گی۔ رخشی کا غصہ اور بڑھ گیا۔ اس نے یکے بعد دیگرے اس کے آفس کے نمبر ملانے شروع کر دیے۔ آپریٹر نے اسے منصور علی کے آفس میں نہ ہونے کے بارے میں بتایا۔ رخشی کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ منصور علی اب اسے نظر انداز کر رہے تھے۔ وہاں ہوتے ہوئے بھی اس سے بات نہیں کر رہے تھے۔ اس سے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ اگلے کئی منٹ آپریٹر کے ساتھ الجھتی رہی پھر اس نے یک دم جیسے آگ بگولہ ہوتے ہوئے پوری قوت سے فون کو دیوار پر دے مارا۔
”رخشی خود پر قابو رکھو۔” صاعقہ نے یک دم اٹھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ منصور علی کے ساتھ ہونے والی اس کی ساری گفتگو سن چکی تھی اور اسے اندازہ تھا کہ منصور اگر اس وقت وہاں آجاتے تو یہ صورتِ حال کو زیادہ خراب کرتا۔ رخشی جیسے غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ اس نے کچھ جواب دینے کے بجائے ڈرائنگ روم میں موجود چیزیں اٹھا اٹھا کر توڑنا شروع کر دیں۔
صاعقہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔ ”رخشی… رخشی… کیا ہو گیا ہے تمہیں، کیا کر رہی ہو تم؟”
”میں… میں پاگل ہو گئی ہوں۔” اس نے کرسٹل کا ایک گلدان پوری قوت سے کھڑکی کے شیشے پر مارتے ہوئے کہا۔
”کیوں توڑ رہی ہو چیزوں کو، اتنی قیمتی چیزوں کو۔” صاعقہ پریشان ہو گئی۔
”کیا قیمت ہے ان چیزوں کی… امی! کیا قیمت ہے؟” وہ یک دم ایک اور ڈیکوریشن پیس اٹھاتے اٹھاتے رک گئی۔ ”میری عزت سے زیادہ قیمتی ہے یہاں کی کوئی چیز؟” اس کا سانس غیر ہموار تھا۔ ”یہ… یہ… یا یہ…؟ کون سی ایسی چیز ہے جو میری عزت سے زیادہ قیمتی ہے؟ میں نے اس آدمی سے شادی کی ہے… اور یہ آدمی… یہ آدمی وقت آنے پر چوروں کی طرح منہ چھپا کر بیٹھ گیا ہے۔” وہ بری طرح چلا رہی تھی۔ ؟؟بزدل… کمینہ… ذلیل…”
”میں نے تمہیں اس شادی سے منع کیا تھا۔” صاعقہ نے دبے ہوئے لہجہ میں کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!