تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

”ہاں کیا تھا منع۔” وہ ایک بار پھر چلائی۔ ”نہیں مانی میں نے آپ کی بات… پھر… ٹھیک کیا میں نے جو کچھ کیا… کوئی پچھتاوا نہیں ہے مجھے۔”
”تو پھر اب چلا کیوں رہی ہو، کیوں چیزیں توڑ رہی ہو؟ آرام سے بیٹھ جاؤ۔” صاعقہ نے اس بار قدرے بلند آواز میں کہا۔
”میں یہاں کی ہر چیز توڑ دوں گی، ہر چیز… منصور علی کو پتا تو چلنا چاہیے کہ… کہ…” وہ ایک بار پھر غصے سے آپے سے باہر ہوتے ہوئے وہاں پڑی باقی چیزوں کو اٹھا کر پھینکنے لگی۔
”آپ دیکھنا ایک دن میں، میں اس شخص کو کس طرح خوار کروں گی۔” وہ چیزیں پھینکتے پھینکتے پھر رک کر چلانے لگی۔ ”یہ… یہ آدمی میری حفاظت کرنے کے بجائے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر بیٹھ گیا ہے۔ میں… میں… میں… اسے ایک دن اس طرح چھوڑوں گی کہ… کہ یہ ہاتھ پیر بھی نہیں ہلا سکے گا۔ معذور اور محتاج کر دوں گی میں اسے، آپ دیکھ لینا۔” رخشی کے جملوں میں اب غصے کی وجہ سے بے ربطی تھی۔
”تم منصور کی مجبوری بھی تو سمجھو۔” صاعقہ نے رخشی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”منصور کی مجبوری؟… وہ مجبور ہے؟ وہ مجبور ہے؟” وہ ایک بار پھر چلانے لگی۔ ”شادی کرتے وقت مجبورنہیں تھا، مجھ سے افیئر چلاتے ہوئے مجبور نہیں تھا، اپنی بیوی کی حفاظت کرتے وقت مجبور ہو گیا ہے۔”
”رخشی! وہ یہاں آئے گا تو واقعی منیزہ اور ہنگامہ کھڑا کرے گی، وہ گیٹ پر کھڑے ہجوم کے سامنے اسے کیا کہے گا۔”
”آپ… آپ اس کی حمایت مت کریں۔ ایک لفظ تک مت کہیں اس کے لیے۔ وہ… وہ شخص اس قابل نہیں ہے۔ جھوٹا… فریبی… مکار… دھوکے باز…” رخشی ایک بار پھر چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگی۔




لاؤنج اس وقت بے حد ابتر حالت میں تھا، گھر کے اندر موجود کسی ملازم نے وہاں آنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ رخشی کی گفتگو وہ سن رہے تھے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ لاؤنج میں کیا ہو رہا تھا۔ انہیں ویسے بھی لاؤنج کے اندر ہونے والے واقعات سے زیادہ باہر گیٹ پر ہونے والے تماشے سے زیادہ دلچسپی تھی، جہاں منیزہ کی زبان سے منصور علی اور رخشی کے بارے میں ہونے والے قابل قدر انکشافات ان کی معلومات میں اضافے کا باعث بن رہے تھے۔ یہ ویسے بھی ان سب کی زندگیوں میں ہونے والا ایک خاصا نادر اور غیر معمولی واقعہ تھا اور وہ اس کے بارے میں جتنی چہ میگوئیاں کرتے وہ کم تھیں۔
منیزہ اگلے دو گھنٹے اسی طرح گیٹ کے باہر چلاتی رہیں۔ جب وہ تھک جاتیں تو گیٹ بجانا یا بیل بجانا روک دیتیں اور پھر کچھ دیر کے بعد دوبارہ اسی طرح بولنا اور چلانا شروع کر دیتیں پھر تھک ہار کر دو گھنٹے کے بعد وہ اسی طرح بکتے جھکتے اپنے ڈرائیور کے ساتھ واپس چلی گئیں جو خود بھی بے حد خوفزدہ ہو رہا تھا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ منصور علی بیگم صاحبہ کو وہاں لانے پر اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے تھے۔
٭٭٭
”کہاں ہوتی ہو تم آج کل، فون ہی نہیں کر رہیں؟” طلحہ نے شکوہ کیا۔ ”میں فون کرتا ہوں تو تم ملتی نہیں، آخر پرابلم کیا ہے۔”
امبر نے کچھ دیر پہلے ہی اسے فون کیا تھا۔ ”بہت بڑا پرابلم ہے۔” امبر نے تھکے تھکے لہجے میںکہا۔
”خیریت ہے، کیا ہو گیا۔” طلحہ کو تشویش ہوئی۔
”مجھے تو تمہیں بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے۔”
”کیا ہوا امبر… کیا ہوا؟” طلحہ پریشان ہو گیا۔
”پاپا نے…” وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”پاپا نے کیا… بات تو مکمل کرو۔” وہ جھلایا۔
”طلحہ! پاپا نے دوسری شادی کر لی ہے۔” طلحہ کے سر پر جیسے بم آن گرا۔
”کیا؟”
”ہاں… انہوں نے رخشی کے ساتھ دوسری شادی کر لی ہے۔”
”اوہ مائی گاڈ! یہ کیا ہو گیا۔ تمہیں کس نے بتایا۔” طلحہ یہ سن کر پریشان ہو گیا۔
”رخشی نے۔”
”وہ… وہ… ہو سکتا ہے۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”اور پاپا… کیا وہ بھی جھوٹ بولیں گے۔”
”کیا… کیا منصور چچا نے اعتراف کر لیا ہے اس شادی کا۔”
”ہاں، جب شادی کر لی تو اعتراف میں کیا عار رہا انہیں۔”
”کیا ہو گیا ہے منصور چچا کو، کیوں کیا ہے انہوں نے یہ سب کچھ۔” طلحہ اب بے حد الجھا تھا۔
”یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا۔ تم لوگوں نے پاپا کی ہر بات کو ہم سے چھپایا، نہ چھپاتے تو حالات کبھی یہاں تک نہیں پہنچتے۔” امبر کے لہجے میں اس بار تلخی تھی۔
”فار گاڈ سیک امبر! ہم نے کیا چھپایا؟”
”تم لوگوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ پاپا رخشی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔”
”میں… میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔”
”جھوٹ مت بولو، شبانہ آنٹی نے ممی کو پاپا اور رخشی کے تعلقات کے بارے میں بتایا اور تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں کچھ پتا نہیں۔”
”امبر! میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ منصور چچا اس عمر میں اس طرح کی حرکت کر سکتے ہیں اور وہ بھی تمہاری دوست کے ساتھ شادی… جب مجھے شک ہی نہیں تھا تو میں منصور چچا اور رخشی کی آپس میں بے تکلفی کے بارے میں تمہیں کیا بتاتا۔” وہ اب سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”اور فرض کرو، میں بتا بھی دیتا تو کیا تمہیں کبھی یقین آتا، کبھی نہیں آتا۔ تم رخشی کے بارے میں کچھ بھی سننے پر تیار نہیں ہوتیں۔”
”پلیز طلحہ! کم از کم تم تو اس طرح کی بات نہ کرو۔ ممی پہلے ہی اس ساری صورتِ حال کا ذمہ دار مجھے ٹھہرا رہی ہیں۔”
”وہ اور کیا کریں، کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔”
”میں نے پاپا کو رخشی کو اپنے پاس سیکریٹری رکھنے کے لیے نہیں کہا تھا۔”
”مگر تم نے اس کی سفارش تو کی تھی۔” طلحہ کہہ رہا تھا۔ ”مجھے وہ لڑکی شروع سے ہی کبھی اچھی نہیں لگی۔ میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ ایسی لڑکیوں سے زیادہ میل جول بڑھانا ٹھیک نہیں ہے مگر تب تم نے میری بات نہیں سنی۔ تمہیں لگتا تھا میں اس کی غربت کی وجہ سے اسے ناپسند کر رہا ہو ورنہ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔”
”پلیز طلحہ! بس کرو، اب بس کرو۔ میں ممی سے بھی دن رات یہی سنتی رہتی ہوں، تمہیں میں نے اس لیے تو فون نہیں کیا کہ تم بھی مجھے ذلیل کرنا شروع کر دو۔”
”میں تمہیں ذلیل نہیں کر رہا۔ میں تو صرف حقیقت بتا رہا ہوں۔ بہر حال اب بتاؤ کہ آگے کیا کرنا ہے۔”
”میں چاہتی ہوں تم مسعود انکل سے بات کرو، انہیں یہ سب کچھ بتاؤ، ان سے کہو کہ وہ پاپا سے بات کریں اور رخشی سے ہماری جان چھڑائیں۔”
”امبر! منصور چچا تم سے بڑی محبت کرتے ہیں، تمہاری بات وہ کبھی نہیں ٹالتے۔” طلحہ کو اچانک خیال آیا۔ ”تم کیوں اس سلسلے میں ان سے بات نہیں کرتیں۔”
”وہ… میری بات ماننے پر تیار نہیں ہیں، تم نہیں جانتے طلحہ! انہوں نے زندگی میں پہلی بار مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ وہ رخشی کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں۔” امبر کی آواز بھرا گئی۔
”منصور چچا کو آخر کیا ہو گیا ہے۔ لوگوں کو پتا چلے گا تو کیا عزت رہ جائے گی ہماری فیملی کی۔” طلحہ ناگواری سے بڑبڑایا۔ ‘اگر اتنا ہی شوق تھا تو بات افیئر تک ہی رہنے دیتے، شادی کرنا ضروری تھی۔”
”تم مسعود انکل سے کہو، وہ پاپا کو سمجھائیں۔”
امبر نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”میں تمہارا پیغام پاپا کو دے دوں گا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” طلحہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”منصور چچا اگر تمہاری بات نہیں مان رہے تو پاپا کی کیسے مانیں گے۔”
”وہ ان کے بڑے بھائی ہیں”
”تم ان کی بیٹی ہو۔”
”بیٹی اور بڑے بھائی میں بہت فرق ہوتا ہے۔”
”منصور چچا نے کبھی پاپا کو بہت اہمیت نہیں دی، یہ ایک اتفاق ہی ہے۔ پاپا ان کے بڑے بھائی ہیں۔” طلحہ نے کہا۔
”پھر بھی… وہ ان کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آسکتے جس طرح ہمارے ساتھ رویہ رکھتے ہیں۔”
”میں پاپا سے بات کروں گا، یہ عجیب مصیبت آن پڑی ہے۔ تمہاری رخصتی کے بجائے منصور چچا کو اپنی پڑ گئی ہے۔”
امبر اس بات طلحہ کے جملے پر کچھ بول نہیں سکی۔
”خیر تم پریشان مت ہو، میں پاپا سے بات کرتا ہوں اور کل ممی کو تمہارے ہاں آنے کو کہوں گا۔”
”نہیں، انہیں آنے کو مت کہنا۔” امبر نے فوراً کہا۔ ”ممی پہلے ہی بہت ڈسٹرب ہیں، ان کے آنے پر اور ڈسٹرب ہوں گی۔”
”ٹھیک ہے جیسا تم کہو مگر بہتر یہی ہے کہ تم منصور چچا سے ایک بار خود دوبارہ بات کرو۔” طلحہ نے مشورہ دیا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!